کاغذ کا ٹکڑا


مرسلین نے یہ خط اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر مہمانوں کو پڑھ کر سنایا، اس کی بیگم نے خط لکھنے
والے کا قصیدہ پڑھامگر اصل بات یہ ہے کہ الفاظ قیمتی تب ہی بنتے ہیں جب ان پر عمل کیا جائے، عام سے الفاظ پر عمل کر کے انھین قیمتی بنایا جا سکتا ہے اور خاص الفاظ پر عمل نہ کر کے انھیں ارزان کر دینا مشکل کام نہیں ہے

پیارے مرسلیں

سلامت رہو۔ امید ہے میرا یہ خط ملنے تک تم رشتہ ازدواج میں بندھ چکے ہو گئے۔ تم اچھے معاشرے میں جا
بسے ہو جہاں شادی کا ساتھی ڈھونڈنے میں تمھارے بڑے مدد گار رہتے ہیں بلکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی بڑے اس رشتے کی کامیابی میں معاونت کرتے ہیں۔ تمھاری فرمائش کو پورا کرتے ہوئے چند باتیں لکھ رہا ہوں لیکن انسانی رویے لکیر نہیں ہوتے کہ ہر شخص اس پر چل کر کامیاب ہو البتہ میرے اس خط کے مندرجات میں سے تم کامیابی ڈھونڈ سکتے ہو۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب میں پاکستان میں تھا تو میں نے تمھیں امام غزالی کی ایک کتاب تحفہ دی تھی ، اگر پڑھ لی ہے تو ٹھیک ورنہ اس کتاب میں یہ جملہ ضرور ڈھونڈ کر پڑھنا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ نومولود بچہ اتنی عمر تک والدین کے لئے کھلونا ہے، پھر اتنی عمر تک والدین کا خادم ہے اور اتنی عمر کے بعد دشمن ہے۔ جب تم مطلوبہ عبارت ڈھونڈ کر پڑھ لو ۔ تو پھر سوچنا کہ انھوں نے اولاد کو ایک خاص عمر کے بعدوالدین کا دشمن اس لیے کہا ہے کہ اب وہ ایک شخصیت ہے۔ شخصیت کی اپنی ذات ، دماغ اور سوچ کا انداز ہوتا ہے ۔ تمھاری شادی کے بعد ایک شخصیت تمھاری ذات کا حصہ بن چکی ہے۔ جو اپنے دماغ سے سوچتی ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی اس صفت کی مذمت نہ کرنا۔ انسان پسند کرتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے۔ اچھا خاوند اچھا سامع بھی ہوتا ہے۔لازمی نہیں تم جو کچھ سنو وہ درست ہو اختلاف کرنا تمھارا حق ہے ، اپنے ساتھی کو بھی اس حق سے محروم نہ کرنا۔ شادی محبت کا کھیل ہے اور اس کھیل کے دوران محبت بھری زبان ہی مناسب ہے۔ جب انسان قبول کا کلمہ زبان سے ادا کر دیتا ہے تو اس کو زندگی کی خوبصورتیوں کے ساتھ کچھ بد صورتیوں کو بھی قبول کرنا ہوتا ہے، تمھیں یاد ہے ایک بار اسلام آباد میں ایک گلاب کا پھول توڑتے ہوئے تمھاری انگلی سے بہت خون بہا تھا اور میں نے اپنا رومال پھاڑ کر باندھا تھا۔ یہ واقعہ یاد کراکربتا رہاہوں کہ خوبصورت پھولوں کے ساتھ جو کانٹے ہوتے ہیں ان کے ساتھ نہیں الجھنا چاہئے ۔تم نے جو پھول چناہے اس کے ساتھ کانٹے بھی ہوں گے۔ خود کو خو ن آلود کرنا نہ اپنے ساتھی کو ۔ یہ ایک ذمہ داری ہے دوسری بہت سی ذمہ داریوں کی طرح۔یہ بھی یاد رکھنا تمھار ی زوج بیوی کسی کے جگر کا ٹکڑا ہے اور دوسروں کے جگر کے ٹکڑے کو ارزان نہ سمجھ لینا کہ انسان کی فطرت ہے کہ ساتھی کے حصول میں محنت ، وقت اور پیسہ نہ لگے اس کو ارزاں سمجھ لیتا ہے۔ اس لیے اپنے قول سے عمل سے اسے یہ احساس دلاتے رہنا کہ وہ ایک ایسی قیمتی ہستی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے تم نے ایک امیر ملک میں بہت سی آسائشوں کو ترک کرنے کی قربانی دی ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں یہ قربانی دراصل تمھاری ماں کی ہے ۔ رشتے نبھانے کے لیے تمھاری ماں کا رویہ تمھارے لیے راہ کی روشنی ثابت ہو سکتاہے۔تمھارا باپ اکثر کہا کرتاتھا اچھے الفاط اور میٹھا لہجہ اللہ کی نعمت ہوتی ہے ۔ اپنے مرحوم باپ کے کہے پر عمل کرو گے تو رشتوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہو گئے ۔ محبت بھرے الفاظ مرد اور عورت دونوں کو فرحت دیتے ہیں۔ تم اپنے ساتھی کے لیے فرحت بنوگے تو بدلے میں وہ کچھ پا سکتے ہو جس کو الفاظ کا روپ دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ دنیا میں قریب ترین رشتہ اور دوستیوں میں قابل یقین دوستی مرد اور عورت کے اسی رشتہ میں ہے۔ میں نے اللہ کا فرمان پڑھا ہے اللہ ان لوگوں کی مذمت فرماتا ہے جو بیوی خاوند کے رشتے میں رخنے ڈالتے ہیں۔ تم اس رشتے میں رخنہ ڈالنے سے بچ جانا۔اور اس کا طریقہ نرمی اختیار کرنا ہے۔نرمی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسا مطالبہ نہ کرنا جو پورا کرنا اس کے بس میں نہ ہواور دھمکی دینے سے بھی بچ کے رہنا اور یاد رکھنا عورت کو دہمکی دینا مرد کے وقار کے خلاف ہے۔ البتہ اختلاف کے بعد محبت کی مقدار میں اضافہ دھمکی سے کئی گنا کارگر ہوتا ہے۔زوج کا رشتہ سب دوستیوں اور اکثررشتوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس لیے اپنی زوج کو تمام دوستیوں اور اکثر رشتوں پر ترجیح دینا۔ اپنا راز اس کو دینے میں خوف محسوس نہ کرنا اور اس کے رازوں کا امین بننا۔یاد رکھنا تمھاری زوج تمھارے تحفوں کی حقدار ہے۔ اگروہ تجھے کوئی تحفہ دے تو اس کو قیمتی بتانا اور اس کا اظہار کرنا۔جب اللہ اور اس کے رسول نے اس رشتے کو ایک دوسرے کا لباس کہہ دیا تو اس آزادی سے لطف اندوز ہونا دونوں کا حق ہے مگر اپنی راتوں کو اپنے درمیان محبت اور اعتماد کے بڑہانے کا ذریعہ بنانا۔ اور میٹھی نیند کے بعد صبح کا آغاز ایسے لفظوں اور لہجے سے کرنا جو سارا دن خود تجھے اور تیری زوج کو خوش رکھے۔تم دونوں کا ایک دوسرے کے جسم پر حق ہے اور اتنا اہم ہے کہ شادی کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔تنہائی کے لمحات میں شرارت ازدواجی تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرتا ہے۔ میرے دوست کے بیٹے تم اپنی زوج کے لیے اسانیاں پیدا کرنے والا بننا ۔ عورت کے رستے سے کانٹے چننے والے زوج پر عورت سب کچھ قربان کر سکتی ہے۔ اس لیے اس کی طرف اپنا دست تعاون دراز رکھنا ۔ اس کے رشتے داروں کو بہت عزت دینا۔ اس کی خوشی میں قہقہ لگا کر اس کا ساتھ دینا مگر جب اس کی آنکھوں میں آنسوں ہو تو اپنا کندھا پیش کرنا کہ وہ اس پر سر رکھ کر آنسو بہا سکے۔اور اپنی زوج سے محبت پر شرمندہ نہ ہونا ،اس پر اعتماد کرنا ۔ ہفتے بعد دونو ں بیٹھ کر اپنی غلطیوں کو یاد کرو اس پر ہنسو ایک دوسرے سے معذرت کرو۔ اور زندگی کو رنگین بناو۔ یاد رکھنا رنگوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے سکون لازمی ہے ۔ مرد کو قوی بنایا گیا ہے ، اس کا مطلب ہے وہ برداشت کرنے اور ایثار کرنے میں اپنی اس صفت سے مدد لے۔تمھاری والدہ کا ٹکٹ بھجوا دیا ہے ۔ روانگی کی تاریخ سے بر وقت مطلع کر دیاتمھار پچھلا خط ساتویں دن موصول ہواہے ۔ حالانکہ ہوائی ڈاک کے ٹکٹ لگانے کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ خط تیسرے دن پہنچے گا ۔ یہ بھی اچھا ہے ورنہ ایک وقت تھا پاکستان سے چلا ہوا خط اکیسویں دن پہنچا کرتا تھا۔ اگر ہو سکے تو والدہ کی رونگی کا دن طے ہو جاے تو مجھے فون کر لینا تاکہ میں بر وقت انھیں ہوائی اڈے سے لے سکوں ۔ خط لمبا ہو گیا ہے ۔میں نے ابھی وجاہت صاحب کو بھی خط لکھا ہے ۔ سب ملنے والوں کو سلام کہنا ۔ تیرے لئے اور تیرے خاندان اور رشتے داروں کے لیے دعا گو ہوں اپنی والدہ کی خدمت میں دعاوں کی درخواست کرنا ۔
والسلام
دلپذیر

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 148914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.