اجتہاد

اجتہاد کی تعریف و ارکان و شرائط

اجتہاد کے لغوی معنی ہیں: کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔ (1)

اجتہاد کے اصطلاحی معنی ہیں:
اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب و سنّت کی طرف لوٹانا. (2 )

یعنی فقیہ کا اپنی فکری طاقت کو حکم شرعی نظری کے استنباط میں اس طرح خرچ کرنا ہے کہ اس سے زیادہ فکری طاقت کے استعمال سے وہ اپنےآپ کو عاجز محسوس کرے (3 )

یعنی کسی فقیہ کا کسی حکمِ شرعی ظنی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی (پوری) طاقت خرچ کرنا اجتہاد کہلاتا ہے

*اجتہاد کا شرعی حکم*

جمہور علماءِ مسلمین اجتہاد کی حجیت کے قائل ہیں، اجتہاد کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالٰیٰ ہے:

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.

مندرجہ بالا آیت میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے: اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے، اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماعِ فقہاء" کہتے ہیں.(یعنی اجماعِ فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد عالم کا اپنی راۓ سے اجتہاد کرتے اس نئے غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن و سنّت کی طرف لوٹانا اور استنباط کرنا "اجتہادِ شرعی" یا "قیاسِ مجتہد" کہتے ہیں

احادث کریمہ سے اجتہاد واضح طور پر ثابت ہے

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو ان سے پوچھا : اے معاذ! تم مسائل و مقدمات میں کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا : میں اﷲ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : اگر تم اﷲ کی کتاب میں نہ پا سکے تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں سنت رسول سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کتاب و سنت دونوں میں حل نہ پاؤ تو؟ انہوں نے عرض کیا :

’’میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔‘‘

یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپکا اور فرمایا :

’’اﷲ کا شکر ہے جس نے رسول اﷲ کے بھیجے ہوئے نمائندہ کو اس بات کی توفیق بخشی جو اﷲ کے رسول کو خوش کرے۔‘‘(4)
آپ ﷺ نےحضرت معاذ کے اجتہاد کےفیصلے کو پسند فرمایا اور اس پرخوش ہو کر اپنی دعا سے بھی نوازا جو اجتہاد کے جائز ہونے کی دلیل ہے
حتی کہ حضور ﷺ نےاجتہاد کرنے کا حکم فرمایا فرمان مصطفی ﷺ ہے
’’جب تم قرآن و سنت میں کوئی حکم پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کرو، لیکن اگر تم ان میں حکم نہ پا سکو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو۔‘‘(5)

مجتہد : اس فقیہ کوکہا جاتا ہے جو اجتہاد و استنباط کی قوت و اہلیت کا حامل ہو
مجتہد فقیہ وہ عاقل بالغ مسلمان جو ایسا ملکہ (صلاحیت )کا حامل ہو جس کے ذریعے
وہ استنباط احکام کی قدرت رکھتا ہو(6)

مجتہد کی اقسام:
مجتہد کی بنیادی دو قسمیں ہیں

۱-مجتہد مطلق(کلی مجتہد):

جس کو کسی بھی پیش آنے والے واقعے میں اجتہاد کرنے کی قدرت و اہلیت حاصل ہو

۲-مجتہد فی البعض(جزوی مجتہد):

جس کو صرف بعض مسائل میں اجتہاد کرنے کی قدرت حاصل ہو یعنی ایسا مجتہد جو مجتہد مطلق سے اصول میں متفق ہو اور فروع میں اختلاف کرے

البتہ اسلامی قانون کے ماہرین نے فقیہ علماء کی مزید دو قسموں میں تقسیم کیا ہے

مجتہد کامل :

ان میں سرفہرست مجتہد کامل کا شمار ہوتا ہے یہ حضرات کسی دوسرے فقیہ مجتہد کی تقلید کے بغیر براہ راست کتاب و سنت سے اصول و قواعد کا استنباط کرت ہیں
اس میں فقہاء صحابہ شامل ہیں تابعین میں آئمہ اربعہ ،امام اوزاعی،سفیان ثوری ،ابراہیم نخعی وغیرہ شامل ہیں (7)

مجتہد منتسب :

دوسری قسم ان مجتہدین کی ہے جنہیں منتسب مجتہدین فی المذہب کہا جاتا ہے یہ حضرات اصول میں کسی مجتہد کامل کے مقلد ہوتے ہیں لیکن احکام کےاستنباط و مسائل کی تخریج میں خود بھی استنباط سے کام لیتےہیں
ان مجتہدین میں امام ابو یوسف ،امام طحاوی،وغیرہ شامل ہیں

مجتہد کی شرائط :

صفت ایمان:
اجتہاد کے لیے بنیادی شرط ہے کہ مجتہد صفت ایمان سے مزین ہو منصوص علیہ مسائل پر مکمل اعتمادو یقین رکھتا ہو
علامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے مجتہد کے لیے شرط اول قرار دیا کہ خدا کے وجود و ذات و صفات و کمالات پر ایمان رکھتا ہو حضور ﷺ کی تصدیق کرتا ہو شریعت میں جو احکام آئے ہیں ان کی تصدیق کرتا ہو (8)

قرآن کا علم:

قرآن کی ان آیات سے مجتہد کا واقف ہونا ضروری ہے جو فقہ و اصول فقہ سے متعلق ہوں فقہاء کرام کے نزدیک ایسی آیات پانچ سو ہیں
مگر محقیقین کا کہنا ہے کہ اس طرح آیات کی تحدید صحیح نہیں کیونکہ جو آیات قصص وواقعات پر مشتمل ہیں ان میں بھی امر و نواہی کا بیان ہے (9)

قرآن کےبعض احکام منسوخ ہیں اس لیے مجتہد کو ناسخ و منسوخ کا علم ہو (10)

احادیث کا علم :

مجتہد کے لیے ان احادیث سے واقف ہونا ضروری یے جن سے فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں مواعظ و آخرت وغیرہ سے متعلق روایات پر عبور ضروری نہیں ایسی احادیث ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن بقول علامہ رازی و علامہ غزالی رحمہ اللہ علیھما کے غیر محدود بھی نہیں (11)
مجتہد کو یہ علم ہو کہ حدیث متواتر ہے یا مشہور یا خبر واحد نیز راوی کے احوال سے بھی آگہی ہو (12)

یعنی مجتہد کو اسماء رجال و احادیث کی جمیع اقسام کا عم ہو

البتہ مجتہد کے لیےضروری نہیں ہے کہ وہ تمام احادیث احکام کا حافظ ہو اگر اس کےپاس احکام سے متعلق احادیث کا کوی مجموعہ ہو اور اس سے استفادہ کرے تو یہ بھی کافی ہے اہل علم نےخاص طور پر سنن ابی داود کا ذکر کیا ہے (13)


مجتہد حدیث سے واقفیت رکھتا ہو حدیث سے واقفیت کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کےصحیح و معتبر ہونے سے واقف ہو خواہ یہ واقفیت براہ راست اپنی تحقیق پر مبنی ہو یا کسی ایسے مجموعہ احادیث سے روایت نقل کی گئ ہو جسکی روایت کو آئمہ فن نے قبول کیا ہو (14)

اجماعی مسائل کا علم:
جن مسائل پر امت کےاجماع کا علم ہوچکا ہے اورآئمہ اس مسئلےپر متفق ہوں تو اب ان مسائل میں اختلاف درست نہیں اس لیے مجتہد پر لازم ہے کہ اجماعی مسائل سے واقف ہو البتہ تمام اجماعی و اختلافی مسائل کا احاطہ ضروری نہیں (15)

عربی زبان کا علم:

احکام شریعت عربی زبان میں ہیں اس لیے مجتہد کا عربی زبان سے واقفیت رکھنالازم ہے یہی اجتہاد کی بنیاد ہے مجتہد عربی زبان کی فصاحت ،بلاغت، عربی لغت و محاورات سے واقف ہو علم نحو ،علم صرف ، علم بیان ،علم معانی ، علم بدیع سے واقف ہو

زمانے سے واقفیت:
مجتہد زمانے سے واقفیت رکھتا ہو یعنی زمانے کے عرف و عادات سے واقف ہو
علامہ شامی فرماتے ہیں "بہت سے احکام ہیں جو زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بدل جاتےہیں اس لیے کہ اہل زمانہ کا عرف بدل جاتا ہے نئ ضرورتیں پیدا ہوجاتی ہیں اہل زمانہ میں فساد پیدا ہوجاتا ہے اگر شرعی حکم پہلے کی طرح باقی رکھا جاے تو یہ مشقت لوگوں کے لیے ضرر کا باعث ہوگی اور ان شرعی اصول قواعد کے خلاف ہوجاے گا جو سہولت و آسانی پیدا کرنےاور نظام کائنات کو بہتر اور عمدہ طریقہ پرکھنے کے لیے ضرر و فساد کے ازالہ پر مبنی ہے

کسی مسئلے کے استنباط کے لیے ایک مجتہد کو ان تمام شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے کسی ایک صفت کے معدوم ہونے سے اجتہاد کامل حاصل نہیں ہوسکتا
شریعت اسلامیہ نے ہر زمانے میں جمود کو ناپسند کیا کیونکہ یہی جمود قوموں کے زوال کا سبب ہے اسلام وہ ضابطہ حیات ہے جس میں ہر زمانے کے لوگوں کے لیے اجتہاد کا دروازہ مہیا کیا کسی بھی جدید پیش آور مسئلے میں لیکن اجتہاد کے ذریعے لوگوں کی رہنمای کی صدارت ان مجتہدین کو دی جو شریعت اسلامیہ کے پابند اور قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں
وما علینا الا البلاغ المبین

حوالہ جات

1.القاموس الفقھی لغۃو اصطلاحا
2 .تاج العروس: 330/2
3.نورالانوار حاشیہ الاقمار: 246
4.ابوداود،السنن،کتاب الاقضیہ،باب اجتھادالرای فی القضاء 3:295
5.احکام الآمدی
6.التقریر
7.اصول الفقہ:لابی زھرہ : 30
8.عقدالجید:34
9.البحرالمحیط،باب الثانی المجتہدالفقیہ:490/4
10.البہاج
11ارشادالفحول
12.تیسرالتحریر:90/4
13.المستصفی:387/2
14.ارشادالفحول:207/2.المستصفی :384/2
15.المستصفی:384/2

انزل عبدالستار

کراچی یونیورسٹی
 

Anzul Abdulsattar
About the Author: Anzul Abdulsattar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.