بدھا کے دیس میں

گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی کسی اچھی سی جگہ پر تعطیلات گزارنے کی خواہش ہماری فیملی کے دل میں کلبلانے لگی۔سعودی عرب کے صحرائی ماحول سے دور کسی سر سبز اور ٹھنڈے ملک کا انتخاب ہم سب کی اولین ترجیح تھی جو زیادہ دور بھی نہ ہو۔ ترکی کافی عرصے سے سب گھر والوں کی ہٹ لسٹ میں تھا۔سفر کی ضروری کاروائی پر معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ترکی کے ویزا کے حصول میں کافی وقت درکار ہے۔ جبکہ ہم سب ہر صورت میں عید کہیں ریاض سے باہرگزارنا چاہتے تھے۔ دوبارہ تلاش شروع ہوئی۔ انٹر نیٹ اور دوستوں سے معلومات لینے کے بعد قرعہ فال سری لنکا کے نام کا نکلا۔دو تین دن کے اندر ہمیں ای-ویزا ایشو کر دیا گیا۔ایک دفعہ پھر انٹرنیٹ پر سری لنکا کے لئے تمام ٹور پیکجز کو کھنگالنا شروع کیا۔ وہاں کے تمام قابل دید مقامات اور گوگل میپ کو دیکھنے کے بعد ایک پیکج کا انتخاب کیا، اپنی مہم جو فطرت کے مطابق اس میں کچھ تبدیلیاں کروائیں ۔جون کے قدرے مرطوب موسم کو دیکھتے ہوئے آثار قدیمہ کا انتخاب کرنے سے گریز کیا ۔ اس کے بعد زور شور سے وہاں کے موسم اور ضروریات کے مطابق تیاری شروع کر دی۔اور چند ہی دن کے بعد ہم سری لنکا کی طرف عازم سفر ہو گئے۔
سری لنکا شمالی بحر ہند میں ایک جزیرہ ہے جوجنوبی ایشیا کی قدیم تہذیب کا امانت دار اور اپنی نوعیت کی واحد مملکت ہے۔ 1972ء سے قبل اس علاقے کو جزیرہ سیلون بھی کہتے تھے۔1948ء میں سری لنکا برطانوی تسلط سے آزاد ہوا کولمبو جو برطانوی راج میں دارالسلطنت تھا، آج بھی سری لنکا کا دارالحکومت ہے۔ تھیرواد بدھ مت سری لنکا میں سب سے بڑا مذہب ہے، جو کل ملکی آبادی کے 70 فی صد ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اشوکا کے ایک بیٹے "ماہندہ " نے یہاں بدھ مت کی تبلیغ شروع کی اس کے بعدبہت جلد یہ علاقہ بدھ مت کا مرکز بن گیا۔بدھ مت کے پیروکاروں کے علاوہ یہاں مسلمان اور عیسائی بھی موجود ہیں ۔دور جدید میں، اسلام سری لنکا کا تیسرا بڑا مذہب ہے مسلمان 9.7 فی صد ہیں ۔سری لنکا کی اسلامی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود اسلام، کیونکہ اس سرزمین کے ساتھ عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات قائم تھے اور ہندوستان کی فتح سے قبل ہی بحری عرب تجار یہاں پر اسلام کو روشناس کراچکے تھے۔ تا ہم باقاعدہ مسلمانوں کی تاریخ یہاں اس وقت شروع ہوئی، جب جنوبی ہندوستان کے راستے نور اسلام کی کرنیں یہاں پہنچنا شروع ہوئیں۔
اس ملک کے بارے میں مشہور ہے کہ آدم علیہ السلام کو بھی سری لنکا میں ایک پہاڑ پر اتارا گیا تھا۔(یہ پہاڑ Adam Rock کے نام سے مشہور ہے ہمارے ٹور مینجر کے مطابق جون میں یہ تیز ہواؤں کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بند کر دیا جاتا ہے اس لئے ہم وہاں جانے سے محروم رہ گئے) یہ ملک دریا، پہاڑ، میدان، سمندر اور جنگلات جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں اس کے علاوہ ہر قسم کے قدرتی مناظر اور پرانے زمانۂ قدیم کے آثار کو ملا کر وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک سیاح خواہش رکھتا ہے۔ اگر آپ باہر کےممالک کی سیر کرنا چاہتے ہیں، تو اس مرتبہ سری لنکا ضرور ہو آئیں۔
نیا ملک اور نئی جگہیں دیکھنے کے جوش کے ساتھ ہم ریاض سے روانہ ہوئے۔راستے میں دوبئی میں چند گھنٹے قیام کیا اور اس کے وسیع و عریض اور جدید ائیر پورٹ کی بھول بھلیوں میں چکر کاٹنے کے بعد متعلقہ ٹرمینل کے سامنے جا کر فروکش ہو گئے۔جلد ہی کولمبو کے لئے ہمارے سفر کا آغاز ہو گیا۔
² کولمبو
مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجے کے لگ بھگ ہم نےاپنی آنکھوں اور دل میں انتہائی اشتیاق لئے ہوئے سری لنکا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ بندرا نائیکےکولمبو ائیر پورٹ کی عمارت تو دوبئی کے مقابلے میں کچھ نہ تھی مگر سروس لاجواب تھی۔ اردگرد بے شمار سیاح نظر آ رہے تھے، دل میں سوچا کہ نامعلوم اور کتنی دیر یہاں سے باہر نکلنے میں لگ جائے گی کیونکہ پہلے کئی دفعہ ہمارے ساتھ ایسا ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے عین برعکس کچھ ہی دیر میں امیگریشن کی تمام کاروائی مکمل ہو گی اور ہم سامان والی بیلٹ کی طرف یہ سوچ کر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوئے کہ پچھلے تجربات کی روشنی میں سامان آنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو کہیں نہیں گیا۔ لیکن دو منٹ کے اندر اندر بیلٹ پر ہمارا سامان آنا شروع ہو گیا اور اگلے پانچ منٹ میں ہم ائیر پورٹ سے باہر تھے۔ یہ تھا سری لنکا سے ہمارا پہلا تعارف جو نہایت خوش گوار رہا۔ اس کے بعد اگلے نو دن تک ہمیں اسی طرح کی خوش گوار حیرتوں کے جھٹکے لگتے رہے۔
ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو موسم کافی مرطوب تھا جو کہ ہماری انٹر نیٹ کی معلومات کے عین مطابق تھاکہ جون میں وہاں کا موسم پندرہ دن بارش کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا۔ لیکن آگے چل کر یہ تجربہ بھی نہایت خوشگوار ثابت ہوا۔ ایک تو سری لنکا کی گرمی سعودی عرب اور پاکستان کی طرح کاٹ دار نہ تھی ،گاہے بگاہے ہونے والی بارش کی وجہ سے قابل برداشت تھی ۔سچ پوچھیں تو سعودی عرب میں سال بھر میں ایک دفعہ بارش دیکھنے والے ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ ایک آئیڈیل ماحول تھا ۔ سری لنکا کی شاپنگ میں ہم نے سب سے پہلےچھتریاں ہی خریدی تھیں یہ الگ بات ہے کہ سوائے ایک آدھ بار کے ان کے استعمال کاموقع ہی نہ ملا۔ ہوٹلز میں ٹھہرنے والوں کے لئے ہر جگہ کمروں میں چھتریاں موجود تھیں۔ میں سری لنکا کی بارش کا بھی تعارف کروا دوں کہ پاکستان کی طوفانی قسم کی بارشوں کے برعکس وہاں نہایت تمیز دار بارش ہوتی ہے کم از کم ہمارے ہوتے ہوئے تو ایسی ہی ہوئیں، تھوڑی دیر کو بوندا باندی ہوئی اور پھر ختم۔ کہیں پر بھی کسی کا کوئی کام متاثر نہیں ہوتا۔ چھتری ہر وقت ہر بندے کے ہمراہ ہوتی ہے اور یوں ہی ہر جگہ زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ آپ آرام سے اپنے شیڈول کے مطابق کام جاری رکھیں۔
ائیرپورٹ کے باہرٹور پیکج والوں کی طرف سے بھیجا گیا ہمارا ڈرائیور، بہت سے دوسرے ڈرائیور حضرات کے بیچ میں ہمارے نام کا پلے کارڈ اٹھائے ہمارا منتظر تھا۔ سمارٹ سا سری لنکن خدوخال والا ایک مہذب سا نوجوان، جس کی معیت میں ہم نے سری لنکا کے طول و عرض کی سیر کی۔ وہ ایک ڈرائیور ہونے کے ساتھ ایک بہترین گائیڈ بھی تھا۔ اس نے انتہائی پروفیشنل انداز میں شستہ انگریزی میں ہمیں ہر جگہ کی معلومات فراہم کی اور پورے سفر کے دوران کہیں شکایت کا موقع نہ دیا۔۔۔یہ بھی ہم سب کے لئے حیرت کا ایک خوشگوار جھٹکا تھا۔ہمیں فراہم کی گئی گاڑی بھی حسب وعدہ نہایت آرام دہ ، capaciousاور ائرکنڈیشنڈ تھی اور سامنے ڈیش بورڈ پر مہاتما بدھ کی ایک چھوٹی سے سفید مورتی رکھی ہوئی تھی۔اب بدھا کے دیس میں آئے ہیں تو بدھا تو ہمراہ ہوں گے ہی!!
ہم پانچ لوگ اپنے چھ صندوقوں سمیت اس پر سوار ہو کر ایک ایک سیٹ پر نیم دراز ہو گئے۔ سفر شروع ہوا، باہر کا منظر بھی نہایت حسین تھا، کہیں بارش، کہیں جھیلیں اور ہر جگہ پھیلے ہوئے سرسبز درخت، نگاہوں کو بہت بھلے لگ رہے تھے۔ کولمبو کی شہری آبادی شروع ہوئی تو منظر اپنا اپنا سا لگنے لگا۔ ایسا لگا کہ جی ٹی روڈ پر جہلم سے لاہور کا سفر جاری ہے، ٹریفک کا اژدہام، سڑک کے دونوں طرف چھوٹی دکانیں اور سٹورز اور چلتے پھرتے اور کام میں مصروف لوگ۔ ہیلمٹ کے بغیر کوئی ایک بھی موٹر سائیکل سوار نظر نہیں آیا۔ ڈرائیور سے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ اس سارےمنظر میں ایک چیز مختلف تھی، وہ تھی وہاں کی عورتیں جو ڈھیلی ڈھالی اسکرٹ یا جینز اور شرٹ میں ملبوس بڑی تعداد میں نظر آرہی تھیں۔
میں نے سری لنکا میں چھوٹی دکانوں، بڑے سٹورز، فیکڑیز (ہم نے ایک ٹی فیکڑی کا بھی دورہ کیا تھا)، ہوٹلز کے استقبالیہ سے لیکر کچن تک، دفاترہر جگہ عورتوں کو مصروف کار دیکھا۔ جو بوڑھی عورتیں کچھ اور نہ کر سکتی تھیں، ان کو پورے سفر میں دیکھا کہ وہ سڑک کے کنارے ٹھیلہ لگائے یا چھابڑی میں مقامی پھل فروخت کر رہی تھیں ، ان کے لباس سیدھے سادے تھے، کسی قسم کے میک اپ سے بےنیاز وہ اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھیں اور کوئی ان کو گھور تک نہ رہا تھا ۔ نہ وہ خود کو دکھا رہی تھیں نہ کوئی ان کو دیکھ رہا تھا بلکہ سری لنکا کی سڑکوں پر آپ کو خواتین بھی بکثرت موٹر سائیکل، ٹرک، بسیں اور ویگنیں چلاتی نظر آئیں گی۔۔۔۔۔یہ تھا حیرت کا ایک اور جھٹکا کہ یہاں عورتیں، مردوں کے شانہ بشانہ معاشی تگ دو اورقومی ترقی میں شامل ہیں۔
جلد ہی کولمبو کے ساحل سمندر کے پاس بلند عمارتوں کا جدید علاقہ شروع ہو گیا ان ہی میں سے ایک سری لنکا میں ہماری پہلی قیام گاہ تھی ۔ ہمیں ایسی عمارتوں سے تو کوئی دلچسپی نہ تھی کہ وہ ریاض میں بہت ہیں ۔ہاں سمندر ہماری نگاہوں کا مرکز تھا۔کمرے میں پہنچ کر چائے کافی اور ہلکےپھلکے سنیکز کھا کر کچھ دیر آرام کے لئے لیٹ گئے۔ اس آرام کے بعد سب تازہ دم ہو گئےعصر کے بعد ہم نے ساحل سمندر جانے کے لئے تیار تھے باہر ہلکی ہلکی بارش جاری تھی جو کہ سری لنکا کا خاصہ تھی۔ ہم نے نہایت شوق سے چھتریاں اٹھائیں اور باہر کا رخ کیا۔ راستے میں پزا ہٹ سے اپنی اپنی پسند کا پزا آرڈر کیا اورڈٹ کرکھایا۔باہر نکلے اور پانچ منٹ کی واک کی بعد ہم ساحل پر پہنچ گئے۔
اس علاقےکو گال فورٹ کہا جاتا ہے۔راستے میں سری لنکا کی پارلیمنٹ کی پرانی پرشکوہ عمارت بھی نظر آئی جو کہ 1930 سے لیکر 1983 تک زیر استعمال رہی ۔ یہ عمارت کافی حد تک یورپی طرز تعمیر کی عکاسی کر رہی تھی کیونکہ اس کو سری لنکا پر برطانوی راج کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ اب اس کو صدارتی سیکریٹریٹ کےطور پر استعمال کیا جاتا ہے۔عمارت کے وسیع و عریض لان میں کئی کانسی کے مجسمے نصب تھے جو کچھ پرانے وزراء اعظم اور برطانوی راج کے دوران بنائی گئی قانون ساز اسمبلی میں پہلے سری لنکن نمائندے کی یاد میں بنائے گئے ہیں۔کچھ دیر ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد ہم آگے بڑھ گئے۔

اولڈ پارلیمنٹ بلڈنگ،کولمبو

بارش تھم چکی تھی، ٹھنڈی اور پرسکون ہوا چل رہی تھی سورج غروب ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ سامنےٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے خالق کی طاقت کی گواہی دے رہا تھا۔دیر تک ہم وہاں گھومتے رہےسمندر پر ڈوبتا ہوا سورج اور منہ زور موجیں۔۔کیا منظر تھا!! میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کو اپنے اندر اور اپنے کیمرے میں سمو لیا۔ مغرب کا وقت ہو ا تو واپسی کی راہ لی۔
رات کا کھانے پر ہم میاں صاحب کے ایک سری لنکن دوست کی طرف سے قریب ہی ایک اور ہوٹل میں مدعو تھے۔ تیار ہو کر وہاں پہنچے۔اس ہوٹل کے اندر ایک پوری دنیا آباد تھی، انٹر کانٹی نینٹل کھانوں کے علاوہ ہوٹل کے ایک حصے میں مدھم روشنیوں میں بسےایک چھوٹے سےجنگل کے بیچوں بیچ مختلف ہٹس بنے ہوئے تھے ، انہی میں ایک بہت قدیم برگد کے درخت کے نیچے ایک ہٹ میں ریسٹورنٹ بھی بنا تھاجہاں پورے ماحول، یہاں تک کہ کام کرنے والوں کے لباس سے بھی مکمل طور پر سری لنکا کےکلچر اور ثقافت کی عکاسی کی گئی تھی،یہی سب تو ہم دیکھنا چاہتے تھے۔
کچھ دیر جنگل میں نایاب قسم کے بے شمار پودوں اور درختوں میں گھومنے کے بعد بھوک کا احساس ہوا تو ریسٹورنٹ کا رخ کیا ۔ویٹرز نے مسکراتے ہوئےذرا سا جھک کر"آئبوان Ayubowam" کہہ کر ہمیں خوش آمدید کہا۔ مطلب پوچھا تو بتایا گیا کہ اس سے مرادہے May you live long اس کے بعد میں جس غیر مسلم سری لنکن سے ملی اس کو آئبوان ضرور کہا۔کھانے والے ہٹ میں انواع و اقسام کے کھانے ہمارے منتظر تھے، ہر طرح کی سمندری مخلوق، سبزیاں ، چاول اور گوشت سے بنی ڈشز مٹی کےبرتنوں میں موجود تھیں۔ان کے ساتھ ناموں کی تختیاں پڑھ پڑھ کر آکٹوپس،کریب اورشارک سے آنکھیں چراتے ہوئےاپنی پسند کی کچھ چیزیں منتخب کیں۔ کھانے کے ساتھ پھلوں کا تازہ جوس آرڈر کیا گیا۔ پہلی دفعہ Passion (اسکا کوئی اور نام معلوم نہیں، باہر سےدیکھنے میں یہ ہمارے امرود جیسا تھا مگر اندر سے بالکل مختلف تھا ،تصویر موجود ہے) نام کے ایک مقامی پھل کا لذیذجوس پیا اور اس کے بعد اس کی محبت میں اتنے جذباتی ہوئے کہ ہر دن پیا۔ میں نے " ناریل کنگ " بھی آرڈر کیا کیونکہ یہ میرے لئے ایک نئی چیز تھی لیکن کچھ خاص پسند نہ آیا۔
کھانے کے بعد Dessertsوالے ہٹ کی طرف رخ کیا۔یہاں بھی ہر طرح کی مقامی مٹھائی اور پھل موجود تھے ۔ خاص طور پر پھلوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا بلکہ وہاں کے انتہائی میٹھے آم، مالٹے رنگ کے پپیتے اور تربوز کے ساتھ آخری دن تک دوستی نبھائی اور کسی دن ان کے بغیر اپنا ناشتہ اور ڈنر مکمل نہیں کیا۔قدرت نے سری لنکا کو بےشمار اقسام کے پھلوں سے نوازا ہے۔ صرف کیلےکو ہی لے لیں اس کی تقریباً 22مختلف اقسام وہاں پائی جاتی ہیں۔ ناریل، پپیتا،آم،تربوز وغیرہ کے علاوہ میں نے وہاں ایسے بے شمارپھل بھی دیکھے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ رات کافی ہو چکی تھی۔ ایک بھرپور اور نئی دنیا میں اتنا اچھا وقت گزارنے پر اللہ کا شکراور اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد واپسی کی راہ لی ۔


PASSION FRUIT PAPAYA

اگلی صبح کو ہوٹل کے بوفے ناشتہ سے لطف اندوز ہوئے دیگر بےشمار قسم کے انٹر کانٹینٹل کھانوں میں سے مجھے سوپ نما روایتی ڈش بہت پسند آئی جو کہ ناریل کے دودھ اور خاص قسم کے چاول سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سری لنکاکی Specialty انڈے اور چاول کے آٹے اور ناریل کے دودھ سے بنے کریپ کے اندر پکا ہوا انڈہ تھا، جس کو Egg hopper کہتے ہیں(تصویر دیکھیے)۔اس کو ایک خاص قسم کی چھوٹی سی کڑاہی میں پکایا جاتا ہے۔اگلے ہر ناشتے میں یہ بھی میراساتھی رہا۔میں نے دیکھا کہ ناریل سری لنکن کھانوں کا خاص جزو تھا، ہر روز ناریل سے بنی ہوئی نت نئی اور لذیذ ڈشز نظر آتیں جو اس سے پہلے میں نے کبھی نہ کھائی تھیں۔

EGG HOPPER
² سگیریا
ناشتے کے فوراً بعد ہم سگیریا (Sigiriya) روانہ ہوئے ،سامان پہلے ہی تیار تھا۔ یہ ایک تاریخی مقام ہے جو کولمبو سے تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پرسب سے زیادہ سیر کرنے والی جگہ ہے۔سگیریا کے قدیم محلات میں داخل ہونے کے لئے سیاحوں کو ٹکٹ لینا پڑتا ہے اور سارک ممالک کے لئے اس میں خاص رعایت ہےلیکن یہ رعایت صرف پاسپورٹ دکھانے پر ہی ملتی ہے اور یہ رعایت ہمیں بھی ملی۔ اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی اس قدر پر دلی خوشی محسوس ہوئی۔اگر آپ کاوہاں جانے کا پلان ہو تو پاسپورٹ ضرور ساتھ رکھیں۔ ٹکٹ لینے کے بعد ہم قدیم شہر کے کھنڈرات کی طرف بڑھے جو کہ ایک بہت بڑی مستطیل چٹان کے اوپر اور اردگرد واقع ہیں۔ایک گائیڈ کو اپنے ساتھ رکھا جس نے چھوٹتے ہی سینہ بہ سینہ منتقل شدہ معلومات طوطے کی طرح فرفر منتقل کرنا شروع کر دیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہ کشیاپا (477ء تا 595 ٫عیسوی)نے اس جگہ اپنا محل اور قلعہ تعمیر کروایا۔اس کی پانچ سو بیگمات تھیں اور بادشاہوں کی عادت کے عین مطابق اس نے بادشاہت کسی اور بادشاہ سے چھینی تھی لہذا وہ اپنی سلطنت بچانے کے لئےبہت فکر مند رہتا تھا اس لئے اس نے اپنا محل اس دیو قامت پتھر پر بنوایا۔ یہ پتھر660 فٹ اونچا ہے۔اس کو Lion Rockیا شیر والی چٹان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے چاروں طرف گھنے جنگلات ہیں۔اس کے سامنے کھڑے ہو کر میں نےکچھ دیر چشم تصور سے دیو ہیکل چٹان پر اور اس کے اردگرد محلات کا نظارہ کیا۔ دیکھنے والوں کے لئےکیا ہی مرعوب کن منظر ہوتا ہو گا! ایسے کئی بادشاہوں کے ذکر سے تاریخ کے گرد آلود صفحات اٹے پڑے ہیں اور اب ان کے محلات کے کھنڈرات "دیدہ عبرت نگاہ" بنے ہمیں دنیا کی بےثباتی کا درس دے رہے ہیں۔۔ ۔۔۔۔بے شک"كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ۝ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ" (جو کوئی بھی زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہےاور تمہارے پروردگار کی ذات جو کہ صاحب جلال و عظمت ہے، باقی رہے گی) مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے!!

LION ROCK
گو کہ ہمیں اس سلطنت کی بادشاہی سے کوئی دلچسپی نہ تھی تاہم ہم نے اسکو سر کرنے کا ارادہ کیا۔ اور پتھر اور سرخ اینٹوں سے بنی قدیم سیڑھیوں کی طرف بڑھے سیڑھیوں خاص قسم کےسفید ماربل سے بنی ہوئی تھیں جو گائیڈ کے مطابق اندھیرے میں بھی روشن ہوتی ہیں۔جن کے دونوں جانب غار بنے ہوئے تھےجو پرانے زمانے میں مختلف اجلاسوں کے لئے ہال کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اس پتھر کے ایک طرف سیڑھیاں اوپر کو چڑھتی ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ آرام کے لئے بالکونیاں بنی ہوئی ہیں جو شاید شاہی خاندان کے افراد کے آرام کےلئے کام آتی ہوں گی ہم نے بھی اس شاہی روش کو اپنایا اور جگہ جگہ رکتے ہوئے آگے بڑھے۔
راستے میں ایک غار میں ایک ہاتھ سے بنی ہوئی پینٹنگز کی گیلری موجودتھی جو کہ مذکورہ بادشاہ کے حکم پر بنائی گئی تھی ۔ذرا سا اندر جا کر دیکھا تو دیواروں پرعورتوں کی ایسی تصاویر بنی تھی جو بادشاہ کی عیاش پسند طبیعت کی غمازی کر رہی تھی۔گائیڈ نے بتایا کہ بادشاہ نے اپنی تمام500 بیویوں کی تصاویریہاں بنوائی تھیں جو بعدمیں بدھ راھبوں نے تباہ کر دیں یعنی کہ یہ ایک بہت بڑی گیلری تھی۔نہ جانے بادشاہ سلامت کو اتنی ساری زندہ بیویوں کے ہوتے ہوئے، ان کی تصاویر بنانے کا خیال کیونکر آیا۔ بہرحال ہم نےان پر نظر ڈالتے ہی لاحول پڑھا اور فوراً باہر کی راہ لی اور مزید آگے چڑھنا شروع کر دیا۔
پینٹنگ وال سے ذرا آگے مرر وال یعنی دیوار آئینہ ہے۔جہاں دراصل کوئی آئینہ تو نصب نہیں بلکہ خاص قسم کا سفید پینٹ کیا گیاہے شاید جب یہ بنا ہو گا تو اس قدر نفیس ہو گا کہ اس میں بادشاہ سلامت اپنا عکس دیکھتے ہوں گے۔ امتداد زمانہ کے بعد اب یہ صرف نام کا آئینہ رہ گیا ہے۔ اس دیوار پر صدیوں پرانے اشعاربھی لکھے ہوئے ہیں جن کی تاریخ آٹھویں صدی تک جا ملتی ہے۔( خیر وال چاکنگ میں تو ہماری قوم بھی کسی سے پیچھے نہیں آپ جانتے ہیں اور مورخ ہماری دیواروں کے کھنڈرات دیکھ کر یقیناً یہی لکھے گا کہ اس خطے میں زنانہ و مردانہ پوشیدہ بیماریوں کے سب سے زیادہ کلینک پائے جاتے تھے)۔
ہمارااوپر پہنچنے کا سفر جاری تھا۔ سیاحوں کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں سفید لباس میں ملبوس طالب علم بھی نظر آ رہے تھے۔ پتہ چلا کہ بدھ مت میں سفید رنگ کو مقدس رنگ سمجھا جاتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے لڑکے لڑکیاں اور اساتذہ سبھی سفید رنگ کے کپڑے اور ساڑھیاں پہنتے ہیں۔ اوپرچڑھتے ہوئے آدھے راستے میں ایک چپٹی جگہ آتی ہے جہاں سے محل کی جانب دروازہ نما راستہ ہے جس کے دونوں جانب شیر کے پنجے بنے ہوئے ہیں۔ ان کی نسبت سے ہی اس کو لائن راک کہا جاتا ہے۔(تصویر دیکھیے) جلد ہی ہم چٹان کے اوپر پہنچ گئے قدیم محلات کے چند نشانات دنیا کی بے ثباتی کے نشان کے طور پر موجود تھے۔آس پاس کچھ تالاب بھی موجود تھے جو ہمارے گائیڈ کے مطابق بادشاہ اور اس کی بیویوں کے لئے خاص طور پر بنائے گئے تھے۔
یہ سب داستان جان کرمیرے دل میں کھٹک سی لگ گئی کہ ضرور اس عیاش بادشاہ کا انجام عبرتناک ہی ہوا ہو گا۔ کچھ کھوج کی تو یہ بالکل درست نکلا۔ کہتے ہیں کہ موگالان بادشاہ جس سے اس بادشاہ نے سلطنت چھینی تھی،خود کو مضبوط کیا اور بڑی فوج اکھٹی کر کے حملہ کیا۔ بادشاہ کشیاپا نے اپنے تئیں ہاتھیوں کا لشکر لے کر آگے بڑھا اور اپنے غرور میں یا شاید کسی حکمت عملی کے طور پر اس قدر آگے چلا گیا کہ باقی فوج سے بچھڑ گیا ۔جلد ہی موگالان کی فوج نے اس کو آلیا پھر اپنے تکبر کی بنا پر اس نے دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی بجائے خود ہی اپنی تلوار پر گر کر اپنی جان لے لی۔تو یہ تھا اس شاندار محل کے مطلق العنان بادشاہ کا خاتمہ! آج دیدہ وروں کے لئے یہ محل کے کھنڈرات ہی نہیں بلکہ بادشاہ کی داستان حیات بھی ایک سبق آموز واقعہ ہے۔

Relics of Palace at Loin Rock
² حبارانا Habarana
سگیریا سے 20 منٹ کی ڈرائیو پر ہماری اگلی عارضی قیام گاہ "حبارانا"میں واقع Cinnamon Lodges تھے۔ داخل ہوتے ہی وہاں کے خوش اخلاق سٹاف نے ہمارا استقبال کیا اور تازہ پھلوں کے جوسز اور اپنے ہوٹل کے نام کی نسبت سے دار چینی کی خوشبو میں بسے چھوٹے تولیے پیش کیے گئے تاکہ ہم دن بھر کی تھکن اتار لیں۔ویسے میری تھکن تو اس جگہ کو دیکھتے ہی اتر چکی تھی۔ گھنے درختوں کے بیچوں بیچ نہایت خوبصورت لاجز بنائے گئے تھے ان میں سے دو لاجز ہمارے لئے بک تھے۔ پاس ہی ایک نہایت خوبصورت" حباراناجھیل" تھی ۔ وہاں کی سمارٹ سی سری لنکن لیڈی مینجر ہمارے پاس آئی اور گپ شپ کے دوران اس نےبتایا کہ اس نے دوبئی سے تعلیم حاصل کی ہے، یہ جان کر وہ مجھے اور اچھی لگی کہ وہ مسلمان ہے اورعمرہ کے لئے سعودی عرب آنا چاہتی ہے۔ اسی دوران ضابطے کی کاروائی مکمل ہو گئی اور ہم نے اپنی آرام گاہوں کا رخ کیا۔
اپنے کمروں میں داخل ہوئےتو بہترین تزئین و آرائش دیکھ کر طبیعت اور خوش ہو گئی۔ چائے پی اور کچھ دیر آرام کے لئے لیٹ گئے۔جب اٹھے تو رات ہو چکی تھی۔باہر کچھ دیر گھومنے کے بعد ڈنر کا ارادہ کیا اور باقی سیر صبح تک موخر کر دی۔ بہت خوبصورت سوئمنگ پول کے کنارے کھانے کا بہت بڑا ہال سیاحوں سے بھرا ہوا تھا اور خوبصورتی اور سجاوٹ میں بھی بے مثال تھا۔ان گنت کھانے اور پینے کی اشیاء کے علاوہ desserts کے آئٹمز کے لئے ایک کمرہ الگ مخصوص تھا۔ ٹور پیکج میں ہمارے لئے روز ناشتے اور ڈنر پر اسی طرح کے بوفے کا اہتمام تھا۔بے شک میرے رب کی نعمتوں کا شمار نہیں "فبای الاءربکما تکذبان"۔
حبارانا ایک ایسی جگہ ہےجہاں سیاح ٹھہرنے کے بعد یہاں سے سگیریا، سفاری ٹور یا ہاتھیوں کے یتیم خانہ(Orphanage) کا دورہ کرتے ہیں۔ہم سگیریا سے گھوم آئے تھے اور سفاری اور یتیم خانہ میں نے اپنے ٹور میں شامل ہی نہیں ہونے دیا تھا۔کیونکہ ایک تو مجھے جانوروں سے کوئی خاص رغبت نہ تھی ۔ دوسرے جب سے انٹر نیٹ پر ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں ہاتھی نے اپنے ساتھ سیلفی لینے والی ایک خاتون کو زبردست کک لگائی تھی،میں نے ہاتھیوں سے دور رہنے میں ہی عافیت جانی۔ آپ یقیناً میرے اس فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیں گے کیونکہ ایک تو کک اور وہ بھی ہاتھی کی! آنے والےوقت نے بھی میرے اس فیصلے کو درست ثابت کیا۔
ہمارے لاجز کے اردگرد کےجنگل میں گزارا ہوا وقت ہم سب کی زندگی کے خوبصورت ترین لمحات تھے۔ اگرچہ سری لنکا میں ہمارے ٹور کی تمام جگہیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں لیکن حبارانا کو میں ان سب میں ٹاپ رینکنگ پر رکھتی ہوں۔ اگلے دن فجر کے بعد ہم جنگل کی سیر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔جنگل میں روح تک کوشانت کر دینے والی ہوا، کوئل کی آواز، بے شمار گلہریوں کا ایک درخت سے دوسرے تک دوڑنا، نایاب قسم کے خوبصورت پرندے،چڑیوں کی تسبیح،سامنے ایک وسیع نیلگوں جھیل اور اس میں خوراک کی تلاش میں سفید بگلے، جھیل کنارے بنے ہوئے ہٹس، پھر درختوں پربنے مختلف سٹائل کے Tree housesاور بہت کچھ ۔۔۔۔یہ سب الفاظ کبھی اس ماحول کی منظر کشی نہیں کر سکتے جو اس جنگل میں گھومتے ہوئے اوروہاں کے جھولوں پر جھولتے ہوئے میں نے اپنے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمو لیا۔اب اپنے گھر میں واک کرتے ہوئے بھی حبارانا کے یہ حسین مناظر ضرور میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔
دو گھنٹے کی بھرپور سیر کے بعد بھوک کا احساس ہوا تو میں نے واپسی کا رخ کیا۔ بچے پہلے ہی سوئمنگ کے لئے جا چکے تھے۔واپس آتے ہوئے جھیل کے کنارے ایک بنچ پر عبایا پہنے ایک خاتون کو دیکھا تو حسب عادت سلام کیا۔باتیں شروع ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ بھی ریاض سے آئی ہیں۔ مزید باہمی استفسار پر پتہ چلا کہ نہ صرف میری ہم شہر بلکہ ہم محلہ بھی ہیں اور ہمارے گھر کے قریب ہی ان کا گھر ہے۔ لو جی کر لو گل ہزاروں کلو میٹر دور اپنی ہمسائی سےملاقات ہو گئی، ہے ناں دنیا گول!!



CINNAMON LODGE HOTEL RESTAURENT AND POOL LAKE HABARANA
² سنہری مندر Golden Temple
حبارانا میں بھرپور تفریح کے بعد ہمارا سفر پھر شروع ہوا۔آج ہم نے راستے میں گولڈن ٹمپل اور Royal Botanical Garden Peradeniya کی سیر کرتے ہوئے کینڈی(Kandy)پہنچنا تھا۔ گولڈن ٹمپل پہنچے تونہایت شوق کے ساتھ اترنے کا ارادہ کیا تو ڈرائیور نے بتایا کہ اندر جانے کے لئےسر کے اسکاف کو اتارنا لازمی ہے۔ سارا شوق ٹھنڈا پڑ گیا اورمیں نے فی الفور اندر جانے سے انکار کر دیا۔اور باہر سے ہی بدھا کا نظارہ کرنے کے لئے گاڑی سے اترے۔
دیو ہیکل سنہری بدھا مندر کے اوپر آلتی پالتی مار کر اپنے مخصوص یوگا کے سٹائل میں بیٹھے تھے۔ اور ان کی ہاتھ کی انگلیوں کا بھی ایک خاص انداز نظر آرہا تھا۔ ڈرائیور سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ ذہنی سکون کے حصول کا ایک آسن ہے ( تصویر دیکھیے)ویسے تو سری لنکا میں آپ کو ہر چوک اور ہر عمارت پر بدھا براجمان نظر آتے ہیں مگر اتنا بڑا مجسمہ آج پہلی دفعہ دیکھا۔ٹمپل کے سامنے ایک بہت بڑا کٹھل (Jack fruit)کا درخت تھا جس کے تنے کے ساتھ لٹکے ہوئے گھڑوں کی مانند بڑے بڑے کٹھل کو دیکھ کر میں حیرت زدہ ہو گئی۔ یہ کسی درخت پر لگنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا پھل قرار دیا جاتاہے۔ عمومی طور پر ایک پھل3 سے 6 کلو گرام تک وزنی ہوتا ہے مگر اس کا وزن 2 من تک بھی جا سکتا ہے ایسے پھل اپنے حجم کی وجہ سے درخت کی جڑوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ میرے لئے درخت کے ساتھ اس پھل کو لگا ہو دیکھنا ایک دلچسپ منظر تھا ۔
کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد ہم گاڑی میں بیٹھ کر آگے روانہ ہو گئے۔مندر تک نارسائی کا شکوہ یہ سوچ کر دل میں دبا لیا کہ ضرور حجاب اتارنے کی پابندی ان معصوم صورت والے بدھا کی طرف سے ہرگز نہ لگائی گئی ہو گی بلکہ بعد میں آنے والے ان کے پیروکاروں کا کارنامہ ہو گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس پر شکوہ کناں ہونے کی بجائے مجھے تو اپنے اہل مذہب کا خیال آیا کہ کس طرح اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کے برعکس فرقہ پرستی کا شکار ہو کر ہم مسلمانوں نے تو اپنے ہی بھائیوں کے لئے اپنی مساجد کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے کی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا۔ افسوس وائے افسوس!!

JACKFRUIT TREE GOLDEN TEMPLE

² اسپائس گارڈن
کینڈی کے راستے میں ہمارے ڈرائیور نے ایک Spice Gardenپر گاڑی روکنے کی اجازت چاہی کہ اگر ہماری دلچسپی ہو تو سیر کر لیں۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں! میرے لئے تو گاڑی میں زیادہ دیر ٹک کر بیٹھنا ویسے ہی عذاب ہوتا ہے، فوراً حامی بھر لی اور اتر گئے۔ یہ چھوٹا سا باغیچہ تھا جس میں تقریباً تمام مصالحہ جات کے پودے اور درخت موجود تھے۔ آج تک جن مصالحوں کو صرف پکانے میں استعمال کیا تھا، ان کو اصل ہئیت میں پودوں کے ساتھ لگا دیکھ کر ہم تو حیرت میں ہی گم ہو گئے۔ ایک گائیڈ نے پورے باغ کا دورہ کروایا۔سب نے نہایت دلچسپی کے ساتھ ایک ایک پودے کو دیکھا خاص طور پر الائچی اور کوکو کے دانے دیکھ کر میں نے بے ساختہ اپنے خالق کی صناعی کی داد دی۔ سیرکے بعد اس سرسبز و نایاب باغ کی یادگار کے طور پر ان مصالحہ جات کے سٹور سے کچھ چیزیں خریدیں تاکہ ریاض میں اپنے کچن میں کھانے پکاتے ہوئے ان کا استعمال کر کے اور اس کے ٹھنڈے نظاروں کو یاد کرتے ہوئےکھانا اور لذیذ بن جائے ۔

PEPPER TREE SPICE STORE VANILLA POD COCOA SEED SPICE GARDEN

² کینڈی Kandy
کینڈی کے لئے سفر پھر شروع ہوا۔ میاں صاحب نے ایک مسجد میں نماز کے لئے گاڑی رکوائی ۔ مسجد میں عورتوں کے لئے بھی سعودی عرب کی طرح نماز کے لئے مصلی موجود تھا۔ اندر جا کر اپنےفرائض بندگی کی ادائیگی کی۔ باہر نکلے تو مسجد کے سامنے ایک گھر کے مسلمان مکین نے ہمیں اپنے گھر چلنے کی پر خلوص دعوت دی اور ہم انکار نہ کر سکے۔سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے تو اہل خانہ نے نہایت محبت سے استقبال کیا۔ گھر بہت صاف ستھرا تھااور مکینوں کے سلیقے کو ظاہر کر رہا تھا۔خاتون خانہ اور بیٹیوں نے بڑے سے دوپٹے کے ساتھ سری لنکا کا روایتی ساری نما لباس پہنا ہوا تھا ۔کسی قسم کے تصنع سے عاری یہ لوگ مجھے بہت اچھے لگے۔کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد ہم نے اجازت چاہی کیونکہ ابھی کافی سفر باقی تھا۔
سہ پہر تک ہم کینڈی کے Cinnamon Hotel پہنچ گئے۔سری لنکا کی مخصوص رم جھم جاری تھی۔ حسب معمول سٹاف چھوٹے تولیےاورجوسز کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھا۔ یہ ہوٹل بھی دریائے مہا ویلی کے کنارے بنا ہوا تھا جس کا ذکر بوٹینکل گارڈن میں آیا تھا۔ ہوٹل میں ضابطے کی کاروائی مکمل ہونے تک ہم نے داخلی دروازے کے مخالف سمت بنے سوئمنگ پول کی راہ لی جس کے آگے نیچے کی طرف دریا بہہ رہا تھا۔ دریا کے ساتھ ہوٹل کا خوبصورت باغ اور دریا کی دوسری طرف جنگل موجود تھا۔ ہم مناظرِفطرت کے شیدائیوں کے لئے یہاں بھی ایک زبردست دل کو چھوتا ہوا نظارہ موجود تھا۔
جلد ہی ہم نے اپنے کمروں کا رخ کیا کیونکہ سب کچھ دیر آرام کرنا چاہ رہے تھے۔ زیادہ آرام کا وقت نہ ملا شام سے پہلےہم نے کینڈی کی مشہور جھیل اور شہر کو دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ڈرائیور کے ساتھ کینڈی ٹاؤن پہنچےبازار سے نکلتے ہی دلکش "کینڈی لیک" نظر آئی۔ جھیل کے اردگرد سڑک ہے اور سڑک کے کنارے ہوٹل، اسکول اور سرکاری عمارتیں ہیں ۔جھیل کے قریب پیدل چلنے والوں کے لئے ایک کشادہ فٹ پاتھ ہے جہاں گھنے درختوں کے نیچےجگہ جگہ بیٹھنے کے لئے بینچ بھی بنے ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر بینچ پریمی جوڑوں کے قبضے میں تھے۔شام کے وقت خوب گہما گہمی کا عالم تھا۔ کچھ دیر ہم نے فٹ پاتھ پر گھوم کر اس خوبصورت جھیل کا نظارہ کیا۔جھیل میں کشتی کی سیر کا بھی اہتمام موجود تھامگر وقت کی کمی کی وجہ سے ہم استفادہ نہ کر سکے۔جھیل کے عین وسط میں "رائل سمر ہاؤس " ہے ۔
سڑک کے پار مشہور "بدھا دانت" کا یادگار مندر ہے جو کینڈی کے آخری بادشاہ کے محل کے احاطے میں ہے۔یہ مندر بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ یہاں بدھا کے دانت کا اوشیش پڑا ہوا ہےاور اس کوحکمرانی کے لئے مقدس شگون سمجھا جاتا ہے ، ہر حکومت اس کی خاص حفاظت کرتی ہے۔ محل کے احاطے میں ہی یہ مندر بنایا گیا ہے۔بدھ زائرین اس مندر کو اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا مسلمان خانہ کعبہ کو۔ اس لئے اس مندر میں جانا ہر بدھ کی خوہش ہوتی ہے۔ مجھے سنہری مندر میں داخلے والی شرط یاد تھی اس لئے بدھا دانت کے مندر جانے سے گریز کیا۔
اس کے علاوہ کینڈی میں ایک منظر ہر جگہ سے نظر آتا ہے ، وہ یہ اوپر ایک پہاڑی پر موجود مندر میں بنا ہوا بدھا کا دیو قامت مجسمہ۔ 88 فٹ کا یہ مجسمہ سری لنکا میں بدھا کا سب سے بڑا مجسمہ ہے۔ مجھے یاد آیا کہ یہ مجسمہ سگیریا کی لائن راک سے بھی نظر آ رہا تھا۔یہ مجسمہ کینڈی ٹاؤن سے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا۔ہم نے یہاں بھی دور سے ہی بدھا کو ''آئبوان" کہا کیونکہ ڈر تھا کہ دن بھر کی تھکن کے بعد پیدل چلنے کے بعد وہاں بھی اگر بدھا کے پیروکاروں نے مندر میں داخلے کی کوئی شرط رکھ دی تو خواہ مخواہ ہمارا دل برا ہو جائے گا۔ بہرحال کینڈی لیک اور اس خوبصورت، صاف ستھرے شہر کے نظاروں نے بھی ہمارا دل موہ لیا ۔
رات ہو چلی تھی اس لئے ہوٹل کا رخ کیااور بھرپور بوفے ڈنر سے سیر ہونے کے بعد ہوٹل کے اردگرد کچھ دیر واک کی پھر اپنی قیام گاہوں میں جاکررب کائنات کے حضور حاضری لگوائی اور نیند کی پرسکون وادیوں میں گم ہو گئے۔فجر کے بعد حسب معمول ہوٹل کے اردگردباغ میں سیر کا ارادہ کیا۔ یہ باغ حبارانا کی طرح بہت بڑا نہ تھا ۔لیکن بےشمار پھولوں والے پودوں اور چند پھلدار درختوں کے ساتھ ساتھ دریاکے پرسکون نظاروں کی وجہ سے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ یہاں بھی جالی دارجھولوں (Hammocks) میں لیٹ کر دیر تک قدرت کے حسین نظاروں کا لطف اٹھایا۔ دریا میں کھڑے بگلوں نے اس منظر کو اور حسین بنا دیا جو کہ صبح سویرے دریا میں اپنی خوراک تلاش کرنے میں مشغول تھے۔جب دھوپ نکل آئی تو واپسی کا خیال آیا۔
یہاں بھی ایک سعودی خاتون سے ملاقات ہو گئی جن کا تعلق جدہ سے تھا۔ سری لنکا میں سعودی سیاحوں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔بلکہ سعودیوں کے علاوہ یہاں آپ کو بے شمار چینی،جاپانی،انڈین اور یورپیئن سیاح بھی ملیں گے۔ سری لنکا کاشمار بھی پاکستان کی طرح ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے بلکہ ان کے روپے کی قدر تو پاکستانی روپے سے بھی کم ہے۔ مگر وہاں پر سیاحت کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کے طور پر چلایا جا رہا ہے ۔وہاں کا انفراسٹرکچر، امن و سکون اورسیاحوں کے لئے بہترین سہولیات دیکھ کرہم سب حیران تھے۔ایک اندازے کے مطابق2016 ء میں سوا دو ملین سیاح ریکارڈ کیے گئے اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔عام عوام کی معاشی حالت ہرگز اچھی نظر نہ آ رہی تھی اس کے باوجود سفر کے دوران کہیں پر بھی کوئی ایک گداگر بھی نہیں نظر آیا ۔بوڑھے، جوان،بچے،عورتیں سب کو میں نے ان تھک محنت کرتے دیکھا۔ اِس قوم کی خوشی دلی، دوستانہ فطرت، منکسر المزاجی اور اخلاق نےہمارے دلوں کو موہ لیا۔ اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ٹیبل ٹینس نظر آیا ،کھیلنے کا سامان بھی موجود تھا۔ کچھ بازیاں لگائیں اور پھر جب ناشتے کی یاد ستانے لگی تو اندر کا رخ کیا۔ناشتے کے بعد اگلے سفر کی تیاری شروع ہو گئی آدھے گھنٹے کے اندراندر ہم گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔


شہر سے نکلنے سے پہلے ڈرائیور نے پوچھا کہ اگر قیمتی پتھروں کا میوزیم دیکھنا ہو تو وہ گاڑی روک دے، میں نے حامی بھر لی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح کی جگہوں پر سیاحوں کو لانے پر ضرور ڈرائیور حضرات کو کمیشن ملتا ہو گا کیونکہ اسپائس گارڈن کی طرح یہاں سے بھی یقیناً خریداری کی جاتی ہو گی ۔بہرحال ہم بخوشی و رضا میوزیم میں داخل ہوئے۔خوش خلق اسٹاف نے استقبال کیا ۔ سب سے پہلے ہمیں ایک کمرے میں بٹھا کرکانوں سے قیمتی پتھروں کو نکالنے کے طریقہ کار کے متعلق ایک ڈاکومنٹری دکھائی گئی جو واقعتاً بہت معلوماتی تھی۔اس کے بعد ہمیں اس چھوٹے سے میوزیم کا دورہ کروایا گیا۔ڈاکو منٹری میں بتائے گئے کان کنی میں استعمال ہونے والے اوزاراور طریقوں کے ماڈلز وغیرہ بھی وہاں بنائے گئے تھے۔
اس کے بعد اوپر والے ہال میں لے جایا گیا جہاں شو کیسوں میں بے شمار قیمتی پتھر موجود تھے۔اتنی بڑی تعداد میں قیمتی پتھر میں نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ہمارا میزبان ساتھ ساتھ پتھروں کے متعلق قیمتی معلومات بھی دے رہا تھا۔سری لنکا دنیابھر میں قیمتی پتھروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔دنیا میں پائی جانے والی پتھروں کی 85 اقسام میں سے 40 صرف سری لنکا میں پائے جاتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو جو "روبی" تحفے میں دیا تھا وہ سیلون سے ہی حاصل کیا تھا۔ملکہ برطانیہ کے تاج پر بھی یہاں کا ہی "نیلم" جڑا ہوا ہے۔دنیا کا سب سے بڑا نیلم بھی سری لنکا میں ہی ہے جس ہی مالیت سو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔خیر سری لنکا میں میرا خریداری کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اپنے پہنے ہوئے ہیرے ٹسٹ کروائے جو کہ اصلی نکلنے پر خوشی ہوئی ۔ہمارے میزبان کو خریداری پر آمادہ نہ کر سکنے پر مایوسی تو ہوئی ہو گی مگر اس نے خوش دلی کے ساتھ ہمیں الوداع کہا۔

GEM MUESEUM ANCIENT METHOD OF GEM COLLECTION

² شاہی نباتاتی باغ پیرادینیا
Royal Botanical Garden Peradeniya
اگلے شہر "نووارہ علیا" کی طرف سفر کے دوران شاہی باغ ، ٹی فیکٹری اور رامبودا آبشار کا دورہ آج ہمارے پروگرام میں شامل تھا۔ سری لنکا کی سیر Royal Botanical Garden Peradeniyaکو دیکھے بغیر ادھوری ہے۔ سچ تو یہ ہےکہ اپنےٹور پیکج میں اس باغ کو میں نے نہایت بے دلی سے موجود رہنے دیا کہ یہ بھی عام سا پارک ہو گا جہاں قدرے نفاست کے ساتھ پودے اور پھول وغیرہ لگے ہوں گے اور اسی بے دلی کے ساتھ انٹری ٹکٹ لیا اور داخل ہو گئے۔ لیکن اندر داخل ہو کر مجھےحیرت کا ایک جھٹکالگا۔147 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس باغ کی خوبصورتی و صفائی دیدہ زیب تھی۔ہر طرف رنگ برنگے پھولوں، قطار در قطار درختوں اور ہریالی کا ایک دلکش نظارہ تھا۔ یہ واقعی ایک شاہی باغ تھا۔باغ میں تقریباً 4000 سے زائد اقسام کے پودے اور درخت موجود ہیں۔ان درختوں پر یقیناً بے شمار پرندوں کا بھی بسیرا ہو گا چونکہ یہ دن کا وقت تھا اس لئے وہ اپنے آشیانوں میں چھپے بیٹھے تھے۔
باغ کی تاریخ تیرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے جب کینڈی کا بادشاہ"ویکرمہ باہو سوئم “Wickramabahu III اپنا تخت دریائےمہا ویلی کے قریب پیرادینیا لے آیا اور دریا کے کنارے سیر کا مزید لطف اٹھانے کے لئے اس باغ کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد آنے والے کئی بادشاہوں نے اس کی خوبصورتی بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا تاہم اس کی موجودہ شکل کا تمام سہرا سر الیگزینڈر مون Sir Alexander Moon کو جاتا ہے جس نے 1821ء میں باقاعدہ طور پر اس کو بنایا ان کے بعد کئی انگریز منتظمین نے اس کے حسن کو بڑھانے میں خاص محنت کی۔ اب یہ باغ سری لنکا کے زرعی محکمہ کے زیر انتظام ہے اور کیا خوب انتظام ہے!!
ایسے باغ نہ صرف علم و تحقیق بلکہ زرمبادلہ کمانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ایک اندازے کےمطابق ہر سال سوا ملین کے قریب سیاح اس باغ کو دیکھنے آتے ہیں دنیا کی اہم اور تاریخی شخصیات بھی اس باغ کو دیکھنے آتی رہتی ہیں اور باغ کا ایک حصہ ان کے لگائے ہوئے پودوں سے بھی مزین ہے پاکستان کے ایک وزیر اعظم کے نا م کا یادگاری پودا بھی ان میں موجود ہے بلکہ میں نے دیکھا کہ باغ میں ایک "اسٹوڈٹس کارنر" بھی موجود تھا جہاں طالب علموں کے نام کے ساتھ ان کے لگائےہوئےپودےباغ کی رونق بڑھا رہے تھے۔ایک اور اہم بات یہ تھی کہ دنیا بھر سےہدیہ کئے گئے پودوں کے لئے بھی ایک حصہ مخصوص کیا گیا ہے جہاں نایاب پودے اپنے اپنے ملکوں کے ناموں کے ساتھ باغ کے حسن کو دو آتشہ کر رہے تھے ۔
انٹری ٹکٹ لیتے ہوئے ہمیں باغ کا نقشہ بھی دیا گیا اس کی مدد سے ہم باغ میں گھومتے رہے اسی دوران سری لنکا کے روایتی ویڈنگ ڈریسز میں ملبوس ایک شادی شدہ جوڑا نظر آیا جو فوٹو شوٹ کے تمام ساز و سامان سمیت اپنی شادی کی تصویروں کو یادگار بنانے کے لئے وہاں موجود تھا۔یقیناً فوٹو شوٹ کے لئے اس سے حسین جگہ اور کوئی نہ ہو سکتی تھی۔باغ میں سیاحوں، طالب علموں کے علاوہ یہاں بھی بڑی تعداد میں پریمی جوڑے بھی نظر آتے ہیں جو ہر بوٹے کے نیچے دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھے نظر آتے ہیں اور دور سے پہچانے جا سکتے ہیں اس کے لئے آپ کو کسی خاص ذہانت کی ضرورت نہیں تو گویا یہ اس باغ کا ایک اضافی فائدہ تھا۔مہا ویلی دریا کے اردگر بھی سر سبز پودے اور پھول اپنی بہار دے رہے تھے۔دو گھنٹے گھومنے کے بعد بھی ہماری طبیعت سیر نہ ہوئی ابھی ہم نے آدھا یا اس سے کچھ زائد ہی باغ دیکھا ہو گا کہ تھکن محسوس ہونا شروع ہو گئی کیونکہ باغ کے متعلق اپنے غلط اندازے کی وجہ سے اس دن میں نے جوگرز کی بجائے عام شوزپہنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے پاؤں میں درد ہونا شروع ہو گیا۔
باغ سے نکلتے ہوئے دل میں یہی خیال آیا کہ جنت بھی تو سرسبز درختوں، پانی اور خوبصورت پرندوں اور ہر قسم کی نعمتوں سے بھرپورایک باغ ہی ہو گا !! جب بندوں کا سجایا ہوا یہ باغ اتناحسین ہے تو اس مصور کائنات کی بنائےہوئےباغ کے حسن کاکیا ہی عالم ہو گا!!!! اور پھر دل سے یہ دعا بھی نکلی کہ اے اللہ ہمیں اس ہمیشہ قائم رہنے والے باغ کی طرف کامیاب سفر اور اس میں داخلے کے انٹری ٹکٹ لینے کی بھی توفیق عطا فرمانا۔۔آمین


ROYAL BOTANICAL GARDEN PERADENIYA

نوارہ علیا کی طرف ہمارا سفر جاری تھا۔راستے میں جگہ جگہ عورتیں تازہ مقامی پھل فروخت کر رہی تھیں جو کہ نہایت بھلے لگ رہے تھے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ پھل میں نے ریاض میں کھائے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے طفیل ساری دنیا کے پھل سعودی عرب میں میسر ہوتے ہیں لیکن تازہ پھل کا تو ذائقہ ہی اور ہوتا ہے۔خریدنے کے لئےگاڑی رکوائی۔ Rambutan لیچی سے ملتا جلتا ایک بہت میٹھا پھل ہے ۔جوکہ وٹامن سی سے بھرپور، نہایت صحت بخش پھل ہے۔ Mangostin میں نے پہلی دفعہ کھایا اس کی بیرونی سطح قدرے سخت اور کچھ موٹی ہوتی ہے،اندرمالٹے اورکینو کی طرح پھانکیں ہوتی ہیں ۔ڈرائیور نے اس کو کھانے کا طریقہ بھی بتایا کہ اس کو دونوں ہاتھوں کی ہتھلیوں سے دبا کر کھولنا پڑتا ہے۔ مینگوسٹین کا پھل صرف ذائقے کے لحاظ سے ہی اچھا نہیں ہےبلکہ یہ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتا ہے قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے، دافع کینسر ہونے کے ساتھ ساتھ وزن بھی کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ star fruitکے ذائقے سے بڑھکر اس کی شکل اچھی لگی۔

STAR FRUIT MANGOSTIN RAMBUSTAN

² چائے کے باغات اورفیکٹری
سفر پھر سے شروع ہوا۔ باہر سر سبز پہاڑوں اور چائے کے باغات کو دیکھ کر احساس ہوا کہ ہم نوارہ علیا ڈسٹرکٹ میں داخل ہو چکے ہیں۔یہاں اپنے ہوٹل پہنچنے سے قبل راستے میں ہم نے چائے کے باغات ،فیکٹری اور رامبودا فالز کو دیکھنا تھا۔
چائےسری لنکا کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ جیمز ٹیلر نامی انگریز کو سری لنکا میں چائے کی کاشت کا بانی قرار دیا جاتا ہے جنہوں ے 1867ء میں چائے کا پہلا باغ لگایا اگرچہ تجرباتی طور پرچھوٹے پیمانے پر چائے کی کاشت اس سے پہلے سےکی جا رہی تھی۔ اب سری لنکا چائے کا چوتھا بڑا پیداواری ملک ہے۔ دنیا کی تقریباً 23 فی صدچائے سری لنکا برآمد کرتا ہے۔ یہاں کی تقریباً 5 فی صدآبادی اربوں ڈالر مالیت کی چائے کی صنعت سے وابستہ ہے، جس میں پہاڑیوں سے پتے توڑنا اور کارخانوں میں اس کی تیاری کا کام شامل ہے۔
ہم چائے کے دلفریب باغات کے ساتھ Glenloch نامی برانڈ کی چائے کی فیکڑی بھی دیکھنے کے لئے گئے۔ فیکڑی کے استقبالیے سے ایک خاتون ہمارے ہمراہ کر دی گئی۔جس نے ہمیں پوری فیکڑی کا دورہ کروایا اور بہت کارآمد معلومات دیں۔ ان خاتون سے مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ سیلون بلیک، وائٹ اور گرین ٹی ایک ہی پودے سے حاصل ہوتی ہے، لیکن چائے کے پتوں کی عمر اور سائز میں فرق ہوتا ہے، جس بنیاد پر اسے 3 مختلف گیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ چائے کا پودا سدا بہار ہوتا ہے اسکی پتیاں ہر سات سے 14 دن بعد میں ہاتھوں سے توڑی جاتی ہیں اس سے پہلے کہ وہ بہت زیادہ بڑی ہو جائیں۔ اگر جڑوں میں پانی زیادہ دیر تک کھڑا رہے تو چائے کا پودا مُرجھانا شروع کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چائے کے باغات ڈھلوان پہاڑی علاقے میں ہوتے ہیں تاکہ زمین ناہموار ہونے کی وجہ سے پانی نیچے کی طرف بہتا رہے۔ اس نے ہمیں چائے تیار کرنے کے مراحل سے بھی آگاہ کیا۔پہلا مرحلہ ’ودرنگwithering‘ کہلاتا ہے جس میں پتوں کی نمی دور کرنے کے لیے ہوا کے ذریعے خشک کیا جاتا ہے، جس سے ان کی سطح نرم ہو جاتی ہے۔پھر ایک رولنگ مشین میں ان پتیوں کو تروڑا مروڑا جاتا ہے اور فرمنٹیشن پراسسfermentation process شروع کیا جاتا ہے، جس سے ان کے مختلف ذائقے پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد چائےکوپیکنگ کے لئے روانہ کر دیا جاتا ہے۔
چائے کی تیاری میں استعمال ہونے والی مشینیری کافی پرانی لگ رہی تھی۔یہاں بھی پوری فیکڑی میں خواتین کو ہی کام کرتے دیکھا۔کافی مشقت طلب کام تھامگر وہ سب تیز تیز اپنی اپنی ڈیوٹی میں مصروف تھیں۔آج احساس ہوا کہ ہماری ایک چائے کی پیالی کے پیچھے کتنے لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔فیکڑی کے دورے کے بعد ہمیں ٹی لاؤنج لے جایا گیا جہاں مختلف رنگوں اور ذائقے کی چائے سے ہماری تواضع کی گئی۔پھر ان کے سٹور سے چائے کی خریداری کے بعد ہم باہر آ گئے۔سامنے تا حد نگاہ پھیلے ہوئے باغات کا منظر کسی دیومالائی دنیا کا لگ رہا تھا۔ بارش کے بعد آسمان پر پھیلی ہوئی قوس و قزح نے اس منظر کو اور بھی جادوئی بنا دیا۔دل میں یکایک اس خواہش نے جنم لیا کہ کاش ادھر ہی ایک ہٹ بنا کر رہائش کر لوں۔پیچھے سے بچوں کے بلانے کی آوازیں مجھے اس دیو مالائی دنیا سے باہر لے آئیں اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر حیرتوں سے بھرپور اگلے مناظردیکھنے روانہ ہو گئے۔


TEA FACTORY NUWERA ELIYA

² رامبودا آبشار Ramboda Falls
یہ آبشار سری لنکا کی 11ویں اور دنیا کی 729 ویں بڑی آبشار ہے۔اگرچہ یہ بہت اونچی نہیں لیکن اپنے دلفریب نظاروں کی بنا پر سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔گاڑی سے اتر کر کچھ دیر کچے ٹریک میں چلنے کے بعد ایک دم جب اس پر نظر پڑی تو ہم سب کچھ دیر کے لئے مبہوت ہو گئے۔ درختوں اور سبزے سے گھری ہوئی یہ آبشار بلاشبہ خالق کائنات کی بہترین صناعی کی گواہی دے رہی تھی۔یکایک میری نظر آبشار کے آخری سرے پربننے والی قوس و قزح پر پڑی جو سورج کی شعاعوں کے منعکس ہونے کی وجہ سے نظر آ رہی تھی،کیا دل کو چھو لینے والا منظر تھا!!! کافی دیر آبشارکے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے چارو ناچار واپسی کا رخ کیا۔اور ایک اورحسین یاد کو اپنے کیمرے اور دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئےبند کر لیا۔


RAMBODA FALLS

² نوارہ علیا Nuwara Eliya
شام کے قریب ہم نوارہ علیا پہنچ گئے ۔آج Araliya Green Hills میں ہماری بکنگ تھی۔ استقبال کے لئے معمول سے بھی کچھ زیادہ مردانہ و زنانہ باوردی سٹاف موجود تھا۔ شاید اسی کی وجہ یہ ہو کہہم ان کے رائل سوئٹ کے مہمان تھے۔ شیطان نے احساس تفاخر میں مبتلا کرنا چاہا مگرہم فوراً اس احساس کو جھٹک کر عاجزی کے ساتھ اندر داخل ہو گئے۔ چونکہ یہ ایک ٹھنڈی جگہ تھی اس لئے جوسز کی بجائے کافی اور ہاٹ چاکلیٹ سے ہماری تواضع کی گئی ۔ ایک باوردی سمارٹ سی خاتون نے ہم سے ہمارے پاسپورٹ لئے اور دس منٹ میں ضابطے کی تمام کاروائی مکمل کرنے کے بعد ہمیں کمروں تک چھوڑنے کے لئے ہمراہ ہو لی ۔
اپنےشاہی کمروں میں داخل ہوئے تو شام ہو چکی تھی۔ سب آرام کے لئے لیٹ گئے قدرے خنکی کا احساس ہوا تو ہیٹنگ لگا لی۔ بھوک نے اٹھنے پر مجبور کیا تو ڈنر کا ارادہ کیا۔حسب معمول ڈائینگ ہال میں انواع و اقسام کے کھانے ہمارے منتظر تھے۔خوب سیر ہو کر کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ واک لے لئے باہر لان میں گئے مگر اتنی ٹھنڈ لگی کہ کچھ دیر کے بعد ہی اندر کا رخ کیا۔کمرے میں آ کر اگلی صبح کی تیاری کی ،سب کے لئے گرم کپڑے اور سویئٹر نکالے جن کو ساتھ لانے کی ہمارے ٹور مینجر نے ریاض میں ہی ہدایت کر دی تھی۔ کچھ ہی دیر میں سب لمبی تان کر سو گئے۔یقین کیجیے سری لنکا کے قیام کے دوران ہر رات اتنی اچھی نیند آئی کبھی زندگی میں نہ آئی تھی۔
اگلی صبح حسب معمول فجر کے بعد سیر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔یہاں ہوٹل کے ساتھ کسی جنگل یا باغ کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سارا کا سارا شہر ہی ایک دل کش باغ ہے۔ہوٹل کے آس پاس لمبی واک کی،انگریزوں کے دور کے بنے ہوئےگولف کورس کی سیر کی۔بلاشبہ یہ شہر ہر لحاظ سےمثالی تھا۔ اور اس کے حسنِ بے مثال کی خوب حفاظت بھی کی جا رہی ہے۔ پورے شہر میں کوڑا تو درکناراتنے زیادہ درختوں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی پتہ تک سڑک پر گرا نظر نہ آیا۔ایک معمر خاتون کو دیکھا کہ وہ راستوں کی صفائی میں مشغول تھیں۔آہ ہ ہ۔۔۔۔کچھ لوگوں کے لئے روزی کا حصول بھی کس قدر مشکل ہوتا ہے ۔ ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات
اردگرد کے دلکش اور دل کو چھوتے ہوئےمناظر نے صبح کی سیر کا لطف دوبالا کردیا۔یہ پہاڑی و سیاحتی شہر چاروں اطراف سے تاحدِ نگاہ چائے کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور یہاں کی آبشاریں اس کے حُسن میں مزید اضافہ کردیتی ہیں۔ نوارہ علیا کا مطلب ہے "روشنی کا شہر"۔ کہا جاتا ہے کہ اپریل میں اس شہر کا حُسن جوبن پر ہوتا ہے کیونکہ ہر طرف پھول کھلے ہوتے ہیں اور اپریل میں مختلف ثقافتی تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ہمیں تو جون میں بھی بے شمار پھولوں کے ساتھ یہ نہایت حسین لگ رہا تھا اب پتہ نہیں اپریل میں اس کے حسن کا کیا عالم ہوتا ہو گا!! اس کو لِٹل انگلینڈ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں پر جگہ جگہ برطانوی سلطنت کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ اس شہر کی خوبصورتی اور موسم کو دیکھتے ہوئے سری لنکا پر اپنے دور حکومت کے دوران انگریزوں نے یہاں اپنی رہائش گاہیں بنائیں ۔ اس شہر میں وہ سیر و تفریح، ہاتھیوں،ہرن اور دوسرے جانوروں کے شکار اور پولو، گولف یا کرکٹ کھیلنے کے لئے ٹھہرتے تھے۔
نہایت پرسکون اور صاف ستھرا یہ شہر،اپنے حسین نظاروں کی بنا پر پاکستان کے ناردن علاقوں سے کافی مشابہت رکھتا ہے لیکن ٹھہرئیے!! جو صفائی اور سیاحوں کے لئے سہولیات میں نے یہاں دیکھیں ،ان کی تو دور دور تک پاکستان کے کسی سیاحتی مقامات سے کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ یہ بتاتی چلوں میں ہرگز ان لوگوں میں سے نہیں جو بات بات پر اپنے وطن کا تقابل دوسرے ممالک سے کر کے اس میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے ہاں نوارہ علیا سے کہیں زیادہ قدرتی نظاروں سے مالامال علاقے موجود ہیں مگر بدقسمتی سے صفائی کا فقدان،کھانے پینے کی unhygienic اشیاء(کسی مقام پر چلے جائیں سب سے پہلے آپ کا پیٹ خراب ہو جائے گا اور باقی دن آپ سیر کرنے کی بجائے ٹائلٹ کے چکر ہی لگاتے رہیں گے یا واپسی کی راہ پکڑیں گے)، بد حال سڑکیں(اور کئی جگہ پر تو سڑک نام کی چیز موجود ہی نہیں) اور سیاحوں کے لئے ناکافی سہولیات نے ان مقامات کے قدرتی حسن کو ماند کر دیا ہےاور حالات بہتری کی بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ پندرہ سال پہلے جب سوات اور ناران وغیرہ جانا ہوا تو سڑکوں اور صفائی کے حالات گذشتہ سال کی نسبت سے بہتر تھےجب میرا دوبارہ وہاں جانا ہوا۔ ناران، شوگراں ، کالام کے بازار میں کوڑا کرکٹ اور بہتے ہوئے گندے پانی کی وجہ سے چلنا دوبھر تھا،کالام کےدریا اور قریبی جنگل میں ٹنوں گند پڑا ہوا تھا،سیف الملوک تک پہنچنے والا راستہ ایک بد ترین ٹریک بن چکا ہے دو گھنٹے کے مسلسل دھکوں کے بعد جب میں وہاں پہنچی تو وہاں پھیلی ہوئی گھوڑوں کی لید کی بو اور جھیل کےکنارے پر کوڑا کرکٹ کے انبار دیکھ کر طبیعت اس قدر مکدر ہوئی کہ فوراً واپسی کا ارادہ کیا۔ اس سب صورت حال کا ذمہ دار حکومت اور عوام دونوں ہیں۔ناران کے ایک دکاندار سے میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ اپنی دکانوں کے باہر فاصلے فاصلے پر کوڑا پھینکنے کے لئے ڈرم وغیرہ رکھ دیں تو صفائی کی صورت حال بہت بہتر کی جا سکتی ہے۔ آگے سے کمال بے نیازی سے جواب دیا گیا کہ آج خاکروب نہیں آیا اس لئے صفائی نہیں ہوئی۔۔۔ خیر ہم تو اس وقت نوارہ کی بات کر رہے تھے، وطن کی محبت میں جذباتی ہو کر میں کہیں اور نکل گئی۔
اس شہرکی دنیا بھر میں مقبولیت کی ایک اور بڑی وجہ نوارہ علیا سے ایلا شہر تک جانے والی ٹرین ہے۔ جنوبی پہاڑوں کے بادلوں، چائے کے باغات اور سرنگوں کے اندر سے گزرتی ہوئی ٹرین کے اِس سفر کو دنیا کا خوبصورت ترین ریلوے سفر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ مگر اپنے پیکج کی وجہ سے ہمیں ٹرین میں سفر کر نے کاموقع نہ مل سکا۔کافی دیر تک حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہوٹل واپس ہوئے اور ناشتے کے بعد پھر باہر نکل گئےکیونکہ ہم یہاں کی تازہ ہوا اور سرسبز مناظر سے جی بھر کر لطف اٹھانا چاہتے تھےمگر کیا ہے کہ جی تو بھرا نہیں مگر واپسی کالمحہ آن پہنچا۔

ROUTE TO NUWERA ELIYA GOLF COURSE CITY VIEW OF NUWERA ELIYA

² کیٹول گالا Kitulgala
نوارہ علیا سے اترائی کا سفر شروع ہوا ۔ آج بچے خاص طور پر بہت پرجوش تھے کیونکہ آج ہم Raftingکے لئے جا رہے تھےجس کو میں نے خاص طوراپنے پیکج میں شامل کروایا تھا ۔رافٹنگ ایک سنسنی خیز سر گرمی اورخطروں کے ساتھ نپٹنے کا ایک پر لطف کھیل ہے جس میں آپ ایک ربڑ کی کشتی میں بیٹھ کر دریا کی منہ زور لہروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دوپہر تک ہم کیٹول گالا پہنچ گئے جہاں rafting کے لئے ہماری بکنگ کی گئی تھی۔ہماری گاڑی ایک چھپر نما رافٹنگ سنٹر پر رکی ۔سب نے Changing roomمیں کپڑے تبدیل کیے۔اسی اثناء میں ایک دبلا پتلا ساسری لنکن لڑکا پہنچ گیا جس نے ہمارے رافٹنگ ٹرپ کو لیڈ کرنا تھا۔ اس نے ہم سب کو حفاظتی جیکٹس اور ہیلمٹ پہننے کے لئے دیئے۔یہ پہننے کے بعد ہم دریا تک پہنچنے کے لئے ایک پک اپ میں سوار ہوئے۔پانچ،سات منٹ کے بعد ہم مخصوص جگہ پر پہنچ گئے اور دریا ئے کیلانی کی طرف نیچے اترنا شروع کر دیا۔ ہماری کشتی وہاں پہنچائی جا چکی تھی۔ایک ایک چپو سب کو تھما دیا گیا۔سفر شروع کرنے سے پہلے ہمارے لیڈر نے ہمیں ضروری ہدایات اور چپو کو استعما ل کرنے صحیح طریقہ بتایا۔
اس کے بعددریا پر ہمارا پرلطف سفر شروع ہوا۔ اردگرد کہیں گھناجنگل تھا۔ کہیں کہیں چند گھر بھی نظر آ جاتے ۔ اس سفرکا اصل مزہ اس وقت آتاجب ہماری کشتی کسی Rapids سے ٹکراتی اور ہم سب خود کو سنبھالنے کی پوری کوشش کے باوجود ہنستےہنستے کشتی کے اندر ڈھیر ہو جاتے۔ اِسی اُچھل کود میں ایک گھنٹہ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہماری کشتی کنارے لگ گئی۔سب پورے کے پورے گیلے ہو چکے تھےمگر اس طرح خوش تھے کہ گویا بہت بڑا معرکہ سَر کر لیا ہو۔ سینٹر پہنچ کر سب نےکپڑے تبدیل کیے اور سری لنکا کے نہایت میٹھے اور لذیذ پھل جام نوش کیے جو کہ پہلے سےخرید کر گاڑی میں رکھے ہوئے تھے ۔ایک اور پر لطف دن گزارنے پر اللہ کا شکر ادا کیا اوراپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔

RAFTING ON KEYLANI RIVER

² بین ٹوٹا Bentota
سری لنکا میں ٹرپ کے آخری دو دن ہم نے بین ٹوٹا کے قریب چھوٹے سے ٹاؤن بیرووالا(Beruwala )میں گزارے۔ Beruwalaکی تاریخ جان کر حیران کن اور دلچسپ انکشافات ہوئے۔تاریخ بتاتی ہے کہ سری لنکا میں مسلمانوں کی پہلی آبادی اسی شہرمیں قائم ہوئی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان تجار کے ہمراہ آئے ہوئے صومالی شیخ یوسف بن احمد نے وہاں اسلام کی تبلیغ کی اور ان کی نسبت سے اس نوآباد شہر کا نام "بربرین" رکھا گیا (بربر یعنی افریقن قبیلہ) جو کہ بعد میں کثرت ِ استعمال کے باعث "بیرو" رہ گیا۔سری لنکا میں بنائی گئی اولین مسجد بھی اسی شہر میں موجود ہے جس کا نام "مسجد الابرار" ہے۔ یہ مسجد 920ء میں تعمیر کی گئی ۔ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ سری لنکا میں ہمارا آخری دن جمعہ کا دن تھا۔ میاں صاحب اور بچے جمعہ کی نماز پڑھنے ٹک ٹک ( سری لنکا کا رکشہ)میں بیٹھ کر کسی مسجد کی تلاش میں نکل گئے اور ٹک ٹک والے نے اس مسجد میں پہنچا دیا۔ واپسی پر ان کی خوشی دیدنی تھی کہ سری لنکا کی پہلی مسجد کو دیکھنے اور اس میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی سعادت ملی اور مجھے دکھ ہوا کہ میں اس سعادت سے محروم رہ گئی۔
Beruwala میں ہمارا قیامCinnamon Bay Hotel میں تھا۔یہ ہوٹل ساحل پر تعمیر کیا گیا ہے۔نہایت خوبصورت ساحلی پٹی پر بہترین سہولیات اور تعیشات سے مزین یہ پُر رونق ہوٹل سیاحوں کے لئے خاص کشش رکھتا ہے۔ بہت بڑا لان،سوئمنگ پول،ڈائینگ ہالز،خوبصورت لاؤنج اور بہت کچھ۔۔ساحل سمندر کےنزدیک ہونے کی وجہ سے قدرے حبس تھا مگر صبح اور شام کے وقت ہوا خوشگوار ہو جاتی ۔جس دن ہم وہاں پہنچے اسی رات ہوٹل کےلاؤنج میں کلچرل شو کا بھی اہتمام تھا۔ روایتی لباس میں ملبوس گروپ نے روایتی میوزک کے ساتھ مختلف لوک ڈانسز پیش کئے گئے۔ایک دبلے پتلےسے لڑکے کی پرفارمنس نے سب سے زیادہ داد سمیٹی جو میوزک کے ساتھ ساتھ ڈانس کرتے ہوئے جلتی ہوئی آگ کو منہ میں ڈال رہا تھا۔گویا اس نے اردو کا محاورہ "آگ سے کھیلنا" کو حقیقت بنا دیا۔ شو دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہم نے ڈنر بھی جاری رکھا۔

اگلے دن ہماری مارننگ واک ساحل سمندر پر تھی ۔ سمندر کی مست ہوا میں ساحل پر سیپیاں چُنتے چُنتے ہم کافی دور تک چلے گئے۔سمندر کو دیکھ کر ہمیشہ سے خدا کی طاقت کے ساتھ ساتھ اس کی بے پناہ عظمت و کبریائی کا احساس میرے دل میں جاگزیں ہوتا ہے ۔ صبح کے سہانے سمے سمندر کی نیلگوں وسعت نےدل پر عجب کیفیت طاری کر دی۔یوں لگا جیسے سمندر مجھ سے ہم کلام ہو رہا ہو۔
یہ آخری دو دن ہم نے ساحل کے آس پاس گھومنے میں صرف کیے اور اس کے سوا کچھ نہ کیا۔جیسے انگریزی میں کہتے ہیں doing nothing۔ہم بھی آرام سے سمندر کی لہروں کو دیکھتے اور ان سے کھیلتے رہے۔اگرکبھی آپ کو وسیع و عریض سمندر کی ہر دم متلاطم موجوں کے سامنے بیٹھ کر ان کو دیکھتے رہنے کا موقع ملے تو اس کو گنوائے گا مت۔۔یہ خدا، کائنات، زندگی کی حقیقت دریافت کرنے کے لمحات ثابت ہو سکتے ہیں۔۔اس سے پہلے کہ یہ لمحات میرےہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل جاتے، میں نے ان کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیا۔واپسی کی گھڑی آن پہنچی تھی اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر کولمبو کی طرف روانہ ہو گئے۔ اَن گِنت حسین یادوں کے ساتھ متاعِ دنیا سمیٹ کر مگر متاعِ دل لُٹا کر گاڑی میں بیٹھ گئے کیونکہ لگتا ہے دل توسری لنکا کے حسین نظاورں میں کہیں کھو گیا ہے۔
؏ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے
شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے!


CINNAMON BAY POOL BUREWALA BEACH MASJID-UL-ABRAR

Raina Naqi Syed
About the Author: Raina Naqi Syed Read More Articles by Raina Naqi Syed: 8 Articles with 10471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.