دوسروں کے لیے جئیں

تحریر: بنت عطاء، کراچی
حدیث مبارکہ کا مفہو م ہے کہ ’’تمام مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے پس مخلوق میں اﷲ کے نزدیک بہترین وہ ہے جو اﷲ کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے‘‘۔ اس حدیث مبارکہ میں تمام مخلوق کو ایک خاندان قرار دیا گیا مراد یہ ہے کہ جس طرح انسان اپنے خاندان سے اپنائیت سے پیش آتا ہے اسی طرح تمام مخلوق کو اپنا سمجھے ان سے خلوص اور اپنائیت سے پیش آئے اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ دے ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاء سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا ’’مسلمان تو وہی ہے جس سے دوسرے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں مطمئن رہیں‘‘۔

ان احادیث میں مسلمان کی شناخت یہ بتائی گئی کہ اس سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو زبان کی تکالیف میں غیبت، بہتان، جھوٹ، لعن طعن وغیرہ سب آگئے ان سب سے بچنے کا حکم دیا گیا اور ہاتھ کی تکالیف میں مار پیٹ، قتل و غارت گری، لوٹ مار، آبرو ریزی، کسی کو اغوا کرنا وغیرہ سب آگئے جس کی طرف اگلی حدیث میں بھی نشاندہی کی گئی کہ جان و مال محفوظ رہیں۔دوسرے مسلمان کی حفاظت ہم پر صرف اس صورت لازم نہیں جب وہ موجود ہو بلکہ اس کی عدم موجودگی میں بھی لازم ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے جو اسے نقصان سے بچاتا ہے اور اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔

مگر ہم ایسے موقعوں پر راہ فرار اختیار کرتے ہیں ہمارے سامنے کسی کی غیبت ہورہی ہو ہم بھی اسکا حصہ بن جاتے ہیں اپنے اس مسلمان کا دفاع نہیں کرتے جو وہاں موجود نہیں۔ اس طرح راہ چلتے ہم اگر دیکھیں کسی کو لوٹا جارہا ہے ہم رک کر اس کی مدد کو نہیں جاتے بلکہ وہاں سے تیزی سے نکل جاتے ہیں کہ کہیں ہم بھی نہ پھنس جائیں۔ کہیں کسی کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوجائے ہم میں سے کوئی زحمت نہیں کرتا کہ اسے اسپتال پہنچا کر اس کی جان بچائیں بلکہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ پولیس کیس ہے اس میں مت پڑو اور وہ بندہ جو شاید بروقت طبی امداد سے بچ سکتا تھا اسے ہماری خود غرضی ماردیتی ہے ۔

اسی طرح ہم دعاؤں کے معاملے میں بھی بہت اصول پرست ہوگئے ہیں ، ہم دعائیں بس ان کے لیے کرتے ہیں جن کو ہم جانتے ہوں ورنہ نظر انداز کردیتے ہیں ۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ’’تمام مسلمان ایک جسم ماند ہیں، اگر جسم کی کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین رہتا ہے‘‘۔ مگر ہم یہ تکلیف کسی غیر کے لیے بالکل محسوس نہیں کرتے ہم پہلے اس کا پورا شجرہ نسب معلوم کرتے ہیں کہ دعا کا مستحق آخر کون ہے۔

اگر کوئی اپنا ہو تو دعا کرلیتے ہیں اور اگر غیر ہو تو دعا کے لیے جس نے کہا س کی عقل پر ماتم کرتے ہیں ہنستے ہیں کہ یہ ہمدرد دواخانہ تم ہی چلاؤ۔ ہم اتنے فارغ نہیں ایسے حادثے روز ہوتے ہیں سارا دن بیٹھ کر دعائیں ہی کریں کیا۔ اتنی سنگدلی کا مظاہرہ ہم پتا نہیں کیسے کرلیتے ہیں ۔ اصل زندگی وہی ہے جو دوسروں کے لیے جی جائے اپنے لیے جینا کوئی کمال نہیں۔ اگر ہم آج بھی ان احادیث پر عمل کرلیں اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھیں سب سے خلوص سے پیش آئیں تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023316 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.