جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

کشمیر میں سفاکیت و بربریت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے بھارتی فوج کشمیریوں کی لاشوں کو منہ کے بل سڑکوں پر گھسیٹ رہی ہے ۔ادھر اسرائیل نہتے فلسطینیوں کی لاشوں پر گریٹر اسرائیل کی بنیاد رکھ رہا اور عالمی برادری فلسطینیوں کے احتجاج پر کان دھرنے کی بجائے ان کی رہی سہی آزادی و خود مختاری بھی چھین لینے کے درپے ہے جس کا آغاز امریکہ نے اپنے ہاں سے فلسطینیی سفارتخانہ بند کرنے سے کر دیا ہے ۔جبکہ شام میں خود اپنوں ہی کے ہاتھوں مسلمانوں کے اندوہناک قتل عام کی ایک نئی سیریز شروع ہو چکی ہے ۔ ادلب پر اسد، روس اور ایران کے مشترکہ حملے کے آغاز سے 30لاکھ مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں جبکہ ان تمام حالات میں اُمت مسلمہ کہاں ہے ؟ درداُمت کہاں ہے اوردرد اُمت کی دوا بننے والے کہاں ہیں ؟ ہر درمند مسلمان یہی سوچ رہاہے ۔

کبھی یہ اُمت واقعی ایک جسد واحد کی مانند تھی جس کے ایک حصے کا درد دوسرے حصے میں محسوس کیا جاتا تھا ۔کم از کم ایک صدی قبل تک بھی صورتحال آج سے کافی مختلف تھی جبکہ اس وقت اُمت یورپی استعمار کی غلامی میں آچکی تھی ۔اس کے باوجود بھی جب تنسیخ خلافت کا سانحہ استنبول میں پیش آیا تو برصغیر کے مسلمانوں نے اس کا درد محسوس کرتے ہوئے یہاں تحریک خلافت چلائی حالانکہ مسلمانان ِ برصغیر اس وقت انگریزوں کے زیر اعتاب تھے ۔پھر تنسیخ خلافت اور سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد جب استعماری طاقتوں نے مسلمان اُمت کے عین قلب میں یہودی ریاست اسرائیل کی بنیاد فلسطینیوں کی لاشوں پر رکھنی شروع کی تو اس وقت بھی حالانکہ فلسطین برطانیہ کا مقبوضہ علاقہ بن چکا تھا ،اُمت کے درد مندوں نے فلسطین میں اسلامی کانفرنسیں منعقد کرکے درد اُمت کا کچھ نہ کچھ ثبوت دیا۔ اس کے بعد 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ بھی یہ ثابت کر رہی تھی کہ اُمت کا درد ابھی کچھ نہ کچھ باقی ہے ۔پھر اُمت کا یہی درد افغانستان میں روس کی پیش قدمی روکنے میں بھی نظر آرہا تھا ، خود ہمارے ہاں نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ ریاست کی سطح پر بھی اُمت کے درد کا رنگ غالب نظر آرہاتھا ۔اس کے کافی عرصہ بعد تک بھی اسلامی کانفرنسوں میں، بین الاقوامی اسلامی فورمز پر اور مسلمان راہنماؤں اور حکمرانوں کے بیانات میں ہی سہی کہیں کہیں فلسطین ، کشمیر کا ذکر آجاتا تھا مگر اب پوری اُمت لہولوہان ہے ، اُمت کا کون سا ایسا حصہ ہے جو درد ، تکلیف اور کرب میں ڈوبا نہیں ہوا۔کون سی ایسی آفت ہے جو ہر کجا مسلمانوں کا پیچھا نہیں کر رہی ۔دنیا میں کونسی ایسی جگہ ہے جہاں مسلمانوں کا خون نہیں بہہ رہا ، اُن کی بستیاں نہیں اُجڑ رہیں ، اُن کے لاشوں کے مسلے نہیں بنائے جارہے اور انہیں بے گھر نہیں کیا جارہا ہے؟ مگر دردِ اُمت ہے کہ کہیں نظر نہیں آرہا ۔ بلکہ اگر کہیں نظر بھی آتا ہے تو اس کودبانے کے لیے اپنے ہی لوگوں میں سے ایک طبقہ آگے جاتا ہے۔ مثلاً مصر کے اخوان اسرائیل کے لیے خطرہ تھے تو انہیں مٹانے کے لیے السیسی کی قیادت میں مصری فوج آگے آگئی۔ شام اور عراق جب تک خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوئے تھے تو اسرائیل اتنا کھل کر جارحیت پر نہیں اُتر تا تھا ۔ مگر اپنوں ہی کی کشمکش کے بعد ان دونوں ملکوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس کے بعد اب وہ اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے ۔ اسی طرح کی تبدیلیاں دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی لائی جارہی ہیں یا لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔سعودی عرب میں ماڈرنائزیشن کے نام پر جو ایجنڈا مسلط کیا جا چکا ہے وہ بظاہر شدت پسندی اور انتہا پسندی کو اُکھاڑ پھینکنے کا دوسرا نام ہے لیکن حقیقت میں درد اُمت رکھنے والوں کو لگام ڈالنا ہی مطلوب ہے ۔ ترکی کے صدر طیب اردگان اگرچہ اُمت کا کچھ درد رکھتے ہیں مگر ان کا علاج بھی امریکہ کے پاس گولن کی صورت میں موجود ہے۔ پاکستان میں پرویز مشرف نے ’’ سب سے پہلے پاکستان ‘‘ کا جو سلوگن متعارف کروایا اس کا مطلب بھی درد اُمت کو مٹانا ہی تھا ۔افغانستان میں درد اُمت کی عملی صورت جہاد کی صورت میں نظر آئی تو وہاں امریکہ اپنے چالیس اتحادیوں کے ساتھ خود آموجود ہوا اور پاکستان اور افغانستان سے بھی ایک طبقہ اتحادیوں کو ایسا ضرور مل گیا جو اس درداُمت کو مٹانے کے لیے ان کے ساتھ ہو گیا۔ بنگلہ دیش میں یہی خدمات حسینہ واجد جماعت اسلامی کے اکابرین کو پھانسی چڑھا کر سرانجام دے رہی ہے ۔غرض ہر ایک اسلامی ملک میں درد اُمت کو دبانے کا اہتمام کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد اس اہتمام کو مزید بہتر بنانے کے لیے یا تو مسلم حکومتوں کا بیانیہ بدلا گیا ، جو نہیں’’ بدل‘‘ سکتے تھے ان کی حکومتیں بدل دی گئیں یا پھر حکومتوں کے اندر ایسے لوگوں کو لانے کی کوشش کی گئی جو درد اُمت رکھنے والوں کو سبق سکھا سکیں ۔پاکستان میں قادیانیوں کو حکومتی ایوانوں تک رسائی دلانے کی کوشش بھی اسی اہتمام کا حصہ ہو سکتی ہے۔کیونکہ اسلام دشمن قوتیں یہی چاہتی ہیں کہ حکومتوں میں ایسے لوگ آئیں جو درد اُمت رکھنے والوں کے خلاف عالمی طاقتوں سے مل کر کام کریں ۔ لہٰذا آج تمام اسلامی ممالک کی حکومتوں میں اکثریت میں ایسے ہی لوگ بیٹھے ہیں اور یہی وہ وقت ہے کہ اسرائیل گریٹر اسرائیل بن رہا ہے ۔ وہ نہ صرف تمام تر بین الاقوامی قوانین و ضوابط کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے ہوئے کل کے کل بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ بنا رہا ہے بلکہ آئے دن فلسطینیوں کے قتل عام میں اضافہ کرتے ہوئے اور دوسری طرف ان کی زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسا کر وہاں کے ڈیموگرافک سٹریکچر کو بھی سرعام اپنے حق میں تبدیل کر رہا ہے ۔ اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت نے بھی ایک طرف آسام میں 40لاکھ مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرکے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا ہے اور دوسری طرف جموں و کشمیر کے ڈیموگرافک سٹرکچر کو تبدیل کرنے کے لیے جہاں کشمیر کے قتل عام میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے وہاں آئین کی شق 35-Aمیں ترامیم کر کے کشمیر میں ہندو بستیاں بسانے کی کوشش کی بھی کی جا رہی ہے ۔اب تک ہم روہنگیا اور بہاری مسلمانوں کو رو رہے تھے جنہیں اپنی ہی سرزمین میں بیگانہ کر دیا گیا مگر اب آسام کے مسلمان بھی اسی صورتحال سے دو چار ہو چکے ہیں کہ اب انہیں اپنی ہی دھرتی پر جگہ ملے گی اور نہ بنگلہ دیش انہیں قبول کرے گا ۔

ہم اُمت کے بہتے لہو کا ذمہ دار ہمیشہ عالمی طاقتوں کو قرار دے کر بری ذمہ ہو جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ عالمی طاقتوں یا غیر مسلموں کو مسلمانوں پر اس ظلم و ستم کی شہہ کہاں سے مل رہی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے ظلمت کی ان تمام تر تاریکیوں اور طوالتوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ کیونکہ ہم جانتے ہی نہیں کہ جنہیں ہم راہبر مانتے ہیں وہی راہزن ہیں ۔اگر بنگلہ دیش کی مسلمان حکومت اپنے ہی مسلمان شہریوں کو کسی دوسرے اسلامی ملک کی حمایت کرنے کے جرم میں پھانسیاں چڑھائے گی تو پھر بھارت کو مسلمانوں کی شہریت چھین لینے سے کون روکے گا۔ جب شام میں مسلمانوں کی پوری پوری بستیوں کو کیمیائی ہتھیاروں سے نیست و نابود کر دیا جائے گا تو پھر اسرائیل اور بھارت کو فلسطین اورکشمیر میں ظلم و ستم کرنے سے کون روکے گا ؟ جب ایران شام میں اور سعودی عرب یمن میں روز بمباریاں کریں گے تو پھر امریکہ کو افغانستان میں اورروس کو شام میں بمباریاں کرنے سے کون روکے گا ؟ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور بھارت نے بھی آج تک مسلمانوں پر اتنے ستم ڈھانے کی جرأت نہیں کی جتنی سفاکی سے شام میں مسلمانوں کا صفایا کیا گیا ہے ۔ پورے کے پورے شہر مسلمانوں کے اُجاڑ دیے گئے ہیں ، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ، لاکھوں مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں میتیں ملیامیٹ شہروں کے ملبے تلے دبی ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے بچے مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے وار کرکے جس قدر سفاکی اوردرندگی سے اذیت ناک موت سے دوچار کیے گئے ہیں اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی ۔

حقیقت صاف ظاہر ہے جب مسلمان حکومتیں خود اپنے مسلمان شہریوں پر اس قدر ستم ڈھائیں گی تو پھر اسلام دشمن قوتوں کو مسلمانوں کا خون بہانے سے کون روکے گا ۔یہی وجہ ہے کہ جوں جوں شام میں مسلمانوں پر ظلم بڑھ رہے ہیں اسی تناسب سے اسرائیل فلسطین میں اور بھارت کشمیر میں سفاکی پر اُتر رہے ہیں ۔لہٰذا ہم قتل اُمت کا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں جب اُمت کے درد کی دوا جنہیں بننا تھا وہی درد دینے لگے ۔کسی شاعر نے شاید اسی لمحے کے لیے کہا تھا ؂
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 47175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.