مندر کی کہانی میری زبانی(سفر نامہ)

حسب معمول روزانہ کی طرح کل بھی یونیورسٹی کے لئے گھر سے روانہ ہوئی۔جامع پہنچی اتنے میں استاد محترم کلاس میں وارد ہوئے جب کلاس ختم ہوئی تو موبائل پر نظر دوڑائی۔ میرے ایک سینئر اور عزیز دوست حسنین رسول کا پیغام موصول ہوا کہ کہاں ہو؟میں نے کہا کلاس میں تو پھر میسج آیا کہ کلاس کے بعد ملنا میں نے کہا اوکے۔اتنے میں دوسری ٹیچر آئی میں کلاس لینے میں مگن ہوگئی وہ کلاس 1بجے کے قریب اختتام پذیر ہوئی۔حسنین کے ساتھ اسی کی کلاس میٹ شاریہ بھی ساتھ تھی۔ میں شاریہ،حسنین،ثناء اور رُوسہ چائے کی غرض سے ڈھابے کی طرف روانہ ہوئے۔وہاں چائے پی حسنین اورشاریہ سے کافی دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی تو ڈھیر ساری باتیں کی۔ابھی گفتگو چل ہی رہی تھی کہ میرے ہم جماعت محسن بن رشید کی کال آئی میں نے اسلام و علیکم کہہ کر کال اٹینڈ کی تو وہ کہنے لگا کہاں ہو؟ میں نے بتایا کہ ڈھابے پر تو کہا اچھا! وہاں سے فارغ ہو کر یونیورسٹی آجانا ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے۔میں نے اوکے کہا اور خدا حافظ کہہ کر موبائل بند کر دیا۔تقریباً آدھا گھنٹہ ہم وہاں بیٹھے اور پھر یونی کی جانب روانہ ہوئے شاریہ اور حسنین سے الوداع کہہ کر اجازت طلب کی وہ لوگ بھی اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔

جامع کے دروازے پر پہنچ کر میں نے اپنی دوست فائزہ کو کہاں ہو؟کا میسج کیا جواب ملا ہوٹل پر۔اب میں اور روسہ ہوٹل کی جانب چلے جوکہ ہماری یونیورسٹی کے بلکل سامنے واقع ہے اور جامع کی ساری خلقت کلاسز لینے کے بعد یہی پائی جاتی ہے۔ ہوٹل کے مالک،کام کرنے والے تمام لوگ بے حد تمیزدار اور حسن اخلاق سے پیش آنے والے لوگ ہیں او ر ہمیں بہتر طور پر جانتے ہیں تمام لوگوں کو اعلی خدمات پیش کرتے ہیں۔یہاں کام کرنے والے ایک لڑکے جس کا نام نصراللہ ہے اسے کھانے کا آرڈر دیا۔وہ لڑکا20 سال کے لگ بھگ ہوگا ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتا ہے اور اپنے نام کی طرح ہنس مکھ اور معصوم چہرے کا مالک۔خیر کھانا کھانے کے بعد اچانک ہمارے ایک سینئر بھائی جن کا نام شعیب ہے کہنے لگے چلو سوامی نارائن مندر چلتے ہیں۔مندر سب نے ایک ہو کر کہا،ہاں ہاں چلو چلتے ہیں۔ہوٹل سے نکل کر یونی گئے فریش ہوئے اور لڑکیوں جس میں روسہ،میں،فائزہ اور ندا تھے رکشہ کرا کر مندر کی جانب روانہ ہوئے،لڑکے اپنی موٹر سائیکلوں پرآئے۔مندر کے داخلی دروازے پرہمارے رکشے کو روک لیا گیا اور گارڈنے پوچھا کہ کون ہو؟ہم نے کہا ہم اسٹوڈنٹ ہیں اور وفاقی اردو یونی سے ایک اسائمنٹ کے سلسلے میں آئے ہیں اور مسلمان ہیں۔کافی سوچ بچار کے بعد ہمیں کہا گیا کہ صرف باہر سے دیکھنا اور تصویریں مت بنانا ہم نے کہا اچھا۔جسے تیسے کر کے ہم مندر کے احاطے میں پہنچ گئے اب پھر گارڈ آگیا کہ آؤ آپ لوگوں کو باہر سے ہی دکھا دو تو ہم نے کہا ہمارے دوست بھی آرہے ہیں آپ رک جائیں، کیوں کہ ہم تو پورا مندر اندر سے دیکھنے کے ارادے سے ہی آئے تھے اور ہمارے دوست شعیب کے ایک مہاراج جاننے والے تھے۔گارڈ نے کہا لڑکے ہیں یا لڑکیاں جوکہ آرہے ہیں ہم نے کہا لڑکے، تو اس نے کہا پھر آپ لوگوں کا یہاں کھڑا ہونا فضول ہے کیوں کہ لڑکوں کا داخلہ منع ہے۔ اچھا جی یہ کہہ کر میری دوست فائزہ نے شعیب کو کال لگائی تھوڑی دیر بعد وہ بھی اندرا ٓگئے جن میں محسن بن رشید،شعیب اور نظر بھائی تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ آپ لوگوں کے پاس اجازت نامہ نہیں ہے لہذا آپ لوگ اندر نہیں جا سکتے۔آپ لوگ میرے ساتھ آفس میں چلو اور آفس اسٹاف سے بات کرلو وہ ہمیں آفس لے جایا گیا راستے میں ہندؤں کے گھر تھے ان کی مکمل کمیونٹی بنی ہوئی تھی۔ اورذیادہ تر گھر پیلی انیٹوں سے بنے تھے جوکہ قدیم اور انگریزوں کے دور کے تھے راستے میں ایک "گائے گھر" نظر آیا جسے ہم مسلمان کمیلہ کہتے ہیں۔وہاں طرح طرح کی گائیں بندھی ہوئیں تھی اور گائے کی تصاویر بھی اس گائے گھر میں لگی تھیں۔اب ہم آفس پہنچے وہا ں موجود ایک سر نے کہا بیٹا آپ لوگ اجازت نامے کے بغیر اندر نہیں جا سکتے صاف انکار کیا۔اور کہا آپ لوگوں میں سے کل کوئی 2لوگ آجانا اور اجازت لے کر پھر دوستوں کے ساتھ دیکھ لینا مندر۔لو بھئی یہ صاحب تو صاف طور پر لال جھنڈی دکھا کر چپ ہوگئے اور ہم وہاں سے نکل کر غصیلے،پھولے ہوئے اور مایوس چہرے لے کر اپنی منزل کی جانب سفر کے لئے دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔ اتنے میں شعیب ہمارا بھائی ہوا کا جھونکا بھاگتا ہوا گیااور ہم اس کے پیچھے پیچھے، اچانک مندر کے دروازے پر اسے ہم نے کسی سے بات کرتے مسکراتے دیکھا۔یہ وہی مہاراج تھے جن کو شعیب جانتا تھا اور ان کا نام وجے مہاراج تھا۔بس ان کو دیکھ کر ہمارے مایوس چہرے کھل اٹھے ہم نے ان کو داستاں غم بتائے کہ کس طرح ہمیں یہاں وہاں گھومایا گیا۔تو وہ کہنے لگے بیٹا آج کل آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ کس طرح کے حالات ہیں سیکورٹی کا مسئلہ بھی ہے۔ہم نے کہا جی درست کہا آپ نے۔پھر وہ کہنے لگے آجاؤ بچو مندر دکھاؤ ہم نے جوتے اتارے اور مندر کے صحن میں داخل ہو گئے ہمیں تعجب ہوا کہ مندر نیچے ہے اور یہ ہمیں اوپر کی جانب لے جا رہے ہیں خیر ہم سب چپ رہے آگے بڑھے وہاں رادھا کرشن کی مورتیاں دیکھی ان کا مندر اور مندر پر لگی چاندی کی جالیوں کو دیکھا۔وجے مہاراج نے بتانا شروع کیا کہ یہ مندر" شری سوامی نارائن" کے نام سے مشہور ہے۔ کراچی کا قدیم و تاریخی مندر ہے اور 150 سال پرانا ہے۔ساتھ ہی اس مندر کو بنانے والے سوامی جی کا بھی ایک مندر کی طرح کا چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں ان کی تصاویر لگی ہوئیں تھی۔رادھا کرشن کے مندر کے باہر دو ایک ہی شکل کے پہرہ دار سپاہی کھڑے تھے ان کا نام پوچھنے پر مہاراج نے کہا کہ یہ رادھا کرشن کے محافظ ہیں اور دونوں بھائی تھے جن کا نام جے اور وجے تھا۔اب اور آگے بڑھے تو گنیش جی کا مندر اور ساتھ ہی شف کا مندر تھا اور باہر گنیش جی کی سواری موجود تھی اور آگے بڑھے تو" ہنومان کا مند"ر تھا،ساتھ ہی 3 پتھر رکھے تھے باہر کی طرف اور ایک دیا بھی جل رہا تھا۔مہاراج نے بتا یا کہ اس پتھر پر سرسوں کا تیل اور سُندور لگایا جاتا ہے اور منتیں مانی جاتی ہیں جوکہ پوری ہوتی ہیں۔اس کے بعد ہم نے مندر کے اوپر لگے لال اور سفید پٹی والے جھنڈے کا پوچھا تو اس کے متعلق بھی بتا یا مگر معذرت کے ساتھ یہ مجھے یاد نہیں رہا۔اس کے بعد اور بھی باتیں کی۔چونکہ مندر کے اندر اور مورتیوں کی تصاویر بنانے کی اجازت نہیں تھی تو ہم نے مہاراج کے ساتھ صحن میں تصاویر بنوائیں اور کافی دیر بعد ان سے رخصت لی ساتھ ہی ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے شفقت،محبت اور پیار بھرے خلوص سے ہمیں کہا کہ بیٹا آپ لوگوں کو پریشانی کا سامنا کر نا پڑا معذرت چاہتا ہو، ابھی یہ بات چل ہی رہی تھی کہ ان کی ایک بیٹی جس کا نام لکشا تھا۔میں نے اور روسہ نے اس سے خیریت دریافت کی اور اسکول کا پوچھاکہ کہاں جاتی ہو؟ تو اس نے NJVاسکول کا نام بتایا۔اب کافی ٹائم ہوچکا تھا کیوں کہ ہم میں سے کسی نے گھر میں ایک میسج تک نہیں کیا تھا کہ ہم آج گھر دیر سے آئیں گے لہذا اب ٹینشن ہوئی اور مہاراج سے الوداع لے کراپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے گھر پہنچ کر امی سے خوب ڈانٹ کھائی اور پیارے پیارے القابات سے مجھے انہوں نے مستفید کیا،کیوں کہ صبح سے نکلی ہوئی تھی اور رات 7:30 پر گھر پہنچی۔مگر اس مندر میں آکر یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم اجنبی لوگوں میں تھے یہ پھریہ کہ مندر کے پجاری ہماری بلی نہ چڑھا دیں۔اور ہمیں جو عمارت دیکھ کر تعجب ہوا تھا کہ ا س مندر میں کیوں نہیں لے گئے تو وہ مندر نہیں تھا سکھوں کا "گورودوارا "تھا جوکہ مندر کے ساتھ ہی بنا ہوا تھا۔ مہاراج نے بھی وہی کہا جو میں اکثر کہتی ہوں کہ مجھے انسان ہی رہنے دو اور انسانیت تمام مذاہب سے پہلے ہے تو خدارا یہ ذات پات،مذہب،رنگ و نسل اور فرقہ وقریت کو چھوڑو محبت دو!محبت لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ پاکستان زندہ باد
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
 

Hameeda
About the Author: Hameeda Read More Articles by Hameeda: 25 Articles with 18544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.