حج بیت اﷲ پر ایک طائرانہ نظر

اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسانی پر بہت سارے اعمال فرض کئے ہیں تاکہ وہ اس کی بجا آوری کے بعد مطیع خدا بن جائے ۔حج انہیں میں سے ایک ہے ۔یہ ایک متحدانہ عمل ہے جو سارے دنیا کے خدا پرستوں کو دعوت اتحاد دیتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہن میں اس حقیقت کو تازہ کرتا ہے کہ ان کی نسلیں اور قومیں خوہ الگ الگ ہوں مگر ایک خدا پر عقیدہ ان کے عالمی اتحاد کی مضبوط بنیاد ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ دشنمان اسلا م کی طرف سے یہ جملہ مشہور ہے کہ جب تک حج کی رونق برقرار ہے ہم ان پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔

ایک دانشور کہتا ہے کہ مسلمانوں کی حالت پر افسوس ہے کہ اگر وہ حج کا معنی و حقیقت نہ سمجھ سکیں اور دوسروں پر بھی افسوس ہے کہ اگر وہ اس کا معنی سمجھ لیں ۔

حج ایک واجبی عبادت ہے جوصرف صاحب استطاعت کے اوپر فرض کی گئی ہے اور فقہا ء اسلام نے اس سے مراد مالی اور جسمی استطاعت لی ہے۔ اس کے علاوہ استطاعت عملی (اسے معلوم ہو کہ کیا کرنا چاہئے )اور استطاعت اخلاقی (اسے معلوم ہو کہ کس طرح انجام دینا چاہئے )بھی ہے ۔مزید وہ تمام احکام ہیں جو فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔

خانہ کعبہ کی عظمت و اہمیت
کعبہ اصل میں مادہ کعب سے مشتق ہے جس کا معنی ہے پاؤں کے اوپر کی ابھری ہوئی جگہ۔ بعد ازاں یہ لفظ ہر قسم کی بلندی اور ابھری ہوئی چیز کے لئے استعمال ہونے لگا اور مکعب کو اسی لئے مکعب کہاجاتا ہے کہ وہ چارو طرف سے ابھرا ہوا ہوتاہے ۔بہرحال کعبہ لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے عظمت وفضیلت کا مرکز ہے ۔اس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ روایات اسلامی میں اسے خراب او رویران کرنے کو پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور امام معصومین علیہم السلام کے قتل کے مساوی قرار دیاگیا ہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام ؑ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:لاینبغی لاحدان یرفع بناۂ فوق الکعبہ
کسی شخص کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنا گھر کعبہ سے اونچا بنائے ۔

نہج البلاغہ میں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:خدا وند عالم نے اپنے گھرکو ایک خشک جلی ہوئی اور سخت پہاڑوں کے درمیان والی زمین میں قرار دیا ہے اور حکم دیاہے کہ اسے بہت ہی سادہ مصالحہ سے بنایا جائے یعنی عام اور معمولی پتھر سے ۔

آپ ایک دوسرے مقام پر اپنی وصیت میں فرماتے ہیں ـ:اﷲ اﷲ فی بیت ربکم لاتخلوہ مابقیتم فانہ ان ترک لم تناظرو ا

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں جب تک تم زندہ رہو خانہ خدا سے دستبردار نہ ہونا کیوں کی اگر اس کی زیارت متروک ہوگئی تو مہلت نہیں دی جائے گی اور تمہارا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا ۔

آیا ت روایات کے اعتبار سے حج بیت ا ﷲ کی فضیلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ اس کو ترک کرنا کفر کے مترادف ہے جیسا کہ مرحوم شیخ صدوق نے اپنی کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں رسالت مآب سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام ؑ سے فرمایا:یا علی !تارک الحج و ھو المستطیع کافر یقول اﷲ تبارک و تعالیٰ و ﷲ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفر فان اﷲ غنی عن العالمین ۔یا علی !من سوف الحج حتیٰ یموت بعثہ اﷲ یوم القیامۃ یہودیا او نصرانیا۔

اے علی! جو شخص حج ترک کرے باوجود یکہ وہ استطاعت رکھتا ہو تو وہ کافر شمار ہوگا کیوں کہ خدا فرماتا ہے کہ استطاعت رکھنے والوں پر خدا کے گھر کا حج بجا لانا ضروری ہے اور جو کفر اختیار کرے تو اس نے اپنا نقصا ن کیا ہے اورخدا ان سے بے نیاز ہے ۔

اے علی! جو حج میں تاخیر کرے یہاں تک کہ دنیا سے کوچ کرجائے تو خدا اسے قیامت کے دن یہودی یا نصرانی محشور کرے گا۔

لفظ حج قرآن مجید میں دس مقامات پر آیا ہے جس میں کسی نہ کسی حکم یا معاملہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان میں سے بعض کا ذکر کیا جارہا ہے :
(۱)نمائندہ توحید حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیر کر چکے تو ایک عام اعلان کے ذریعہ دنیا کے لوگوں کو اس مقدس مقام کی زیارت کی دعوت دی :واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلیٰ کل ضامر یاتین من کل فج عمیق(حج ۲۷)
اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دوردراز علاقوں سے سوار ہوکر آئیں ۔
(۲)اسلام میں حج کے وجوب کا تذکرہ سورہ آل عمران میں اس طر ح مذکور ہے : و ﷲ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔(آل عمران ۹۷)
اورا ﷲ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج واجب ہے اگرا س راہ کی استطاعت رکھتے ہوں ۔
(۳)وہ ماہ جن میں حج انجام دیا جاتا ہے :الحج اشھر معلومات
حج چند مقررہ مہینوں میں ہو تاہے
(۴)حدود و شرائط اور اعمال جو مراسم حج میں انجام دینا چاہئے :واتمو الحج و العمرۃ ﷲ فان احصرتم فما استیسر من الھدی ولا تحلقو ارؤسکم حتیٰ یبلغ الھدی محلہ فمن کان منکم مریضا او بہ اذًی من راسہ ففدیۃ من صیام او صدقۃ او نسک فاذا امنتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی فمن لم یجد فصیام ثلٰثۃ ایام فی الحج و سبعۃ اذا رجعتم تلک عشرۃ کاملۃ ذٰ لک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام واتقو اﷲ واعلمو اان ﷲ شدید العقاب۔(بقرہ ۱۹۶)

حج اور عمرہ کو اﷲ کے لئے تمام کرو ۔اب اگر گرفتار ہو جاؤ تو جو قربانی ممکن ہو وہ دے دو اور اس وقت تک سر نہ منڈا ؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہونچ جائے ۔اب جو تم میں سے مریض ہے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہے تو وہ روزہ یا صدقہ یا قربانی دیدے پھر جب اطمینان ہو جائے تو جس نے عمرہ سے حج تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دیدے اور قربانی نہ مل سکے تو تین روزے حج کے دوران اور سات واپس آنے کے بعد رکھے کہ اس طرح کہ دس پورے ہوجائیں ۔یہ حج تمتع اور قربانی ان لوگوں کے لئے ہے جن کے اہل مسجد الحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے ۔اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ یاد رکھو کہ خدا کا عذا ب بہت سخت ہے ۔
(۵)فلسفہ اجتماع اور اس کے فوائد :لیشھدو ا منافع لھم (حج ۲۸)
تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں۔

اعمال عمرہ و حج
میقات سے احرام باندھنا یعنی عہد کرنا کہ جو چیز محرم کے لئے حرام ہے اس سے پرہیز کرنا او ر صدائے لبیک کہتے ہوئے بیت اﷲ کی طرف روانہ ہوجانا۔سب سے پہلے سات مرتبہ طواف خانہ کعبہ اس کے بعدمقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز ادا کرنا بعد ازاں سعی صفا و مروہ کہ یہ مکہ کی دو چھوٹی سی پہاڑیوں کے نام ہیں اور دونوں مقام ایک دوسرے سے تقریبا ۲۴۰ ؍ میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس وقت یہ فاصلہ ایک چھتے ہوئے بڑے ہال کے نیچے موجود ہے اورحجاج کرام اس چھت کے نیچے سعی کرتے ہیں ۔صفاکی بلندی پندرہ میٹر اور مروہ کی بلندی آٹھ میٹر ہے ۔اس کے بعد اپنے کچھ بال یا ناخن تراش کر احرام سے خارج ہوتے ہیں ۔

مراسم حج بجالانے کے لئے مکہ میں احرام باندھتے ہیں ۔نویں ذی الحجہ کو مکہ سے چار فرسخ دور بیابان عرفات کی طرف جاتے ہیں اس دن زوال تا غروب آفتاب وہاں قیام کرتے ہیں اور پروردگار سے دعا کرتے ہیں۔ وہاں سے مشعرالحرام کی جانب کوچ کرتے ہیں۔ یہ مقام مکہ سے ڈھائی فرسخ دور ہے ۔ پوری رات اس مقدس وادی میں بسر کرتے ہیں اور طلوع آفتاب کے وقت اس سرزمین سے منیٰ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ مقام مشعرالحرام سے قریب ہی ہے ۔یہ عید قربان کا دن ہے اسی روز ایک جگہ ’’جمرہ عقبہ ‘‘پر سات کنکریاں مارتے ہیں ۔قربانی کرتے ہیں اور سر منڈاکر احرام سے خارج ہوجاتے ہیں اور پھر مکہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔وہاں طواف خانہ خدا ،نماز طواف ،صفا و مروہ کے درمیان سعی ،طواف منیٰ و نماز طواف منیٰ بجالاتے ہیں ۔گیارہویں اور بارہویں کی درمیانی شب منیٰ میں گذارتے ہیں ۔حج بیت اﷲ کے اعمال مکمل طور پر کتابوں میں ذکر ہیں ۔

آج اطراف عالم سے لاکھوں لوگ حج بیت اﷲ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں اور دنیا کو پیغام دیتے ہیں ۔ ہم ایک اﷲ کے ماننے والے ہیں اور ہم سب ایک ہیں۔