سانحہ 8 اکتوبر2005 ء ‘ زخم آج بھی تازہ ہیں!

سانحہ 8 اکتوبر2005 ء ‘ زخم آج بھی تازہ ہیں! تعمیرنوکاخواب کب شرمندہ تعبیرہوگا؟ (زلزلہ متاثرہ علاقوں کی صورتحال پر چونکا دینے والی رپورٹ)

سفیراحمدرضا
انسانی زندگی میں خوشیوں کی بہاریں اور غموں کی برسات کوئی انہونی بات نہیں، مگرکچھ واقعات وسانحات اپنے ایسے گھمبیرنقوش چھوڑجاتے ہیں،جن کی یادوں کے زخم اندرہی اندرانسان کوکھوکھلاکردیتے ہیں۔آزادکشمیرمیں تین رمضان المبارک 1426ھ بمطابق 8اکتوبر 2005ء کادن ایسی ہی ہزاروں داستانیں لے کر طلوع ہوا،جب صبح8بجکر52منٹ پرآزادکشمیرکے دارالحکومت مظفرآباد،باغ،راولاکوٹ اور خیبرپختونخواہ کے بالاکوٹ سمیت دیگرعلاقوں میں زمین نے ایسی خوفناک کروٹ لی کہ محض3سے 7سیکنڈزمیں لگ بھگ 73ہزارافرادزندگی کی رعنائیوں کو خیرآبادکہہ کر اپنے ہی ہاتھوں سے تعمیرکئے ہوئے عالیشان محلات میں ابدی نیند سوگئے۔ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق اُس قیامت خیززلزلے میں70ہزارافرادشدیدزخمی جبکہ8 لاکھ گھرانے سائبان سے محروم ہوگئے۔صرف مظفرآبادمیں شہیدہونے والوں کی تعداد 34ہزار1سو 73بتائی گئی ہے۔دارالحکومت میں 56ہزار5سو26افرادجن میں خواتین اوربچوں سمیت ہرعمرکے افرادشامل تھے، شدیدزخمی ہوئے ،جن میں سے بیشتراپاہج ومعذور ہوکراس بے حس معاشرے میں لاچارگی وبے بسی کی جیتی جاگتی تصویربن کررہ گئے۔آزادکشمیرمیں مجموعی طورپر 84فیصدمکانات تباہ ہوئے جبکہ مظفرآبادمیں01لاکھ 25ہزار2سو77مکانات مکمل طورہرتباہ ہوئے۔ایشئین ڈویلپمنٹ بینک،ورلڈبینک اور یواین ایجنسیز کے مطابق قیامت خیززلزلے سے تباہ ہونے والے نقصانات کا مجموعی تخمینہ تقریباً5.3 ارب امریکی ڈالر لگایاگیا۔ایراء کے ڈائیریکٹرجنرل پلاننگ کے مطابق 8اکتوبر2005ء کے ہولناک زلزلے میں شہیدہونے والے 73ہزارافرادمیں سے مجموعی طورپر67فیصدمختلف تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طالب علم تھے۔
سیسمک بیلٹ پر واقع ہونے کی بناء پر پاکستان بشمول آزادجموں وکشمیرمیں عرصہ درازسے زلزلے آتے رہے ہیں،تاہم پاکستان میں اب تک دوبڑے زلزلے ریکارڈکئے گئے ہیں۔پہلازلزلہ 1935ء کو بلوچستان کے صوبائی درالحکومت کوئٹہ میں آیا،جس کی ریکٹرسکیل پرشدت 8.4تھی ۔اس ہولناک زلزلے میں تقریباً30ہزارافرادجاں بحق ہوئے اور شہر مکمل طورپرتباہ ہوگیاتھا۔اسی طرح 8اکتوبر2005 ء کو آزادکشمیرمیںآنے والاخوفناک زلزلہ ملکی تاریخ کادوسرابڑاانسانی المیہ ثابت ہوا۔بدقسمتی سے آزادکشمیرکے قیامت خیززلزلے میں انسانی جانوں کے ضیاع سے لے کرمواصلات،رسل ورسائل،بجلی،نظام آب،سڑکیں،پل،سرکاری وغیر سرکاری عمارات غرضیکہ ہرطرح کاانفراسٹرکچرکی مکمل تباہی کے بعدبھی کسی نے ہوش کے ناخن نہیں لئے ۔بحالی وتعمیرنوکاعمل انتہائی تاخیراور سست روی سے شروع ہوااور13سال گذرنے کے بعدبھی انتہائی اہم نوعیت کے بنیادی منصوبے جن میں صاف پانی کی فراہمی،سڑکیں،پل،راستے،تعلیمی ادارے،ہسپتال اور سرکاری اداروں سمیت دیگرشعبوں کے لئے زلزلہ مزاحم مکانیت بھی فراہم نہیں کی جاسکی۔یقیناً یہ بات حیر ت کا باعث ہوگی کہ آزادکشمیرکے زلزلہ متا ثرہ علاقوں میں95 فیصدپولیس سٹیشنزاور 75 فیصدتعلیمی اداروں سمیت بیشترسرکاری ادارے تیرہ سال گزرنے کے باوجود بوسیدہ خیموں اور عارضی شیلٹرمیں کام کررہے ہیں،جس سے ان اداروں کی کارکردگی کا گراف مسلسل تنزلی کا شکارہورہاہے اور عوام مذیدمسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔متاثرہ علاقوں کے تما م پولیس سٹیشنز،سرکاری اداروں کی عمارات مکمل تباہ ہوئیں۔واضح رہے کہ سیراء کی جانب سے مختلف دوست اور برادراسلامی ممالک جن میں بطورخاص ترکی،سعودی عرب ،جاپان ،یواے ای اوردیگرشامل ہیں،کی تعمیرات کو بھی اپنی مجموعی کارکردگی کاحصہ ظاہرکیا گیاہے۔مثلاًمظفرآباداورراولاکوٹ میں شیخ زائدالنیہان ہسپتال یواے ای نے تعمیرکئے۔مظفرآبادڈسٹرکٹ کمپلیکس ترکی نے تعمیرکیا۔(زیرتعمیر)نلوچھی پُل جاپان کا تحفہ ہے،وغیرہ ۔یہ بھی واضح ہوکہ زلزلے سے تقریباً3ہزار2سو تعلیمی اداروں سمیت متاثرہ علاقوں کے تمام ہیلتھ یونٹس اورسرکاری ادارے مکمل تباہ ہوئے جن میں سے بیسیوں ادارں کو تعمیرنوکے پروگرام میں سِرے سے ہی شامل نہیں کیاگیا۔

عالمی ڈونرزکانفرنس نے کل نقصان تخمینی 5.2 ارب امریکی ڈالرکے مقابلے میں 6ارب امریکی ڈالرفراہم کرنے کااعلان کیا۔ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کے لئے مجموعی طور 353ملین امریکی یوایس ڈالرزمیں سے دوست ملک چین نے نرم شرائط پر قرض کے طورپر 300ملین امریکی ڈالرزفراہم کردئے جبکہ پاکستان نے بقیہ 53ملین ڈالرز فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔چین نے تومطلوبہ فنڈزفراہم کردئے مگر وفاقی حکومت نے تاحال اس اعلان پر عملدرآمدنہیں کیا،بلکہ اس کے برعکس پہلے مرحلے میں سوات آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے 25ارب جبکہ دوسرے مرحلے میں بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحت وسیلہ ء حق پروگرام کے لئے 55ارب روپے منتقل کئے گئے۔دارالحکومت مظفرآباد ،حکمرانوں کی عدم دلچسپی، فنڈزکی عدم دستیابی اورمتعصب سیاستدانوں،بیوروکریٹس کے تعصب کے ساتھ ساتھ اہل مظفرآبادکے نام نہادوارث سیاستکاروں کی لیڈری کے شوق ،ناہلی اورغفلت کی وجہ سے آج بھی اُسی مقام پرکھڑاہے،جہاں وہ 2005ء کوموجودتھا۔مظفرآبادکے 98فیصدلوگ گندہ وزہریلہ پانی پی رہے ہیں۔سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے، چندایک سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں لیکن ان کی تعمیر اس قدرناقص ہے کہ وہ تعمیر کے ایک سال بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکا رہوچکی ہیں جبکہ بیشترسڑکوں کاکام ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے۔زیادہ ترسرکاری اداروں،سکول و کالجز اورمراکز صحت کو نئی اور زلزلہ مزاحم مکانیت دستیاب نہیں،غرض یہ کہ بنیادی نوعیت عوامی ضرورت کا قابل ذکر کوئی منصوبہ زمین پر موجود نظرنہیں آتا۔
مذکورہ حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مقتدراعلیٰ سے لے کر عوامی نمائندگان، آفیسران اور عام شہری تک کسی نے بھی اتنے بڑے سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ایسی صورتحال میں اگریوں کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ ہم اُسی زمانہ ء جاہلیت میں واپس جاچکے ہیں جہاں کسی کو بھی حلا ل وحرام اور خیروشرکی کوئی تمیزنہ تھی۔جوجتناطاقتورہوتااسی قدرسفاک ،ظالم اوراتناہی بڑاڈاکو،لٹیرااور غنڈہ ہوتا۔آج زلزلہ متاثرہ عوام باالخصوص اہل مظفرآبادجن حالات سے گزررہے ہیں،بلاشبہہ ایسی ہی صورتحال کی نشاندہی کررہے ہیں۔غورطلب بات یہ ہے کہ ماسوا چندایک دردِدل رکھنے والے افراد کے یہاں کسی حکومت یااپوزیشن کاکوئی چکرنہیں،یہ سب فراڈ اورنِراسراب ہے۔ کل تک جو لوگ حکومتوں میں تھے ،آج وہ تعمیرنونہ ہونے کا ماتم کررہے ہیں اور جو آج حکومت میں ہیں وہ ماضی میں یہی رونارورہے تھے۔حالانکہ دنیامیں جہاں کہیں بھی قدرتی آفات رونماہوتی ہیں باشعوراقوام ان سے نمٹنے کیلئے پہلے سے تیاررہتی ہیں اورجنہوں نے ماضی میں آفات سے بچاؤ کی پیشگی تیاریاں نہیں کیں، انہوں نے اپنی نئی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے ہنگامی طورپر اصلاحات نافذ کیں۔

ترکی کی مثال ہی لیجئے،17اگست1999ء کوترکی میں آنے والا 7.1کی شدت کے زلزلے نے 16ملین آبادی کو متاثرکیاتھاجس میں 17ہزار4سو 80افراد جاں بحق جبکہ 43ہزار9سو 53زخمی ہوئے تھے۔ترکی کے حکمرانوں اور ذمہ داران نے ہماری طرح اس قدرتی آفت کو خیراتی رقوم ہڑپ کرنے کا نادر موقع سمجھ کر اپنی قوم کو بھکاری بناکراپنی تجوریوں کو نہیں بھرا،بلکہ انہوں نے فوری طورپرطویل المیعاد قانونی ،اداراتی اور انتظامی اصلاحات عمل میں لائیں اور خطرات میں کمی کیلئے جامع سلسلے کی بنیادیں رکھیں ۔مگرہماے ہاں کیا ہوا؟،اداروں کی کاکردگی سے تولگتاہے کہ ان کا قیام ہی شائد انہی مقاصد کے لئے عمل میں لایاگیاتھاکہ وہ کرپشن کو قانونی شکل دیکر خیراتی سرمائے کی بندربانٹ کرسکیں۔ہمارے لئے اس سے بڑاالمیہ اور کیا ہوگا کہ ہم نے انہی بلیک لسٹ ٹھیکیداروں کو ٹھیکے الاٹ کردئے جو زلزلے میں مجموعی طورپر شہیدہونے والے73 ہزارافراد میں سے 67فیصدطلباء اور سرکاری ملازمین کے قاتل ہیں۔اسی طرح ہمارے ہاں اہم ترین حکومتی اداروں کاماحول اور انتظامی معاملات کو بھی درست نہیں کیا جاسکا،تعلیمی اداروں میں این ٹی ایس نافذ تو کردیا گیا ہے لیکن عملاً صورتحال پہلے کی طرح دگرگوں ہے،کئی تعلیمی اداروں میں اساتذہ طویل عرصہ سے غیر حاضر ہیں اور سکول ٹھیکے پر ہی چلائے جارہے ہیں۔خاص طورپرہمارے ہسپتالوں کی حالت زارانتہائی قابل رحم ہے۔ہسپتالوں میں ادویات کی اور علاج معالجہ کی صورتحال تو ویسے بھی ناقابل بیان حد تک دستیاب نہیں ہے اس کے ساتھ ڈاکٹرزاورپیرامیڈیکل سٹاف کا مریضوں اور ان کے لواحقین سے رویہ بھی انتہائی افسوس ناک ہے۔مظفرآباد کے سب سے بڑے شخ خلیفہ بن زائدالنہیان ہسپتال میں دوران سال متعدد اموات مبینہ طورپر ڈاکٹرز کی غفلت،بروقت طبی امدادنہ ملنے اورجان بچانے والی و ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوئی ہیں جو ریکارڈکاحصہ ہیں۔دل، گردے اور فالج کے امراض میں مبتلاء بلال احمد نامی ایک متاثرہ نوجوان نے بتایاکہ وہ تقریباً ڈیڑھ سال تک شیخ خلیفہ بن زائدالنہیان ہسپتال میں علاج کے لئے آتارہا لیکن ڈاکٹرز اس کا علاج تو درکنار درست تشخیص بھی نہیں کرسکے اور ان کی تکلیف میں مذیداضافہ ہی ہوا یہاں تکہ کہ انہیں اپنی زندگی کی امید باقی نہیں رہی،بالاآخر انہیں قرض اٹھا کر راولپنڈی اور بعدازاں ایبٹ آباد جاناپڑا۔بلال احمدنے بتایاکہ ایبٹ آباد میڈیکل کمپلیکس میں اسے ڈاکٹرز نہیں بلکہ مسیحا مل گئے اور یوں اس کا علاج مہینوں میں نہیں دنوں میں ممکن ہوا۔انہوں نے بتایاکہ ایوب میڈیکل ٹیچنگ ہسپتال نے انہیں نئی زندگی دی اور انہیں زیادہ اخراجات بھی برداشت نہیں کرنا پڑے،انہوں نے بتایا کہ ایوب میڈیکل کمپلیکس کاسارا نظام کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا ہے اور ہسپتال میں داخل ہو جانے والے مریضوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کے لے کر زیادہ تر ادویات ہسپتال سے ہی فراہم کی جارہی ہیں۔جبکہ مظفرآباد کے شیخ خلیفہ بن زائدالنہیان ہسپتال میں اربوں روپے مالیتی دنیا کی جدیدترین مشینری تو موجود ہے لیکن اس کی نااہل سیاسی ایڈمنسٹریشن کی نالائقی کی وجہ سے اربوں روپے مالیتی زیادہ ترمشینری زنگ آلودہوکررہ گئی ہے ،کیوں کہ اس مشینری کو استعمال میں لانے کیلئے کوالیفائیڈ سٹاف ہی بھرتی نہیں کیا گیا اور جوٹیکنیکل ملازمین ڈیپوٹیشن پرلئے گئے تھے ،12سال سے انہیں امستقل نہیں کیا جاسکا،مشکل وقت میں جب شیخ زیدہسپتال کا بوائلر آپریٹ کرنے کیلئے ہسپتال انتظامیہ کو بھاری مشاہرے پرپرائیویٹ سٹاف ہائرکرناپڑرہاتھا‘ایسے وقت میں زلزلہ کے بعد ہنگامی بنیادوں پر دیگر محکموں سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے ٹیکنیکل سٹاف کو آج 6,6ماہ تک تنخواہیں بھی ادانہیں کی جاتی ہیں بلکہ الٹا انہیں طرح طرح سے ستایا جاتاہے، کہیں اے جی آفس کا عملہ رشوت طلب کرتا ہے تو کہیں شیخ زید ہسپتال انتظامیہ انہیں زیربار کرتی رہتی ہے۔ دوسری جانب لاگ کہتے ہیں کہ یہاں مریضوں کو دھکے ملتے ہیں لیکن علاج نہیں ملتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اداروں کو چلانے کے لئے باصلاحیت سٹاف کے ساتھ ساتھ درددل رکھنے والے مسیحاؤں کی ضرورت ہوتی ہے،مگربدقسمتی سے ہم نے نام نہاد ڈگری ہولڈر ڈاکٹرزاور پیرامیڈیکل سٹاف تو بھرتی کر لیا ہے لیکن انہیں انسانیت کی ڈگری حاصل نہیں ہے۔

دنیامیں قوموں پرامتحان وآزمائشیں آتی رہتی ہیں،باشعور،محب وطن اور جذبہ انسانیت سے سرشار قومیں ان میں سرخروہوکر ازسرنو خوشگوارزندگی کاآغازاس اندازسے کرتی ہیں،جیسے ان پر کوئی آزمائش آئی ہی نہ تھی ۔ مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرکے دنیامیں تیزی سے ابھرنے والے ترکی اور دیگر کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،مگربے حسی،بے حمیتی،خودغرضی لالچ وسست روی کاشکارقوموں کاوہی حال ہوتاہے جوآج ہماراہے۔۔۔۔۔ آج کادن ہمیں اپنی بے بسی پر ماتم کرنے کے بجائے عزم تعمیرنو اور خودکا احتساب کرنے کے طورپرمناناچاہیئے۔

Safeer Ahmad Raza
About the Author: Safeer Ahmad Raza Read More Articles by Safeer Ahmad Raza: 44 Articles with 43040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.