عمران خان کو کام کرنے دو

 بِلاشک و شبہ گزشتہ ہونے والے 2018کے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کو اتنی شاندار کامیابی مِلی کہ مخالفین توہکا بکا رہ ہی گئے،مگر ساتھ ہی تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور عہدیداروں کو بھی خوشگوار حیرت ہوئی۔یہ کمال عمران خان نے اپنی کرشماتی شخصّیت اور عملی کوشش کے ذریعے دکھایا ،حالانکہ پاکستان 1970سے موجود دو سیاسی پارٹیوں کے مضبوط پنجوں کی گرفت میں تھا ،عموما لوگ یہی سمجھتے تھے کہ پاکستان مسلم لیگ(نون) اور پیپلز پارٹی ہی باری باری حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالتے رہیں گے۔مگر عمران خان نے ملکی سیاست میں موجود جھوٹ، کرپشن اور مفاد پرستی کے خلاف عَلم ِ بغاوت بلند کیا،انہیں شدید مخالفت اور رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

مگر ہمّت نہ ہارنے کی خداداد صلاحیّتوں اور پختہ عزم و حوصلے کوبروئے کار لاتے ہو ئے عمران خان نے آخرکار کامیابی حاصل کر لی۔عوام عمران خان کے اس شاندار کامیابی پر خوش ہوئے مگر دوسری طرف بڑے بڑے نامور سیاستدان جو گزشتہ کئی عشروں سے انتخابات میں کامیاب ہوتے چلے آرہے تھے، اقتدار و اختیار کے مزے لوٹ رہے تھے،انہیں تحریکِ انصاف کے عام اور غیر معروف ورکروں کے ہاتھوں ناکام ہو کر شکست سے دوچار ہوناپڑا۔ مولانا فضل الرحمٰن، جماعتِ اسلامی کے آمیر سراج الحق،اسفند یار ولی خان، آفتاب احمد خان شیر پاؤ ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کئی سرکردہ لیڈروں کو عوام نے مسترد کر دیا۔شکست سے دوچار ان لوگوں کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ اس طرح ذلّت آمیز شکست سے دوچار ہونگے، با ایں وجہ انتخابی نتائج نے بعض شخصیات کو نیم پاگل سا کر دیا۔اور وہ ایسے ایسے بیا نات اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ،جسے سن کر محب وطن افراد کی سخت دِل آزاری ہو ئی مثلا 14اگست کو جشنِ آزادی نہ منانے کا اعلان پاکستانیوں کے ول دماغ پر بہت گراں گزرا۔عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ انتخابات میں کو ئی دھاندلی نہیں ہو ئی، ہو سکتا ہے ،کسی پولنگ اسٹیشن پر کسی نے ذاتی حیثیت میں دھاندلی کی کوشش کی ہو ،یا دھاندلی کی ہو مگر جو دعویٰ الیکشن ہارنے والے کر رہے ہیں ،اس پر عوام کو ہر گز یقین کرنے کو تیار نہیں۔25جولائی کے بعد شکست سے دوچار ہونے والے سیاسی پہلوان جس انداز میں دھاندلی،دھاندلی کا شور مچا کر چیخ رہے ہیں ،ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ مسلسل ا سی کوشش میں رہیں گے کہ عمران خان کے راستے میں ہر ممکن طریقے سے اس طرح کے روڑے اٹکائے جائیں کہ وہ اپنے منشور اور ارادوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ناکام رہیں گے تو آئیندہ انتخابات میں ان کے لئے راستہ صاف ہو جائے گا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی خام خیالی ہے، پاکستانی عوام کا سیاسی شعور اب کا فی پختہ ہوچکا ہے۔اگر یہ شکست خوردہ عناصر قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے دھاندلی کا شور مچا کر اور ملک کے اعلیٰ اداروں پر الزامات لگا کر اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں گے تو ایسا ہر گز نہیں ہو سکے گا، ایسے ڈراموں کو عوام کی پذیرائی نہیں حاصل ہو گی ، عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے یا ورغلانے کی کوشش کرنے والے عموما سیاسی موت مر جاتے ہیں۔مخالفین کو چا ہئیے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ دھاندلی ہو ئی ہے، تو ثبوتوں کے ساتھ ان کو عدالتوں، الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹریبونلز کا دروازہ کھکھٹانا چاہیئے۔لیکن زبانی جمع خرچ کے ساتھ صرف الزامات لگا کر اپنی جگ ہنسائی نہ کروائے۔ ہارنے والے امیدواروں کو چاہئیے کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کر لیں اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے ملک بھر سے زیادہ سیٹیں حاصل کر کے پاکستانی سیاست کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے، اب حکومت کرنا اور اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانا ان کا حق ہے ۔پاکستانی عوام کی بھی اب یہی خواہش ہے کہ عمران خان کو اب کام کرنے دیا جائے۔اس وقت پاکستانی عوام کو عمران خان سے بہت ساری توقعات اور امیدیں ہیں۔انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں پاکستانیت، سادگی، حب الوطنی اور وسیع القلبی کا جو شاندار مظاہرہ کیا، اسے دیکھ اور سن کر اپنے، پرائے سب داد دینے پر مجبورہو گئے۔پاکستانی عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان وطنِ عزیز میں تبدیلی لانے کا مستحکم ارادہ رکھتا ہے۔انہوں نے پہلے بھی جو کچھ کہا، وہ کر کے دکھایا۔اب بھی انشاﷲ وہ اپنے کہی ہو ئی باتوں کو عملی جامہ پہنا کر دم لیں گے۔ لہذا انتخابات میں شکست سے دوچار افراد کو ہمارا یہ مشورہ ہے کہ پاکستان ہم سب کا ملک ہے،ہم سب کو اس کی بھلائی عزیز ہو نی چا ہئیے اگر عمران خان اس ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے کام کر رہا ہے تو اس کا ساتھ دینا چاہئیے ، اگر خدا نخواستہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں پر عمل پیرا نہیں ہو تا تو پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے، اس میں اس کی بھر پور مخالفت کی جائے مگر فی الوقت ان کی مخالفت کرنا ،ان کے راستے میں روڑے اٹکانا ،بغیر ثبوت کے دھاندلی،دھاندلی کا شور مچانا ہر گز مناسب نہیں۔حب الوطنی اور دور اندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ اب عمران خان کو کام کرنے دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284428 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More