موجودہ سے سابق تک کا سفر

تحریر: صبیح الحسن، پھالیہ
سردیوں کی آمد آمد تھی۔ اگرچہ ابھی اکتوبر کا مہینہ چل رہا تھا لیکن بارش کے بعد چلنے والی یخ ہوا نے ابھی سے جنوری کی راتوں کی یاد تازہ کر دی تھی۔ کئی دن کے بعد آج جا کر سورج کا درشن نصیب ہوا تھا۔ آج وہ اور اس کا بیٹا ڈیرے پر باجرے کے کھیت کے کنارے چارپائیاں ڈالے مزدوروں کی نگرانی کر رہے تھے۔ پاس ہی اینٹوں کا چھوٹا سا چولہا بنا ہوا تھا جس میں کوئلے دہک رہے تھے۔ ایک مزدور پاس بیٹھا کوئلوں پر باجرے کے سٹے بھون رہا تھا۔

تاج اور اس کا بیٹا آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل آ کر ڈیرے پر رکی۔ بسم اﷲ۔ شاہ جی آ گئے۔تاج جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ آنے والا علاقے کا پٹواری سبطین شاہ تھا۔ تاج نے جلدی سے اٹھ کر چارپائی جھاڑی اور بیٹے کو آواز دی۔اوئے سلیم! جا بھاگ کر ڈیرے میں سے تکیے نکال کر لا۔ آؤ شاہ جی۔ ادھر بیٹھو۔ تاج نے اپنی جگہ شاہ جی کو دی اور خود چارپائی کی پائنتی کی جانب ٹک گیا۔

شاہ جی نے سلام کا جواب دیا اور سلیم کے لائے ہوئے تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔اوئے یہ سٹہ دے ادھر۔ تاج نے سٹے بھوننے والے مزدور کو آواز دی اور بھنا ہوا سٹہ ہاتھ میں مسل کر اس میں سے دانے نکالنے لگا۔تاج! فصل تو بہت شاندار ہوئی ہے تمہاری اس بار۔شاہ جی نے کھیت پر نگاہ دوڑاتے ہوئے کہا۔

اﷲ نے کرم کیا ہے شاہ جی۔ ورنہ اس بار محکمے والوں نے بڑا ہی گندہ بیج دیا تھا۔ہوں، تم لوگوں نے محنت بھی تو بہت کی ہے۔بس شاہ جی۔ محنت کو بھی اﷲ رنگ لائے تو لگتے ہیں۔ ورنہ سب کیتی کرائی ضائع جاتی ہے۔تاج نے فلسفیانہ سے انداز میں جواب دیا۔

دانے نکل چکے تھے۔ تاج نے ہتھیلی کا چھجا سا بناتے ہوئے دو تین ہلکی سی پھونکیں مار کر چھلکے صاف کیے اور دونوں ہاتھوں سے بڑے ادب کے ساتھ دانے شاہ جی کو پیش کیے۔فصل کا پہلا جھاڑ چکھیں شاہ جی۔شاہ جی نے دانے پھانکے اور مزے سے کھانے لگے۔تاج ایک اور سٹہ لے کر اسے مسلنے لگا۔

شاہ جی! وہ تارڑوں کی زمین کا کیا بنا؟ سنا ہے کیس پھنس گیا ہے؟ہاں کیس تو پھنس گیا ہے پر شکر ہے میری جان چھوٹی۔ہیں۔ وہ کیسے شاہ جی؟تاج نے سٹہ مسل کر پھونک مارتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔میرا تبادلہ ہو گیا ہے نا۔تاج نے دانوں سے سر اٹھا کر حیرانی سے شاہ جی کو دیکھا۔تبادلہ ہو گیا آپ کا؟ہاں بھئی۔ کل ہی ہوا ہے۔ شکر ہے اس لڑائی سے میرا سر چھوٹ گیا۔

یہ تو ٹھیک کہا شاہ جی آپ نے، تاج جو شاہ جی کو بڑے ادب و اداب سے دانے صاف کر کے دے رہا تھا نے مختصر سا جواب دے ، پھر ایک نگاہ ہتھیلی پر پڑے دانوں پر ڈالی اور شاہ جی کو دینے کے بجائے دانے خود ہی پھانک لیے۔ ایک پل کو شاہ جی پٹواری سابق شاہ جی پٹواری ہوچکے تھے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1021176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.