استحکام پاکستان کا منتظریوم آزادی

14اگست 1947کا دن پاکستان کی آزادی کا دن ہے قوم 70 واں یوم آزادی منا رہی ہے۔ہر سال اس عظیم دن پر اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند ترین سطح تک لے جاناہے۔آزادی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔اللہ کا ہم پر بہت بڑافضل ہے کہ اُس نے ہمیں یہ سر زمین عطاء فرمائی اور اس خطہ کو چاروں موسموں ،میدانی و صحرائی زمین اورپہاڑی سلسلوں سمیت معدنی وسائل سے مالامال فرمایا ہے۔کم و بیش دو سو سالہ غلامی کے بعد آزادی کا سویرا طلوع ہوا اس دن دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی اپنے اپنے انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس نعمت خداداد پر اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ہیں۔ فضائیں ملی نغموں اور قومی ترانوں کی دھنوں سے گونج رہی ہوتی ہیںسکولوں کے بچے اور بچیاں ’’ہمارا پرچم پیارا پرچم۔۔ اس پرچم سائے تلے ۔۔ ہم ایک ہیں ،ہم ایک ہیں‘‘ کے گن گا رہے ہوتے ہیں۔ہر طرف ’’ عیاں ہیں خون شہیداں کی عظمتوں کے نقوش‘‘ اور ’’ زبان لالہ و گل پر ہے داستان وطن‘‘ جیسے ملی نغموں کی دلفریب آوازیں کانوں میں رس گھول رہی ہوتی ہیں۔ ہر طبقہ زندگی کے لوگ اس دن کو جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ بڑی بڑی کانفرنسوں اور جلسوں کا اہتمام کر کے مذہبی، سماجی اور سیاسی تنظیمیںآزادی کے قائدین کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ ہر محب وطن پاکستانی وطن عزیز کی بقاء و سلامتی کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ہر سال 14اگست کا سورج استحکام پاکستان کا پیغام لے کر آتا ہے۔’’70واںیوم آزادی‘‘ آج تقاضہ کررہاہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں، زبان،رنگ،نسل اورذات پات سے بالاتر ہوکر سوچیں۔آپس میںتفرقہ کا شکار نہ ہوں،جھوٹ اور بدعہدی سے بچیں۔ حقوق اللہ و حقوق العباد کے ساتھ ساتھ ملکی قوانین کی پابندی کریں ۔اپنے ہر اس عمل اور فعل سے بازآجائیں جو اسلام اور پاکستان کی بد نامی کا باعث ہو۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ تخلیق پاکستان صرف ایک جذباتی عمل نہیں تھا بلکہ اس کی بنیادیں بہت ٹھوس اور مستحکم ہیں۔ ایک قوم کی شناخت اور پہچان کا سوال تھا اس عظیم اسلامی ریاست کی جڑیں مدینہ منورہ کی اس ریاست سے ملتی ہیں جس کی بنیاد پیغمبر انقلاب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی تھی۔اس لحاظ سے 14 اگست ایک اہم دینی و ملی فریضے سے سبکدوشی اور قومی احتساب کا دن ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں بہت سی کامیابیوں سے نوازا ہے پاکستان اسلامی ممالک میں سے واحد ایٹمی طاقت ہے۔وطن عزیز نے دفاعی سامان کی تیاری اور میزائل ٹیکنالوجی میں قابل فخر ترقی کی ہے۔ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے جس پر ہمارا سر فخر سے بلند ہےلیکن اس کے باوجود ہم ابھی تک اپنی اُس منزل سے بہت دور ہیں جس کیلئے مسلمانان برصغیر نے قربانیاں دیں اور جس کی نشاندہی کرتے ہوئے بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان اسلامی اقدار کی تجربہ گاہ بننے والا ہے‘‘ ۔بصد افسوس پاکستان اسلامی اقدار کی تجربہ گاہ بننے کے بجائے چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کی آماجگاہ بن گیا۔ ہم نے تو نعرہ لگایا تھا کہ ہم قرآن و سنت پر مبنی نظام کے ذریعے اس دھرتی کو اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنائیں گے۔ البتہ عملا یہاں طاغوتی نظام کی آبیاری ہوئی ایک مسلمان کیلئے دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل اوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے؟ ہمیں ماننا پڑے گا کہ قیام پاکستان کے بعد اس عہد کی خلاف ورزی ہوئی جو ہمارے بزرگوںنے اللہ سے اور قوم سے کیا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ قائدین آزادی کی جد و جہد کے نتیجے میں ہی پاکستان معرض وجود میں آیا ہم ان سب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ البتہ ہجرتیں، قربانیاں، لاشوں سے بھری ٹرینیں اور کٹے ہوئے لاشے کسی لیڈر کیلئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اس خوبصورت اور دل آویز نعرہ کی خاطر تھے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ وقت کے ساتھ ساتھ ان قربانیوں اور عزم کو فراموش کردیا گیا۔آج تک ہم نسل نو کیلئے نصاب تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈھال سکے اور نہ ہی طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرسکے۔ گزشتہ ستر سال کی تاریخِ پاکستان کے اوراق الٹیںتو ہر صفحہ گواہ ہے کہ حکمرانوں نے اس مملکت کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور ایک غیرت مند، حریت پسند اور دینی حمیت کی حامل آزاد قوم کو اغیار کا منگتا اور بھکاری بنا دیا۔بدقسمتی سے آج تک ہم یہ طے نہ کرسکے کہ ملک کا نظام کون سا ہوگا۔ کبھی پارلیمانی طرز حکومت اور کبھی صدارتی نظام کا نعرہ لگایا گیا تو کبھی بنیادی جمہوریت اور سوشلزم کی باتیں کی گئیں۔کبھی فیڈریشن تو کبھی کنفیڈریشن کے مطالبے ہوئےحالانکہ صاف سی بات تھی کہ پاکستان کی اساس اسلام ہے اوراس کی بقاء و سا لمیت، استحکام اور ترقی اسلامی نظام حیات کے ساتھ منسلک ہے اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ وطن عزیز کے باشندوں نے انگریز سے تو نجات حاصل کرلی لیکن وہ سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور بیورو کریسی کے شکنجے میں پھنس گئےستر سال گزرنے کے بعد بھی قوم اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرسکی۔ ان ساری خرابیوں کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ایک قوم بننے کی بجائے ہم ہجوم کی شکل اختیار کرگئے۔ اس قوم نے ہر بار انہی عیاروں کو معالج سمجھا جنہوں نے اسے دوا کے بجائے زہر کے پیالے پلائے۔ آج کرپشن، لوٹ مار، ملاوٹ، دھوکہ دہی، خود غرضی اور رشوت ستانی کا زہر پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے اور قوم نفس پرستی اور خود غرضی کے گڑھے میں اوندھے منہ گرتی چلی جارہی ہے۔ یہ ناتمام سا خاکہ ہے ہماری ستر سالہ قومی تاریخ کا۔ تحریک پاکستان میں بہنے والا خون، لٹی ہوئی عزتیں، تار تار عصمتیں اور کٹے پھٹے لاشے آج قوم کے ستر سالہ حافظے سے قیام پاکستان کا جواز اور استحکام پاکستان کی بھیک مانگ رہے ہیں۔14 اگست کا دن اس بات کی علامت تھا کہ اب استعمار، بیورو کریسی، جاگیرداری اور دھونس و دھاندلی کا نہیں بلکہ انصاف و قانون کا راج ہوگا اور دنیا میں پاکستان سیاسی، اخلاقی اور اسلامی اصولوں کا گہوارہ ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہمیں اس نعمت عظمیٰ کی جس طرح قدر کرنا چاہیے تھی اس طرح نہیں کی۔ ہماری مصلحتوں اور کوہتاہیوں نے اسلاف کی عظیم الشان قربانیوں کو فراموشی کے گہرے غاروں میں دھکیل دیا ہےاس کے باوجود پوری قوم جشن آزادی منارہی ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہمیں کر لینا چاہیے کہ ہمارا یہ جشن علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر اور لاکھوں مسلمانوں کی آرزوؤں اور امنگوں سے محروم اور’’ استحکام پاکستان کا منتظر‘‘ ہے ۔اللہ کے فضل سے ہم ایٹمی طاقت ہیں،دشمن کی نظریں ہم پراور ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کی صلاحیت پر ہے،اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم کے ہر ہر فرد کو علم وعمل اوراخلاص کی دولت سے مالامال فرمائے اورہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کو مزیدترقیاں عطافرمائے اور قوم یوں ہی ہنستی،مسکراتی رہے۔ آمین

 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218916 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More