ڈاکٹر عطاء الرحمان

(ممتاز سائنس دان‘ مستند کیمیا دان اور بہترین معلم)

ڈاکٹر عطاء الرحمن سرزمین پاکستان کے ان سپوتوں میں سے ایک ہیں جو اپنے کارہائے نمایاں کی بدولت اپنے ملک اور اپنی قوم کی شناخت اور پہچان ہیں۔ ایسے لوگ آگے قدم بڑھاتے ہوئے کوئی ایسا کام بھی کر جاتے ہیں جو پوری انسانیت کو خیر‘ نیکی‘ بھلائی اور بہبود کے کسی نئے راستے پر‘ ترقی کی کسی نئی سمت میں اور جدوجہد کے کسی نئے سفر پر گامزن کر دیتا ہے۔ پھر یہ لوگ ساری دنیا کا سرمایہ اور اثاثہ بن جاتے ہیں۔ دنیا انہیں ان کے کام سے جانتی پہچانتی ہے اور سرزمین وطن ان کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر ملک وقوم ہی نہیں انسانیت بھی بجا طور پر فخر کرتی ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن اپنے علم‘ اپنی فکر‘ اپنی صلاحیت اور اپنی تحقیق کے اعتبار سے ایک نادر ر وزگار شخصیت ہیں۔ شخصیت کی اسی جدت وندرت نے انہیں بے پناہ مقبولیت اور شہرت عطا کی ہے۔ محبت کے معاملے میں نہایت راسخ ہیں۔ ان کا علم‘ ان کا تجربہ‘ ان کی تحقیق‘ ان کی ذات اور ان کی سعی وکاوش کی ازلی وابدی روایت انسانیت کا احترام‘ باہمی محبت ویگانگت اور سرفرازی وطن ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن وہ پاکستانی سائنس دان ہیں جنہوں نے اقوام عالم کو پاکستان کی سائنس کے میدان میں ترقی کے حیرت انگیز کارناموں سے روشناس کرایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا شمار ان مایہ ناز سائنس دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم‘ اپنی ذہانت‘ اپنی قابلیت‘ اپنی محنت‘ اپنی لگن اور اپنی تحقیق کا سکہ اقوام مغرب سے منوایا ہے۔
کینسر‘ ایڈز‘ ذیابیطس‘ بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کے علاوہ متعدد دوسری بیماریوں کے خلاف مدافعت رکھنے والے حیاتیاتی عناصر کی دریافت‘ خشکی اور آبی جانداروں سے حاصل شدہ حیاتیاتی قدرتی حاصلات کی علیحدگی اور ان کے مالیکیولوں کی شناخت معلوم کرنے اور کارڈیو ویسکولر نظام پر اثرانداز ہونے والی ادویات کی تیاری کے حوالے سے وہ بین الاقوامی سطح پر جانے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کئی انڈول الکلائیڈز (Indole Alkaloids) مرکبات تالیف کئے ہیں۔ نیز ادویات کے لئے استعمال ہونے والے پاکستانی پودوں سے 425 نئے مرکبات علیحدہ کئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے متعدد الکلائیڈ مرکبات کے کیماوی اجزاء اور ان کی ساخت معلوم کی ہے۔ پاکستان کے علاوہ ترکی کے کئی ایسے پودوں سے مرکبات دریافت کئے جو ادویات کی تیاری کے لئے کارآمد ہوتے ہیں۔ ان کی افادیت اور کارکردگی مختلف ٹیسٹوں سے ظاہر ہو چکی ہیں۔ انہوں نے بحیرۂ عرب کے پودوں اور جانوروں پر بھی تحقیق کی اور دلچسپ Metabolites علیحدہ کئے ہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن کی تحقیق قدرتی پیداوار کی کیمیا میں وسیع وعریض شعبوں کا احاطہ کرتی ہے جن میں سنتھیٹک‘ نامیاتی کیمیا‘ فائٹو کیمسٹری‘ ماس سپیکٹرو سکوپی‘ این ایم آر سپیکٹرو سکوپی شامل ہیں۔
اس مایہ ناز ہستی نے تقسیم ہندوستان اور قیام پاکستان سے کوئی پانچ سال قبل 22 ستمبر 1942ء کو دہلی میں اپنے وقت کے نامور ماہر قانون جمیل الرحمن کے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد اپنے خاندان کے ہمراہ 1947ء میں ہی پاکستان آ گئے اور اوکاڑہ میں سکونت اختیار کی۔ پاکستان آ کر ان کے والد جمیل الرحمن نے وکالت ترک کر دی اور اوکاڑہ ہی میں کاٹن ویونگ فیکٹری سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ دہلی میں ان کے خاندان نے کافی جائیداد چھوڑی تھی۔ اس کے بدلے میں انہیں لاہور اور کراچی میں کچھ زمین اور عمارتیں مل گئیں جس کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
1951ء میں ڈاکٹر عطاء الرحمن اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گئے جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ انہوں نے کچھ عرصہ تک گھر پر ہی تعلیم حاصل کی تاہم باقاعدہ تعلیم کا آغاز 1952ء میں کراچی گرائمر سکول سے کیا وہ تعلیم سے دور کیسے رہتے‘ وہ تو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد نے قانون کی اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کی تھی جبکہ ان کے دادا سر عبدالرحمن نامور ماہر تعلیم اور ماہر قانون تھے۔ وہ دہلی یونیورسٹی میں 1934ء سے 1938ء تک پہلے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات دینے کے علاوہ قیام پاکستان سے قبل 1946ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے بھی وائس چانسلر رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی پہلے بنچ کے جج بھی رہے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن بچپن سے ہی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ محنتی بھی تھے۔ ان کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ انہیں د و بار ڈبل پروموشن (دوسری جماعت سے چوتھی جماعت میں اور چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت میں) ملی۔ 1958ء میں انہوں نے سینئر کیمبرج کیا اور پورے پاکستان میں فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کی۔ 1960ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے اوورسیز ہائی سکول سر ٹیفکیٹ میں بھی فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کر کے ریکارڈ قائم کیا۔
غور وفکر اور تجسس کی عادت بچپن سے ہی تھی۔ وہ سوچتے رہتے تھے کہ پتوں کا رنگ سبز کیوں ہوتا ہے؟ ان کا فنکشن کیا ہوتا ہے؟ خون کا رنگ سرخ ہی کیوں ہوتا ہے؟ کوئی اور رنگ کیوں نہیں ہوتا؟ یہ تجسس انہیں کیمسٹری کی طرف لے گیا کیونکہ کیمسٹری ہی ان سوالوں کا جواب دے سکتی تھی۔ ہائر ایجوکیشن میں انہوں نے فزکس‘ کیمسٹری اور بائیولوجی کا انتخاب کیا تاہم ان کی اصل دلچسپی کیمسٹری سے تھی۔ اس کی ایک وجہ اور بھی تھی‘ سینئر کیمبرج میں ان کی کیمسٹری کے سوا باقی تمام مضامین میں Destination آئی تھی چنانچہ انہوں نے نالج بڑھانے کے لئے کیمسٹری میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
1960ء میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں بی ایس سی کے لئے داخلہ لیا اور 1963ء میں دوسری پوزیشن کے ساتھ بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی میں انہوں نے نامیاتی کیمیا (Organic Chemistry) کا انتخاب کیا اس لئے کہ اسے زندگی کی کیمیا کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں اسے بے شمار عوامل ہیں جو زندگی سے کیمیا کا تعلق ثابت کرتے ہیں چنانچہ 1964ء میں انہوں نے نامیاتی کیمیا میں ایم ایس سی کی ڈگری بڑے اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کے والد انہیں کاروبار میں اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتے تھے مگر شوق اور تعلیم سے لگن دیکھتے ہوئے انہیں تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے عطاء الرحمن کو کیمبرج یونیورسٹی میں بھجوانے کی پیشکش کی مگر عطاء الرحمن نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے بل بوتے پر کیمبرج جائیں گے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ شاندار تعلیمی کیریئر کی وجہ سے انہیں سکالرشپ ضرور ملے گی۔ 1964ء میں ہی انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں 375 روپے ماہوار پر بحیثیت لیکچرار درس وتدریس کا آغاز کیا اور سکالرشپ کے لئے بھی کوشش شروع کر دی۔ اس سلسلے میں ان کی ملاقات نامور ماہر تعلیم‘ کیمیا دان اور سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی سے ہوئی۔ ملاقات کا سبب کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر الیگزینڈر ٹوڈ کی لیبارٹری میں پی ایچ ڈی کی تحقیق کے لئے داخلہ کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنا تھا۔ یہ ملاقات عمر بھر کی دوستی اور سائنسی معاونت کا آغاز ثابت ہوئی۔
1965ء میں انہیں کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے سکالرشپ مل گیا اور اسی سال ان کی شادی بھی ہو گئی۔ چنانچہ ڈاکٹر عطاء الرحمن 1965ء میں اپنی رفیق حیات کے ساتھ انگلینڈ چلے گئے اور کیمبرج کے ذیلی ادارے کنگز کالج میں سر الیگزینڈر ٹوڈ کی لیبارٹری میں مصروف تحقیق ہو گئے۔ 1968ء میں انہوں نے صرف تین سال کے عرصے میں نامیاتی کیمیا میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی۔ ان کی تحقیق کا محور ومرکز انڈول الکلائیڈ کا تجزیہ تھا۔
مارچ 1969ء میں کنگز کالج نے انہیں فیلو منتخب کر لیا۔ بعدازاں اسی ادارے میں ڈین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ڈین ایک خاص عہدے کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں کنگز کالج بحیثیت فیلو منتخب کرتا ہے۔ ایشیا کے حوالے سے کیمبرج یونیورسٹی میں یہ عہدہ اب تک صرف دو افراد کو ملا ہے اور دونوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ کیمبرج میں یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے ایشیائی اور پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام تھے جبکہ دوسرے ڈاکٹر عطاء الرحمن ہیں۔ کنگز کالج سے یہ اعزاز پانے والے وہ پہلے ایشیائی اور پاکستانی ہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن ن ڈین کی حیثیت سے کیمبرج میں آزادانہ طور پر تحقیقی کام کئے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن پاکستان میں کیمسٹری کا بین الاقوامی سطح کا ایک ادارہ قائم کرنے کے خواہاں تھے مگر پاکستان میں وہ سہولتیں میسر نہ تھیں جو بین الاقوامی تحقیق کے لئے ضروری ہوتی ہیں چنانچہ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے درخواست کی اور 1970ء میں ڈیپوٹیشن پر پاکستان آ گئے۔ وہ اپنے ساتھ بہت سارے آلات بھی لے کر آئے۔ یہاں انہوں نے ضروریات کے پیش نظر لیبارٹری بنائی۔ اس عرصے میں کیمبرج یونیورسٹی نے نہ صرف ان کی ملازمت برقرار رکھی بلکہ انہیں معاوضہ بھی دیا۔ لیبارٹری میں آلات سیٹ کرنے کے بعد وہ دوبارہ انگلینڈ چلے گئے اور پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری سے وابستہ ہو گئے۔ اس ادارے کا موجودہ نام حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری ہے۔ یہاں انہوں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے ساتھ مل کر کیمسٹری پر تحقیقی کام کا آغاز کیا جن کی عمر اس وقت 70 سال کے لگ بھگ تھی۔ 1977ء میں انہوں نے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی قابلیت وکارکردگی اور محنت ولگن کی وجہ سے انہیں اپنا کوڈائریکٹر (Co-Director) بنا لیا اور ان کے ذمے اس ادارے کی بہتری اور بین الاقوامی سطح پر گرانٹس حاصل کرنے کا فریضہ سونپا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے انہیں ہرگز مایوس نہ کیا اور اس ادارے کی ترقی وترویج کے لئے بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اسے ایفروایشین دنیا میں قدرتی پیداوار کی کیمیا میں اعلیٰ ترین تحقیقی ادارہ بنا دیا۔ اس کے ساتھ اس شعبے میں جہاں کہیں بھی ایسے ادارے ہیں ان میں سرفہرست چند اداروں میں سے ایک کا مقام حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری کو مل گیا۔ آج وطن عزیز دنیائے سائنس میں جس ادارے کی معرفت پہچانا جاتا ہے وہ یہی ادارہ ہے۔ آج یہ ادارہ جہاں افرادِ ملت کے لئے فخر اور اطمینان کا باعث ہے وہیں ناقدین کے لئے حیرت کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اربابِ حل وکشاد اور دوسرے سائنسی اداروں کے لئے ایک زندہ مثال ہے۔ واقعتا وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی کے باوجود ایسے ادارے کا پاکستان میں قائم ہونا کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ اس میں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی‘ ڈاکٹر وقار الدین احمد اور ڈاکٹر ظفر حسنین زیدی کے علاوہ ڈاکٹر عطاء الرحمن کی کاوش وکوشش کو سب سے زیادہ دخل ہے۔
1987ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے ڈاکٹر عطاء الرحمن کو ڈاکٹر آف سائنس (D.Sc) کی ڈگری دی۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو انہیں ملا۔ ان سے پہلے یہ اعزاز صرف ایک پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو مل چکا ہے۔
1990ء میں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے ڈاکٹر عطاء الرحمن کو اپنی زندگی میں ہی اس عظیم ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا اور خود اپنی زندگی کے آخری ایام میں پروفیسر کی حیثیت سے تحقیقی امور سرانجام دیتے رہے۔ تب سے تاحال وہ اس عہدے پر متمکن ہیں۔
1996ء میں صدرِ پاکستان نے ڈاکٹر پروفیسر عطاء الرحمن کو کامسٹیک (Comstech) کا کوآرڈی نیٹر جنرل مامور کیا۔ وہ خود اس ادارے کے سربراہ ہیں۔ اس ادارے کا ہیڈآفس اسلام آباد میں ہے۔ کامسٹیک دراصل OIC (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) کی سائنس وٹیکنالوجی کی سٹینڈنگ کمیٹی ہے جو 56 اسلامی ممالک کے درمیان

(2)
رابطے کا کام کرتی ہے اور سائنسی اصلاحات کرنے کے علاوہ سائنس وٹیکنالوجی کو بھی فروغ دیتی ہے۔ یہ ادارہ 1983-84ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس ادارے کے تحت اسلامی ممالک کے درمیان زراعت‘ ماحولیات‘ صحت‘ سائنس وٹیکنالوجی اور صنعت کے شعبوں میں مشترکہ تحقیقی منصوبے بنائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان اور قازقستان کے درمیان 26 منصوبے جاری ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا پروگرام ہے جسے ڈاکٹر عطاء الرحمن سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں اکثر اسلامی ممالک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کیمسٹری کی تحقیق وجستجو سے ہٹ کر سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے ان کی زندگی کا یہ ایک پہلو ہے جو انہوں نے وقف کر رکھا ہے۔
مارچ 2000ء میں حکومت پاکستان نے ان کی صلاحیتوں کا برسرعام اعتراف کیا جب انہیں سائنس وٹیکنالوجی کا وزیر مامور کیا۔ وہ پاکستان کے پہلے سائنس دان ہیں جو اس عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوئے ہیں تاہم ان سے پہلے ڈاکٹر عبدالسلام صدر پاکستان کے مشیرکی حیثیت سے کئی سالوں تک ایسے ہی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کے دیگر تمام کارناموں کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو بھی ان کے تحقیقی کام کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے سدابہار پھول پر جو تحقیقی کام کیا وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے تحقیق سے ثابت کیا کہ سدابہار پھول کی پتیوں میں اینٹی کینسر ڈرگس ہوتے ہیں۔ کینسر کے خلاف قوت مدافعت کرنے والے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے تحقیق کی اور کینسر کی دوا Vinblastive تالیف کی جو آج بھی ایک موثر دوا کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔ مختلف قسم کے کینسر (Cancer) خاص کر بچوں میں لیکومیا (خون کا سرطان) اور Hodgkims کے امراض اور بچہ د انی بھی دستیاب ہے۔ یہ ان کے اولین کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے مشہور نوبل انعام یافتہ سائنس دان سر رابرٹ رابنز کا کیا گیا تحقیقی کام بھی غلط ثابت کیا۔ گزشتہ پچاس ساٹھ سالوں سے اسے صحیح تسلیم کیا جا رہا تھا۔ پاکستان اور دنیا کے اکثر ممالک میں ایک چھوٹا سا پودا ’’ہرمل‘‘ پایا جاتا ہے۔ ہرمل کے بیجوں کے اندر ایک مرکب الکولک ہرملین (Harcaline) ہوتا ہے۔ اس ہرملین کے کیمیائی عمل اور تجربے جو سر رابرٹ رابنز نے کئے تھے‘ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اپنی تحقیق کے ذریعے غلط ثابت کئے۔ ان کا یہ کام برطانیہ میں اشاعت پذیر ہوا تو اسے بے حد سراہا گیا۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کئی ایسے مرکبات بھی دریافت کئے ہیں جو دل کی بیماریوں میں مفید ہونے کے علاوہ ذیابیطس کے مریض کے شوگر کے لیول کو کنٹرول کرتے ہیں۔ خون کی نالیوں میں جو مواد جمتا ہے جس کی وجہ سے نالیاں پتلی ہو جاتی ہیں اور بلڈپریشر بنتا ہے‘ یہ مرکبات ان میں بھی مفید رہتے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کے ان گنت مفید تحقیقی کاموں سے ایک پلانٹ ٹشو کلچر ٹیکنالوجی کے فروغ سے متعلق ہے جس کی وجہ سے حیرت انگیز تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں۔ ان کی سعی وکاوش سے ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ایک پلانٹ ٹشو لیب قائم کی گئی ہے جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہے۔ اس لیب میں چار ہزار کیلے کے درخت اگ رہے ہیں۔ یہ کیلے ایک بالکل نئی تکنیک کے ذریعے اگائے جا رہے ہیں۔ اس تکنیک میں مٹی یا بیج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ کسی پودے کا کوئی حصہ توڑ کر اسے ہزاروں حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے پھر اسے مناسب ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک ہزار پودوں کے حاصل ہونے کی توقع ہے۔ اسی طرح دوسرے بہت سارے پودے اسی طریقے سے اگائے جا رہے ہیں۔ اس طریقہ کار کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں بغیر بیج کے لاکھوں پودے اگائے جا سکتے ہیں۔ اس طریقہ سے اگایا جانے والا پودا جب ایک خاص سائز کا ہو جاتا ہے تو اسے نکال کر کھیتوں میں لگا دیتے ہیں جہاں وہ حسب معمول بڑھتا اور نشوونما پاتا ہے اور پھل پھول دیتا ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کا ایک اور بڑا کام ساڑھے چار سو مقالات ہیں جو انہوں نے کیمسٹری کے مختلف موضوعات پر تحریر کئے ہیں۔ یہ مقالات مختلف ممتاز بین الاقوامی سائنسی جرنلز اور رسائل میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ ان کی اشاعت ان کی ذہانت وقابلیت اور محنت ولگن کا ثبوت ہونے کے علاوہ ان کی بین الاقوامی شہرت کا بھی سبب ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن معلم اور سائنس دان ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے مصنف بھی ہیں۔ اب تک انہوں نے 51 مختلف کتب تحریر وتدوین کی ہیں۔ یہ تمام کتب امریکہ یا یورپ میں شائع ہوئی ہیں بلکہ ان کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ انہوں نے کیمسٹری کے مضمون پر 1983ء میں "Biosynthesis Indole Alkaloids" کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس آکسفورڈ انگلینڈ نے بڑے اہتمام سے شائع کیا اور بین الاقوامی سطح پر فروخت کیا۔ کسی پاکستانی سائنس دان اور مصنف کی یہ پہلی کتاب ہے جو کیمسٹری کے موضوع پر ہے اور جسے بیرون ملک شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1986ء میں امریکہ کے ایک بہت بڑے اشاعی ادارے Springer Verlag نے "Nuclear Magnetic Resonance Spectroscopy" کے عنوان کے تحت ان کی ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب کو امریکی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ 1988ء میں جاپان کی توکوشیما یونیورسٹی کے پروفیسر ماتوتوری اور ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر ہیروشی ہیروتا نے جاپانی زبان میں ترجمہ کر کے اسے شائع کرایا تاکہ اسے جاپانی یونیورسٹیوں میں پڑھا جا سکے۔ اب یہ کتاب جاپانی یونیورسٹیوں کے کیمسٹری کے نصاب میں شامل ہے۔ ہالینڈ کے ایک اشاعی ادارے Elsevier نے "studies on Natural Products Chemistry" کے عنوان کے تحت کتب کی ایک سیریز شائع کی ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن نے مرتب وتحریر کیا ہے۔ گزشتہ چھ سال کے دوران اس کی 18 جلدیں شائع ہو چکی ہیں‘ اسی طرح کی ایک اور کتب کی سیریز "3C - NMR of Natural Products" کے عنوان کے تحت ایک امریکی اشاعی ادارہ Plenum شائع کر رہا ہے جسے ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر وقار الدین احمد مرتب وتحریر کرتے ہیں۔ اب تک اس سلسلے کی دو کتب شائع ہو چکی ہیں۔

(3)
امریکی اشاعتی ادارے Springer Verlag نے ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر ظاہر شاہ کی تحریر کردہ ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام "Stereo selctive synthesis in Organic Chemistry" ہے۔ اس موضوع پر شائع ہونے والی یہ پہلی کتاب ہے۔
حال ہی میں امریکہ کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے اکیڈمک پریس آف سان ڈیگو نے "Solving Problems by NMR Spectroscopy" کے عنوان کے تحت ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر محمد اقبال چودھری کی تحریر کی ہوئی کتاب شائع کی ہے۔ یہ ادارہ امریکہ اور یورپ میں کتب شائع کرنے والے سرفہرست اشاعتی اداروں میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے مختلف کتب میں 54 ابواب بھی تحریر کئے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کی مختلف کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ان کی اکثر کتب امریکہ اور مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ کئی سائنس دانوں نے اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے کے لئے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی تحقیق‘ مقالات اور کتب سے مدد حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی زیرادارت پانچ ممتاز بین الاقوامی جرائد شائع ہوتے ہیں۔
1- ستمبر 1979ء میں ان کی زیرادارت ’’کیمیکل سوسائٹی آف پاکستان‘‘ نامی جریدے کا اجراء عمل میں آیا۔ کیمسٹری کے متعلق یہ ایک معیاری اور موقر جریدہ ہے اور اسے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔ یہ جریدہ ستمبر 1979ء سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔
2- سوئٹزرلینڈ سے ایک بین الاقوامی جریدہ ’’نیچرل پروڈکٹ لیٹرز‘‘ پروفیسر عطاء الرحمن اور پروفیسر ارنسٹ وینکرٹ کی زیرادارت باقاعدگی سے اشاعت پذیر ہوتا ہے۔
3- کرنٹ میڈیکینل کیمسٹری۔
4- کرنٹ آرگینک کیمسٹری۔
5- کرنٹ فارموسوٹیکل ڈیزائن۔
کرنٹ میڈیکینل کیمسٹری ’’کرنٹ آرگینگ کیمسٹری‘‘ اور کرنٹ فارموسوٹیکل ڈیزائن نامی تینوں جرائد ہالینڈ سے شائع ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن ان تینوں جرائد کے ایڈیٹر انچیف ہیں۔
ڈاکٹر پروفیسر عطاء الرحمن نے گزشتہ بارہ سالوں کے دوران نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری اور سپیکٹرو سکوپی پر متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں کا کامیاب انعقاد کرایا ہے۔ جنوری 1994ء میں کراچی میں منعقد ہونے والی پروڈکٹ کیمسٹری کے متعلق IUPAC سمپوزیم کی انتظامی کمیٹی کے وہ چیئرمین تھے۔ علاوہ ازیں انہوں نے سینکڑوں اجلاسوں‘ سیمیناروں‘ ورکشاپوں اور کانفرنسوں میں پاکستان کی طرف سے نمائندگی کی ہے یا وفود کی قیادت کی ہے اور لیکچر دیئے اور مقالات پیش کئے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان میں اب تک کسی ایک شخص کی زیرنگرانی پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اب تک 47 افراد ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جس قدر ترقی ہو رہی ہے وہ پی ایچ ڈی لیول کی افرادی قوت کی بدولت ہے کیونکہ پی ایچ ڈی کا کورس تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان کی سربراہی میں چلنے والے کیمیاوی تحقیق میں پہلا نمبر حاصل کرنے والے ادارے حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کی نصف تعداد کا تعلق اسی ادارے سے ہوتا ہے۔ ہر سال یہ ادارہ 15 سے 20 پی ایچ ڈی افراد ملک کو فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن کے علم اور تحقیق سے استفادہ کرنے کے لئے بیرونی ملکوں سے بھی ایک بڑی تعداد خصوصاً جرمنی سے حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آـف کیمسٹری میں آتی ہے۔ اب تک صرف جرمنی کے 22 افراد اس ادارے سے پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور ان میں سے اکثر کی نگرانی اور رہنمائی ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کی ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن نے سائنس کی تحقیق اور ترقی وفروغ کے لئے جو بیش بہا خدمات سرانجام دی ہیں ان کا اعتراف نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے اکثر ممالک نے کیا ہے اور انہیں بے شمار اعزازات سے نوازا ہے۔ ان میں سے چند قابل ذکر اعزازات یہ ہیں:
٭- 1987ء میں برطانیہ کی قدیم اور عظیم درسگاہ کیمبرج یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس (D.Sc) کی اعزازی ڈگری دی۔ پاکستان میں کام کرنے والے کسی سائنس دان کو ملنے والی یہ پہلی ڈگری ہے۔ وہ پاکستان کے دوسرے سائنس دان ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا ہے۔ ان سے پہلے یہ اعزاز ڈاکٹر عبدالسلام کو مل چکا ہے۔
٭- 1999ء میں اقوام متحدہ کے سائنسی اور تعلیمی ادارے یونیسکو نے ان کی سائنسی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں انعام سے نوازا۔ 29 جون 1999ء کو ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں ایک شاندار تقریب اس مقصد کی خاطر منعقد کی گئی جس میں دنیائے سائنس کے ممتاز سائنس دانوں نے شرکت کی۔ یونیسکو کی طرف سے یہ انعام حاصل کرنے والے وہ اسلامی دنیا میں اسلامی تاریخ کے پہلے سائنس دان ہیں۔
٭- 1993ء میں حکومت اسلامی جمہوریہ ایران نے 52 ملکوں کے سائنس دانوں کے مقابلے کے بعد ان کو خوارزمی ایوارڈ (First Prize) کے لئے منتخب کیا اور انعام وایوارڈ سے نوازا۔
٭- 1980ء میں حکومت کویت نے انہیں طب اسلامی پر پہلی عالمی کانفرنس کے موقع پر گولڈ میڈل دیا۔

(4)
٭- 1988ء میں حکومت کویت نے انہیں اسلامک آرگنائزیشن پرائز دیا۔
٭- 1999ء میں فیڈریشن آف ایشین کیمیکل سوسائٹیز نے انہیں بہترین سائنس دان کے ایوارڈ سے نوازا۔
٭- تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کی طرف سے سال کے بہترین سائنس دان کا اعزاز اوفیلوشپ بھی انہیں مل چکی ہے۔
٭- 23 مارچ 1983ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز (سول) کا اعزاز حاصل ہے۔
٭- 1991ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز کا اعزاز ملا۔
٭- حکومت پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
٭- 1985ء میں وزیراعظم پاکستان کی طرف سے پاکستان کے بہترین سائنس دان کااعزاز حاصل کیا۔
٭- وزیراعظم پاکستان کی طرف سے فیڈریشن آف پاکستان پرائز بھی حاصل کیا۔
٭- 1977ء میں صدر پاکستان کی طرف سے پاکستان اکیڈمی آف سائنس کا گولڈ میڈل حاصل کیا۔ یہ میڈل 40 سال سے کم عمر کے سائنس دانوں کو دیا جاتا ہے۔
٭- 1984ء میں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کی طرف سے اوپن گولڈ میڈل حاصل کیا۔
٭- پاکستان نیشنل بک کونسل حکومت پاکستان کی طرف سے ’’سائنسی‘ سماجی علوم اور ادبی کتابوں پر انعامات‘‘ کی سکیم کے تحت ڈاکٹر عطاء الرحمن کو ان کی کتاب "One and Two Dimensional NMR Spectroscopy" پر پہلا انعام (مبلغ ایک لاکھ روپے) دیا گیا۔
٭- ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی میموریل سوسائٹی کی طرف سے گولڈ میڈل سے بھی نوازے گئے۔
(استفادہ کتب عاصم محمود و متفرق میگرین )

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.