پاکستانی کرکٹرز کےآف اسکرین واقعات

جہانگیر خان کی باؤنس گیند سے چڑیا کی، 30سال بعدیہی کارنامہ ان کےبیٹے ماجد خان نے انجام دیا ایمپائر علیم ڈار اور شہد کی مکھیاں،جب یوسف یوحنا، محمد یوسف بنے

دوران میچ اور کرکٹ کے میدان سے باہر، پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ دل چسپ واقعات پیش آئے جن میں سے زیادہ تر ذرائع ابلاغ پر اجاگر ہوکر عوام تک پہنچے ۔کھلاڑیوں کے ساتھ پیش آنے والے بعض واقعات ایسے ہیں جو آف اسکرین ہونے کی وجہ سے شائقین کرکٹ کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔ ایسے ہی چند دلچسپ قصے قارئین کی دل چسپی کے لیے ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔
 

image

کرکٹرزکے ہاتھوں پرندوں کی ہلاکت
چڑیا معصوم سا خوب صورت پرندہ ہےجس کی چہچاہٹ کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔لیکن شاید پاکستان کے دو کرکٹرز کو اس سے خاندانی بیر تھا، جب ہی انہوں نےکرکٹ میچ کے دوران اس معصوم پرندے کو اپنی گیندوں سے ہلاک کیا۔ اس تاریخی واقعات کے کردارجہانگیر خان اور ان کے بیٹے ماجد خان تھے۔ٹیسٹ کرکٹر، ڈاکٹر جہانگیر خان، جو یکم فروری 1910ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے،غیر منقسم ہند میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی جانب سےفاسٹ بالر کے طور پر ٹیم اسکواڈ میں شامل تھے اور 41۔1940میں سیلون کا دورہ کرنے والی بھارتی ٹیم کے کپتان رہے۔قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں چیف سلیکٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کے بیٹے ماجد خان اور پوتے بازید خان کے علاوہ بہنوئی بقاء جیلانی اور دوبھانجوں، عمرا ن خان(موجودہ وزیر اعظم پاکستان) اورجاوید برکی بھی ملک کے معروف کرکٹر تھے۔جولائی 1936ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ لارڈز گراؤنڈ پر میری لی بون کرکٹ کلب کے خلاف میچ کے دوران برطانوی کھلاڑی ، ٹام پیئرس بیٹنگ کررہے تھے اور جہانگیر خان بالنگ کرارہے تھے۔ اوورکے دوران جہانگیر نے پیئرس کو ایک ایسی تیز گیند کرائی جو بائونس تھی لیکن بلے باز تک پہنچنے سے قبل ایک چڑیا اس کی زد میں آگئی جو عین اسی وقت وہاں سے اڑتے ہوئے گزر رہی تھی جب جہانگیر نےگیند بلے باز کی جانب پھینکی تھی ۔ گیند لگنے کے بعد ، چڑیا زمین پر گری اوردم توڑ گئی۔ لارڈز گراؤنڈ اور ایم سی سی کے منتظمین نے کھیل رکوا کر،چڑیا کوگراؤنڈ سے اٹھوایااور اس واقعے کو یادگار بنانے کے لیے اس کی لاش حنوط کرانے کے لیے لارڈز گراؤنڈ میں واقع ، ایم سی سی میوزیم میں نمائش کے لیے رکھ دی گئی۔کرکٹر کے ہاتھوں چڑیا کی ہلاکت کا یہ واقعہ ہمیشہ کے لیے کرکٹ کی تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہوگیا۔گیند لگنے سے پرندے کی ہلاکت کا دوسرا واقعہ اس کے 30سال بعدپیش آیا۔ جہانگیر خان کے بیٹے، ماجد خان بھی مذکورہ کارنامہ انجام دینے میں اپنے باپ سے پیچھے نہیں رہے۔ ماجد جہانگیر خان کا شمار دنیا کے عظیم بلے بازوں میں کیا جاتا ہے، وہ بلند وبالاشاٹ کھیلنے کی وجہ سے معروف تھے۔ 1965میں نیوزی لینڈکی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔دورے کا دوسرا میچ لاہور اسٹیڈیم(موجودہ قذافی اسٹیڈیم) میں کھیلا گیا۔ ماجد خان بیٹنگ کررہے تھے جب کہ کیوی بالر بیری سنکلیئر ے انہیں گیند کرارہے تھے۔ بیری کی ایک تیز گیند پر ماجد نےاونچا شاٹ کھیلا۔ان کالگایا ہوا یہ مہلک شاٹ گراؤنڈ پر محو پرواز ایک چڑیا کےلیے ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ گیند کی ضرب سے چڑیا زمین پر گر گئی اور اس نے فوراًہی دم توڑدیا۔

کرکٹر زکے ہاتھوں پرندے کی موت کا تیسراواقعہ آسٹریلیا اور بھارت کے میچ کے دوران ایڈیلیڈگر اؤنڈ پر پیش آیا۔ بھارتی ٹیم کےسابق کپتان کپل دیو جو فاسٹ بالرتھے ،بیٹنگ بھی اچھی کرلیتے تھے۔ دسمبر 1986ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا، جہاں اس نے 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی۔ پہلا ٹیسٹ میچ ایڈیلیڈ گراؤنڈ پر کھیلا گیا۔مہندر امرناتھ کے آؤٹ ہونے کے بعد آٹھویں نمبر پر کپل دیو بیٹنگ کے لیے آئے ۔ آسٹریلین بالررے برائٹ بالنگ کرارہے تھے،برائٹ ایک تیز گیند پر کپل نے ایک اونچا شاٹ کھیلا عین اسی وقت گراؤنڈ پر سے سی گل پرو از کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ گیند پوری قوت کے ساتھ اس کی گردن پر لگی، وہ زمین پر گرا ، اور دم توڑ گیا۔کپل سی گل کی موت سے اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ برائٹ کی اگلی ہی گیند پر آؤٹ ہوگئے۔

علیم ڈار سے بیٹی کی موت کی خبر چھپائی گئی
پاکستانی ایمپائر ،علیم ڈار کا شمار دنیاکے بہترین ایمپائرز میں ہوتا ہے۔ وہ آئی سی سی کے ایلیٹ پینل میں شامل ہیں اور تین مرتبہ سال کے بہترین ایمپائر کا ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں لیکن یہ مقام حاصل کرنے کے لیے انہیں بیش بہا قربانیاں دینا پڑیں، جس میں ان کی بیٹی کی موت بھی شامل ہے۔ 2003ء میں جنوبی افریقہ میں کرکٹ کے آٹھویں عالمی کپ ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوا۔ میچ آفیشل کے طور پرمیچ کی نگرانی کے لیےعلیم ڈار کو بھی ایمپائرز پینل میں شامل گیا۔ جب وہ جنوبی افریقہ کے لیے روانہ ہوئے تو اس وقت ان کی چھ ماہ کی بیٹی جویریہ شدید علیل تھی اور ڈاکٹر اس کی زندگی کی طرف سےناامیدی کا اظہار کررہے تھے، لیکن علیم ڈار نے پیشہ وارانہ فرائض کو بیٹی کی محبت پر ترجیح دی۔ 9؍فروری کو وہ جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان منعقد ہونے والے کی ایمپائرنگ کررہے تھے کہ اسی دن ان کی بیٹی کا انتقال ہوگیا۔ ان کی اہلیہ نے اس وقت حوصلے کا مظاہرہ کیا اور بیٹی کی موت کی خبر علیم ڈارتک نہ پہنچنے دی ۔ 28مارچ کو آخری میچ کے بعدجب علیم ڈار وطن واپس آئے تو انہیں جویریہ کی موت کی اطلاع دی گئی۔رواں سال اپریل میں انہوں نے 350میچوں میں ایمپائرنگ کرنے والے پہلے ایمپائر کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔
 

image


علیم ڈار اورشہد کی مکھیاں
علیم ڈار نے ایمپائرنگ کیریئر کی ابتدا 2000میں گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والے پاکستان اور سری لنکا کے میچ سے کی۔ اس کے کچھ عرصے بعد انہیں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کےدرمیان کھیلے جانے والے میچز کی نگرانی کے فرائض انجام دینے کے لیےجنوبی افریقہ جانا پڑا۔ اس وقت ان کی انگریزی واجبی سی تھی۔جوہانس برگ کے تیسرے ایک روزہ میچ کے دوران وہ اسکوائر لیگ پر کھڑے ایمپائرنگ کررہے تھے کہ انگلش بلے باز کا کھیلا گیا شاٹ، گراؤنڈ کے باہر لگے ہوئے درخت پر لگے شہد کی مکھیوں کے چھتے سے ٹکرایا۔ علیم ڈار نے دیکھا کہ مکھیوں کا جھنڈ گراؤنڈ میں آرہا ہے۔ انہیں کھلاڑیوں کو خبر دار کرنے کے لیے انگریزی کےالفاظ نہیں مل رہے تھے۔ انہوں نے گھبراہٹ کے عالم میں پنجابی زبان میں ہی چلاّ کر کہا، ’’اوئے لمبے پے جاؤ سارے‘‘، یہ کہہ کو وہ خود بھی میدان میں لیٹ گئے۔ نہ جانے دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ان کی بات کا مفوہم سمجھے یا نہیں لیکن انہیں زمین پر لیٹتا دیکھ کرانہیں بھی کسی ناگہانی آفت کا احساس ہوا اور وہ سب بھی زمین پر لیٹ گئے، میچ روک دیا گیا۔گراؤنڈانتظامیہ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو اس نے عملے کو آگ بجھانے والے آلات دے کر گراؤنڈ میں بھیجاجنہوں نے ان آلات کا استعمال کرکے مکھیوں کو بھگانے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔بالآخر شہد کی مکھیاں پکڑنے والے ماہرین کو بلوایا گیا۔مکھیوں کو بھگانے کے بعد ایک گھنٹے کے بعد میچ دوبارہ شروع کیا گیا ۔ جنوبی افریقہ نے یہ میچ سات وکٹوں سے جیت لیا۔

عمر اکمل کی شرٹ اور خوش بختی کا ہندسہ
جب 2015 کے ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی یونیفارم کے نمبر الاٹ ہونے لگے تو عمر اکمل کو 96ویں نمبر کی یونیفارم دی گئی۔انہوں نے96نمبر کی جگہ 3نمبر کی شرٹ لینے پر اصرار کیا۔ عمر اکمل کے بے حد اصرار پر انہیں مذکورہ نمبر کی شرٹ الاٹ کردی گئی۔ ساتھی کھلاڑیوں نے ان سے اس تبدیلی کی وجہ معلوم کی تو انہوں نےانکشاف کیا کہ ، ان کے پیر صاحب نے انہیں بتایا ہے کہ مذکورہ ٹورنامنٹ میں ان کے لیے 3 کا ہندسہ خوش بختی کی علامت بنے گا اور وہ لمبی اننگ کھیل کر ٹورنامنٹ کےسب سے زیا دہ رن بنانےوالے بلے باز کا ریکارڈ قائم کریں گے۔ یہ خبر ٹیلی ویژن چینلز کی وساطت سے عوام تک بھی پہنچ گئی اور وہ عمر اکمل کی ریکارڈ ساز اننگ کا انتظار کرنے لگے۔ 15فروری کا پہلا میچ پاکستان نے بھارت کے خلاف کھیلا جس میں خوش بختی کا ہندسہ عمر اکمل کے کوئی کام نہیں آیااور وہ صفر پر آؤٹ ہوگئے جب کہ ٹورنامنٹ کے دیگر میچوں اور کوارٹر فائنل میں بھی ان کی کارکردگی، پیر صاحب کی پیش گوئی کے برعکس رہی۔
 

image


بھارت کی شکست پر کاردار کا جذباتی انداز
عبدالحفیظ کاردار جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان تھے،کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر کمنٹری باکس میں آجاتے تھے۔ ایسے ہی ایک میچ کے موقع پر جس میں پاکستانی ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں بھارت کو شکست دی تھی، کاردار کمنٹیٹر بشیر خان کے ساتھ کمنٹری باکس میں موجود تھے۔ بشیر کمنٹری کررہے تھے اور کاردار سے میچ کی صورت حال کے بارے میں رائے بھی لیتے جارہے تھے۔ جیسے ہی پاکستانی بالرز نے بھارت کے آخری کھلاڑی کو آؤٹ کیا تو کاردار مائک اپنی طرف کرکے جذباتی انداز میں چیخے، بشیر، ہم نے معجزہ کر دکھایا ہے، ہم نے ہندوؤں کو شکست دے دی، ہم نے ہندوؤں کو شکست دے دی۔بشیر کاردار کے جوشیلے انداز سے گھبراگئے ، کیوں میچ کی کنٹری آن ائیر ساری دنیا میں سنی جارہی تھی۔ انہوں نےغیرمحسوس انداز میں ان کے پاس رکھا ہوا مائکرو فون اپنی طرف کیا اور کمنٹری جاری رکھتے ہوئے بولےکہ، ’’کاردار صاحب بہت خوش ہیں، خوشی اچھی چیز ہوتی ہے‘‘، سامعین ابھی سابق کر کٹر کے جذبات کا اظہار ملاحظہ کررہے تھے۔۔

بی سی پی چیئرمین اور سائٹ اسکرین
80ء کے عشرے میں ائیر مارشل (ریٹائرڈ) نور خان مرحوم نے بی سی پی کےچیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نیشنل اسٹیڈیم کراچی کا دورہ کیا۔دورے کے دوران انہوں نے اسٹیڈیم میں نصب سائٹ اسکرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عملے سے سوال کیا کہ ’’یہ کیا چیز ہے،اسے یہاں سے ہٹایا جائے ۔‘‘دراصل سائٹ اسکرین پر موجود ترپال کا ایک پھٹا ہوا کونا نیچے لٹک رہا تھا جو واقعی اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن جب کسی نے بورڈ کے صدر کے کان میں کہا کہ یہ سائٹ اسکرین ہے جو کرکٹ کے کھیل میں ضروری ہے تو انہوں نے فوری طور پر بات بدلتے ہوئے کہا کہ’’اسے تبدیل کریں اور اس کی جگہ نئی سائٹ اسکرین لگائی جائے۔‘‘

جب یوسف یوحنا، محمد یوسف بنے
2005ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم سعودی عرب کی کرکٹ ٹیم سے میچ کھیلنے کے لیے سعودی عرب پہنچی، جس میں یوسف یوحنا بھی شامل تھے، جو اس وقت تک عیسائی تھے۔ مذکورہ میچ کینسل کردیا گیاتو کھلاڑیوں نے وطن واپسی سے قبل عمرے کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔ یوسف کومعلوم ہوا کہ سارےپاکستانی کھلاڑی خانہ کعبہ جا رہے ہیں تو ان کے دل میں بھی وہاں جانے کا اشتیاق پیدا ہوا۔۔یوسف ٹیلی ویژن کی نشریات میں خانہ کعبہ کے طواف کا منظر دیکھتے رہے تھے۔ان کے دل میں بھی اس مقدس مقام کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا، انہوں نےساتھی کرکٹر، راشد لطیف سے کہا کہ میں بھی اللہ کے گھر کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔راشد لطیف نے کہا کہ تمہارے پاسپورٹ پر غیرمسلم لکھا ہے ۔ یوسف نے راشدلطیف سے کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں ۔راشد نے مولانا طارق جمیل کو فون کیاجنہوں نے کہ یوسف کوکلمہ پڑھوا کرمسلمان کرواور اس کی دستاویز میں مذہب کے خانے میں مسلمان لکھوائو اجس کے بعد اسے بیت اللہ لے جاکر عمرے کی ادائیگی کروادو۔۔ یوسف یوحنا نےکلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا جس کے بعد ان کا اسلامی نام محمد یوسف رکھاگیا۔ ٹیم کے کپتان نے پاکستانی ایمبسی سے ان کے سفری کاغذات میں نام کی تبدیلی کروائی، جس کے یوسف نے انضمام الحق کے ساتھ جاکر عمرے کی ادائیگی کی۔
 

image

شعیب اختر کا ڈپارٹمنٹل ٹیم میں شامل ہونے سے قبل فٹ پاتھ پرشب بسری
راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے معروف ، سابق کرکٹر شعیب اختر دنیا کے تیز ترین بالرکی حیثیت سے معروف ہیں اور بالنگ کے شعبے میں انہوں نے کئی عالمی ریکارڈ قائم کیے ہوئے ہیں۔ لیکن کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں شمولیت سے قبل وہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایک تانگے والے کے مہمان رہے تھے جس نے انہیں اپنی جیب سے نہ صرف کھاناکھلایا بلکہ وہ لاہور کے ایک فٹ پاتھ پر اس کے ساتھ سوئے تھے۔راولپنڈی کے نزدیک مورگاہ کے قصبے میں جنم لینے والے شعیب اختر کے والد اٹک آئل ریفائنری میں پلانٹ آپریٹرکے طور پر ملاز م تھے۔ شعب اختر کو کرکٹ کھیلنے کا بچپن سے ہی شوق تھا لیکن ان کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ بڑا ہونے کے بعد انہوں نے نوکری کی تلاش شروع کی لیکن وہ اپنے پسند کی ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ایک روز ان کے دوست اعجاز ارشد نے انہیںبتایا کہ پاکستان ایئر لائنز کی کرکٹ ٹیم کے لیے لاہور میں ٹرائلز منعقد ہورہے ہیں تاکہ وہ اپنی کراچی ڈویژن ٹیم کے لیے کھلاڑی منتخب کرسکیں۔شعیب نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا لیکن ان کے پاس لاہور تک سفر کا کرایہ اور وہاں رہائش کے لیے پیسے نہیں تھے۔ لیکن شعیب نے لاہور جانے کا فیصلہ کیاانہوں نے ایک بیگ میں کچھ سامان اور کپڑے رکھے اور اعجازارشد کے ساتھ بس اڈے پر پہنچے۔بس کا کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے بغیر ٹکٹ بس میں سفر کا ارادہ کیالیکن اس کے لیے کنڈیکٹر کی نگاہوں سے بچنا ضروری تھا۔ انہوں نے بس کی روانگی کا انتظار کیااور جوں ہی بس چلی ، وہ دونوں دوڑ کر اس کے پیچھے لٹک کربس کی چھت پر چڑھ گئے۔سات گھنٹے کے سفر کے بعد وہ شام کےوقت لاہور پہنچے۔وہاں پہنچنے کے بعد ایک مسئلہ رات گزارنے کا تھا۔ لاہور میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں رہتا تھاجب کہ ٹرائل اگلی صبح ہونے تھے ۔اس وقت شعیب کی جیب میں بارہ روپے جب کہ اعجاز کے پاس تیرہ روپے تھے۔ اتنی قلیل رقم میں قیام و طعام کا بندوبست نہیں ہوسکتا تھاشعیب نے سڑک کے کنارے ایک تانگہ کھڑا دیکھا ، وہ اس کے کوچوان کے پاس گئےاور کوچوان کو سلام کرکےانتہائی بے تکلفی سے کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھےآج رات کا کھاناکھلائیں اور رات گزارنے کے لیے ہم دونوں کو جگہ دیں۔۔ کوچوان جس کا نام عزیز تھا، شعیب کی صاف گوئی سے بہت متاثر ہوا، اس نے شعیب سےپوچھاکہ تم کون ہو۔شعیب نے جواب دیا کہ میں راولپنڈی کا ایک کرکٹر ہوں اور ان شاء اللہ ایک روز میں ملک کا بڑا کرکٹر بنوں گا۔ تانگے والے نے کہا کہ کھانا تو میں تمہیں کھلا دیتا ہوں لیکن میں خود ریلوے اسٹیشن کی فٹ پاتھ پر سوتا ہوں اگر وہاں سونا چاہو تو جگہ مل سکتی ہے۔ تانگے والے نے شعیب اور ان کے دوست کو ہوٹل میں لے جاکر کھانا کھلایا اور ریلوے اسٹیشن کے قریب فٹ پاتھ پر سونے کے لیے جگہ دی۔اس رات شعیب اور ان کے دوست نے لاہور کے فٹ پاتھ شب بسری کی ،اگلی صبح عزیز خان نے اپنے تانگے میں بٹھا کرمال روڈ کی سڑک پر اتار دیا وہاں سے دوگھنٹے پیدل چلنے کے بعد ماڈل ٹاؤن کے گراؤنڈپہنچے جہاں پی آئی اے ٹیم کے منیجر، ظہیر عباس نے ان کا ٹرائل لیا او روہ پی آئی اے کی ڈپارٹمنٹل ٹیم میں منتخب ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد انہیں قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیااور عزت، دولت اور شہرت ان کے قدم چومنے لگی۔لیکن ایک کوچوان کے ساتھ لاہور کے فٹ پاتھ پر شب بسری ان کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوسکی اور اس کا تذکرہ انہوں نے اپنی سوانح حیات میں بھی کیاہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Followed by a millions Pakistani, cricket is a very big game in our country. Still, there is plenty going on with game and its players that the fans do not get to see on their television sets or on the cricket ground.