وادی استور


نانگا پربت کے دامن میں واقع جنت نظیر وادی
سحر انگیز جھیلیں، مرغزار، بلند و بالا پہاڑ اور برفانی چوٹیاں، سیاحوں کی دل چسپی کا محور ہیں
رفیع عباسی

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں بے شمار خوب صورت وادیاں پھیلی ہوئی ہیں، جو سیاحت کے حوالے سے پر کشش مقام رکھتی ہیں، انہی میں سے ایک استور کی وادی بھی ہے جو گلگت سے تقریباً 115 کلومیٹر کے فاصلے پر ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر اسلام آباد سے براہ راست اس وادی کی طرف سفر کیا جائے تو 14گھنٹے کی مسافت پر، رائے کوٹ کا پل عبور کرنے کے بعدتالیچی کے مقام سے ایک سڑک پہاڑی بلندی پر چڑھتی ہوئی وادی استور کی جانب جاتی ہے۔ دو گھنٹے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان دریائے استور کے کنارے سفر کرتے ہوئے لکڑی کےکئی معلق پل آتے ہیں۔ اس سڑک پر ڈویاں اور ہرچوسے کے دل موہ لینے والے قصبات واقع ہیں، جن سے گزر کر پاکستان کی دوسری اور دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی،نانگا پربت کے دامن میں واقع استور کی وادی میں پہنچتے ہیں۔ یہ تقریباً سو چھوٹے بڑے خوب صورت قصبات کا مجموعہ ہے ، جہاںسحر انگیز جھیلیں، سبز مرغزار، آسمان کوچھونے والے بلند و بالا پہاڑ، سر بہ فلک برفانی چوٹیاں، پہاڑی جھرنے، آب شار، سیر و تفریح کے شائقین کی دل چسپی کا محور ہیں۔ استور کے حسین مناظر والے قصبات میں چلم، بوبن، گیریکوٹ ، عیدگاہ، فینا، بولن، چونگرا اور ترشنگ کے علاقے قابل ذکر ہیں۔

وادی استورکا شمار تاریخی اہمیت کے حامل علاقےمیں ہوتا ہے۔ یہ علاقہ وسطی ایشیا ، چین اور افغانستان سےہندوستان کی طرف جانے والے قافلوں کے لیے راہ داری کا کام دیتا ہے اور ماضی میں انگریز فوجی اور تاجر برطانیہ سے ہندوستان پہنچنے کے لیے اسی راستے سے گزرا کرتے تھے۔ صدیوں سے چین اور افغانستان سے تاجراپنا مال و اسباب لے کر،اس علاقے سے گزر کر کشمیر کی طرف جایا کرتے تھے ۔ کہا جاتا ہے ایک ایرانی مہم جو غازی مخپون کی شادی اسکردو کی شہزادی سے ہوئی تھی جس نے چار بیٹوں کو جنم دیا، جن کے نام راس، روندو، کھرمنگ اور استور رکھے گئے۔اسکردو کے مختلف مقامات کے نام انہی شہزادوں کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں، جب کہ مذکورہ وادی کا نام شہزادے استور کےنام پر رکھا گیاہے۔ پہلے یہ وادی دیامیر کا ایک حصہ تھی لیکن 2004 میں اسےعلیحدہ سے ایک ضلع کی شکل دے دی گئی ہے جس کا ہیڈکوارٹر عید گاہ کا علاقہ ہے۔ گرمیوں میں یہاں کا موسم انتہائی خوش گوار ہوتا ہے جب کہ سردیوں میں چھ انچ سے تین فٹ تک برف باری ہوتی ہے، جس کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وادی کئی پہاڑوں کے سنگم پر واقع ہے جہاں ٹریکنگ کے وسیع مواقع ہیں۔ یہاں سے ایک پہاڑی راستہ مشرقی جانب بلاشبار کے علاقے سے دیوسائی کے خوب صورت پہاڑی جنگلات کی جانب جاتا ہے، شمال مغرب میں مٹھل کے درّے سےفیری میڈوز جب کہ جنوب مغرب میںپہاڑی پگڈنڈیوں پر پیدل سفر کرتے ہوئے روپل کے مقام پر پہنچتے ہیںجواستور کی ایک جنت نظیر وادی ہے ۔ ترشنگ کی جانب سے بھی روپل کی وادی کی طرف جانے کے لیے، پیدل کا راستہ ہے جس پر صرف مہم جو حضرات ہی سفر کرتے ہیں۔ اس راستے میں، دل فریب مناظر والے گاؤں،سرسبزچراگاہیں، برف پوش چوٹیاں، پھل اور پھولوں سے لدے درخت اور پودے سیاحوں کو تھکاوٹ کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ حالاں کہ پہاڑی بلندیوں کادشوار گزار سفر بعض اوقات جاں لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ استور سے روپل کی وادی تک جانے کے لیے جیپیں بھی چلتی ہیں۔ نانگا پربت کے دامن میں واقع روپل کی وادی، ایڈونچرز کے دل دادہ اور ٹریکنگ کے شائقین کے لیے پرکشش مقام ہے، جو سطح سمندر سے 11,265فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کے چاروں طرف برف پوش چوٹیاں ہیں جن میں نانگا پربت، روپل کی چوٹی، شگری کی چوٹی، لیلیٰ پیک اور میزینو پیک قابل ذکر ہیں۔ وادی کے درمیان روپل دریا بہتا ہے۔یہاں ہر طرف گندم اور دیگر اجناس کے کھیت ہیں جہاں صبح کے اوقات میں عورت اورمرد کھیتی باڑی کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ چیڑ اور دیودار کا جنگل بھی پھیلا ہوا ہے۔روپل کا علاقہ دو حصوں میں منقسم ہے، اپراور لوئر روپل۔ اس وادی میں روپل نام کا ایک پہاڑی گلیشئر بھی ہے۔ اس علاقے کے لوگوں نے تقریباً چھ سو سال قبل دریاعبور کرنےکے لیے لکڑی کے تختوں سے ایک آبی گزرگاہ بنائی تھی جو آج بھی موجود ہے۔

ترشنگ ، ضلع استورکا ایک جنت نظیر قصبہ ہے جو پہاڑی بلندیوں پر واقع ہے۔وہاں تک پہنچنے کے لیے دشوار گزار راستوں پر سفر کرنا پڑتا ہے جو پیدل یا جیپ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ استور سےترشنگ تک جیپیں چلتی ہیں جو 50روپے فی سواری لیتی ہیں ۔ عیدگاہ سے جب جیپ روانہ ہوتی ہے توپہاڑی راستے پر عمودی چڑھائی شروع ہوتی ہے،پرُ خطر راستوں کودیکھ کرمسافر خوف و دہشت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ آد ھے گھنٹے کے سفر کے بعد گریگوٹ کا قصبہ آتا ہےجو ایک چھوٹا اورروایتی سا پہاڑی گاؤں ہے۔ اس سڑک پر مزید سفر کیا جائے تو یہ کارگل کی وادی اور دیوسائی کے نیشنل پارک تک جاتی ہے۔لیکن ترشنگ جانے والی گاڑیاں، اس سڑک کو چھوڑ کر دائیں طرف ایک کچی پگڈنڈی نما سڑک پر مڑ جاتی ہیں۔ مذکورہ سڑک بل کھاتے ہوئے راستے پر بلند ی کی جانب چڑھتی جاتی ہے اور بعض مقامات پر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم فضا میں سفر کررہے ہوں۔ اس سڑک پر کئی اندھے موڑآتےہیں اور بعض جگہ پر تو یہ اتنی عمودی شکل میں ہیں، کہ اگر چڑھائی پرڈرائیور کی گرفت ایکسیلیٹر پر ذرا بھی ڈھیلی پڑ جائے تو جیپ اوپر چڑھنے کی بجائے، واپس نیچے کی طرف آنے لگتی،سامنےسے کسی گاڑی آنے کی صورت میں جیپ کو ریورس گئیرمیںدوبارہ نیچے کی جانب لے جانا پڑتا ہے۔ اس دوران جیپ کے ٹائرسڑک کے آخری کنارےپر پہنچ جاتے ہیں جس کے اختتام پر نیچے کی جانب ہزاروں فٹ گہری کھائیاں ہیں، اس موقع پر کم ہمت لوگ قرآنی آیتوں کا ورد کرنے لگتے ہیں جب کہ بعض لوگ آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ اس ہیبت ناک سفر کا اختتام ایک سحر انگیز وادی پر ہوتا ہے جہاں دور دور تک پھیلے ہوئے حسین مناظرساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہزاروں فٹ بلندی پر پہنچنے کے بعد جیپ ہموار سطح پر پر رواں ہوتی ہے اور ترشنگ کے قصبے کی جھلکیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ ہوا خنک اور ماحول خوش گوار ہوجاتا ہے۔سر سبز میدان، پھلوں سے لدے باغات اور کھیت شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں سے گزر کر قصبے میں داخل ہوتے ہی اچانک نانگا پربت کی برف سے ڈھکی ہوئی 25500 فٹ بلند چوٹی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ سامنے آتی ہے ، یہ سیاحوں کے لیے ایک حیران کن منظر ہوتا ہے۔ ترشنگ کی مسحور کن وادی پر نظر پڑتے ہی مسافر سفر کی صعوبتوں کو بھلا کر فطرت کی رنگینیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ یہ قصبہ وادی استور کا حقیقی حسن ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم حسین مناظر سے بھرا ہوا کیلنڈر دیکھ رہے ہیں۔ یہاں کی سرزمین میں ہر طرف پھولوں کے گل دستے سجے ہوئے ہیں ، سبز مرغزارکے ساتھ پھلوں سے لدے ہوئے درخت ہیں۔ وادی کے درمیان میں ایک نہر بہتی ہے جس کے اطراف میں لگے گھنے درخت ماحول کو اور بھی پر کیف بناتے ہیں۔ نہر کا پانی انتہائی سرد اور میٹھا ہے۔ ترشنگ کی وادی کو چاروں جانب سے گلیشئرز نے اپنے دامن میں چھپایا ہوا ہے۔ترشنگ گلیشئراور زیپر کے مقامات قابل دید ہیں۔ اس قصبے میں ایک دوسرے سے فاصلے پر مٹی اور لکڑی کی عمارتیں بنی ہوئی ہیںجن میں رہنے والے افراد کھیتی باڑی اور گلہ بانی کے پیشے سے منسلک ہیں۔ موسم گرما میں جب یہاں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو یہ سیاحوں اور ٹریکر حضرات کی بطور گائیڈبھی خدمات انجام دیتے ہیں۔

وادی چلم بھی استور کا ایک پر فضا علاقہ ہے، جوضلع کے مرکزی علاقے سے 52کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور دیوسائی کے پہاڑی سلسلے کی جانب جانے کا بیس کیمپ بھی ہے۔ چلم اور استور کے درمیان وین سروس موجودہے۔ یہ ایک چھوٹا ساپرفضا گاؤں ہے۔ اس علاقے سے منی مرگ ، دیوسائی اور شیوسر جھیل کی جانب سفر کرنے کےلیے جیپیں بھی جاتی ہیں۔

راما کا علاقہ، وادی استور سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک انتہائی دل فریب مقام ہے جہاں سیاحوں کی دل بستگی کے لیے کافی دل چسپیاں موجود ہیں۔وسیع و عریض سر سبز میدان ، اس کے ساتھ لگے ہوئے تناور درخت، جن کے اختتام پر پہاڑ پر تہہ در تہہ بلندہوتا ہواجنگل، اس کےعقب میںبرف پوش چوٹیاں،جن سے صرف چند فٹ اوپر تیرتے ہوئے سرمئی بادل اور ان سب پر سایہ فگن نیلا آسمان کسی اور جہاں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ پہاڑی بکرے، برفانی چیتے، مشک والے ایشیائی ہرن، چکور اور تیتر کا مسکن ہے، لیکن اب اس علاقے میں مذکورہ قسم کے ہرن کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے کیوں کہ کاروباری حضرات مشک کی تھیلی نکالنے کے لالچ میں اس بے زبان جانور کا بے دردی کے ساتھ شکار کرتے ہیں۔ وادی سے ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پرراما نام کی جھیل واقع ہے جہاں پہاڑی راستے پر ٹریکنگ کرتے ہوئے جاتے ہیں۔جھیل تک پہنچنے کے لیے جنگل کا کچھ حصہ عبور کرکے ایک میدان میں پہنچتے ہیں جس کے آگے ایک بڑا نالہ بہہ رہاہے جس پر ایک چوبی پل بنا ہوا ہے ۔ یہ گزرگاہ اتنی تنگ ہے کہ اس پر سے صرف پیدل چلنے والے ہی گزر سکتے ہیں۔، نالا کافی چوڑا بنا ہوا ہے لیکن پانی اس کے درمیان میں ہی بہتا ہے۔ پُل عبور کرنے کے بعد نالے کے کنارے سفر کرتے ہوئے تقریباً 10,500فٹ بلندی کی جانب جانے کے بعد مذکورہ جھیل آتی ہے۔ راما کا میدان سطح سمند ر 9525فٹ بلندی پر ہے جب کہ اس جھیل تک پہنچنے کے لیےپہاڑی پر مزید سفر 975فٹ بلندی کی جانب سفرکرنا پڑتا ہے۔ اس کا شمار گلگت کے خطے کی خوب صورت جھیلوں میں ہوتا ہے۔

بانکلا کا علاقہ وادی استور کا دشوار گزار پہاڑی قصبہ ہےجو پیرشنگ گوتم سرکی وادی میں بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔اس میں ہر سو فطرت کے حسین رنگ نظر آتے ہیں۔ ہربل ادویات کے پودے جگہ جگہ اگے ہوئے ہیں۔ راما کی طرح گوتم سر کی وادی بھی جنگلی حیات کا مسکن ہے جہاںپہاڑی بکرے، ہرن، برفانی چیتے، خرگوش اور تیتر آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ اس علاقے سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ارڈونگ جھیل واقع ہے جس کا شمار خطے کی چند حسین جھیلوں میں ہوتا ہے۔

استور کی وادی کا ایک اور دل موہ لینے والا قصبہ رٹو ہے جو ہمالیہ کے دامن میں 9ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ استور سے جنوب مغرب میں سفر کریں تو 45کلومیٹر کے پرصعوبت سفر کے بعد یہ پہاڑی قصبہ آتا ہے، جہاں دور دور تک گھاس کے میدان نظر آتے ہیں، اونچے، نیچے ٹیلوں اور پہاڑی چٹانوں پر سبزہ، مخملی قالین کی صورت میں بچھانظر آتا ہے، جس پر سیاح پیدل چلنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یہاں ہر جانب مختلف رنگوں میں کھلے ہوئے جگلی پھولوں کی خوشبو سے فضا معطر رہتی ہے۔ بلند و بالا درخت، اور پودے عجیب منظر پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں ہربل دواؤں میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کی بہتات ہے ۔ رٹو سے تین علاقوں کی جانب سفر کے لیے راستے نکلتے ہیں۔ اس وادی کے جنوب مشرق میں 13415فٹ بلند درہ شونتر ہے جب کہ جنوب مغرب میں درہ کامری جو 13000فٹ بلندی پر واقع ہے۔ نانگا پربت کی برفانی چوٹی-

یہاں اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ نظر آتی ہے اور اس کی اوٹ میں سے منعکس ہونے والی سورج کی کرنیں ماحول پر عجب سحر طاری کردیتی ہیں۔ اس وادی میں چیڑ اور دیودار کاوسیع و عریض جنگل ہے جس میں پہاڑی بکرے اور ہرن اٹھکیلیاں کرتے پھرتے ہیں جب کہ فضا چکو ر اور تیتر کی چہچہاہٹ سے کونجتی ہے۔

وادی کا ایک اور خوب صورت قصبہ منی مرگ بھی ہے۔ سر سبز و شاداب علاقہ ہے جہاں درختوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔ بورزل کے درے سے گر کر اس علاقے میں پہنچتے ہیں۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے 1400فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کی سیر کے لیے جولائی اور اگست کے مہینے مناسب ہیں۔ اس کے پہاڑی غاریں سردیوں کے موسم میں ہمالیائی بھورے ریچھوں کی پناگاہیں بن جاتی ہیں۔ استور سے 48 کلومیٹر کے فاصلے پر داس خیرم کا علاقہ ہے جو تین پرفضا وادیوںداس، داس بیلہ اور خیرم پر مشتمل ہے ۔ یہ استور کا واحد علاقہ ہےجہاں زندگی کی تمام جدید سہولتیں جن میں بجلی، ڈش ٹی وی اور ٹیلی فون کی سہولتیں موجود ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.