کیا ایل ایس ڈی گولیوں سے انسان مزید ذہین ہو جاتا ہے؟

ایل ایس ڈی مائیکرو ڈوز سے دماغی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کا امریکا میں یہ ایک نیا رجحان ہے۔ کیا واقعی یہ ’جادوئی دوا‘ انسانی ذہانت میں اضافہ کر دیتی ہے اور کیا ان ’معجزاتی گولیوں‘ کے منفی اثرات بھی ہیں؟

یہ ’جادوئی دوا‘ امریکا کی کاروباری شخصیت پاؤل آسٹن نے دریافت کی ہے۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ایل ایس ڈی کھانے کے پینتالیس منٹ بعد مجھے بہتری محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ میرے لیے مسکرانا اور توجہ مرکوز کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ میرے لیے نئے منصوبوں پر کام کرنا، لکھنا آسان ہو جاتا ہے، نئے خیالات تیزی سے جنم لیتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لیے یہ عام طور پر چیزوں کو آسان بنا دیتی ہے۔‘‘
 

image


ایل ایس ڈی کی ایک خوراک صرف چھ سے بیس مائیکروگرام کی ہوتی ہے۔ دماغی صلاحیتیوں کو تیز کر دینے والی اس دوائی کے مالک پاؤل آسٹن امریکا بھر میں مشہور ہیں۔ کیا یہ صرف امریکی رجحان ہے؟ ایسا لگتا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ایسے افراد موجود ہیں، جن کو یہ ڈرگ اچھی لگتی ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک جرمن خاتون کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’میں نے اسے استعمال کیا ہے، یہ زبردست ہے۔‘‘ اسی طرح ایک دوسرے یورپی صارف نے بتایا، ’’میں یہ گولیاں مزید باصلاحیت ہونے کے لیے نہیں بلکہ خوشی کے لیے لیتا ہوں۔‘‘ ایک خاتون کا اپنی رائے دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرا دماغی کام زیادہ ہے، اس لیے میں اسے آزمانا چاہتی ہوں۔‘‘

دماغی صلاحیت بڑھانے کی تلاش نئی نہیں ہے۔ یہ کہانی دوسری عالمی جنگ سے شروع ہوتی ہے۔ جرمن فوجیوں کے لیے بڑے پیمانے پر پیروینٹین کے نام سے ایمفیٹامین کی گولیاں تیار کی گئی تھیں۔ ان کا مقصد فوجیوں کو باصلاحیت اور چاق وچوبند بنانا تھا۔ اسی دور میں لاکھوں شہریوں نے بھی اسی طرح کی گولیوں کا استعمال شروع کر دیا تھا، جن کی تیاری میں ایمفیٹامین نامی کیمیکل استعمال ہوتا تھا۔

اس وقت ایسی گولیوں کے استعمال کی وجہ سے متعدد ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں جبکہ ان کے منفی اثرات کی وجہ سے ستر کی دہائی میں سوئٹزرلینڈ میں اس کی کھلے عام فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی۔

آج ایسی ادویات کی تعداد کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ ایمفیٹامین اور ایل ایس ڈی کے ساتھ ساتھ ’بیٹا بلاکر‘ اور چاق وچوبند رہنے کی خاطر موڈافینیل جیسی گولیاں موجود ہیں۔ ان میں سے مشہور ترین ریٹالین ہے۔
 

image

دوسری جانب ماہر نفسیات بورس کوئیڈنو جیسے ماہرین کی رائے میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ ایسی ادویات کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا استعمال خطرے سے خالی نہیں۔

زیورخ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات بورس کا کہنا تھا، ’’جب بھی کوئی مادہ لیا جائے تو اس کے نتائج متضاد ہوتے ہیں۔ اس طرح جنسی خواہشات میں اضافے یا چاق و چوبند رہنے کی صلاحیتوں میں تو اضافہ کر لیا جاتا ہے لیکن کئی دیگر صلاحتیں خراب ہو جاتی ہیں۔‘‘

دماغی صلاحیت بڑھانے والی ادویات دماغ کے خلیات کے درمیان قدرتی مواصلات کے عمل میں مداخلت کرتی ہیں۔ اس دوران نیورو ٹرانسمیٹرز کے بہاؤ میں ردو بدل کیا جاتا ہے۔ یہ اعصابی خلیوں کے درمیان رابطے کا عمل تیز کر دیتے ہیں۔ اس طرح دماغی سرگرمیوں میں تو اضافہ ہو جاتا ہے لیکن ان کے نقصانات بھی ہیں۔ بورس کہتے ہیں،’’میں کسی کو بھی ایل ایس ڈی استعمال کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا، چاہے وہ تھوڑی ہی مقدار میں کیوں نہ ہو۔‘‘

آسان لفظوں میں دماغی صلاحیتیوں میں اضافے کے لیے ابھی تک کوئی بھی مثالی دوا دریافت نہیں ہوئی ہے۔ بورس جیسے ماہرین نفسیات کے مطابق ایسی ادویات سے بہتر ہے کہ کافی کا ایک کپ پی لیا جائے۔


Partner Content: DW

YOU MAY ALSO LIKE:

LSD (lysergic acid diethylamide), first synthesized in 1938, is an extremely potent hallucinogen. It is synthetically made from lysergic acid, which is found in ergot, a fungus that grows on rye and other grains. It is so potent its doses tend to be in the microgram range.