تایا نثار: چاہتیں افسردہ ہیں زخموں کا سوداگر گیا

 بعض لوگ اس قدر پر اسرار ہوتے ہیں کہ ان کی شخصیت کے بارے کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔اپنے من کی غواصی کر کے زندگی کے گہر ہائے آب دار تلاش کرنے والے حال مست فقیر اپنے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتاتے ۔راہ ِ فنا کے مسافر ،شان استغنا رکھنے والے اور قلندری میں تونگری کے مزے لینے والے ان فقیروں کی زندگی کے نشیب و فراز اور شخصیت کے تانے بانے اب تک کون سمجھ سکا ہے ۔دکھی انسانیت سے والہانہ محبت کرنے والے یہ مرہم بہ دست مسیحا ایثار، وفا اور بے لوث خدمت کی اقلیم کے ایسے بادشاہ ہیں جو کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ دنیا کے آئینہ خانے میں فقیروں کا بھیس بنا کر اہلِ جود و سخاکا تماشا دیکھنے والے ان آزاد منش انسانوں کی زندگی کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی نا ممکن ہے۔ تایا نثار اپنی ذات میں ایک تاریخ،دبستان اور محشر عمل تھا ۔انسان شناسی میں دلچسپی رکھنے والے ایک عام آدمی کو اس خاص قسم کے مر دِ خود آگاہ کی تہہ دار شخصیت کے اسرار سے آگہی حاصل کرنے کے سلسلے میں ملاقاتوں ،تجربات اور مشاہدات کے دوران میں کئی سخت مراحل سے گزرنا پڑتاہے ۔ کو ہ کنی میں انہماک کا مظاہرہ کرکے جوئے شیر لانے کی تمنا میں جی کا زیاں کرنے والے اسے اپنے معدن کا گنج گراں مایہ مانتے ہیں ۔ نیلی بار اور راوی کے علاقوں میں مقیم لوک ادب ،لوک گیتوں اور لوک داستانوں کے پارکھ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ تایا نثاران کے لیے اہم ترین بنیادی ماخذ اور معتبر راوی تھا ۔جہاں شرفا،ناصح اور شیخ اس کے کردار کی عظمت کے شاہد تھے وہاں دادا گیر ، مفت براور سادیت پسند بھی اس بات پر متفق تھے کہ تایا نثار مذہب ، عظمت ِ انساں ، ارض وطن اور اہلِ وطن کا دلدادہ ہے جب کہ دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والے خادم خلق یہ بات بلاخوفِ تردید کہتے تھے کہ آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری میں ہر جادہ پر تایا نثار کا خانوادہ موجود ہے جوانسانیت کے وقار اور سر بلندی کے سلسلے میں اس کا بلندا رادہ سامنے لاتا ہے ۔ سازندے اس بات کا دعویٰ کرتے کہ زندگی کے ساز کی ہر دُھن انھوں نے تایا نثار سے سیکھی ہے،کارندے یہ بات بر ملا کہتے کہ کام کی بر وقت تکمیل کی رمز انھوں نے تایا نثار سے معلوم کی ہے ۔زبوں حالی کے شکار ہرقلاش کو فکر معاش سکھانا ،جوئندہ کو تلاش پر مائل کرنا،دشت وفا کے راہی کو گھائل ہونے کے بعد بھی دِل تھام کر پیمانِ وفا پر عمل کرنے پر مائل کرنا تایا نثار کا شیوہ تھا ۔ الم نصیبوں کے زخموں کے اندمال میں ہمہ تن مصروف مرہم بہ دست چارہ گر اس بات پر نازاں رہے کہ یہ ضعیف ان کا ہم نوا ہے ،محنت کش اسے اپنے قبیلے کا فرد سمجھتے تھے جب کہ اصلاح معاشرہ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اسے اپنے میدان کا مرد تسلیم کرکے اس کی تقلید کو لائق صد افتخار قرار دیتے تھے ،سماجی خدمت میں دلچسپی رکھنے والے اس کے افکار کو خضر راہ قرار دیتے تھے ۔ سماجی برائیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے ،منشیات کی لعنت سے نجات اور سماجی برائیوں کی سفاک ظلمتوں کے خاتمے کے لیے تایانثار نے خاموشی سے جو خدمات انجام دیں ان کا معاشرے میں ہر سطح پر اعتراف کیا گیا ۔علم بشریات،نفسیات،تاریخ ،فلسفہ،سماجی سائنسز ،تعلیم و تعلم ،سیاسیات اور عمرانیات کے شعبوں میں اس نابغۂ روزگارفقیر کی دلچسپیوں اور تربیتی اصلاح کے مظہر کاموں کو شہر کا شہر قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ کبھی وہ کنجڑوں کی محفل میں بیٹھ کر سستی سبزی فروخت کرتا تو کبھی خوانچہ فروش کے روپ میں اچار ،نمکو اور گھریلو استعمال کی چیزیں بازار سے کم نرخ پر بیچتا۔کبھی گھریلو دست کاروں کی محفل میں رنگ جماتا تو کبھی صنعت کاروں کو غریب مزدوروں کی فلاح کی ترغیب دیتا ۔وہ جہاں بھی پہنچتاہر جگہ اس کی بات پوری توجہ سے سنی جاتی تھی ۔ اس قدر مقبولیت ،قدر افزائی اور پزیرائی کے باوجود تایا نثار کے عجز و انکسار کا یہ حال تھا کہ کبھی اپنے بارے کسی زعم یا تعلّی کا شکار نہ ہوا بل کہ سدا اپنی دُھن میں مگن رہتے ہوئیاپنے احباب کے ہاں فقیرانہ صدا کرتا ہو ا پہنچتا اور سب کے حق میں دعا کر کے خاموشی سے چلا جاتا۔
اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے
اُس کو اِک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں ( میرا جی )
یہ شہر نا پرساں جہاں ہر کوئی اپنی فضا میں ہمہ وقت مست دکھائی دیتاہے وہاں زندگی کی اقدار عالیہ پر جان کنی کا عالم ہے ۔یہ عجیب شہر جس پر اکثر لوگوں کو کوفہ کے قریب ہونے کا گماں گزرتا ہے،اس کا ضعیف خادمِ خلق تایا نثار 2جون 2017 کو اس جہان ِ فانی سے اُٹھ گیا۔ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمناسے بے نیاز رہتے ہوئے مصائب و آلام کے پاٹوں میں پسنے والے مجبور اور بے بس و لاچار انسانوں کی زبوں حالی ،پریشانی اور درماندگی میں داد رسی کرنے والا دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے اُٹھ گیا اور اہلِ درد کی آ نکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ۔اس کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل بیٹھ گیا اور دل میں اک ہُوک سی اُٹھی۔تایا نثار جھنگ کا ایک گم نام مگر بے حد نیک نام بزرگ تھا ۔اس بے ثبات کارِ جہاں میں رہتے ہوئے خدمت خلق کے کاموں میں ہمہ تن مصروف رہنے والے اس انسان کی یادیں لوحِ دِل پر ہمیشہ ثبت رہیں گی اور اس کی بے تکلفی کی مظہر سادگی ،اپنائیت ، بے لوث محبت ،ایثار ،خلوص اور دردمندی سے دامنِ دِل سدا معطر رہے گا ۔وہ ایک ایسا فقیر تھا جس کے مسلک میں جھکنااور بکنا کبھی شامل نہ رہا ۔اس نے کسی صورت میں بھی درِ کسریٰ پر صدا نہ کی اورسدا عزت نفس اور خودداری کا بھرم برقرار رکھا ۔اس نے اپنے احباب پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ جاہ و حشمت کی ان نشانیوں اور کھنڈرات میں جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور عبرت کی مظہر حنوط شدہ لاشوں سے وابستہ داستانوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔ اس کی دائمی مفارقت نے پس ماندگان کی حیاتِ مستعار کو غم کے فسانے میں بدل کر اس دنیا کے آئینہ خانے میں ایک تماشا بنا کر رکھ دیا۔سب سوچتے ہیں اب دعائے نیم شب میں الم نصیبوں کو یاد کون کرے گا ۔
روز و شب کے سلسلے کو مار کر ٹھوکر گیا
زندگی کے ناز بے جا تھے بہت جی بھر گیا
زخم ِ دِل جتنے مِلے زخمِ تمنا بن گئے
چاہتیں افسردہ ہیں زخموں کا سوداگر گیا ( فضیل جعفری )
تایا نثار ایک ایسا فقیر تھا جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھا ۔ تعلیم کے حوالے سے وہ احسان دانش اور تنویر سپرا کے قبیلے کا فرد تھامگر اس کا مطالعہ نہایت وسیع تھااور اقلیم معرفت میں وہ بہت بلند مقام رکھتا تھا ۔ قیام پاکستان کے وقت تایا نثار جوا ن تھا،ان کے خاندان کے افراد بھوک، پیاس اورسفر کی صعوبتیں برداشت کرکے انتہائی پریشانی اور بے سروسامانی کے عالم میں اپنی جمع پونجی سنبھالے اس قافلے میں شامل تھے جو پیدل واہگہ کی سر حد کی طرف بڑ ھ رہا تھا۔ایک بھیانک رات میں رہزن بلوائیوں نے ان نہتے مہاجروں کے خون سے ہولی کھیلی اور ان کا سب مال و اسبا ب لُوٹ لیا۔تایا نثار شدید زخمی ہوااُس کے والد اور کئی عزیزوں کا خون آزادی کے افسانے کی سرخی بن گیا۔ اس جان لیوا صدمے کے بعدتایا نثار کے دِل سے اچھے دنوں کی توقع ہی اُٹھ گئی،حوصلے ماند پڑ گئے اور روشن مستقبل کے لیے مہم جوئی کی تمنا نے وقتی طور پر دم توڑ دیا ۔ اشتعال ،جذباتی ہیجان اور خلجان جس بے عملی اور بے حسی پر منتج ہوتا ہے اس سے انسانی شخصیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔ وہ اپنے ملنے والوں کو فطرت کے تقاضوں کے مطابق ستیز پر مائل کرتا اورزندگی کے ہر شعبے میں بہتر ین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور اس کے اعلا ترین انعام اور مناسب صلے کی توقع رکھنے کا قائل بناتا تھا۔ پامال راہوں سے بچتے ہوئے آئینِ نو پر عمل پیرا ہونا اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ہر نئی چیز کے بارے جوش و خروش کا اظہار کرنا تایا نثار کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔وہ اس بات پر زور دیتا تھاکہ ارضِ پاکستان میں اُسے جو کچھ ملا وہ پروردگارِ عالم کی عطا ہے ۔ وہ ایک ایسا درویش تھا جس کی نگاہ میں شان سکندری بھی ہیچ تھی ۔امیری کے بجائے فقیری کو زادِ راہ بنانے والے اور صبر و رضا کی فقید المثال پیش کرنے والے اس صاحب ِ باطن ولی کی قناعت اور شان استغنا کو دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں ۔اس حال مست فقیر کو خوشامد اور چاپلوسی سے شدید نفرت تھی۔ کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے سگانِ راہ، فصلی بٹیرے ،بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے اورمرغانِ باد نما اس فقیر کی نگاہوں کی تاب نہ لاتے اور اُس سے اکثر دُور رہتے۔ ہر حال میں مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے اس فقیر کو دیکھ کر عارف شفیق کے یہ اشعار ذہن میں گردش کرنے لگتے :
ٹوٹا کاسہ ،میلی چاد ر اور فقیری کیا ہوتی ہے
پُوچھے خالی پیٹ کا پتھر اور فقیری کیا ہوتی ہے
اﷲ ہُو کی ایک صدا سے کیف کے چشمے جاری ہیں
وہ ہی وہ ہے دِل کے اندر اور فقیری کیا ہوتی ہے
چھوڑ کے خواہش اِس دنیا کی،کر کے مسلک صبر و رضا کو
آبیٹھا ہوں اُس کے در پر اور فقیری کیا ہوتی ہے
تایا نثار کو ماضی کی قدیم عمارات اور کھنڈرات سے بہت دلچسپی تھی ۔اس کا گھر جسے مقامی لوگ طوفانِ نوح ؑ کی باقیات قرار دیتے تھے تایا نثار کے علاوہ کئی عجائبات سے بھر ا تھا ۔جب بھی موسلا دھار بارش ہوتی تایا نثار قدیم کھنڈرات کا رخ کرتا ۔بارش کی بوچھاڑ اور پانی کے تیز بہاؤ کے نتیجے میں کھنڈرات سے کئی نوادرات اسے مِل جاتے ،ان میں فوسلز ، مٹی کے برتن ،مختلف دھاتوں سے تیار کیے گئے قدیم ہتھیار،سیپاں ،گھونگے اورنگینے وغیرہ شامل ہیں ۔آثار قدیمہ کی جستجو میں اس نے مہر گڑھ ، کوٹ ڈی جی ، ماکلی، پیر عبدالرحمٰن ،ہڑپہ، پنڈی لال مرید، اُچ ، پنج پیر ،بہمن آباد،ٹیکسلا،بھنبھور،مو ہنجو داڑو ،قلعہ لاہور ،قلعہ روہتاس،تخت بہائی، کمبہل گڑھ قلعہ راجستھان،جیسلمیر قلعہ راجستھان ،میناکشی قلعہ تامل ناڈو ،چولستان قلعہ اورسری بہلول کی سیاحت کی ۔ وہ آہ بھر کر کہتا کہ آثار قدیمہ کا سکوت اپنے عہد کی داستان سناتا ہے ،جس طرح ایک ضعیف عورت کے چہرے کی جھریاں،بازوؤں کی جلد کے شکن ، گفتار کی لکنت اور رعشہ کے باعث بے ہنگم رفتار یہ بتاتی ہیں کہ یہ ضعیفہ ماضی کی ایسی حسینہ تھی جس کے عشوہ ،غمزہ و ادا کا ایک عالم دیوانہ تھا ۔ جس کی ایڑی کے نیچے ہر بو الہوس کی ناک ہوتی تھی ۔ اسی طرح ماضی کی نشانیاں یہ کھنڈرات اور بوسیدہ مکانات اپنے انجام سے بے خبر مکینوں کی لا محدود خواہشات اور حسرت ناک انجام پر نوحہ کناں ہیں ۔ گردشِ حالات کے باعث یہ محلات ،کھنڈرات ،قلعے اور فصیلیں پیہم ٹُوٹ پُھوٹ اور شکست و ریخت کے باعث مکمل انہدام کے قریب پہنچ چکی ہیں ۔آج بھی جب حسن و رومان کے شیدائیوں کے بلند قہقہے کسی قلعے کی ٹوٹتی فصیل اور گرتی محراب سے ٹکراتے ہیں تو یہ دل خراش صدا سنائی دیتی ہے کہ انسان اپنی مرضی کے مطابق اپنے لیے عمارات تعمیر کرتا ہے مگر تقدیر انسان کی بے بصر ی اور کورمغزی پر مسکراتی ہے ۔جلد ہی وہ وقت آ پہنچتا ہے جب یہی عمارات اپنے مکینوں کو یہاں سے بے دخل کر دیتی ہیں۔عمارات کے نئے مکین سابقہ مکینوں کو شہر خموشاں میں پہنچا دیتے ہیں ۔یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب عمارات کھنڈر بن جاتی ہیں۔یہی وہ عمارات ہیں جنھوں نے متعدد اقوام کے آفتاب ِ اقبال کے غروب ہونے کے بعد ان کے ادوار سے وابستہ یادو ں،فریادوں ،بے دادوں اور منجمد موسیقی کی لے کو پابند نے کر نے کی سعی کی ہے ۔ سبزہ و گُل سے مزین حسین قطعات اراضی کو مسخ کرنے کے لیے ان پر سنگ و خشت کی مرمریں عمارات کھڑی کر نے والے ماضی کے مطلق العنان حکم رانوں کا اب نام و نشان بھی کہیں نہیں ملتا۔ ان کی زندگی کی مہمات کا احوال تاریخ کے طوماروں میں دب گیا ہے ۔تاریخ کے اوراق ماضی کے بادشاہوں کے ان مجرمانہ منصوبوں کا احوال پیش کرتے ہیں ۔
جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی اس وقت تایا نثار زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکا تھا۔اس کی آنکھوں نے بر صغیر پر ظالمانہ بر طانوی استعمار کے مسلط کردہ نو آبادیاتی دور کو آخری ہچکیاں لیتے دیکھا۔ نہ صرف اس نے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تیور پہچان لیے بل کہ اپنی خداد داد بصیرت اور اعلا تجزیاتی استعداد کے اعجاز سے اس نے نہ صرف تیل کو غور سے دیکھا بل کہ گردشِ ایام کے تھپیڑے کھاتے تڑپتے تلملاتے بہتے تیل کی دھار ،اُس کی روانی اور اُس کے پسِ پردہ کہانی کو بھی دیکھ لیا تھا۔ وہ فسطائی جبر اور استحصال کے ہر انداز سے شدید نفرت کرتاتھا ۔مقدر کے حال ،ستاروں کی چال،ہاتھ کی لکیروں ،قسمت کی تحریروں اور گردش ایام کی تعزیروں کے بارے میں تایا نثار اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کرنے میں کبھی تامل نہ کرتا ۔ وہ اس بات پر سدا اصرار کرتا تھا کہ سخت کوشی ،جانفشانی ،لگن اور سعیٔ پیہم ہی وہ پارس ہے جو خام دھات کو کُندن بنانے پرقادر ہے اور ہر فرہاد کی بوسیدہ کٹیا میں ٹمٹماتی لو سنگلاخ چٹانوں پر پڑنے والے تیشے کے شرارے کی مرہونِ منت ہے ۔ ممتاز ماہر نفسیات ، ادیب ،نقاد،مورخ اور ماہر علم بشریات حاجی حافظ محمد حیات نے زندگی اور اس کی حقیقی معنویت کے بارے میں تایا نثارکے حقیقت پسندانہ موقف کی ہمیشہ تعریف کی ۔ایک ملاقات میں حاجی حافظ محمد حیات نے تایا نثارکی زندگی کے تجربات و حوادث ،مشاہدات و تاثرات کے حوالے سے اس کے خیالات کے بارے میں بتایا :
’’ تایا نثار اس نتیجے پر پہنچا کہ زندگی کا ساز بھی ایک عجیب بے آواز ساز ہے جو ازل سے پیہم بج رہا مگر کوئی اِس کی دُھن نہیں سُن سکتا ۔کوہِ ندا کی سدا اورساتواں در کھولنے والوں کی آوا زِدرا سے یہ راز کھلا ہے کہ اس نا تمام کائنات میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آئینہ ٔ ایام میں اپنی ہر تقصیر اورادا کو تقدیر کی منشا ، بد اعمالی کی ہر تعزیر کو قسمت کی تحریر،اپنے حالِ زبوں کو ستاروں کی چال ،ترقی اور خوش حالی کی راہ میں حائل بے عملی ، توہم پرستی کے خبط کی پیدا کردہ غیر محتاط روش کو چشمِ حسودکی تاثیر، سیاہ بختی کو سحر ،کالے جادو اور ٹونے کی بے دریغ سختی ، بے بصری اور کورمغزی کی زنجیر کو ہاتھوں کی لکیراوراپنی ہر یبوست کو لوح ِ پیشانی کی نحوست کا اٹل کرشمہ قرار دیتے ہیں ۔ ایسے عاقبت نا اندیش ،سہل پسند اور تن آسان لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ انسان اپنی قسمت کے لکھے انمٹ فیصلے کو بدلنے سے قطعی قاصر ہے ۔ہر انسان کی زندگی کے جملہ نشیب و فرازاس کی قسمت میں لکھ دئیے جاتے ہیں ان سے مفر کی کوئی صورت نہیں اور یہ مقررہ وقت پر ہر حال میں وقوع پزیر ہو کر رہتے ہیں ۔ اس قسم کی سوچ کے باوجود طرفہ تماشا یہ ہے کہ تقدیر کے پابند ایسے جامد لوگ بھی مصروف شاہراہوں پر ٹریفک کے ازدحام میں سڑک عبور کرتے وقت کسی متوقع حادثے سے بچنے اور اپنی جان ناتواں کی حفاظت کی غرض سے اپنے دائیں بائیں ضرور دیکھتے ہیں ۔خواب کے عالم میں بھی زلزلے کے معمولی جھٹکے محسوس کر کے استغفار کا وِرد کرتے ہوئے کمروں سے باہر نکل آتے ہیں اور دریاؤں میں انتہائی نچلے درجے کے سیلاب کی اطلاع ملتے ہی نشیبی علاقوں کے مکین سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بلند مقامات پر قائم امدادی مراکز کا رخ کرتے ہیں ۔ ‘‘
تایا نثار کے اسلاف کی کشف و کرامات اور عملیات کے پُورے ہند سند ھ میں بہت چرچے تھے ۔ قسمت سے محروم، مظلوم اور دکھی انسانیت کے در پئے آزار رہنے والے سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا سانپ اور بچھو ہر معاشرے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ آزادی سے قبل کالی کٹ کے نواح میں کالی دیوی کے پجاری برہمن سادھوؤں نے اپنے مکر و فریب و دُزدی کی چالوں سے ہر طرف اندھیر مچا رکھا تھا۔ پُورے علاقے میں توہم پرستی کی وبا پھیل گئی اور کالا شاہ کاکو کے نواح میں کالے دھن کے بل بوتے پر گل چھرے اڑانے والوں کے ایک گروہ نے سادہ لوح لوگوں کو حسن و رومان ،جنس و جنون اور ہوسِ زرکے سبز باغ دکھا کر لُو ٹنے کا قبیح دھندہ شروع کیا جو کالا باغ کی جھاڑیوں اور کالنجرکی پہاڑیوں تک پھیل گیا ۔ رذیل طوائفوں ،عیار ٹھگوں ،شاطر جنسی جنونی بھڑووں،کینہ پرور مسخروں ،سفہااور اجلاف و ارزال پر مشتمل اس ٹولے نے سادہ لوح لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ۔ ان ننگ انسانیت جرائم پیشہ درندوں میں یملاصحرائی، کالی چرن، گھونسہ بیابانی، آسو بلا ،کرمی بھٹیارا، اکی موہانہ ،زاہدو لُدھڑ، فوزی ،شباہتی، طلب ،شعاع،صبوحی اورپونم شامل تھیں ۔ سیال کوٹ کے نواح میں پُورن بھگت کے کنویں کے قریب واقع گھنے جنگل میں ان بد معاشوں نے اپنے چنڈو خانے ،قحبہ خانے،عقوبت خانے اور اسلحہ خانے بنا رکھے تھے ۔ غریب لوگ تایا نثار کے پاس پہنچے اور ان درندو ں کے مظالم کے خلاف دُہائی دی۔ اس گروہ میں شامل طوائفوں کے گھناونے اور پر اسرار دھندے کے بارے میں لرزہ خیز حقائق سے تایا نثار کو آ گاہ کیا گیا ۔تایا نثار نے اس بات پر گہرے رنج اور کرب کا اظاہر کیا کہ کالی دیوی کے پجاری برہم چاری سادھوؤں کے ہاتھوں دکھی انسانیت بے بسی اور لاچاری کے لرزہ خیز ،اعصاب شکن،تشویش ناک اور حوصلہ شکن حالات میں زندگی کے دِن پورے کر رہی ہے۔مظلوموں کی زندگی کے شب و روز کا کوئی بھی پرتوتایا نثارکے فہم و ادراک کی دسترس سے دُور نہ تھا ۔اس موقع پر تایا نثار نے الم نصیب جگر فگاروں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کالا دھن کما کر عیاشی کرنے والے اپنا منھ کالا کر رہے ہیں ۔ان کی ذہنی خستگی ،فکری شکستگی ،فکر و خیال کی کوتاہی اور انسان دشمنی انھیں مکمل تباہی اور انہدام تک پہنچا دے گی ۔ پُر عزم،صابر و شاکر ،ذہین او ربا ہمت انسانوں کی فقید المثال کامرانیاں نہ صر ف اُن کے لیے بل کہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایسی شادمانیاں بن جاتی ہیں جو فکر و خیال کو مہمیز کرے دِلوں کو ایک ایسا ولولہ ٔ تازہ عطا کرتی ہیں جو سعیٔ پیہم پر مائل کرتا ہے۔ اس وسیع کائنات کے حقائق کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کا وسیلہ ہے ۔ احساس تفاخر کا شکار شیخی خورے تعلّی کو شعار بنا کر جب اپنی موہوم ذہانت کے بارے کسی زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اہلِ درد ان کی کور مغزی اور بے بصری پر ہنستے ہیں ۔یہ اس شجر سایہ دار کی وہی ٹہنیاں کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں جن پر اُن کا آ شیاں ہوتا ہے ۔ مجرمانہ غلطیوں کا ارتکاب جہاں ہلاکت خیزیوں کو دعوت دیتا ہے وہاں ان کے نتیجے میں ہونے والی عبرت ناک تباہی کے بعد اصلاح احوال کے متعدد نئے امکانات بھی سامنے آ تے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی تایا نثار نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اورکہاکہ اﷲ کریم کی رحمت سے ظلم کا نام و نشاں مٹ کر رہے گا ۔ فطرت کی انتہائی سخت تعزیروں کی زد میں آنے کے بعد کالی کٹ کے عادی دروغ گو ٹھگ جلدی خارش، برص ،جذا م اور کوڑھ جیسے موذی امراض میں مبتلا ہو گئے ۔اس عبر ت ناک عارضے میں مبتلا ہونے کے بعدکوئی ان کا پرسان حال نہ تھا ۔ سب موذی و مکار جرائم پیشہ درندے سسک سسک کر مرنے لگے اور ایک فقیر کی دعا سے زمین کو بوجھ کم ہو گیا۔
شہر کے جن ممتاز ادیبوں کے ساتھ تایا نثار کے قریبی مراسم تھے ان میں فیض محمد خان ، شریف خان ، ظفر سعید،حکمت ادیب ،احمد تنویر ،رام ریاض ،مہر بشارت خا ن،کبیر انور جعفری ، احمد بخش ناصر ،گدا حسین افضل ،عمر حیات بالی ،خضر حیات ٹونیا،دیوان احمد الیاس نصیب ،سجاد حسین ،شفیع ہمدم،امیر اختر بھٹی،ملک عمر حیات ،حاجی محمد وریام،محمد رمضان ،شامل ہیں۔ موت سے چند روز قبل اپنے معتمد ساتھی گدا حسین افضل کے ساتھ ایک یادگار ملاقات میں تایا نثار نے اپنے چاروں طرف بچھے ہوئے دکھوں کے جال دیکھ کر کہا:
’’ گردِشِ ایام ہمیشہ میری رفیق سفر رہی ہے ،اس کے باوجود میں نے اعلا ظرفی اور وسیع النظری کو شعار بنایا ،اپنا رزق خاکِ راہ میں تلاش کرنے کے بجائے وسعتِ افلاک کو پیشِ نظر رکھا ۔ زندگی میں ستاروں پر کمند ڈالنے والے اور پہاڑوں کی چٹانوں میں آشیانہ بنانے والے لائق صد رشک و تحسین سمجھے جاتے ہیں ۔کسی کی ایڑی کے نیچے ناک رگڑنے والے خود اپنی نظروں میں گِر کرپاتال میں جا گرتے ہیں ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ گزشتہ نوے برس سے آستین کے سانپوں ،بے وفا رفیقوں ،ابن الوقت رازداروں ، برادرانِ یوسف ، جانگسل تنہائیوں اور ہجوم غم نے مجھے سدا مرگ ِنا گہانی کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی ہے ۔ حالات کی سفاکی کے باوجود موت کا خوف مجھے کبھی یاس و ہراس کی بھینٹ نہیں چڑھا سکا۔ہاں کبھی کبھی ایک موہوم سوچ مجھے ان جانے خوف میں مبتلا کر دیتی ہے کہ کہیں آلام روزگار کے مہیب بگولے میرے دِل کی انجمن میں سو برس سے فروزاں شمع ِ آرزو کو گُل نہ کر دیں۔میری زندگی تو دِل میں نمو پانے والی اسی آرزو کی رہین ِ منت ہے ۔موت ایک ا ٹل حقیقت ہے مگر مجھے مرنے کی کوئی جلدی نہیں۔اس قدر ضعیفی کے باوجود میں مزید کچھ عرصہ زندہ رہنا چاہتا ہوں تا کہ میں خدمت خلق کے وہ کام جلد از جلد مکمل کرسکوں جن کے دھندلے نقوش میری لوح دِل پر ثبت ہیں ۔میں فاقہ کش خاندان کی اُس یتیم بچی کی شادی کے لیے جہیز کی تیاری اور اس کی سسرال میں رخصتی کی تقریب میں شرکت کا آرزو مند ہوں جس نے کل صبح پہلی بار اس دُھوپ بھری دنیا کو دیکھا ہے ۔ ‘‘
زندگی کے نشیب و فراز اور اس کے موسموں کے تغیر و تبدل کے بارے میں تایا نثار کا موقف زندگی کی حقیقی معنویت کا مظہر تھا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ خزاں ،بہار ،سردی ،گرمی ،مون سون اور خشک سالی کا انسانی زندگی کے معمولات سے ہر گز کوئی تعلق نہیں۔انسانی زندگی کے سب موسموں کا جذبات ،احساسات اور دِلی کیفیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آلامِ روزگار کی تمازت سے اُمیدوں کا چمن کُملا جاتا ہے مگر سحابِ بہار کی تمنا میں اُمنگوں اور ترنگوں کے گلاب پھر سے کِھل اُٹھتے ہیں ۔ زندگی کے بدلتے ہوئے موسموں کے بارے میں قبل از وقت کوئی رائے قائم کرنا یا کوئی پیش گوئی کرنا تخمین و ظن کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ گرگٹ سے متاثر ہو کرموسم کی طر ح رُوپ بدلنے والوں کے تیور دیکھ کر لوح ایام پرنمو دار ہونے والے وقت کی دُھندلی سی تصویریقیناً دیکھ جا سکتی ہے ۔ تایا نثار نے ہمیشہ احتساب ِ ذات پر توجہ مرکوز رکھی ۔وہ اس دنیا کی ہر شے کو مسافر اور ہر چیز کو راہی قرار دیتا اور اس بات پر زور دیتا کہ عبرت سرائے دہر میں کسی چیز کو دوام نہیں۔انسان جو کام کرتا ہے ان کا خمیازہ اُٹھانے کے لیے اُسے ذہنی طور تیار رہنا چاہیے ۔انسانی اعمال کی مثال اس فصل کی ہے جو جلد یا بہ دیرخود اُسے کاٹنی پڑتی ہے ۔اپنے ہر ملاقاتی کے ساتھ بے تکلفی ،اعلا اخلاق اور اخلاص سے لبریز برتاؤ کرنا تایا نثار کا شیوہ تھا ۔وہ اکثراس بات کو دہراتا تھا کہ برداشت ،صبر و تحمل اور مدلل انداز گفتگو کی صلاحیت سے عاری سنکی ، شکی مزاج ،سڑیل ،خبطی اور زُود رنج لوگ جوہر لمحہ ناک بھوں چڑھا لیتے ہیں اور درپیش حالات سے نا خوش و بیزار رہتے ہوئے شکو ہ و شکایت کو وتیرہ بنالیتے ہیں جلد ہی مردو دِ خلائق بن جاتے ہیں اور کوئی انھیں منھ نہیں لگاتا۔ کسی بھی شخصیت کی زندگی سے اگر خوش اخلاقی، شگفتگی اور گُل افشانیٗ گفتار کو منہا کر دیا جائے تو راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
تایا نثار ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا اور ارکان اسلام پر کا مل ایمان رکھتا تھا۔مقامی مساجد میں منعقد ہونے والی حمد و نعت کی محافل میں وہ بہت عقیدت سے شرکت کرتا اورمساجد کے تعمیری کاموں میں دِل کھول کر حصہ لیتا ۔اسے مولانا ظفر علی خان ،حسرت موہانی ،رام ریاض ،اعظم چشتی ،بشیر سیفی اور علامہ اقابل کا نعتیہ کلام بہت پسند تھا ۔جوانی میں وہ ترنم سے مولانا ظفر علی خان کی نعتیں پڑھتا تھا ۔وہ جب بھی حمد و نعت سنتا تو اس پر وجدانی کیفیت طار ی ہو جاتی ۔
کام کی عظمت اور محنت کی وقعت کو تایا نثار کا دستور العمل سمجھا جاتا تھا۔ وہ خود ایک ماہر دست کار تھا اوراس نے گھریلو دست کاریوں کے فروغ کے لیے زندگی وقف کر رکھی تھی ۔اس نے قالین بافی ،دری بنانے ،کرسیاں بننے ،مونج کا بان تیار کرنے ،چاپائیاں بُننے ،دستی پنکھے بنانے ،کشیدہ کاری ،خانہ داری اور کھلونے بنانے جیسی گھریلو دست کاریوں کی تربیت دے کر بے روزگار افراد بالخصوص گھریلو خواتین کے لیے اضافی آمدنی کے فراواں مواقع تلاش کیے۔اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کی بنا پر وہ سدا یہ باور کرانے کی کوشش کرتا کہ رزق حلال کے حصول کے سلسلے میں خون پسینہ ایک کرنا با ضمیر انسانوں کا امتیازی وصف ہے ۔محنت سے لگن زندگی کی تاب و تواں اور اس کی حقیقی معنویت کا اجاگر کرتی ہے ۔ کاہل اور کام چور شخص عملی زندگی میں کسی مفید اور موثر فعالیت کے بغیرایک ایسا تھوتھا چنا ثابت ہوتا ہے جو گھنا باجنے کے باوجود کسی کو اچھا نہیں لگتا۔تایا نثارکی ترغیب پر اس کچی آبادی میں گھریلو دست کاریوں کو مقبولیت ملی اور اس طر ح حاصل ہونے والی آمدنی کے نتیجے میں گھر گھر ترقی،تعلیم اور خوش حالی کے چرچے ہونے لگے۔
تایا نثار کے پڑوسیوں میں نو جوان موسیقار یارا سازندہ اور بہادرا سازندہ فن موسیقی میں مہارت رکھتے تھے مگر جھنگ میں ان کے فن کو مناسب پزیرائی نہ مِل سکی اور ان کا کمال ِ نے نوازی ان کے کسی کام نہ آسکا ۔ اد ب اور فنون لطیفہ سے وابستہ افرادکی زندگی میں کئی سخت مقام آتے ہیں۔یارا سازندہ اور بہادراسازندہ کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہو گئے اور فاقہ کشی کی نوبت آ گئی۔ایک دِن یہ دونوں گلوکار تایا نثار کے پاس پہنچے اور اس امر کا شکوہ کیا کہ کسی نے کالے جادو کے ذریعے ان کا رزق چھین لیا ہے ۔ تایا نثار نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ کسی بڑے شہر میں چلے جائیں اور وہاں موسیقی کی تربیتی اکیڈمی بنائیں ۔دونوں موسیقاروں نے لاہور کا رخ کیا اور مقبرہ جہاں گیر کے نواح میں واقع ایک کچی آبادی کے پکے مکان میں کلاسیکی موسیقی سکھانے کے کام کا آغاز کیا۔تایانثار بھی ان کی سرپرستی کے لیے ان کے ساتھ چلا گیا ۔ مقبرہ جہاں گیر کے سامنے ایک مصروف شاہراہ پر کھڑے ہو کر جب انھوں نے یہ گیت گایا تو سماں بندھ گیا اور ان کی پہلی ہی دُھن بے حد مقبول ہوئی ۔
اساں لائیاں اکھیاں جل بھریاں
ایہناں بے قدراں نال لائیاں اکھیاں جل بھریاں
بدھیاں ڈھول دیاں اساں بنھ گڈھڑی سر چائیاں
اساں لائیاں اکھیاں جل بھریاں
ترجمہ :
پُر نم آ نکھوں سے ہم نے سہے عشق کے سب جھمیلے
تنہا چھوڑ کے کہاں گئے تم اے ساجن البیلے
تیرے ہجرکی گٹھڑی سر پہ اُٹھا کے دیکھے دنیا کے میلے
پُر نم آ نکھوں سے ہم نے سب صدمے سر پر جھیلے
پاکستان کے ایک چھوٹے شہر سے آنے والے پنجاب کے دار الحکومت لاہور میں نووارد مگر بے حد مشاق موسیقاروں کی یہ ٹولی جب مغل بادشاہ جہاں گیر کے مقبرے کے نزدیک پہنچی تودِن بھر کی بھوک پیا س ،سفر کی صعوبت اور اجنبی ماحول کے باعث دھریس پارٹی اور گلوکاروں کے چہرے پر ناگواری اور غصے کے آثارپیدا ہو گئے اور وہ ٹسوے بہا کر پُر سوز آواز میں گانے لگے۔ اُنھوں نے قلعہ لاہور میں خدمات پر مامور عہدِ مغلیہ کی مشہور مگر بد نصیب رقاصہ انار کلی ( وفات : 1599)کی جہاں گیر سے پیمانِ وفا باندھنے کے بعد مظلومیت اورلرزہ خیز اعصاب شکن انجام کو ذہن میں رکھتے ہوئے نو ر جہاں ( مہر النسا) کی قبر کی طرف دیکھا جہاں دِن کو بھی شبِ تاریک کی بھیانک تیرگی کا سماں اور سکوتِ مرگ کا گماں ہوتا ہے ، وسیع سبزہ زار کے سامنے زور سے ڈھول بجا کر مقبرہ جہاں گیر کی طر ف انگلی کا اشارہ کر کے پر سوزلہجے میں جب یہ پنجابی ماہیا پڑھا تو وہاں موجود سب لوگوں کی آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔
ایہہ لسوڑا
راہے مینوں چھوڑ گیاایں
ہانویں کُوڑے دا کُوڑا
ترجمہ:
لسوڑے کا بُوٹا
رستے ہی میں چھوڑدیا
تُو نکلاجُھوٹے کا جُھوٹا
تایا نثار یہ بات واضح کر دیتا کہ یہاں پنجابی لفظ ’’کُوڑا ‘‘ ذو معنی ہے ایک معنی تو فریب کار اور جُھوٹا جب کہ دُوسرے معنی کُوڑ اکر کٹ اور گندگی کے ڈھیر کے ہیں ۔اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مر مریں قبر کے اندر تہہِ ظلمات پڑا باد شاہ جہاں گیرجس کا بدن ملخ و مُورکے جبڑوں میں تھا وہ یہ سب کچھ سُن رہا تھا۔ جب یہ درد بھری سریلی تان ان مقبروں کی ٹوٹتی ہوئی محرابوں سے ٹکراتی تو شہنشاہ جہاں گیر کے قدیم مقبرے کے دروبا م تھر تھرانے لگتے۔ یہ دلدوز آواز فضا میں گُونجی تو اچانک مغل شہنشاہ نو رالدین جہاں گیر کے مقبرے کے مینار لرزنے لگے۔ یہ پُر اسرارمنظرد یکھ کر لوگوں کو انار کلی کی مظلومیت کا یقین ہو گیا۔ مغل شہنشاہ اکبر کی کنیزانار کلی اور شہزادہ سلیم کی ناکام محبت کاالم ناک انجام جسے بالعموم ولیم فنچ کی اختراع سمجھاجاتا ہے اس کا منظر سب کی چشمِ تخیل کے سامنے آ گیا۔ مغل آمریت کے مظالم سے نالاں پنجاب کے باشندوں کو عبرت کی مثال بنانے کے لیے مغل شہنشاہ جلا ل الدین اکبر نے دہلی چھوڑ کر بیس برس تک لاہور کے شاہی قلعہ میں ڈیرے ڈل دئیے۔ شہنشاہ اکبر نے اس عرصے میں اپنی سفاکی کا ثبوت دیتے ہوئے مغل حکومت کے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے دہقانوں اور مزارعوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کی کھال کھینچ کر اس میں بھوسہ بھروا کرمرکزی دروازے پر لٹکا دیا۔ اس عرصے میں پنجاب میں اس مطلق العنان شہنشاہ کی انصاف کُشی کے سب افسانے ہر آمر کے لیے عبرت کے تازیانے ثابت ہوئے۔پنڈی بھٹیاں کے کسان عبداﷲ بھٹی(1569-1599) نے جب فاقہ کش مزدوروں، غریب مزارعین اور افلاس زدہ دہقانوں کے تلخ اوقات کی بات کی تو جابر مغل بادشاہ نے اُسے دار پر کھنچوا دیا۔پنجاب سے تعلق رکھنے والا حریت فکر و عمل کا یہ مجاہد لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہے ۔ تایا نثار جہاں مغل بادشاہ اکبر کے مظالم پر دل گرفتہ رہتا وہاں اس بات پر دلی مسرت کا اظہار کرتا تھا کہ پنڈی بھٹیاں شہر کے باشعور باشندوں نے شہر کے مرکزی چوک کا نام ’’دُلابھٹی چوک ‘‘ رکھ دیاہے جو سلطانی ٔ جمہور کے حامی اور حریتِ فکر کے اس مجاہد کو شان دار خراج تحسین ہے ۔ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر غلام قاسم خان نے اپنی طویل سرکاری ملازمت کے سلسلے میں جنوبی پنجاب کے شہر بھکر کے قریب واقع گاؤں دُلے والامیں کچھ عرصہ قیام کیا۔یہی وہ علاقہ ہے جہاں عبداﷲ بھٹی نے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی مطلق العنان استبدادی حکومت کی بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں سے بچنے کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت گم نام زندگی بسر کی ۔ تایا نثار نے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی شقاوت آمیز ناانصافیوں،غیظ و غضب اور بے رحمانہ انتقام کے حوالے سے بتایا کہ مغل شہنشاہ اکبر نے عبداﷲ بھٹی کو دار پر کھنچوانے سے پہلے یہ کیوں نہ سوچا کہ عبداﷲ بھٹی اور شہزادہ سلیم رضاعی بھائی ہیں ۔ فریدخان کا بیٹا عبداﷲ بھٹی اور جلال الدین اکبرکا بیٹا شہزادہ سلیم ایک ہی دن پیدا ہوئے اور دونوں کوعبداﷲ بھٹی کی ماں لاڈھی نے اپنا دودھ پِلاکر پالا اور ان کی تربیت کی ۔ہمارے معاشرے میں دُھوپ چھاؤں کی عجیب کیفیت ہے ہر طرف دُکھوں کے جال بچھے ہیں ۔عملی زندگی میں ہمارا واسطہ مختلف مزاج کے لوگوں سے پڑتا ہے ۔ ہر انسان کی سرشت اور داخلی کیفیت کوسمجھناایک کٹھن مر حلہ ہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ تواپنی جان پر کھیل کر ایثار اوردردمندی سے دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے اور درد کا درماں تلاش کرنے کے کام میں مصروف ہیں مگر کچھ عقرب اور مارِ آ ستین بھی ہماری صفوں میں گھس گئے ہیں۔ہماری بے چین روح بے لوث محبتوں ، بے پایاں خلوص ،بے باک صداقتوں،وفا اور ایثار کی تشنگی محسوس کرتی ہے ۔ہمارے دسترخوان پر مشروبات سے لبریزساغر موجود ہیں۔ ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے یہ سب ساغر ایک جیسے ہیں ۔اصل مسٔلہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ ساغر تو شیریں آبِ حیات سے لبریز ہیں جب کہ کچھ ساغر ایسے بھی جن میں زہرِہلاہل بھردی گئی ہے ۔ہماری زندگی کے تمام شب و روز اسی کشمکش میں گزر جاتے ہیں کہ کون سے ساغر کو اپنے ہاتھ میں تھام کر ایک ہی سانس میں غٹاغٹ پی کر اپنی پیاس بُجھائیں ۔ الم نصیب اور قسمت سے محروم انسانوں کے ساتھ مقدر ہمیشہ عجیب کھیل کھیلتا ہے ہجوم ِ یاس میں گھرے ان لوگوں کے ہاتھ اکثر زہر ِ ہلا ہل کے جام کی طرف بڑھنے لگتے ہیں ۔
تایا نثار کی دعا سے گزشتہ صدی کے پچاس کے عشرے میں شاہدرہ میں قائم ہونے والی ’’ سازندہ کارندہ موسیقی جوئندہ یا بندہ ‘‘کو بہت مقبولیت ملی ۔تھیٹر ،سٹیج اور موسیقی کی محفلوں میں ان گلوکاروں اور دھریس پارٹی کو ذوق سلیم سے متتمع متمول لوگ بڑے شوق سے بلاتے تھے اور ان کے فن کی خوب داد دیتے تھے۔موسیقی سیکھنے کے شائقین نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شام کو یہاں پہنچتے اوریہ مشاق گلوکارجب نالے کو پابند نے کرتے تو اش اش کر اُٹھتے۔لاہور میں تایا نثار نے میاں اقبال زخمی ،آفتا ب نقوی او رحکیم آفتاب قرشی سے معتبر ربط قائم رکھا ۔
گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں محلہ گھڑے بھن میں ناصف بقال نامی ایک بھڑوے نے شہر کی بد نام طوائف شانتی ،رقاصہ مینا ، اپنی داشتہ شباہت شمر اور رسوائے زمانہ نائکہ گائتری کے اشتراک سے شہر کی ایک کچی آبادی میں شادی دفترکھول لیا۔شادی کے اس دفتر میں شادی کے خواہش مند جوڑوں سے چکنی چپڑی باتیں کر کے رقم بٹورنے کا دھندہ شروع ہو گیا ۔بھڑوے اور طوائفیں جعلی دلہنیں دکھا کر عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے نوجوانوں،رنڈوے مردوں ،بے اولاد بوڑھوں اور بیواؤں سے ان کی جمع پونجی اینٹھ لیتے۔ناصف بقال کے ہاتھ بہت لمبے تھے اس لیے کوئی اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکتا تھا ۔ ایک صبح تایا نثار کے پاس ایک اجنبی نوجوان آیا جس سے ان درندوں نے دو لاکھ روپے کے عوض ایک حسینہ کے ساتھ شادی کرانے کا جھانسہ دیا تھا اور آدھی رقم پیشگی اینٹھ لی تھی۔اس نوجوان نے تایا نثار کو حسینہ کی تصویر دکھائی تو پاس بیٹھے ہوئے ضعیف مہاجن ٹلا عطائی نے آ ہ بھر کر کہا :
’’ میاں صاحب زادے !یہ اس حسینہ کی ایک سو دسویں منگنی ہے ۔اس سے قبل وہ بہ ظاہر تو بیس مگر پوشیدہ طور پر چار سو بیس شادیاں بھی کر چکی ہے اور اب ان سب نام نہاد شوہروں سے نجات حاصل کر چکی ہے ۔اب تک تم جو جمع پونجی لُٹا چکے ہو اسے بھول جاؤ اور اپنی زندگی کی خیر مناؤ۔تم ٹھگوں کے جس ٹولے کے ہتھے چڑھ گئے ہو وہاں تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔‘‘
یہ سنتے ہی نوجوان زار و قطار رونے لگا اور اس پر غشی کے دورے پڑنے لگے ۔اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر اس نوجوان کو اس کی رقم واپس نہ ملی تویہ زندگی کی بازی ہار جائے گا۔
حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے تایا نثارکو اس سادہ لوح نوجوان پر ترس آ گیا ۔اس نے نوجوان کو تسلی دی اور اس کی مدد کرنے کا یقین دلایا ۔تایا نثار نے وضو کیا اور قرآنی آیات کا وِرد کرتا ہواناصف بقال کے شاد ی دفتر کا رخ کیا ۔تایا نثار اور نوجوان کو اپنے دفترمیں داخل ہوتے دیکھ کر ناصف بقال تھر تھر کانپنے لگا اور نوجوان سے ہتھیائی گئی ایک لاکھ کی خطیر رقم اس کے حوالے کر دی ۔نوجوان نے رقم گن لی اور گھر کی راہ لی ۔اس کے بعد تایا نثار نے ناصف بقال کو تنبیہہ کی کہ وہ اس قبیح دھندے سے باز آ جائے ورنہ فطرت کی سخت تعزیروں سے اس کا بچنا محال ہو جائے گا ۔اگلے ہی روز جرائم پیشہ ٹھگوں ،پیشہ ور اُچکوں اورعادی دروغ گو عیاروں کا یہ ٹولہ اپنی دکان بڑھا کر اجنبی سی منزلوں کی جانب سدھا ر گیا ۔
پُراسراریت اورسحر بلاشبہ حیران کن ہیں مگر تایا نثار جیسے بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پوری زندگی ہی پُر اسرار ہوتی ہے ۔اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ پُراسراریت کے بارے میں جاننے والوں کو تہہ در تہہ شخصیت کے فرغلوں میں کئی آرزوئیں پنہاں دکھائی دیتی ہیں ۔یہی آرزوئیں اس خاص شخصیت کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی میں چراغ راہ ثابت ہوتی ہیں ۔بڑی مشکل سے پر اسراریت کے بارے میں دھندلے نقوش سامنے آتے ہیں۔ تایا نثار کی زندگی اس قدر پر اسرار تھی کہ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل تھا۔شہر کے کچھ ستم رسیدہ لوگوں نے تایا نثار کو زندگی کا بیمہ کرنے والی ایک ایسی یورپین حسینہ کی کہانی سنائی جس کی اُٹھتی جوانی معمر سرمایہ داروں کے لیے بلائے نا گہانی بن گئی تھی ۔اس بیمہ ایجنٹ حسینہ کی چال ایسی تھی جیسے کڑی کمان کا تیر۔وہ مقامی رنڈوے بوڑھوں کو شادی کا جھانسہ دے کر ان کی زندگی کا بیمہ کرتی اور ان کے بیمہ کی پہلی قسط بٹور کر کوئی رسید دئیے بغیررفو چکر ہو جاتی ۔مشاق مشاطہ کے ہاتھوں بنی سنوری یہ حسین و جمیل بیمہ ایجنٹ رسوائے زمانہ ٹھگوں کے ایک خطرناک مافیا کی آلہ ٔ کار بن چکی تھی اس لیے ہر بار محتسب کی گرفت سے بچ نکلتی تھی ۔ کچھ کم فہم اور جلد باز نوجوان بھی اس حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو گئے جنھیں یہ حسینہ بیرونِ ملک ویزا دلوانے اور مناسب روزگار فراہم کرنے کا فریب دے کر کوڑی کوڑ ی کامحتاج کر د یتی تھی ۔یہ حسینہ اعلا تعلیم یافتہ تھی اور بلند معیار زندگی ، فارم ہاؤس ،پر تعیش ماحول اور بڑی گاڑی کی ہوس میں یہ فریب ،دُزدی اور ٹھگی کے قبیح دھندے میں ملوث تھی۔حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر یہ حسینہ قحبہ خانوں او رچنڈو خانوں کی زینت بن گئی۔اس حسینہ کے ہاتھوں لُٹنے والے معمر افراد میں سے اکثر تو چراغ سحر ی تھے جو اس ہوائے جور و ستم میں ہمیشہ کے لیے گُل ہو گئے اور باقی زندہ در گو ر ہو گئے ۔
تایا نثار یہ سب احوال سن کر دل گرفتہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ ہماری معاشرتی زندگی کو ٹھگ ،دادا گیر اور اُچکے یر غمال بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ان ننگ انسانیت درندوں کی ہوس زر نے معاشرتی زندگی کی تما م رُتیں بے ثمرکر دی ہیں ۔ تایا نثار نے آ ہ بھر کر کہا جس نو جوان حسینہ نے ضعیفوں کوسبز باغ دکھا ئے، حیلے بہانوں سے دوا علاج کی رقم ہتھیا کر ان کو کفن سے محروم کر دیا ہے وہ فطرت کی تعزیروں کی زد میں آ کر رہے گی۔اسی اثنا میں وہ حسینہ اپنی قیمتی کار میں وہاں سے گزری ۔تایا نثار نے اسے رکنے کا اشارہ کیا مگر وہ حقار ت سے گزر گئی ۔کار فراٹے بھرتی ہو ئی جا رہی تھی اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا ۔ایک بہت بڑا ٹرالا بر ق رفتار کا ر کو روندتا ہوا دریائے چناب کے پُل سے آگے نکل گیا ۔ہر طر ف ہُو کا عالم تھاکسی نے ٹرالے کی طرف توجہ نہ کی ۔ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ کار میں سوار عورت کی جان بچائی جائے ۔ ابتدائی طبی امداد فراہم کرانے والا عملہ بھی پہنچ گیا ۔ ایمبولنس کے ذریعے اس حسینہ کو فوراً نزدیکی شہر کے بڑے ہسپتال پہنچایا گیا ۔ ماہر ڈاکٹروں اورسرجنوں کی کئی گھنٹے کی جد و جہد کے بعداس خوف ناک حادثے میں شدید زخمی ہونے والی عورت کی جان تو بچ گئی مگر اس کا چہرہ بُر ی طر ح مسخ ہو چکا تھا وہ دونوں ٹانگوں ،دونوں ہاتھوں اور بصارت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔دو ماہ کے بعد جب وہ ہسپتال سے فارغ ہوئی تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا اور فصلی بٹیرو ں کا کہیں اتا پتا معلوم نہ ہوا ۔اب ماضی کی وہی شاطر حسینہ نہایت بے بسی و بے چارگی کے عالم میں چاندنی چوک کے کنارے بھیک مانگتی ہے ۔اس عبرت سرائے دہر میں رونما ہونے والے ایسے واقعات دیکھ کر دِل دہل جاتا ہے ۔
جھنگ کے نواح میں واقع ایک کچی آبادی میں تایا نثاراپنے کچے گھروندے میں اپنی ضعیف اہلیہ کے ساتھ رہتاتھا ۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں تایا نثار کو تنہائیوں نے ڈس لیا۔اس کی وفا شعار اہلیہ اسی برس کی رفاقت کے بعد چل بسی ۔اس کی سار ی اولاد وطن عزیز کے مختلف شہروں میں کاروباراور ملازمت کے سلسلے میں اپنا گھر بسا چکی تھی ۔اپنی تنہائی کا مداوا کرنے کے لیے تایا نثار نے اپنے گھر کے دروازے کے سامنے ایک چار پائی رکھ لی اور بچوں کے کھانے کے لیے ٹافیاں رکھ لیں۔ اب جس کا جی چاہتا وہ ٹافیاں اُٹھا کر کھا لیتا تایا نثار نے تو سب سامان سجا کر چارپائی پر رکھ دیا تھا ۔ وہ سب کا تایا تھا اور سب کا ہم سایہ بھی تھا ۔کم سن بچے آتے اسے سلام کرتے اور اپنی پسند کے مطابق ٹافیاں اُٹھا لیتے ۔کچھ بچے ٹافیوں کے پیسے چارپائی پر رکھ دیتے اور کچھ فردا کے ذکر پر چل دیتے ۔تایا نثار چپ چاپ بیٹھا رہتا اور دل ہی دل میں درود پاک کا ورد جاری رکھتا ۔
جمعہ کا دِن تھا تایا نثار نے مقامی مسجدمیں نماز جمعہ ادا کی۔وہ حسب معمول ہشاش بشاش دکھائی دے رہا تھا ۔ دعا کے بعد اس نے اپنے معتمد ساتھیوں گدا حسین افضل ،احمد بخش ناصر اورفیض محمد خان سے کچھ باتیں کیں ۔اس کے بیٹوں، بیٹیوں اور قریبی رشتہ داروں کو بُلا لیا گیا۔عشاکے وقت سب گھر مہمانوں سے بھر گیا اس نے خود اپنے مہمانوں کے قیام و طعام کا مناسب انتظام کیا ۔تایا نثار نے سب مہمانوں سے ملاقات کی اور انھیں رازداری سے یہ بتایا کہ میرا دمِ آخریں بر سرِ راہ اور میرے عزیزواب تو اﷲ ہی اﷲ ہے ۔یہ کہہ کرتایانثار قبلہ رو ہو کر چارپائی پر لیٹ گیااور بلند آواز سے کلمۂ طیبہ کا ودر شروع کر دیا ۔سب حاضرین نے بھی کلمہ طیبہ کا وِرد جاری رکھا ۔چند لمحوں کے بعدایک آوازہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ۔تایا نثار عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا رگیا ۔اناﷲ و انا الیہ راجعون۔
تایا نثار کی وفات کی خبر سن کر شہر کا شہر سوگوا رتھا۔اس کے جنازے میں ہر مکتبہٗ فکر سے تعلق رکھنے والے افرادکی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔اس موقع پرایک شخص نے آغا شورش کاشمیری کے یہ اشعار پڑھے تو سب لوگ زار و قطاررونے لگے :
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیالِ خاطر ِ احباب واہمہ ٹھہرے
اِس انجمن میں کہیں رسمِ دوستی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے

Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 607458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.