ریڈیو پاکستان قومی اثاثہ ، محاذوں کا غازی ۔

بھارت کی جانب سے مسلط کردہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں ریڈیو پاکستان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ، ریڈیو پاکستان سے قوم اور پاک فوج کے اندر ولولہ پیدا کرنے کے لیے ایسے نغمات نشر کیے گئے کہ دشمن یہ کہنے پر بھی مجبور ہوگیا کہ پاکستان نے جنگ کی تیاری بہت پہلے سے کی ہوئی تھی ورنہ جنگ شروع ہوتے ہی اتنی تعداد میں ولولہ انگیز نغمات تیار کرنا ممکن ہی نہیں جب کہ ریڈیو پاکستان کے لوگ جانتے ہیں کہ مرحومہ میڈم نوجہاں اور دیگر گلوکاروں نے رات رات جاگ کر نغمات گائے، موسیقاروں نے دھنیں بنائیں شعراء کرام نے گیت لکھے اور ریڈیو پاکستان صف اول کے مجاہد کی طرح اپنی قوم اور جوانوں کا خون گرماتا رہا اور اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے پیغامات اور نغمات نے جنگ کا نقشہ اس قدر تبدیل کرکے رکھ دیا کہ دشمن بوکھلا گیا اور تاشقند مایہدہ پر دستخظ سے پہلے شرط پیش کردی کہ پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے نغمات کو رکوایا جائے کیوں کہ دشمن جانتا تھا کہ ریڈیو پاکستان جنگی محاذ کا وہ سپاہی ہے جو سرحد کے اس پار رہتے ہوئے بھی طلسماتی آواز کے ذریعے ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں مار رہا ہے اور یہی ہماری شکست کا باعث ہے۔

ریڈیو پاکستان کا اسلام آباد میں واقع سات منزلہ صدر دفتر۔

حکومت پاکستان کی جانب سے ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے صدر دفتر کی سات منزلہ عمارت کو طویل عرصے کے لیے لیز پر نیلام کرنے کی خبر نے بشمول ریڈیو پاکستان کے ملازمین پوری قوم کو تشویش میں مبتلا کردیا ۔تبدیلی کے نام پر وجود میں آنے والی نئی حکومت سے قوم کو بہت زیادہ توقعات ہیں جس سے ملک میں بہتری لائی جاسکتی ہے ۔ مگر اس طرح کے فیصلے نہ صرف قوم میں مایوسی کا سبب بنیں گے بلکہ خود نئی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہوں گے ۔ ریڈیو پاکستان کا جدوجہد آزادی اور دفاع پاکستان میں ناقابلِ فراموش کردار رہا ہے۔ مملکتِ پاکستان کے وجود میں آنے کی نوید ریڈیو پاکستان سے ہی نشر ہوئی تھی جس کے سنتے ہی لوگ خوشی سے سجدے میں گرگئے اور دیوانہ وار ریڈیو کو چومنے لگے پاکستانی قوم کا ریڈیو سے نہایت جذباتی لگاؤ رہا ہے ، ریڈیو وہ واحد ذریعہ ہے جو شہر اور دیہات کی تفریق کے بغیر ہر جگہ سنا جاتا ہے اور دورانِ جنگ اور آنے والی قدرتی آفات کے دوران اس کی اہمیت تمام زرائع ابلاغ سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ ریڈیو ہر وقت انسان اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے ہر سطح کے لوگوں کی دسترس میں ہوتا ہے ۔

بھارت کی جانب سے مسلط کردہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں ریڈیو پاکستان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ، ریڈیو پاکستان سے قوم اور پاک فوج کے اندر ولولہ پیدا کرنے کے لیے ایسے نغمات نشر کیے گئے کہ دشمن یہ کہنے پر بھی مجبور ہوگیا کہ پاکستان نے جنگ کی تیاری بہت پہلے سے کی ہوئی تھی ورنہ جنگ شروع ہوتے ہی اتنی تعداد میں ولولہ انگیز نغمات تیار کرنا ممکن ہی نہیں جب کہ ریڈیو پاکستان کے لوگ جانتے ہیں کہ مرحومہ میڈم نوجہاں اور دیگر گلوکاروں نے رات رات جاگ کر نغمات گائے، موسیقاروں نے دھنیں بنائیں شعراء کرام نے گیت لکھے اور ریڈیو پاکستان صف اول کے مجاہد کی طرح اپنی قوم اور جوانوں کا خون گرماتا رہا اور اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے پیغامات اور نغمات نے جنگ کا نقشہ اس قدر تبدیل کرکے رکھ دیا کہ دشمن بوکھلا گیا اور تاشقند مایہدہ پر دستخظ سے پہلے شرط پیش کردی کہ پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے نغمات کو رکوایا جائے کیوں کہ دشمن جانتا تھا کہ ریڈیو پاکستان جنگی محاذ کا وہ سپاہی ہے جو سرحد کے اس پار رہتے ہوئے بھی طلسماتی آواز کے ذریعے ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں مار رہا ہے اور یہی ہماری شکست کا باعث ہے۔

آج بھی جب دیگر میڈیا جہاں ریٹنگ اور ذاتی مفاد کی خاطر شتر بے مہار کی طرح دوڑ رہا ہے وہیں ریڈیو پاکستان تعلیمی ، تفریحی، معلوماتی، دینی، علاقائی ، ثقافتی اور دیگر پروگرام باقاعدگی سے نشر کررہا ہے اور ساتھ ہی دشمن کی جانب سے پروپیگنڈے کا بھی بھرپور جواب دیتے ہوئے مادرِ وطن کا دفاع کررہا ہے ۔ہمارے حکمرانوں کو شاید اس قومی اثاثے کی اہمیت اس لیے بھی نہیں کہ وہ اپنے تمام خطابات بھی صرف ٹیلی ویژن پر کرنا پسند کرتے ہیں جب کہ اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان نہ صرف اپنے خطابات صرف ریڈیو کے ذریعے کرتے ہیں بلکہ عوام کے مسائل کے لیے بھی ریڈیو پر اپنا وقت مختص کرتے ہیں ۔ریڈیو پاکستان کی افادیت اور اہمیت امریکہ، برطانیہ، جاپان، ایران، روس، جرمن ، چین ، کویت، سعودی عرب، مصر اور دیگر ممالک جانتے ہیں جہاں ان اداروں میں سینکڑوں براڈکاسٹر ان سے وابسطہ ہیں جن کا نہ صرف تعلق پاکستان سے ہے بلکہ ان کی آواز کی دنیا کے حوالے سے پہلی درسگاہ بھی ریڈیو پاکستان ہے اور وہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔

ریڈیو پاکستان کی ترقی میں بے شمار ایسے نام ملتے ہیں جنہوں نے اس ادارے کے لیے بے لوث کام کیا ریڈیو کے جدید دور میں ایک ایسا ہی نام ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان محترم مرتضٰی سولنگی صاحب کا بھی ہے جنہوں نے دنیا بھر میں نا صرف پاکستان کی قومی زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ پاکستان میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کو بھی دنیا میں متعارف کرایا اس طرح ریڈیو پاکستان سے دیگر زبانون میں بھی باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا۔ آج بھی ریڈیو پاکستان کا کئی ممالک کے ساتھ کئی شعبوں میں ملازمین کی تعیناتی کا معاہدہ ہے جہاں یہ پاکستانی اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے ہوئے ملک و قوم کا نام روش کررہے ہیں ۔

شاہراہ دستور پر واقع ریڈیو پاکستان اسلام آباد صدر دفتر کی سات منزلہ عمارت کی بنیاد 27 اپریل 1972 کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی ۔ عمارت میں ریڈیو پاکستان کے مختلف شعبہ جات ہونے کے علاوہ مہدی حسن ہال اور زیڈ اے بخاری آڈیٹوریم بھی موجود ہے عمارت میں جگہ جگہ ملک کے نامور فنکاروں کی تاریخی تصاویر لگی ہیں جو ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ اس عمارت میں محض انتظامیہ کے دفاتر ہی موجود نہیں ہیں بلکہ اس میں ایسے حساس نوعیت کے آلات نصب ہیں جن کا تخمینہ کروڑوں روپے زرِ مبادلہ میں لگایا جاسکتا ہے جبکہ عمارت میں کئی اہم نوعیت کے ایسے حساس نشریاتی آلات نصب ہیں کہ جن کی کسی بھی صورت میں بحفاظت منتقلی ممکن ہی نہیں اور ان کے تباہ ہونے کے سو فیصد امکانات موجود ہیں ۔اس عمارت کو ٹھیکے پر دینے کی وجہ سے یہ سب کچھ برباد ہوجائے گا کیوں کہ حکومتی فیصلے کے مطابق اس عمارت کو جس براڈکاسٹنگ اکیڈمی میں منتقل کرنے کا کہا گیا ہے کچھ برس قبل اس عمارت پر پہلے ہی شب خون مارا جا چکا ہے اور اب حال یہ ہے کہ وہاں اس عمارت کے ایک دفتر کو منتقل کرنا بھی دشوار ہے لہذا غالب امکان یہی ہے کہ عمارت میں موجود تمام قیمتی اثاثوں کو فروخت کردیا جائے گا یا ان کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ یاد رہے کے ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کراچی کی تاریخی عمارت واقع ہے اس عمارت سے بھی کروڑوں لوگوں کا جذباتی لگاؤ ہے ریڈیو پاکستان کراچی کے کئی دفاتر سوک سینٹر کے قریب نئی عمارت میں منتقل ہونے کے بعد اس عمارت میں اب بھی ریڈیو پاکستان کے بشمول ریڈیو پاکستان کا رسالہ آہنگ کے کئی دفاتر موجود ہیں لیکن کئی برس پہلے ماہ محرم میں اس عمارت کو پاکستان رینجرز نے عارضی طور پر ماہِ محرم کے خصوصی انتظامات کی خاطر لیا تھا لیکن اب ریڈیو پاکستان کی اس عمارت میں پاکستان رینجرز کا بھی دفتر قائم کیا جاچکا ہے ۔ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی عمارت کے حوالے سےاب حکومتی سطح پر ایسا بھی کہا جارہا ہے کہ اس جگہ پر ایک بین الاقوامی یونیورسٹی قائم کی جائے گی تو اس کے لیے صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا جو یونیورسٹیاں ملک میں پہلے سے موجود ہیں ان کے معیار کو پہلے بہتر کرنے کی ضرورت ہے اگر ان کے معیار کو ہی بین الاقوامی معیار کے مطابق کردیا جائے تو کسی نئی یونیورسٹی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی لیکن اگر انتخابی منشور کے نکات کے مطابق نئی یونیورسٹیاں لازم ہیں تو گورنر ہاوس اور وزیر اعظم ہاوس موجود ہیں ۔اس بات سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا کے کچھ ادارے ریاست کی شناخت ہوتے ہیں ان سے ان کی پہچان ہوتی ہے وہ قومی اثاثہ ہوتے ہیں اور حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ایسے قومی اثاثوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں ۔ریڈیو وائس آف امریکہ، ریڈیو ڈوئچے ویلے جرمنی، برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن، ریڈیو جاپان، ریڈیو تہران، ریڈیو ترکی اور دیگر کی خوبصورت عمارتیں قابلِ دید ہیں جب کہ ہمارے ازلی دوست چین کا نشریاتی ادارہ چائینا ریڈیو انٹرنیشنل کی قابل رشک مثال موجود ہے جس نے نہ صرف ریڈیو کی اہمیت کو برقرار رکھا بلکہ ریڈیو اور دیکر قومی اثاثوں کی خوب دیکھ بھال کی یہی وجہ ہے کہ چین میں دن رات سیاحوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے جس سے ملکی زرمبادلہ میں بھی کثیر اضافہ ہوتا ہے۔

میرے مشاہدے میں یہ بات بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے کئی ایسے فیصلے جس پر قوم کی جانب سے تحفظات آئے احتجاج ہوا اسے فوری طور پر واپس لے لیا گیا یہی ایک اچھے اور دانش مند حکمران کی نشانی ہے اس حوالے سے بھی قوم پر امید ہے کہ وہ ایسے کسی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونے دینگے جو قوم کی امنگوں کے منافی اور ملک کے لیے نقصان دہ ہو۔

 

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 149466 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More