8 اکتوبر کا زلزلہ اور ہلال ِاحمر ۔۔۔

ڈاکٹر سعیدالٰہی
(چیئرمین ہلال ِاحمر پاکستان)

8اکتوبر 2008ء کی صبح آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔گرمی کا زور ٹوٹ چکا تھا، موسم میں خنکی آچکی تھی، سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر میں دِن کا آغاز ہو چکا تھا۔ تعلیمی اداروں میں طالب علم موجود تھے۔سول اور عسکری ملازمین میں بھی اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ 8بج کر 55منٹ پر مظفرآباد ، باغ ، بالاکوٹ، مانسہرہ اور اِس گردونواح میں ایک شدید دھماکے کی آواز سنی گئی۔ زمین لرزنے لگی، پہاڑ کانپنے لگے، بڑی بڑی عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ بازار اُجڑ گئے اور زمین پھٹ گئی۔ چند لمحوں میں جب گردوغبار کا طوفان تھما تو قیامت برپا ہو چکی تھی۔7.6شدت کے تباہ کن زلزلے نے تباہی پھیلا دی تھی۔90ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے ۔ 3لاکھ سے زائد اپنے گھروں سے محروم ہو گئے۔سڑکیں، پل اور دیگر اانفراسٹرکچر صفا ہستی سے مٹ گئے۔اِس قیامت ِ صغریٰ میں اَنمٹ نقوش چھوڑ دیئے اور آج تک لوگ اُ س کے اثرات اور نقصانات سے متاثر ہیں اور اُسے یاد کرکے افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

پاکستان حادثات اور سانحات سے آشنا ملک ہے اور اِس کا شمار دنیا کے ٹاپ ٹین حادثات آشنا (Disaster Prone )ممالک میں ہوتا ہے۔ قدرتی آفات کا مقابلہ ممکن نہیں، جاپان، امریکہ اور چین جیسے طاقتور ممالک بھی زلزلوں، طوفان اور سونامی کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں اور چند منٹوں میں بڑے بڑے شہر صفہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔دنیا کے تمام ممالک آفات کی پیش بندی کرکے نقصانات کو کم کرسکتے ہیں۔Disaster Prepardnessایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ہلالِ احمر پاکستان بلا رنگ ونسل، بلا تفریق، بلا امتیاز، انسانیت کی خدمت اور بھلائی کیلئے صفِ اوّل کا کردار ادا کررہا ہے اور کسی بھی قدرتی آفت یا ہنگامی صورتحال میں پیچھے نہیں رہا۔ لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی لانا اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی سے لے کر معاشرے کی بہتری ہلالِ احمر کا طرہ امتیاز رہا ہے۔

ہر سال مختلف قدرتی آفات پاک دھرتی کے باسیوں کو شدید متاثر کرتی ہیں،جس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی حالات پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔پورے ملک میں آج کا دن ناگہانی آفات کے حوالے سے شعور و آگاہی و بیداری کے طور پر منایا جا رہا ہے۔آفات کسی سے پوچھ کر نہیں آتیں نہ ہی دنیا میں کوئی ایسا سسٹم موجود ہے جس کی وجہ سے کسی بھی قدرتی آفت کو روکا جا سکے البتہ آفات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے حکومت اور فلاحی ادارے آفت زدہ علاقوں کے عوام کے ساتھ مل کردار ادا کر سکتے ہیں، معلومات تک رسائی کے فقدان، کم علمی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے نقصانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، اس سلسلے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے علاقوں کے عوام کو آفات سے بچاؤکی تربیت مہیا کریں، اس موضوع پر سیمینارز کا انعقادکریں اور لوگوں کو آفات سے متعلق شعور و آگاہی دی جائے تاکہ کسی بھی ناگہانی آفت کے دوران عوام حکومتی اداروں اور فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر مقابلہ کر سکیں۔اِس ضمن میں ہلال ِاحمر روزِ اول سے بر سر ِ پیکار ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں، یاد رہے کہ جن اضلاع میں امدادی سٹاک موجود ہو تا ہے وہاں کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوری امداد کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

ہلالِ احمر نے ضلعی سطح تک اپنا نیٹ ورک مکمل مضبوط اور فعال بنا لیا ہے۔ ہلالِ احمر پاکستان نے 2005ء کی تباہ کن آفت کے بعد بحالی و آباد کاری میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے صحت عامہ، فنی تربیت، ہنرمندی، تعلیم، شعور و آگاہی کے فروغ سمیت 36منصوبے مکمل کیے۔ ضلع مانسہرہ کے نواحی گاؤں شوہال میں برلب سڑک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اور گڑھی دوپٹہ میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کی پرُشکوہ عمارتیں آج بھی ہلالِ احمر کی خدمت کی گواہ ہیں۔ دور دراز علاقوں میں جذبہ خدمت انسانیت سے سرشار رضاکاروں کی مدد سے سینی ٹیشن سیوریج ، پینے کے پانی کی سہولتیں بہم پہنچائی گئیں۔ہلالِ احمر کے توسط سے 2.7 ملین آبادی مستفید ہوئی ، ہلال ِاحمر کی موبائل ہیلتھ ٹیموں نے زلزلہ کے بعد بالاکوٹ، بشام، اُوگی اور آزاد کشمیر کے دور دراز مقامات میں لاکھوں لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کیں۔ 79 واٹر سکیمیں مکمل کرکے مقامی لوگوں کے حوالے کی گئیں، اِسی طرح مقامی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 5000 سے زائد بیت الخلاء بھی تعمیر کرکے دئیے گئے۔مقامی کاشتکاروں کو مفت بیج اور کھاد بھی فراہمی بھی یقینی بنائی گئی۔

اِسلام آباد کے دِل سیکٹر ایچ ایٹ میں واقع ہلالِ احمر کے نیشنل ہیڈکوارٹرز کی پرُشکوہ عمارت اِس بات کی گواہ ہے کہ یہاں صرف خون کے عطیات ہی جمع اور تقسیم نہیں ہوتے بلکہ ایمرجنسی ایمبولینس سروس، لاسٹ ہیلپ لائن 1030 ملکی تاریخ کا پہلا نیشنل ایمبولینس سروس کالج ، خاندانی روابط کی بحالی کا ملک گیر پروگرام، فرسٹ ایڈ کی تربیت اور سکول سیفٹی پروگرام بھی زوروشور سے جاری ہیں۔ جدید ترین ایمبولینس جڑواں شہروں میں کسی بھی ایمرجنسی کے وقت ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔ مختلف امراض کی تشخیص کیلئے پاکستان بھر میں ریڈکریسنٹ لیبارٹریز و بلڈ ڈونرز سنٹرز قائم ہیں۔ جدید ترین لیب ہلالِ احمر نیشنل ہیڈکوارٹرز میں مکمل فعال ہے۔ اِن لیبارٹریز میں تھیلیسمیا کے مریضوں اور مستحقین کے فری ٹیسٹ ہوتے ہیں جبکہ باقی افراد کیلئے رعایتی نرخوں پر ٹیسٹ کی سہولت میسر ہے۔بلڈ ڈونرز کو رجسٹرڈ کرنے کا عمل سارا سال جاری رہتا ہے تاکہ ہنگامی صورتحال میں خون کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ فرسٹ ایڈ کی تربیت کے پروگرام کے تحت ہر گھر میں ایک فرسٹ ایڈر کا مشن کامیابی سے جاری و ساری ہے، پریس کلبوں میں صحافیوں کو فرسٹ ایڈ کی تربیت کا آغاز ہلالِ احمر کی صحافت دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو آج بھی جاری ہے۔

ہلالِ احمر کے اتحاد تنظیمات المدارس کے ساتھ ’’میثاق ِ انسانیت‘‘ کے تحت علماء کرام نے خطباء حضرات کے ذریعے بیماریوں سے احتیاط، صاف پانی کا استعمال سمیت انسانی خدمت سے مختلف آگاہی دلائی جاتی ہے۔مدارس کے طلباء و فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی ہے اور عطیہ خون کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ اِس میثاق کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں۔یہاں یہ بات بھی تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہلالِ احمر کی سرگرمیاں ملک بھر میں جاری ہیں۔ تھر کی سسکتی زندگی کو بھی دوام بخشنے کیلئے ہلالِ احمر نے متعدد منصوبے مکمل کیے ہیں۔ سولر سسٹم کی تنصیب سے پانی کی فراہمی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ ہمارے پارٹنرز سوسائٹیز کے تعاون سے عوامی فلاح و بہبود کے پروگرام سارا سال جاری رہتے ہیں۔زلزلہ کو گزرے ہوئے آج تیرہ برس ہوچکے ، اِس عرصہ کے دوران ہلالِ احمر نے قدرتی آفات کی پیش بندی اور مقامی لوگوں کو ہنرمند بنانے کیلئے گراں قدر اقدامات کیے۔مالک ِ ارض و سماء کے فضل سے ہلالِ احمر پاکستان کسی بھی آسمانی آفت یا انسانوں کی اپنی وجہ سے رونما ہونے والے حادثات، ہنگامی صورتحال میں آخری متاثرہ شخص تک بحالی و ریلیف کا کام جاری رکھے گا۔ متاثرین کی بنیادی ضروریات کو ہمہ وقت پورا کرے گا۔ زلزلہ ہو یا سیلاب، آتشزدگی کا وقوعہ ہو یا ٹریفک حادثات، ہلالِ احمر پاکستان دُکھ اور غم کی ہر گھڑی میں متاثرین کے ساتھ تھا اور رہے گا۔اﷲ تعالیٰ ہمارے پیارے ملک پاکستان کو حادثات و سانحات سے محفوظ رکھے۔ آمین
 

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 63488 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.