پانی کا بحران: پنجاب کا وہ گاؤں جہاں پانی زندگی نہیں، معذوری دیتا ہے

امجد حسین کو کمرے سے صحن تک بھی جانا ہو تو بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ چھ سال قبل وہ سائیکل چلایا کرتے تھے۔ محنت مزدوری بھی مل جاتی تھی یا چھوٹا موٹا پھیری کا کام کر لیتے تھے۔

تاہم اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے ان کا خاندان چند صاحبِ حیثیت افراد کی مدد سے گزر بسر کر رہا ہے۔
 

image

42 سالہ امجد حسین کے چار بچے ہیں۔ ایک بیٹی جوان ہے، باقی تین بچے سکول جاتے ہیں۔ ان حالات میں کب سکول چھوٹ جائے، امجد کو نہیں معلوم۔

وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کی دونوں ٹانگوں کی ہڈیاں کمزور ہونے کے باعث ٹیڑھی ہو چکی ہیں اور ان کے کندھوں کے پٹھے بتدریج اس قدر کمزور ہو رہے ہیں کہ انھیں گردن سیدھی رکھنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔

لاہور کے مضافاتی گاؤں کوٹ اسد اللہ کے رہائشی امجد ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہڈیوں میں کمزوری کی شکایت انھیں پہلی مرتبہ لگ بھگ 20 برس قبل ہوئی تھی۔

’میں چلتے چلتے گر پڑتا تھا۔ مسئلہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور پھر تقریباً چھ سال پہلے حالات اتنے بگڑ گئے کہ میں سائیکل چلاتے ہوئے بری طرح گرا اور تب سے چارپائی پر ہوں۔ اب چلنا بھی محال ہے۔‘

امجد حسین لاہور بھر کے ہسپتالوں کے چکر کاٹ چکے ہیں۔ ’ڈاکٹر کہتے ہیں میرے جسم میں فلورائیڈ اور آرسینک (سنکھیا) کی زیادتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہڈیاں کمزور ہوئی ہیں۔ ٹانگوں کی ہڈیاں اب سیدھی نہیں ہو سکتیں۔‘

کیا فلورائیڈ ہڈیاں ٹیڑھی کرتا ہے؟
امجد اس بیماری کا شکار ہونے والے اکیلے فرد نہیں۔ تقریباً 20 برس قبل کوٹ اسد اللہ اور ضلع قصور میں واقع اس کے جڑواں گاؤں کلالاں والا کے سینکڑوں رہائشی ہڈیوں کی کمزوری سے متاثر ہوئے۔ ان میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ وہ بچے اب بڑے ہو چکے ہیں، اور کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔

مقامی سوشل ورکر ملک محمد امین نے ان بیس برسوں کی تصویری اور تحریری کہانی سنبھال رکھی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ معاملہ ذرائع ابلاغ میں آنے کے بعد حکومتی مشینری حرکت میں آئی تھی۔
 

image

’تحقیقات کے بعد اندازہ لگایا گیا کہ وہاں زیرِ زمین پانی پینے کے لیے محفوظ نہیں تھا۔ اس میں سنکھیا اور فلورائیڈ کی مقدار بین الاقوامی معیار سے کہیں زیادہ تھی۔ یہی لوگوں میں ہڈیاں ٹیڑھے ہونے کا سبب بن رہا تھا۔‘

ان کی یہ بات تو درست ثابت ہوئی۔ صحت اور ماحولیاتی تحفظ کے حکومتی محکموں سمیت کئی اداروں نے اس پر کام کیا اور اسی نتیجے پر پہنچے۔ تاہم زیرِ زمین پانی میں خطرناک حد تک زیادہ پائی جانے والے فلورائیڈ اور آرسینک کہاں سے آئے؟

محمد امین کا ماننا ہے کہ اس کا ذریعہ وہ کارخانے ہیں جو گزشتہ کئی برسوں میں اس علاقے میں قائم ہوئے۔ ’وہ فضلے کو زیرِ زمین دفن کرتے ہیں جہاں سے وہ پانی میں شامل ہوتا ہے اور اسے آلودہ کرتا ہے۔ اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔‘

اس وقت کئی کارخانوں کو فوری بند بھی کیا گیا تھا مگر بعد میں کھول دیا گیا۔ 20 برس بعد آج بھی یہاں کارخانوں کے قیام کا سلسلہ جاری ہے۔

مگر کیا واقعی کارخانے اس کے ذمہ دار تھے یا مسئلہ اس سے بھی بڑا ہو سکتا ہے؟

کیا فلورائیڈ کارخانوں سے آ رہا ہے؟
بی بی سی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں صوبہ پنجاب کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کے ترجمان نسیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ فیکٹریوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے شواہد نہیں ملے۔

تو پھر ذمہ دار کون تھا؟ یہ جاننا اس وقت بھی ضروری تھا اور آج 20 برس بعد بھی ہے، کہ کوٹ اسد اللہ میں تاحال پانچ برس سے چھوٹے بچوں میں بھی ہڈیاں ٹیڑھی کرنے والی یہ بیماری دیکھی جا سکتی ہے۔

تو کیا یہ بیماری موروثی ہے؟ یا پھر 20 برس بعد آج بھی آلودہ پانی کا مسئلہ حل نہیں ہو پایا اور یہاں کے رہائشی وہی زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

’سپلائی کا پانی پینے کے قابل نہیں‘
گذشتہ برسوں کے دوران کوٹ اسد اللہ کے رہائشیوں کا غیر محفوظ پانی پر انحصار ختم کرنے کے لیے یہاں واٹر سپلائی کے ذریعے پانی بھی پہنچایا گیا اور حکومت کی جانب سے زیرِ زمین پانی کو صاف کرنے کے فلٹریشن پلانٹ بھی نصب کیے گئے۔
 

image

مقامی افراد کی کوششوں کے بعد چند برس قبل ایک چھوٹا سے سرکاری ہسپتال بھی قائم کیا گیا تھا جہاں ایک ڈاکٹر کے علاوہ چند لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دائیاں بھی کام کرتی ہیں۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ پانی میں پائی جانے والی آلودگی کے باعث فلٹریشن پلانٹ ناکارہ ہوتے گئے۔ مقامی افراد کے مطابق واٹر سپلائی کا پانی پینے کے قابل نہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کوٹ اسد اللہ میں اس وقت موجود واحد فلٹریشن پلانٹ پر صبح سے شام تک پانی لینے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ شمسی توانائی سے چلنے والا یہ پلانٹ ایک غیر سرکاری تنظیم نے لگایا تھا۔

’پانی نہیں تیزاب ہے‘
پلانٹ کے آپریٹر محمد مسافر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہاں پانی کے حصول کے لیے لوگ لڑتے بھی ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پلانٹ ایک دن میں دس سے پندرہ ہزار گیلن صاف پانی مہیا کرتا ہے جو گاؤں کی تقریباٌ 15 ہزار کے قریب آبادی کے لیے بمشکل پورا ہوتا ہے۔

’جس روز بادل ہوں یا دھوپ زیادہ نہ مل پائے تو پلانٹ نہیں چلتا۔‘ اس صورت میں لوگوں کو واٹر سپلائی یا پھر زیرِ زمین پانی استعمال کرنا پڑتا ہے۔

30 سالہ نوید احمد بھی اس گاؤں کی اس نسل کا حصہ ہیں جو بچپن میں یہ پانی پینے کے باعث معذوری کا شکار ہوئی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’یہ پانی اس قدر زہریلا تھا کہ نلکے کی ٹونٹیاں تک گل سڑ جاتیں تھیں۔ رات کو برتن بھر کر رکھو تو صبح ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پانی نہیں تیزاب ہے۔‘

ان کی ایک ٹانگ تو 20 سال قبل حکومتی خرچ پر کیے گئے آپریشن کے ذریعے سیدھی ہو گئی مگر دوسری نہ ہو پائی۔ ’آپریشن کے ذریعے ہو سکتی ہے مگر وہ کہتے ہیں ہمارے اتنے وسائل نہیں۔ درد ختم کرنے والی دوائیاں بمشکل لے پاتا ہوں۔‘

نوید احمد لنگڑا کر چلتے ہیں اور وزن نہیں اٹھا پاتے۔ ایک مقامی کارخانے میں چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں جس سے گھر چلتا ہے۔

اگلی نسل بھی معذور ہو سکتی ہے؟
نوید احمد کی ایک پانچ سالہ بیٹی ہے۔ وہ تو مکمل تندرست ہے۔ مگر ان کے پڑوس میں مسیحی برادری کے محلے میں رہائش پذیر 28 سالہ اشفاق سولخن کی ڈھائی سالہ بیٹی شزا کی دونوں ٹانگیں ٹیڑھی ہیں۔
 

image

اشفاق خود بھی ہڈیوں کی بیماری کا شکار ہیں۔ ان کی کمر کی ہڈی ٹیڑھی ہے اور ٹانگوں کی ہڈیوں میں بل ہیں۔ ان کے محلے میں دیگر کئی چھوٹے بچوں میں ٹانگوں کی ہڈیوں کے بل نمایاں نظر آتے ہیں۔

’ہم فلٹر کا پانی استعمال کرتے ہیں مگر جب نہ مل پائے تو پھر وہی زمینی پانی پینا پڑتا ہے۔‘

لاہور میں ہڈیوں کے امراض کے ماہر پروفیسر آف آرتھوپیڈکس ڈاکٹر اشرف نظامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چھوٹے بچوں میں عموماٌ ہڈیاں ٹیڑھی ہونے کی ایک بیماری پائی جاتی ہے جسے رِکٹس کہتے ہیں۔

’یہ زیادہ تر وٹامن ڈی یا کیلشیئم کی کمی کے باعث ہوتی ہے اور یہ موروثی بھی سکتی ہے یعنی یہ ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہو سکتی ہے۔‘

تاہم ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا ہے کہ کوٹ اسد اللہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں قوی امکان اس بات کا ہے کہ بچوں میں ہڈیاں ٹیڑھی ہونے کا سبب پانی ہو۔

’اسں علاقے کے پانی میں فلورائیڈ کی زیادتی ہے۔ جسم میں فلورائیڈ کی زیادتی سے دانت پیلے اور خراب ہو جاتے ہیں اور ہڈیوں کا ٹیڑھا ہونا اس کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔‘

پنجاب کے 12 اضلاع خطرے سے دوچار
صوبہ پنجاب کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کے ترجمان نسیم الرحمٰن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جس چیز کو پانی کی آلودگی کا سبب ٹھہرایا ہے وہ زیادہ خطرناک نوعیت کا ہے۔ تاہم کوٹ اسد اللہ اس خطرے کی علامت ضرور ہے۔

نسیم الرحمٰن کے مطابق صوبہ پنجاب کے 12 اضلاع کے نیچے فلورائیڈ کی زیادتی پائی جاتی ہے۔ کوٹ اسد اللہ بھی ایسی بیلٹ پر واقع ہے جہاں فلورائیڈ کا کوئی پتھر موجود ہے۔

’لاہور کے چند علاقوں سمیت ان میں قصور، منڈی بہاؤالدین، میانوالی اور جنوبی پنجاب کے اضلاع شامل ہیں جہاں فلورائیڈ کی زیادتی پائی جاتی ہے۔‘

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوٹ اسد اللہ جیسے حالات پنجاب کے ان اضلاع میں بھی سامنے آ سکتے ہیں؟ نسیم الرحمٰن اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
 

image

’جی بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ صرف ٹانگیں ہی ٹیڑھی نہیں، آلودہ پانی سے دیگر کئی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہاں پہلے ہی سے یہ مسائل پائے جاتے ہوں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ کوٹ اسد اللہ میں ’اب یہ مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ متعلقہ اداروں نے وہاں صاف پانی پہنچانے کے لیے کام کیا تھا۔‘

پانی کی کمی سے خطرہ بڑھ رہا ہے؟
مگر وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ یہ نہیں معلوم کہ کیا کسی سرکاری ادارے کی جانب سے اس حوالے سے کوئی تازہ تحقیق کی گئی یا سرخ جھنڈی بلند ہونے کے باوجود 20 برسوں کے دوران اس کا مسلسل معائنہ کیا گیا؟

تاہم پانچ برس سے چھوٹی عمر کے بچوں میں ہڈیاں ٹیڑھی ہونا ایک واضح علامت ہے۔

’ہاں اب یہ ایک خطرناک بات ہے اگر ان بچوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ نیا ہے۔ اس کی تصدیق ہونی چاہیے، ہم خود بھی اس حوالے سے تحقیق کریں گے۔‘

تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملک کے سب سے گنجان آباد صوبے کی آبادی اس آلودہ پانی کی وجہ سے ہونے والی معذوری کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہ خطرہ اس وقت زیادہ بڑھ جاتا ہے جب پاکستان میں زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

’زیرِ زمین پانی کی کمی سے ہر قسم کی آلودگیاں پانی میں داخل ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ہے جیسے خالی برتن کے پیندے پر ہر قسم کا کچرا یا گند اکٹھا ہو جاتا ہے۔‘

اس صورتحال میں سوال یہ بھی ہے کہ اگر 20 برس میں کوٹ اسد اللہ جیسے چھوٹے گاؤں میں مسئلہ ختم نہیں کیا جا سکا تو اتنے بڑے پیمانے پر اس کا حل کیسے ممکن ہو پائے گا؟

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

Basharat Ali was 15 when his legs began to falter, a condition doctors have blamed on polluted water in a Pakistani region infamous for the deformities that afflict many of its people. Too weak to carry his own schoolbag, he was taken to hospital, where doctors said water laden with toxic levels of arsenic, fluoride, minerals and various metals was to blame.