حکومت بوڑھے پنشنرز کی پنشن بڑھائے۔۔۔۔۔

دنیا میں ہر جگہ ہر معاشرے اور ہر گھرمیں بزرگ افراد ہوتے ہیں جن کی اپنے خاندان اور ملک و قوم کے لیے بہت زیادہ خدمات ہوتی ہیں ان بزرگ افراد کو دنیا کے ہر معاشرے میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اسلام میں بزرگوں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اپنے والدین کو بڑھاپے میں اُف بھی نہ کہونبی رحمتﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ بچوں سے پیار کرو اور بوڑھے لوگوں کا احترام کرو۔آپﷺ نے فرمایا کہ بچوں کے متعلق یہ گمان کرو کہ ان کی عمر کم ہے ان کے گناہ کم ہونگے اور بوڑھوں کا احترام کرو کہ ان کی عمر زیادہ ہے اس لیے انھوں نے نیکیاں زیادہ کمائی ہونگی۔والدین اگر اپنے بچوں کی پرورش کا فریضہ انجام دیتے ہیں تو یہ لوگ جوانی میں اپنے خاندان،قوم اور ملک کے لیے بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔اس لیے جب یہ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی خدمت کریں اس کے لیے عملی طور پر اپنے بچوں کو اپنے کردار اور رویے سے نمونہ پیش کریں کہ بزروگوں اور اور بڑھے افراد کی خدمت کرنی چاہیے تاک جب ہم بوڑھے ہوجائیں تو ہمارے بچے بھی ہماری دیکھ بھال اور خدمت کریں جس طرح ہم اپنے بزرگوں کی خدمت کرتے تھے۔اﷲ کا شکر ہمارے اسلامی معاشرے میں بوڑھے افراد کی دیگر معاشروں کی نسبت کہیں زیادہ عزت و احترام اور خدمت ہوتی ہے۔ورنہ تو ترقی یافتہ ممالک یورپ وغیرہ میں بوڑھے افراد اولاد کی عدم توجہ اور لاپرواہی کا شکار نظر آتے ہیں وہاں بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کے لیے حکومت نے اولڈ ہوم قائم کرکھے ہیں جہاں یہ لوگ زندگی کے آخری ایام گذارتے ہیں ان کے بچے کبھی کبھار اولڈ ہومز میں آکر والدین کو مل جاتے ہیں۔لیکن ہمارے ملک اور دیگر اسلامی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا بوڑھے والدین اپنے خاندان میں اور اپنے بچوں کیساتھ ہی زندگی گذارتے ہیں جہاں ان کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ سرکاری محکموں میں خدمات انجام دینے والے والے ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر معقول رقم ملے کیساتھ ماہانہ پنشن بھی ملتی ہے جس سے وہ اپنے خاندان پر مالی بوجھ نہیں بنتے۔ جبکہ حکومت نے صنعتی اداروں میں کام کرنے والے بزرگ پنشنرز کے لیے بھی قومی سطح پر ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے( جس کا لفظی معنیٰ بڑھاپے میں مراعات کا ادارہ ہے )جوصنعتی اور کاروباری اداروں میں ساٹھ سال کی عمرتک خدمات انجام دینے والے ملازمین کو پنشن دیتا ہے جس سے ان بوڑھے پنشنرز کو اپنے اخراجات پورے کرنے میں معمولی مدد ملتی ہے یہ ملازمین اپنے ادارے کیطرف سے ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں ادارہ اپنی طرف سے اور ملازم کی تنخواہ سے ماہانہ ای اہ بی آئی کو ماہانہ کنٹری بیوشن کرتا ہے اس طرح ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے والے رجسٹرڈ ملازمین کو ای او بی آئی کیطرف سے ماہانہ پنشن ملتی ہے۔ای او بی آئی ادارہ ایک خودمختار ادارہ ہے جس کے پاس اربوں روپے کے فنڈز اور وسائل ہیں جو اسے ورکرز کی ملازمت کے دوران ان کی ماہانہ تنحواہوں سے حاصل ہوتے ہیں بتایا جاتا ہے کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ نے کئی منافع بخش پروجیکٹ بھی شروع کررکھے ہیں جس سے نہ صرف ادارے کا سرمایہ محفوظ ہے بلکہ ان منصوبوں سے ای او بی آئی کو بہت زیادہ سالانہ منافع بھی حاصل ہوتا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ ورکرز کے سرمائے سے ہونے والی سرمایہ کاری پر ملنے والے منافع سے بوڑھے پنشرز کو بھی حصہ دیا جائے ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ای او بی آئی کی طرف سے بوڑھے پنشنرز کو معمولی پنشن کے علاوہ کوئی مراعات نہیں دی جاتیں ۔ایک بزرگ شہری جناب اعجاز رحیم قریشی جو ایک بہت بڑے صنعتی ادارے میں خدمات انجام دے چکے ہیں نے بتایا ہے کہ ای او بی آئی کیطرف سے پنشن یافتہ ورکرز کو سات سو روپے ماہانہ پنشن ملنا شروع ہوئی تھی جس میں سالانہ قومی بجٹ میں مہنگائی کے حساب سے پنشن میں اضافہ کیا جاتا رہا اس وقت ای او بی آئی کیطرف سے پنشن یافتہ صنعتی ورکرز کو 5250=/ روپے ماہان پنشن دی جاتی ہے اس میں گذشتہ چھ سالوں سے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ ان چھ سالوں کے دوران مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ بھی اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ ہوچکی ہے۔لیکن چھ سالوں سے ای او بی آئی کے بزرگ پنشنرز کی پنشن نہیں بڑھائی جارہی جس کی وجہ سے یہ لوگ مشکلات سے دوچار ہیں۔ائمپلائمنٹ اولڈ ایج بینیفٹ کی ویب سائٹ بھی بنی ہوئی ہے لیکن اسے کافی عرصے سے اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہاں کوئی قابل ذکر معلومات یا تفصیلات دی گئی ہیں۔ادارے کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنی ادارے کی کارگردگی کو بہتر بنائیں اور بوڑھے پنشنرز کی پنشن میں اضافے کیساتھ انھیں ضروری مراعات دینے کے لیے بھی کام کریں جو ان کی بنیادی ذمہ داری ہے اُمید ہے نئی حکومت صنعتی ورکرز کے مسائل پر توجہ دینے کیساتھ بوڑھے پنشنرز کی پنشن میں بھی اضافہ کرے گی

Abdul Qayum
About the Author: Abdul Qayum Read More Articles by Abdul Qayum: 25 Articles with 22833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.