شکریہ پاکستان‘ شکریہ افواج پاکستان ۔ایک خوبصورت شام شہدا کے نام

پاکستان میڈیا کونسل کے زیر اہتمام شہدائے پاکستان ،یوم دفاع کے حوالے سے افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک خوبصورت شام (شکریہ پاکستان شکریہ افواج پاکستان) کا اہتمام اسکاؤٹ آڈیٹوریم میں 8ستمبر کی شام کیا گیا جو رات گئے تک جاری رہا۔ پروگرام کے روح رواں امجد انصاری صاحب تھے۔ دیگر احباب اور اداروں نے بھی تقریب کی کامیابی میں کردار ادا کیا۔ قومی نغموں کے علاوہ یوم دفاع پاکستان کے حوالے سے تقاریر کی گئیں۔ تقریب کا ایک خاص پہلو صحافت (پرنٹ و برقی میڈیا)، تعلیم، دینی، سماجی خدمات ، کالم نگاری اور دیگر شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کی خدمات کو سراہانا اورانہیں سندھ کی روائیتی اجرک کا تحفہ اور ایوارڈسے نوازنا شامل تھا۔ تقریب وقت مقررہ سے کوئی ایک گھنٹہ دیر سے شروع ہوئی ، عام طور پر ہمارے ہاں تقریبات کے آغاز کا ایک گھنٹہ قبل کا وقت دیدینا ایک غلط روایت بن گئی ہے۔ اس سے منتظمین کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ وہ تو پہلے ہی سے ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہوتے ہیں اور اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ دیگ میں پانی خوب گرم ہوجائے جوں ہی پھانپ نکلنا شروع ہو کارائی کا آغاز کیا کیا جائے۔ اب تو شرکاء محفل بھی اس کے عادی ہوگئے ہیں چنانچہ اکثریت ایک گھنٹہ لیٹ پہنچتی ہے مشکل میں وہ چند اصول پسند ہوتے ہیں جو تقریب میں مدعو کرنے والے کی بات کا پاس رکھتے ہوئے وقت مقررہ پر تقریب گاہ پہنچ جاتے ہیں، جہاں پر خالی آڈیٹوریم اوراکا دکا نچلے درجے کے منتظمین بینر لگاتے، جھنڈیاں سجاتے اوراسٹیج پرکرسیاں سجاتے استقبال کرتے ہیں۔ یہ حال عموماً ہماری تقریبات کا ہے۔ سو یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ پروگرام ہر اعتبار سے عمدہ تھا۔ میزبان خوبصورت لباس و خوش گفتار تھے نے سب سے زیادہ اپنی میزبانی کے جوہر دکھائے ،جھوم جھوم کر پورے اسٹیج پر معزز آنے والے مہمانوں کے استقبال میں ہر وہ جملہ خوبصورت انداز سے ادا کیا جو ممکن ہوسکتا تھا۔ خاص طور پر اگر کسی مہمان سے ان کا کوئی تعلق رہا ہوتا تو پھر تو انہوں نے اس تعلق کا خوب خوب چرچا کیا۔ اچھا اور خوب بولے۔ میز بان کو وقت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ اس طرح کہ تقریب شروع سے آخر تک ایک انداز اور ایک رفتار سے جاری رہے، ہر ایک کی تعریف و توسیف میں یکسانیت ہو۔ کسی کے لیے بے انتہا تعریفی کلمات اور کسی کے نام، مقام و مرتبہ کی ادائیگی میں کثر نفسی سے کام لینے سے تقریب میں اعتدال نہیں رہتا۔ کئی مذہبی شخصیات بھی تقریب میں موجود تھیں۔ قلم تو جیب میں تھا البتہ کاغذ نہ ہونے کے باعث نام و تفصیل نوٹ نہ کرسکا۔ اس کا بعد میں افسوس رہا۔

مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں کو سندھی اجرک اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہمارا تعلق بھی لکھاریوں کے قبیلے سے ہے۔ اس عمل کو جاری و ساری ہوئے پانچ دیہائیاں ہوچکی ہیں ۔ 1978ء میں لکھنے کا آغاز ہوا سو اب تک جاری ہے۔مختلف علمی ، ادبی ، صحافتی اداروں اور تنظیموں سے بھی وابستگی اس طرح ہے آن لائن لکھاریوں کی ایک تنظیم ’ہماری ویب رائیٹرز کلب‘ سے ہم کئی سالوں سے وابستہ اوراس کے صدر بھی ہیں۔ صحافیوں کے قبیلے سے بھی ہم جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ(PFCC)سے کئی سال پرانا تعلق ہے، اس کی سپریم کونسل کے رکن ہیں۔انجمن ترقی اردو کے تاحیات رکن اور اس کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں، ادب میں شخصیات اور صحافت میں کالم نگاری ہمارا خاص میدان عمل ہے۔ حال ہی میں ہمارے کالموں کا مجموعہ ’’رشحاتِ قلم‘‘ کے عنوان سے فضلی بک سپر مارکیٹ کراچی نے شائع کیا۔ اس مجموعہ میں روزنامہ ’’جناح‘‘ میں شائع ہونے والے کالم شامل ہیں۔ اب زیادتر کالم روزنامہ آزاد ریاست، دیگر اخبارات کے علاوہ سہ ماہی ’سلسلہ‘، ہماری ویب، دانش اور دیگر ویب سائٹ میں شائع ہوتے ہیں۔یہ مختصر سی تمہید وجہ بنی میری اس پروگرام میں شرکت کی۔ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ کے عہدیداران خاص طور پر قیصر محمود ، احتشام شامی، منصور احمد خان مانی اور مزمل احمد فیروزی نے ہی مجھ جیسے کالم نگار کو بھی اس تقریب میں نہ صرف مدعو کیا بلکہ میری خدمات کے اعتراف میں شیلڈ کا بھی اہتمام کیا۔ جس کے لیے میں پاکستان میڈیا کونسل اور پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ کا بے حد ممنون ہوں۔مزمل احمد فیروزی کی محبت ہے کہ وہ مجھے اکثر اس قسم کے پروگراموں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ مجھے ہی نہیں بلکہ دیگر احباب کو بھی شرکت پر مجبور کردیتے ہیں۔ پی ایف سی سی کی ایک مختصر سی ٹیم ہے جو مقدور بھر صحافتی خدمات میں مصروف ہے۔ پروگرام میں شرکت ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ پروگرام کے بعد اس پروگرام پا کالم بھی لکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ تاکہ بات نشست وبرخاست تک محدود نہ رہے بلکہ تقریب میں ہونے والی با معنی گفتگو ،تقریب کا ماحول ہوا میں نہ اڑ جائے بلکہ قلم بند ہوجانے کے بعد تادیر محفوظ ہوجائے اور وقت ضرورت اس سے استفادہ بھی کیا جا سکے۔ تقریب میں شعبہ صحافت و سماجی بہبود کے حوالے سے متعدد مہمانان گرامی موجود تھے ۔ سندھ کے محکمہ اطلاعات کی ڈائریکٹر محترمہ ذینت جہاں اور دیگر معزز مہمانان نے ایوارڈ تقسیم کیے۔تقریب کی خاص بات قومی ترانہ اور شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تمام احباب اپنی اپنی نشستوتوں سے کھڑے ہوگئے اور ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی۔ اس طرح یہ پروقار تقریب رات گئے اپنے اختتام کو پہنچی۔(۹ستمبر۲۰۱۸ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278659 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More