کرکٹ کی تاریخ کے “ہائی ٹینشن میچز“ اور تنازعات

پاکستان اور بھارت کے درمیان زیادہ تر میچزہیجان خیز ماحول میں کھیلے گئے
لکھنؤکادوسرا ٹیسٹ کرکٹ کے ماہرین کے لیے ’’ہائی وولٹیج ‘‘ جب کہ بھارتی شائقین کے لیے ذہنی صدمے کا باعث بنا
2017کی چیمینز ٹرافی میں پاکستان کی فتح سے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کے میچز ہمشیہ سے ’’ہائی ٹینشن‘‘ ماحول میں کھیلے گئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے پاکستان کرکٹ ٹیم کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے ٹیسٹ اسٹیٹس دلوانے میں بھارتی کرکٹ بورڈ نے کافی مدد کی لیکن بھارتی شائقین کو اپنی ٹیم کی ہار برداشت نہیں ہے۔ اکتوبر 1952ء میں پاکستان ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا اور ڈبیو ٹیسٹ بھارت کے خلاف دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں کھیلا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلا جانے والا یہ پہلا میچ انتہائی سنسنی خیز رہا۔ کرکٹ کے ناقدین کی رائے تھی پاکستانی ٹیم ’’بے بی آف ٹیسٹ کرکٹ ’’ کی حیثیت رکھتی ہے جب کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کا شمار دنیا کی مضبوط ٹیموں جب کہ اس کے کھلاڑیوں کا شمار قدآور کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے کئی کھلاڑی برطانوی دور حکومت میں انگلش ٹیم کی جانب سے کھیلتے رہے تھے۔ اسے ٹیسٹ اسٹیٹس 1932میں حاصل ہوا تھا اور اسی سال اس کی ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا۔
 

image


آزادی کے بعد بھارتی ٹیم نے پہلی ٹیسٹ سیریز 1948ء میں آسٹریلیا کے خلاف برسبین میں کھیلی۔ آسٹریلین ٹیم کی قیادت سرڈان بریڈمین اور بھارت کے کپتان لالہ امرناتھ تھے۔چند ماہ قبل ہی اس نے مدراس ٹیسٹ میں انگلینڈ کو شکست دے کر فتح حاصل کی تھی، اس لیے پاکستانی کرکٹر اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔دہلی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی کے پندرہ بلے باز دوہرے ہندسے تک پہنچے بغیر آؤٹ ہوگئے۔ونو مینکڈ نے 13 پاکستانی بلے بازوں کو پویلین واپس بھیجا۔اس کے تین روز بعد لکھنؤ میں دوسرا ٹیسٹ میچ شروع ہوا، جو نہ صرف کرکٹ کے ماہرین کے لیے ’’ہائی وولٹیج ‘‘ میچ ثابت ہوا بلکہ شائقین کو بھی اس میچ کے نتیجے سے ذہنی جھٹکے لگے۔ دہلی ٹیسٹ میں اسکول کی ٹیم کی سی کارکردگی دکھانے والی پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی لکھنؤ کے یونیورسٹی گراؤنڈ پر ایک نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترے اور انہوں نے حیران کن کھیل پیش کیا۔اس میچ میں نذر محمد نے پاکستان کی تاریخ کی پہلی سنچری اسکور کی جب کہ فضل محمود نے اپنی خطرناک سوئنگ گیندوں سے بھارتی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کردیا۔ انہوں نے دونوں اننگز میں 12 وکٹیں لیں ، نذر محمد کو اس میچ میں یہ بھی منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ وہ بیٹنگ اور فیلڈنگ کر کے ٹیسٹ میچ کے تمام دن میدان میں موجود رہنے والے دنیا کے پہلے کرکٹر بن گئے۔بھارت کو اس میچ میں ایک اننگ اور 43رنز سے شکست دے کر کرکٹ کی تاریخ کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ پاکستان کی فتح نے بھارتی تماشائیوں پر بجلی گرا دی اور وہ میچ ختم ہوتے ہی گراؤنڈ میں داخل ہوگئے اور نعرے بازی کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی شروع کردی جس کی وجہ سے انتظامیہ کو پولیس طلب کرنا پڑی۔

1984ء میں یھارتی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا ، پہلا میچ کوئٹہ کے ایوب نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا گیا، جسے میزبان ملک نے جیتا۔ دوسرا ٹیسٹ میچ جو 31 اکتوبر 1984 کو جناح اسٹیڈیم سیالکوٹ میں منعقد ہوا، بھارتی ٹیم کے لیے ہائی ٹینشن میچ ثابت ہوا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ میچ کا پہلا دن تھا اور بھارت کے تین بلے باز آؤٹ ہوکر پویلین واپس جاچکے تھے جب کہ پانچویں نمبر پر آنے والے روی شاستری اور دلیپ وینگ سرکار بیٹنگ کر رہے تھے اور سنچری بنانے کے قریب تھے کہ میچ کے دوران ہی اسٹیڈیم میں بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کے قتل کی خبر پہنچی۔ بھارتی آفیشلز نے مبچ رکوا کر بھارتی کھلاڑیوں کو واپسی کا اشارہ کیا۔ اسی روز بھارتی ٹیم اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر وطن واپس روانہ ہوگئی۔
 

image

بنگلہ دیش جولائی 2015
2015میں جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا جہاں اس نے دو ٹی 20، تین ایک روزہ اور دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی۔ پہلا ٹیسٹ میچ چٹاگانگ میں ظہور احمد چوہدری اسٹیڈیم میں منعقد ہوا جو دونوں ممالک کے درمیان ’’ہائی وولٹیج‘‘ میچ ثابت ہوا۔ میچ کا آغاز خوش گوار ماحول میں ہوا اور جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کی۔ کھانے کے وقفے سے کچھ دیر قبل جب میزبان ٹیم نے بیٹنگ کا آغاز کیا تو اسٹیڈیم میں نصب بڑی اسکرین کے نیچے براجمان تماشائیوں نے جنوبی افریقہ کے فیلڈرز پر آوازیں کستے ہوئے نازیبا اور متعصبانہ جملے استعمال کیے جس کی وجہ سے اسٹیڈیم میں کشیدہ صورت حال پیدا ہوگئی۔ پولیس نے گراؤنڈ میں آکر میچ رکوا دیا اور ہنگاامہ آرائی کرنے والے ایک تماشائی کو گرفتار کرلیا جب کہ باقی افراد وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

فروری 1981 میں ملبورن کے گراؤنڈ پر بینسن اینڈ ہیجز ورلڈ سیریز آسٹریلیا ، بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلی گئی۔سیریز کا تیسرا فائنل میچ جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا گیا اس کا نتیجہ کرکٹ کے حلقوں کے لیے خاصا ہیجان خیز رہا اورعرصہ دراز تک چہ میگوئیوں کا سبب بنا رہا۔آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کیویز کو جیت کے لیے 181رنز کا ہدف دیا۔ میچ جب فیصلہ کن مرحلے میں پہنچا تو نیوزی لینڈ کو آخری گیند پر میچ برابر کرنے کے لیے بھی چھ رنز کی ضرورت تھی اور کریز پر ایک ایسابلے باز موجود تھا جس سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ آخری گیند پر فل شاٹ کھیلتے ہوئے گیند کو فضا میں اچھالتے ہوئے تماشائیوں کے درمیان بھی پھینک سکتا ہے۔میچ کا آخری اوور کینگروز کپتان گریگ چیپل کے بھائی ٹریور چیپل کرا رہے تھے ۔ صورتحال کی نزاکت کومحسوس کرتے ہوئے کینگرو کپتان نے ٹریور چیپل کو ہدایت کی کہ وہ نیچے سے ہاتھ گھما کر یعنی ’’انڈر آرم ڈلیوری‘‘ پھینکیں تاکہ چھکا لگنے کا امکان ختم ہو جائے۔اُس زمانے میں انڈر آرم گیند پھینکنے کی اجازت تھی اور ٹریور نے گیند پھینکنے سے قبل امپائر کو مطلع کیا کہ وہ اپنا ایکشن تبدیل کر رہے ہیں اور آخری گیند نیچے سے ہاتھ گھما کر پھینکیں گے۔ٹریور نے میچ کی آخری گیند کرائی جو انڈر آرم تھی جس پر چھکا تو کیا 100 میٹر کی باؤنڈری کے حامل ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں چوکا لگنے کا سوال بھی پیدا نہ ہوتا تھا۔ نیل نے گیند کو روکا اور جتنی دور گیند گئی اس سے کہیں دور اپنے بلے کو پھینکا اور غصے کے عالم میں میدان سے باہر آ گئے۔ رچی بینیود جو اس میچ کی کمنٹری کررہے تھے انہوں نے اسے کرکٹ کی تاریخ کی شرم ناک بالنگ قرار دیا۔آسٹریلیا مقابلہ تو جیت گیا، لیکن جو بدنامی اس کے حصے میں آئی، وہ اس کی فتح سے کہیں زیادہ تھی۔ٹریور کی انڈر آرم گیند کرانے کی شہرت ٹی وی کمنٹری کے توسط سے آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں ہوگئی اور جب میچ کے اختتام کے بعد گریگ چیپل گراؤنڈ سے باہر آنے لگے تو اسٹیڈیم میں بیٹھی ایک بچی نے ان کی آستین پکڑ کر کہا کہ’’ کھیل میں”بے ایمانی کرتے ہو؟“ کہا جاتا ہے کہ آخری گیند پھینکے جانے سے قبل آسٹریلین ٹیم کے تمام اراکین ’’انڈر آرم ڈلیوری‘‘ پر متفق تھے، سوائے وکٹ کیپر روڈنی مارش کے۔۔اس واقعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازعے نے اتنا طول کھینچا کہ اس کی گونج دونوں ملکوں کے ایوانوں تک جا پہنچی اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے وزرائے اعظم تک نے اس واقعے پر بیانات جاری کیے۔ نیوزی لینڈ کے اُس وقت کے وزیر اعظم رابرٹ ملڈون نے انڈر آرم گیند کو ’بزدلانہ اقدام‘ قرار دیا جب کہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم فریزر نے بھی اسے ’’کھیل کی روایات کے منافی اقدام‘‘ قرار دیا۔ اس واقعے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ غیر قانونی طریقے سے میچ جیتنے پر آسٹریلین کرکٹ بورڈ نے ٹریور اور گریگ چیپل کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی بلکہ ان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی قدم نہیں اٹھایا۔ کرکٹ قوانین انہیں جس چیز کی اجازت دیتے تھے انہوں نے وہی کیا۔ اس تنازعہ کے بعد بین الاقوامی میچوں میں انڈر آرم گیند پھینکنے پر فوری طور سے پابندی عائد کر دی گئی۔بینسن اینڈ ہیجز سیریز کے بعد،آسٹریلوی کپتان کو نہ صرف اس میچ کے بعد کرکٹ کے شائقین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا بلکہ ورلڈ سیریز کپ کے چوتھے فائنل کے لیے جب وہ میدان میں اترے تو تماشائیوں نے ان کا استقبال تضحیک آمیز القابات اور نعروں سے کیا ۔

1980ءمیں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا، جہاں اس نے پہلے ٹور میچ کے علاوہ ایک ون ڈے اور تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی۔اس دور میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 'کالی آندھی کی عرفیت سے معروف تھی اور اسے دو مرتبہ عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل تھا۔ اس دورے سے قبل وہ آسٹریلیا کو اسی کے ملک میں شکست دے کر نیوزی لینڈ آئی تھی۔ پہنچا تھا۔ نیوزی لینڈ کے پاس رچرڈ ہیڈلی جیسا کھلاڑی تھا جب کہ اسے ہوم گراؤنڈ کی وجہ سے ایمپائروں کی جوڑی کی بھی درپردہ، مدد حاصل تھی۔میچ کے دوران نیوزی لینڈ کے بألرز کی اپیل ابھی حلق سے نکلتی ہی تھی کہ امپائروں کی انگلی فضاء میں بلند نظر آتی جبکہ مہمان ٹیم کے فیلڈرز حلق پھاڑ پھاڑ کر اپیلیں کرتے لیکن ایمپائر سنی ان سنی کردیتے۔ پہلا ٹیسٹ میچ جو 8سے 13فروری کے دریمان ڈونیڈن میں منعقد ہوا،نیوزی لینڈ کی بیٹنگ کے دوران مائیکل ہولڈنگ کی ایک گیند نیوزی لینڈ کےبلے باز جان پارکر کے دستانوں سےٹکرا کر پہلی سلپ تک چلی گئی ، جس پر ہولڈنگ نے زوردار اپیل کی لیکن ایمپائر’’ جان ہیٹسی ‘‘نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ایمپائر کی جانب داری پر ہولڈنگ طیش میں آگئے اور انہوں نے وہ کیا جو اس سے پہلے اور بعد میں کسی بھی بالر نے کرنے کی ہمت نہیں کی۔انہوں نے لات مار کر بیٹنگ اینڈ کی تینوں گلّیاں اکھاڑ دیں۔ امپائروں کی جانب داری کی وجہ سے نیوزی لینڈ یہ میچ ایک وکٹ سے جیت گیا۔ اس جیت میں ایمپائروں کا کتنا بڑا کردار تھا، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ویسٹ انڈین بلے بازوں کی 20 میں سے 12 وکٹیں ایل بی ڈبلیو قرار دی گئی اور ان میں سے 7 رچرڈ ہیڈلی نے حاصل کیں۔دوسرا ٹیسٹ میچ 27فروری کو لنکاسٹر پارک، کرائسٹ چرچ کے مقام پر کھیلا گیا۔ اس میچ میں بھی ایمپائرز کی سابقہ روش برقرار رہی ۔ البتہ اس مرتبہ کیریین بالرز کا غصہ عروج پر تھا۔ویسٹ انڈیز کے بالر، کولن کرافٹ کی جانب سے کرائی جانے والی گیند کیوی بلے باز رچرڈ ہیڈلی کے دستانوں کو چھوتی ہوئی وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں گئی جو واضح طور پر کیچ تھا لیکن فیلڈرز کی جانب سے اپیلوں کے باوجود انہوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کولن کرافٹ کی اگلی گیند جو باؤنسر تھی، اسے نو بال قرار دیا گیا حالانکہ وہ کسی طور سے بھی ’’نو بال‘‘ نہیں تھی۔اس پر طیش میں آکر کرافٹ نے "فیصلہ کن ضرب" لگانے کا فیصلہ کرلیا لیکن ان کا نشانہ اب بلے باز نہیں بلکہ ایمپائر تھے۔کرافٹ، رن اپ لیتے ہوئے آئے اور اپنی داہنی کہنی امپائر کو مارتے ہوئے نکل گئے۔ امپائر ’’فریڈ گڈال ‘‘اس ضرب کی وجہ سے تکلیف کی شدت سےبے حال ہوگئے۔ اس پر ویسٹ انڈیز ٹیم کے خلاف ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا لیکن کیربین کپتان کلائیو لائیڈ نے اسے ایمپائروں کی جانبداری کا شاخسانہ قرار دیا۔
 

image

جون 2017میں برطانوی سرزمین پر کرکٹ کی عالمی چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد ہوا۔ گروپ بی کا دوسرا میچ 4؍جون کو کھیل کے روایتی حریف بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیلا گیا۔ اس میچ کو دونوں ممالک کے کروڑوں افراد نے دیکھا جب کہ دو ہفتے بعد انہی ملکوں کے درمیان منعقد ہونے والا فائنل مقابلہ تقریباً ایک ارب لوگوں نے اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیکھا۔ اس موقع پر دہلی کے بعض حساس علاقوں میں امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے جگہ جگہ پولیس کی فورس تعینات کی گئی تھی۔ گروپ میچ میں بھارتی ٹیم کو قدرتی عوامل کا تعاون بھی حاصل رہا، جب کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے اس میچ میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور بھارت نے اپنے روایتی حریف کو بھاری مارجن سے شکست دی۔ اس کے بعد پاکستانی ٹیم جیت کے جذبے کے ساتھ کھیلی اور اس نے جنوبی افریقہ اور سری لنکا کو بعد کے گروپ میچوں میں شکست دی۔ سیمی فائنل مقابلے میں انگلینڈ کو ہرا یا اور فائنل میں اس کی مدبھیڑ ایک مرتبہ پھر بھارت کے ساتھ ہوئی۔ میچ سے قبل بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے اسے ایک جنگی معرکہ قرار دیا اور بھارتی ٹیم جنگجویانہ انداز میں میدان میں اتری لیکن پاکستانی کھلاڑیوں نے بھی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر بہترین کھیل پیش کیا اور اپنی حریف ٹیم کو 180رنز کے بھاری مارجن سے شکست دے کر چیمپئنز ٹرافی جیت لی۔ پاکستان کی اس جیت کی وجہ سے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔بھارت کے زیادہ تر علاقے ہنگاموں کی لپیٹ میں آگئے جب کہ کرکٹ کے ناقدین نے کپتان ویرات کوہلی سے کرکـٹ ٹیم کی کپتانی لے کر دھونی کو دوبارہ کپتان بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارتی باؤلر بھومرا، ایشون اور جدیجا کی جگہ نئی کھلاڑیوں کو موقع دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ دوسری جانب جوں ہی پاکستان نے بھارت کے خلاف میچ میں فتح حاصل کی بھارت کی ہی ریاست مقبوضہ کشمیر میں جشن منایا گیا۔عوام نے سڑکوں پر نکل کرخوشی کا اظہار کیا جب کہ شالیمار کے علاقے میں نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے پٹاخے چھوڑے۔کشمیری عوام کی خوشی بھارتی فوج سے برداشت نہیں ہوئی اور نزدیک میں واقع کیمپ میں موجود بھارتی فورسز کے اہل کاروں نے مشتعل ہوکر فائرنگ کرتے ہوئے دوکانوں کا آگ لگادی۔آتش زدگی کے نتیجے میں کروڑوں روپے مالیت کا سامان جل گیا بھارتی فوجیوں نے لوگوں کو وحشیانہ طور پر زدوکوب کیا۔ان کے گھروں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی ۔’’شٹینگو بانڈی پورہ ‘‘میں مکانوں و دوکانوں کے علاوہ مسجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
 

image


چند سال قبل ایک دوستانہ کرکٹ میچ ہندو مسلم فسادات میں تبدیل ہوگیا۔بھارتی ریاست گجرات کے قصبے’’ ویرامگام ‘‘ مسلمان لڑکے ایک دوستانہ میچ کھیل رہے تھے کہ بیٹس مین کا ایک اونچا شاٹ مندر میں جاکر گرا۔ جب لڑکے مندر میں گیند لینے گئے تو وہاں موجود پجاریوں سے ان کی تلخ کلامی ہوگئی جو ہاتھاپائی کے بعد ہندو مسلم فساد میں بدل گئی جس میں دونوں فریقین کے تقریباً تین افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔ ویرامگام کے واقعے کی خبر سن کر دوسرے علاقوں میں بھی ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑ جن میں مسلمانوں کی نو دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔پولیس کو صورت حال پر قابوپانے کے لیے آنسو گیس استعمال کرنا پڑی لیکن ناکامی کے بعد متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔

1979ء میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا جانے والا میچ، کینگروز ٹیم کے لیے ہائی ٹینشن میچ بن گیا۔پاکستانی ٹیم دو میچوں کی ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے آسٹریلیا کے دورے پر پہنچی۔ پہلا میچ 10 سے 15مارچ کے درمیان ملبورن کرکٹ گراؤنڈ پر کھیلا گیا۔پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پہلی اننگز میں 196 رنز بنائے۔اس اننگ میں کینگروز بالرز ایلن ہرسٹ اور روڈنی ہوگ نے بہترین بالنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو معمولی اسکور پر آؤٹ کیا۔جواب میں پاکستان نے آسٹریلین بلے بازوں کو کھل کر نہیں کھیلنے دیا اور انہیں 168 رنز تک محدود رکھا۔اس اننگ میں فاسٹ بالر، عمران خان نے چار جب کہ سرفراز نواز اور وسیم راجہ نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔ دوسری اننگز میں پاکستان بلے بازوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جواب میں آسٹریلوی بلے بازوں نے بھی جارحانہ بلے بازی کرتے ہوئے ہدف کو 300سے زیادہ رنز پر پہنچا دیا اور بہ ظاہر ہوں لگ رہا تھا کہ میزبان ملک میچ جیت جائے گا لیکن اس موقع پر سرفراز نواز نے سوئنگ اور ریورس سوئنگ باؤلنگ کا ایسا جادو چلایا کہ آسٹریلوی بلے باز بالکل بے بس ہو گئے اور یکے بعد دیگرے آؤٹ ہونے لگے۔سرفراز نے 86 رنز کے عوض 9 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔اسی میچ کے دوران انہوں نے دوسرا کارنامہ اسی سپیل میں ایک رن دے کر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا انجام دیا۔ کرکٹ کے بڑے بڑے نقاد اس ٹیسٹ میچ کو تاریخ کے عظیم ترین ٹیسٹ میچوں میں شمار کرنے پر مجبور ہو گئے۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Cricket is meant to be a gentleman’s game. Originally a game for English aristocrats, participants are expected to carry themselves in a dignified and honest manner. There should surely never be any cheating, bodyline bowling, sledging, fighting, or excessive appealing.