جنت کا مسافر

سفر جتنا بھی کٹهن ہو راہیں چاہے جتنی بھی دشوار ہوں اگر ارادے قوی ہیں تو منزلیں آسان ہو جاتیں ہیں. اور حقیقی سکون تب ہی ملتا ہے جب کوئی مشقتوں کی مسافت کے بعد اپنی منزل کو پا لیتا ہے. ارض للہ پر ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حقیقی مسرتوں کو حاصل کرنے کے لیے جہاد کا آغاز اپنے نفس سے کرتے ہیں. جہاد بالنفس کو دوسری تمام اقسام کے جہاد پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ یہ روزے ہی کی طرح کی ایک عبادت ہے جس کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ کو علم ہوتا ہے جہاد بالنفس کے بارے میں حدیث مبارکہ کا حوالہ ہر کسی کے شک و شبہات سے بچنا ہے.
جہاد بالنفس، جہادِ اَکبر ہے.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تمہیں جہادِ اَصغر (جہاد بالسیف) سے جہادِ اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مبارک ہو!!!
عرض کیا گیا: جہادِ اَکبر کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اَکبر ہے۔ (الزهد الکبير -امام بیہقی،الرقم: 373، جامع العلوم والحکم - امام ابن رجب حنبلى؛196)
امام غزالی کی ’الاحیاء‘ میں بیان کردہ روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ سے واپس آنے والی قوم سے فرمایا:
تمہیں خوش آمدید کہ تم جہادِ اَصغر سے جہادِ اَکبر کی طرف لوٹے ہو!!!
عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ! جہادِ اَکبر کیا ہے؟
فرمایا: نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد!!!
(إحياء علوم الدين: 66:3).
جہاد بالنفس میں ہار جیت کا دار و مدار صرف اپنی ذات سے ہوتا ہے. اس لیے کسی کا ہار جانا ممکن نہیں ہوتا.
★اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو دن رات اپنے نفس سے برسر پیکار ہیں ان بہت سوں میں چوہا سیدن شاہ کے گاؤں وہالی کا ایک مرد قلندر مراتب علی بهی ہے جو یہ جہاد لڑ کر سرخرو ہو گیا.
کلاس روم کے آخری بینچ پر بیٹها نہ جانے وہ کن خیالوں میں گم تھا کہ انہی خیالوں میں گم رہتے ہوئے آدهی سے زیادہ پینسل دانتوں سے چبا ڈالی یہ بے خیالی کا بندهن تب ٹوٹتا جب کوئی لڑکا پاس آ کر کہتا یار زیادہ بھوکے ہو تو کنٹین پر چلے جاو یہ کاغذ پینسلیں کیوں کهاتے رہتے ہو. کبهی ایسی بے خیالی میں چائے کا کپ جو پکڑ لیا تو نہ جانے کب کی چائے ختم ہو گئی لیکن کپ ہاتھوں میں گهومتا رہا ریسس (آدهی چهوٹی) نہ جانے کب کی ختم ہو چکی کینٹین والے نے کپ ہاتھوں سے چهڑاتے ہوئے کہا تفریح کدو دی مک گئی توں اج ویہنا نہی . تب مراتب خیالوں کی دنیا سے واپس پلٹتا اور کلاس روم کی راہ لیتا جہاں ٹیچر سیمت سبهی اس کا ہنسی مذاق سے استقبال کرتے آخر ماسٹر جی کے ایک جملے پر سبهی خاموش ہو جاتے کے مراتب جیسے لوگ ہی کسی مرتبے پر مرتب ہوتے ہیں. چهوٹی کلاس کے لڑکے یہ لفظ بس لفظ کے طور پر ہی سنتے اور کچھ کہے بغیر چپ ہو جاتے. کی کی جوڑ جوڑ لیندے ہن ماسٹر ہوری بس ایک ہی لڑکا یہ کہتا جو تقریباً کچھ فطین سا تها لیکن جوڑ کیا تها اس کا اسے بهی پتہ نہ تها. ہمہ وقت آنکهوں کو ایک ہی جگہ فوکس کیے مراتب کانوں سے کچھ سنتا بهی کے نہیں آزمانے کے لئے ماسڑ جی اچانک طریقہ تدریس کے تحت سوال پوچھ لیتے کیوں مراتب ؟ لیکن مراتب تبهی چونکتا جب ساتھ والا لڑکا کہنی مار کر کہتا تینوں کج کہہ رہیا ماشٹر صاب. پوری کلاس اس کی اس کیفیت سے حیران ہوتی کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو اس سے اس کا بانکپن چھین کر لے گئی. کہیں بار پوچھنے پر کہتا یار اے دنیا وی کی چیج اے ہر کوئی اینوں ہی اپنا مقصد بنائی پهیردا، اتنی ہی بات ابهی کہہ پاتا تو کلاس فیلوز ققہقہ لگاتے ہوئے کہتے او فیر ڈونگیاں وچ ڈوب گئیاں ایں. اور ایک ایک کر کے پاس سے اٹهنا شروع کر دیتے. یہ بهی جاتے ہوئے ساتھیوں کو دیر تک دیکهتا رہتا جو اس پر قہقہے برسا کر جا رہے ہوتے.
امتحانات قریب ہوں تو ہر کوئی پڑهاکو بن جاتا ہے آج کل بهی سبهی پڑهاکو بنے ہوئے تهے ایک دوسرے سے یہ سوال کیسے ہے وہ کیسے ہے کی رٹ لگی ہوئی تھی لیکن آخری ڈیسک والا ماسوائے پینسل دانتوں میں یا ہاتھوں میں گمانے کے کچھ بهی نہیں کر رہا تها. اس کی یہ حرکت دیکھ کر ماشٹر جی کہنے لگے اے مراتبیا ہن پرانیاں گلاں پہل جا بورڈ دے امتحان دوجیاں نالوں جرا اوکهے جے اوندے ہن توں وی خدا دیا بندیا کج کتاب تے نجر مار لے. مراتب ماشٹر جی کی بات سن کر ایک کتاب بیگ سے نکال کر اوراق گردانی میں مصروف ہو جاتا. ماسٹر جی یہ دیکھ کر دل ہی دل میں کہتے چلو پینسل دی جان تے چهٹی.
ویسے ایک بات تھی کہ ٹیچرز کو یہ بات معلوم تهی کے یہ چپ چاپ بیٹھنے والا مراتب امتحان میں کهبی فیل نہیں ہوا بلکہ دوسروں سے ہمیشہ اچهے نمبر ہی نہیں بلکہ پوزیشن لے کے پاس ہوتا ہے اس لیے وہ بهی اس کو اتنا پریشر نہیں ڈالتے تهے بس ذمہ داری نبھاتے ہوئے کہہ دیتے تم بهی محنت کرو . بلکہ کلاس والے کہیں شرارتی لڑکے تو کہتے یار اینوں گلاں شلاں لائی رکهو اے جیڑا چپ چیوتا رہندا آئو اے جوڑاں وچ بہہ جائو.
مراتب کی اپنی ایک دنیا تهی جس میں وہ وہ باتیں سوچتا جو اس عمر کے لوگوں سے کوسوں دور ہوتی ہیں وہ اپنے ارد گرد ہر روز نئی چیزوں کے مشاہدے میں لگا رہتا . وہ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو تو تب بهی ہر نمازی کو اتنی غور سے دیکهتا کہ یہ پہلی بار اس سے ملا ہو. وہ نماز کے لیے بهی آخری صفوں کا انتخاب کرتا درس سنتا اور اتنے ہی دهیرے انداز سے اپنی جگہ سے اٹهتا اور گهر کی رہ لے لیتا . گلی کوچوں میں بچے کیا کرتے ہیں جانے اس کی بلا سے . بس وہ اتنی دقیق نظروں سے زمیں کو دیکهتے ہوئے چلتا جیسے اس کے نیچے سے کچھ نکال لانے کے لیے بیتاب ہے.
امتحانات شروع تهے ہر کوئی پیپر دینے کے بعد اپنی کارکردگی یوں بیان کرتا جیسے فرسٹ ڈویژن اسی کی ہو گئی صرف ایک یہی تها جو لکهائی ختم کرتے ہی پن یا پینسل کا کونہ منہ میں رکھ کر کلپ بورڈ کو بغل میں دابے گهر چلا جاتا نہ کسی کلاس فیلو کو بتاتا کہ پیپر کیسا ہوا ہے نہ ہی کبهی گهر بتانے کی زحمت کی گهر سے کسی نے پوچها بهی تو بتا دیا دے آیا ہوں رزلٹ آنے پر پتہ چلے گا. آخر وہ دن بهی آ گیا جب رزلٹ آنے لگا. ہر کوئی ہلہ گلہ کر رہا تها جن کو اپنی کامیابی کا یقین تها بار بار کہتے یار رزلٹ کب سنائیں گے کچھ کہتے یار پوزیشن ہوئے نہ ہوئے پاس ضرور آں آسی کچھ ایسے بهی تهے جو یہ کہہ رہے تهے یار جلدی کہدی اے آ ہی جائے گا. یہ وہ تهے جنهیں زیرو پرسنٹ بهی پاس ہونے کی امید نہ تهی. کسی نی کہا ان (مراتب) سے بھی پوچھ لو. دوسروں نے کہا یہ فرمائیں گے کہ ابھی نتیجہ آئے جائے گا دیکھ لیں گے. ہاں حقیقت بهی یہی تهی کہ مراتب کا جواب یہی ہوتا . آخر وہ وقت آ ہی گیا جب صدرمعلم رزلٹ لیے وارد ہوئے سب کی نظریں انہی پر تهی ان کا ایک ایک قدم اسی دن گنا جا سکتا ورنہ پہلے تو ان کر یہ انداز کسی نے اس طرح سے نہ دیکها تها. آپ کے آتے ہی ایک ماسٹر جی نے مائیک کا ناب گمها کے آپ کے متوازی کیا صدر معلم نے ہاتھ میں پکڑی فہرست کو درست کرتے ہوئے بسم اللہ سے آغاز کیا اور تمام پوزیشن ہولڈرز کے نام انانونس کیے اور پهر نہ صرف سکول بلکہ بورڈ ٹاپر کا نام انانونس کیا یہ ایسی انانونسمنٹ تهی کہ سب پر چپ لگ گئی وہ ماسٹر جی جو کہا کرتے تهے خدا دیا بندیا کدے تو وی کتاب تک لیا کر ان پر تو جیسے سکتہ طاری ہونے کو تها اس سے پہلے ہر پوزیشن ہولڈر کے نام پر تالیاں بجتی تهی لیکن اب مراتب کے نام پر اتنی خاموشی کیوں .... آخر یہ سکوت تب ٹوٹا جب ایک ٹیچر نے اپنی گرجدار آواز میں کہا کلیپنگ تب یوں کلیپنگ ہوئی کہ پورا ہال ہی گونج اٹها. صدر معلم نے چند تعریفی کلمات کہنے کے بعد سکول خزانچی سے ایک انولپ لے کر مراتب کو تهماتے ہوئے نہایت مشفقانہ نظروں سے دیکھا ہر کوئی مراتب کو دیکهنے کے لیے گردن گمها گمها کے دیکھ رہا تھا لیکن وہ خاموشی سے ایک ہاتھ کی انگلی دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر یوں مسل رہا تھا جیسے پینسل شارپ کر رہا ہو.
کلاس نہم میں داخلہ ہونے لگا تو سب سے زیادہ لڑکوں نے میڈیکل سائنس کا انتخاب کیا جو باقی بچے انہوں نے کمپیوٹر سائنس کا لیکن مراتب کا انتخاب ایک الگ مضمون زراعت تها ماسٹروں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا آپ نے ہی پڑهایا تها کہ جس نے ایک درخت لگایا گویا جنت میں گهر بنایا، ماسٹر مختصر سا جواب سن کر خاموش ہو گئے.
ہمیشہ آخری بینچ پر بیٹهنے والا ہمیشہ ہی رزلٹ میں پہلی پوزیشن لے جاتا سکول سے کالج اور یونیورسٹی تک کا سفر پہلی پوزیشن لیتے ہوئے کیا اور آخر ایک دن فارغ التحصیل ہو کر گهر آ گیا.ان دنوں میں اس کی مصروفیات بس گهر سے مسجد اور مسجد سے گهر تک محدود ہو کر رہ گئی مسجد میں ہوتا تو قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتا گهر ہوتا تو بس پودوں کی آبیاری کرتا نت نئے پودے لگاتا بس دن رات انہی مشاغل میں مصروف رہتا .
مراتب علی مسجد جانے سے پہلے بهی ایسا ہی تھا کہ پتہ چلتا مسجد میں ہی پیدا ہوا ہے بچپن لڑکپن اور بانکپن کی حدود اس نے ایسے طے کی کہ محلے والے صرف اسی دن اس کا نام سنتے جب رزلٹ اوٹ ہوتا وہ بهی ہر گهر میں اس کا ذکر اخبارات کے اشتہار سے چهڑتا اور کچھ تو اخبار پڑھ لینے کے بعد مراتب کے باپ کا نام دو تین بار دهرا کر کہتے اس نام کا آدمی تو ہمارے پنڈ میں بھی ہے پر ایہہ لڑکا کدے ویکهیا تے نہی. جو تعلیم کو سمجهتے وہ گهر بیهٹے ہی اپنے بچوں کو مثال دے کر کہتے ویکهو مراتب وی تے انہاں سکولاں وچ پڑهیا اے اسی کدے نئیں سنیا او ٹیوشن وی جاندا اے پر کدے اونہیں پہلی پوزیشن توں علاوہ کوئی پوزیشن لتی ای نئیں. کہئی دوشیزائیں چلتے پھرتے کوئی جملہ ہی کس دیتی لیکن آگے سننے والا مغلوں کا مراتب جس نے کانوں کو بهی یہ بتا رکها تها کہ صرف حی الفلاح کی صدا سننی ہے کبهی تبادلہ الفاظ نہیں کیا کہئی ایک نے ٹیوشن کی آڑ میں قربت حاصل کرنا چاہئ لیکن مراتب آنکھیں بند کیے ہی اپنے یا ان کے والدین سے معذرت کر لیتا. اگر کوئی زیادہ اصرار کرتا تو بڑے مودبانہ انداز میں مشورہ دیتا دیکهو لڑکیاں کسی لڑکی سے ہی پڑه لیں تو زیادہ بہتر ہو گا. بس اس کی دوستی پن کے کسی ایک ہی کونے سے تهی جو کبھی لبوں پر پهیر لیتا یا دانتوں کے درمیان رکھ لیتا . یونیورسٹی دور میں بھی اس کا یہی وتیرا تها کبهی کسی سٹرائیک(strike) میں شامل نہیں ہوا کبهی کوئی یونین نہیں بنائی کنٹین پر بهی آخری چیر یا کسی ٹوٹی پھوٹی بینچ کا انتخاب کیا خلق خدا کیا کہتی کیا سنتی جانے اس کی بلا سے کبهی شرکت نہیں کی. کچھ شریر قسم کی لڑکیاں کہتی یار یہ آخر بولتا بهی تو ہو گا لیکن یہ پتہ نہیں چوبیس گھنٹوں میں سے کون سی گھڑی ایسی ہو گی جب یہ بولتا ہو گا. ایک کہنے لگی اس کی آواز سننے کا میرے پاس ایک ایڈیا ہے دوسریوں نے پوچها وہ کون سا کہنے لگی جب یہ چائے پینے کینٹین پر جائے تو اس کو فالو کیا جائے آخر یہ وہاں جا کر کچھ تو کہتا ہی ہو گا نا باقی لڑکیوں نے داد تحسین دیتے ہوئے کہا گڈ ایڈیا . لیکن اس ایڈیا پر پانی تب پهیرا جب بریک ٹائم میں مراتب صرف جا کر کاونٹر والے کے پاس ابهی کھڑا ہی ہوا تو اس نے ہاف پلیٹ چاول چنے کی تهما دی جسے مراتب خاموشی سے لے کر اس بینچ پر جا بیٹھا جہاں کسی دوسرے کے بیٹهنے کی جگہ باقی نہ تهی.
لڑکی ان پڑھ بهی ضد پر آ جائے تو مشکل ہوتی ہے یہ تو پڑهی لکهی تهیں اپنے تہی انہوں نے بهی کمر کس لی کہ مراتبے کو زبان لگا کر ہی چهوڑیں گئی. پهر انہوں نے ہر وہ حربہ کیا جو یونیورسٹی کی حد تک ممکن تها لیکن بے زبان مراتب آخر اپنی خاموشی سے انہیں مات دے گیا.
مراتب کو وہ لوگ بآسانی سن لیتے تھے جو اس کی پریزینٹیشن کے دوران موجود ہوں یا پهر مسجد میں اس وقت جب وہ فضائل اعمال پڑه رہا ہوتا وہ اصحابہ اکرام کے حالات زندگی بیان کرتے کرتے آبدیدہ ہو جاتا کافی دیر انگوٹهے اور کلمے والی انگلی سے آنکھوں کے پیوٹے مسلنے کے بعد دوبارہ درس دینا شروع کرتا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا سنت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر عمل پیرا ہونا ایک ایک سنت کو اپنانا بیان کر کے ایک لمبی سانس خارج کرتا پهر سامیعن کے چہرے پر خوب نظریں جما کے دیکھنا ایک گہری سوچ کے بعد کتاب کو بند کر کے شلف میں رکھ کر ساتھیوں کو السلام کر کے رخصت ہو جانا اس کی فطرت ثانیہ بن چکی تهی وہ کیوں نظریں جمائے دیکهتا تها وہ لوگوں کے چہروں میں سے کیا تلاش کرتا کوئی جان نہ پایا وہ اللہ کی زمین پر چلتے ہوئے زمین کے اندر کچھ دیکهنا چاہتا تھا. بس نظریں گاڑنا ہی اس کی فطرت بن چکی تھی.
پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے بعد وہ گھر کے لان میں چہل قدمی کے انداز میں چلتے چلتے رک کر کسی پودے کے پاس اس طرح سے بیٹھ جاتا جیسے کوئی بزرگ راہ چلتے ہوئے کسی بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دے اس کی کیا سوچیں تهیں اس نے کیا کرنا تها کوئی اس کا ہمراز ہوتا تو بتاتا لیکن کیا کہا جائے کہ کوئی اس کا ہمراز نہ تها کبهی کسی نے جهانک کر اس کے اندر نہیں دیکها تها بلکہ اس نے کسی کو جهانکنے ہی نہیں دیا بس ایک پینسل ہی اس کا سب کچھ تهی جو ہر وقت اس کے ہاتهوں میں کسی نہ کسی پہلو سے رہتی تھی.
پبلک سروس کمیشن سے کالنگ لیٹر آیا جس جس کو پتہ چلا دوڑا آیا کسی نے اسے گلے لگایا کسی نے مبارک کے ساتھ ساتھ مٹهائی کا ڈبہ لایا گهر میں ہر طرف قہقے گونج رہے تھے لیکن اس کا ہاسیوں سے عاری چہرہ بس کسی گہری سوچ میں ہی پڑا ہوا تها بس اس کے والد والدہ ہی سب کی آو بهگت کر رہے تھے. والدین کا کہنا تھا کہ بیٹا آج تو تجهے خوش ہونا چاہیے نا لیکن اس کا ایک ہی جواب تها یہ تو کچھ امتحان نہ تها کہ جس کی کامیابی پر اتنی مبارکباد مل رہی ہے اصل امتحان ابهی باقی ہے اگر میں اس میں کامیاب ہو گیا تو ضرور آپ کے ساتھ مل کر خوشی مناوں گا. والدین اس کی اس طبع سے ازلی شناسائی رکهتے تهے اس لیے کچھ کہنے کے بجائے چپ ہی ہو گے.
بطور ایگریکلچر آفیسر پہلی تعیناتی لاہور میں ہوئی پانچ چھ ہفتوں کے بعد ویک اینڈ پر گهر آیا لیکن وہی چال ڈهال کوئی نخرہ نہیں ٹخرہ نہیں بس وہی خود کلامی وہی پینسل بلکہ اب بال پوائنٹ پن آ گیا تھا اور اس کا خول. والد صاحب نے نوکری بابت پوچها تو کہنے لگا ہو سکتا ہے چهوڑ دوں، پوچها وہ کیوں تو کہنے لگا وہاں کچھ میری سوچ سے الگ ہے والد صاحب نے مزید کچھ کریدنا چاہا تو کہنے لگا وہاں وہ چیز بہت ہے جس سے مجهے نفرت ہے والد یوں گردن ہلانے لگے جیسے وہ کہہ رہے ہوں ہاں میں سمجھ گیا ہوں.
والد صاحب نے بچے کی مجبوری دیکھ کر سال بعد دارالحکومت میں پوسٹنگ کرا دی لیکن جب وہاں سے کچھ دنوں کی رخصت پر گهر آیا تو کچھ زیادہ ہی مضطرب دکهائی دے رہا تھا باپ نے چہرہ پڑھتے ہوئے پوچھا اب کیا مہاجرا ہے کہنے لگا آپ جانتے ہیں محکمہ سے غداری کرنا رشوت لینا چاپلوسی کرنا اور کام سے لاپرواہی مجهے پسند نہیں. باپ نے کہا باتیں تو سب اچھی ہیں یہ سب کچھ کرنا بهی نہیں چاہیے کہنے لگا وہاں سب سے پہلا مسئلہ محکمہ سے غداری ہے اس کے اکاؤنٹس سے ہر کسی کی یہی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ نکالا جائے جبکہ میں یہ نہیں چاہتا باپ نے کہا تو تم نہ لو کہنے لگا میں لیتا نہیں لیکن میرے ذریعے سے ایسا کیا جاتا ہے باپ نے ساری تفصیل جاننا چاہی تو کہنے لگا میں ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہوں مجھ سے پچاس ہزار نرسری پلانٹ کا بل سائن کروایا جاتا ہے جبکہ پلانٹس جو منگوائے جاتے ہیں وہ بیس ہزار یا پچیس ہزار کے ہوتے ہیں. میں نے جس سے بهی بات کی ہے وہ کہتا ہے آپ کا کام سائن کرنا ہے وہ کر دیا کریں چیک شیک کرنا آڈٹ والوں کا کام ہے. بلکہ کچھ تو یوں بهی کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ جناب اب ہم نے چپراسی سے تو نہیں کچھ لینا نا جس طرح سے سے پانی اوپر سے نیچے جاتا ہے نا اسی طرح سے اس کو نیچے سے اوپر بهی آنا ہوتا ہے. جبکہ میں پانی کی اس روانی کے حق میں نہیں ہوں. محکمہ اچهی تنخواہ دے رہا ہے مجهے ہی دیکھ لیں نیا ہوں ابهی دو سال میں ہی اتنی اچهی خاصی تنخواہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے مل رہی ہے گاڑی ہے ڈرائیور ہے گهر ہے سرکاری طور پر اپنے سکیل کے مطابق ہر فیسلیٹیز (facilities) میسر ہے پهر یہ کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم کیوں نہیں اپنے حصے کے لکهے پر شاکر ہم کیوں دس ہزار کو سوٹ لے کر دس روپے کا حرام بٹن اپنے سینے پر ٹانک لیتے ہیں.
باپ آخر باپ ہی ہوتا ہے وہ ہر مجبوری سمجھ رہے تھے وہ دینداری کے ساتھ دنیا داری بهی نبها چکے تھے آج ان کے سامنے ان کا اپنا لہو ہی تو بول رہا تھا . انہیں بیٹے کی نیک نیتی پر خوشی محسوس ہو رہی تھی لیکن کمی یہ تهی کہ بیٹا حالات کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتا تھا. یہ دینداری سارا انہی کا ہی دیا ہوا درس تها انہوں نے اس ننهے سے مراتب کی تربیت ہی کچھ ایسی کی تهی کے وہ دنیا کی لذتوں کو بے معنی سمجهتا تها اس کو وہ باتیں اسی طرح یاد تهی جب والد صاحب کہتے تھے دیکهو جس طرح نیکی کرنے والا نیکی کی اصلاح کرنے والا نیکی کے کام میں مدد کرنے والا نیکی کی طرف بلانے والا سارے ہی نیکو کار ہیں اسی طرح برائی کا ساتھ دینے والا اور اس میں شامل تمام لوگ جہنمی ہوتے ہیں. آج مراتب اپنے والد کو وہی پڑها ہوا سبق دہرا رہا تھا. لیکن آج والد انیس سکیل آفیسر کو ایک نیا سبق دے رہے تھے کہ دیکهو بیٹا ایک کمرے میں بند ہو کر ہر آدمی ولی بن سکتا ہے لیکن مزا اس ولائیت کا ہے کہ دنیا کے بیچ رہ کر تم خود کو صحیح ڈگر پر گامزن رکهو آپ گندے نالے سے دور رہ کر اپنے کپڑوں کو تو محفوظ رکھ سکتے ہو لیکن بیٹا اصلی پاکیزگی یہ ہے کہ تم برلب نالا چلو لیکن خود کو نالے کی ہر گندگی سے بچائے رکهو. یہ کہہ کر والد صاحب نے اپنے ہاتهوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں جکڑ کر مسلتے ہوئے نیچی گردن کیے ہی نگاہیں بیٹے پر گاڑهی اور اپنے نے درس کا اثر دیکهنے لگے. مراتب جو کافی دیر سے گردن جھکائے درس سن رہا تها کسی سوچ کے تحت اچها ابا جی کہتے ہوئے سیدها ہو بیٹھا. اس بار وہ ہفتہ بهر کی چهٹی پر تها مسجد میں اسی طرح سے بعد نماز عصر اور عشاء کے درس دیتا اب وہ لوگ بھی دل جمی سے بیهٹتے تهے جو کبھی اپنی جلدی کا عذر پیش کر کے چلے جایا کرتے تھے. بعد درس و تدریس کے کہیں لوگ اس سے ایک منٹ اکیلے میں ملنے کا کہتے کہئی بس تجس سے دیکهتے کہ کتنا خوبصورت کلین شیو جوان کتنا بڑا آفسر کیا کیا مرعات لیکن عاجزی یہ کہ اپنے ذاتی کاموں کے لیے کبهی سرکاری ملازمین کو استعمال نہیں کرتا اپنے کام سے اگر بازار جاتا تو وہی پرانی سہراب سائیکل لے کر جاتا سرکاری بنگلے کے ملازمین میں سے کوئی گاؤں والے گهر میں آ جاتا تو اس کی مہمان نوازی خود کرتا وہ واپس جاتا تو الوداع کرنے کے لیے اسی طرح گاڑی تک ساتھ جاتا جیسے وہ اپنے سے بڑے آدمی کے ساتھ جاتا. والد صاحب کو مذید سننے کے لیے یا ان کا انداز گفتگو اپنانے کے لیے کوئی نہ کوئی بات چهیڑ دیتا جس پر وہ تسلی بخش جواب دیتے اور یہ بڑی معصومیت سے ان کے لفظوں کی ادائیگی پر ہلتے ہونٹ آنکھوں کا فوکس کرنا ہاتھوں کو مناسب حد تک ایک دوسرے سے ملا کر الگ کرنا دیکهتا رہتا اور پهر وہ لفظ اسی طرح سے دہرانے کی کوشش کرتا .
اب کی بار ہفتہ بھر جو رہ کر گیا تو والدین کے لئے بهی کافی یادیں باتیں اور کہی ایسے پہلو چهوڑ گیا جن پر عمل پیرا ہونا ابهی باقی تها . پہلا کام اب والدین کو بہو کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنے روایتی انداز میں ہی قریب کی رشتہ داری نبھانے کے لیے ایک لڑکی کا ہاتھ مانگ لیا اور یہ بھی طے کر لیا کہ اب چاہے ویک اینڈ پر ہی آئے شادی کرا کر ہی دم لینا ہے. ہوا بهی ایسا ہی بال پن جو ہاتھوں میں گماتا گهر آیا تو شادی کی خوش خبری سنا ڈالی یہ خبر سنتے ہی ایسا شرما گیا جیسے دلہن کے چہرے سے اچنبھے میں گوگهنٹ اٹها لیا اور تو اور اس دن یوں اسے لاج لگی کہ مغرب اور عشاء گهر میں ہی ادا کر لی. تین چار دنوں میں ہی شادی وغیرہ کیا بلکہ مکلاوا بهی ہو چکا تها. بیوی اگر سہاگ رات کا یاد نہ کراتی تو یہ پودوں کی ریسرچ میں ہی لگا رہتا . بهلا ہو بچاری کا جس نے آغاز کلام کرتے ہوئے پوچھ لیا مینوں پہلے کدی تسی ویکهیا سی. جواب میں کہا نہی آسی تے نہی ویکهیا کی تسی سانوں ....... ہاں دو ہفتے پہلے ہی بس تہانوں میستے جاندیں ویکهیا سی پر اے نہی سی پتہ ....... یہ کہہ کر خالی جگہ چهوڑتے ہوئے نئی نویلی دلہن چپ ہو گئی جسے مراتب نے جلدی سے پر کر دیا ...کہ اے مولوی پکا ہی گل پہ جاسی..! یہ خالی جگہ پُر ہوتے ہی دونوں کے منہ سے قہقہہ نکل گیا جو زندگی کے باقی خلا پر کر گیا.........!
مراتب کے کولیکس کو شادی کا پتہ تب چلا جب مراتب نے ٹی بریک پر سب کو مٹھائی بهیجوائی مٹھائی کهانے کے ساتھ ساتھ چہ میگوئیاں بهی شروع تهی یار یہ کیا اتنا بڑا افیسر اور شادی اتنی سادگی سے اور اتنی خاموشی سے. یہ راز بعد میں ڈرائیور کی وجہ سے سب پر عیاں ہوا کہ صاحب جب چهٹی گئے تھے تب ان کو بهی پتہ نہیں تها کے شادی ہونی ہے.
اگست کے اوئل میں شادی ہوئی تهی ویک اینڈ کا سلسلہ جاری ہی رہا مراتب کے دن رات اسی طرح کے رہے نمازیں درس و تدریس لان میں لگے پودوں کی دیکھ بھال اور یوں اتوار کی صبح کوچ کر جانا ایک ایسا ہی کوئی ویک انیڈ تها جس میں گهر والی نے کچھ شرماتے شرماتے بتایا، جسے سن کر مراتب بهی شرما گیا اور یوں کمرے سے رفو چکر ہوا جیسے کوئی بڑی چوری پکڑی گئی ہو.
وقت پر لگائے گزرتا رہا مراتب کو ریسرچ کے لیے ایک نئی نرسری لینڈ بنانی تهی اس پراجیکٹ کے سارے کام مکمل ہو چکے تھے بس نئے پلانٹس کی پنیری درکار تھی جسے لاہور سے لانا تها لیکن بات پهر وہی تهی کے پلانٹ ایک لاکھ کے بجائے بیس ہزار آتے تھے اس لیے اس بار اس نے خود ہی یہ ذمہ داری نبهانے کی ٹهانی مدد کے لیے ایک آفیسر اور چند ایک سٹاف کا چناو کیا احکام بالا کو اپنے اس ارادے سے اگاہ کیا سب کو دوسرے دن کا ٹائم دے کر خود نماز ظہر کے لیے مسجد چلا گیا. آفس سے چھوٹی ہو چکی تهی گهر گیا جہاں ملازمین کے ہاتھ کا بنا لنچ کیا اور کچھ دیر سستانے کی غرض سے لیٹ گیا. سستانا کیا تها بس آنکھیں بند کیے اپنی ہی زندگی کا احتساب شروع کر دیا بچپن سے لے کر اب تک کی تمام فلم آنکهوں کے سامنے چلنی شروع ہو گئی سکول کا زمانہ کالج یونیور سٹی کے تمام واقعات ہم ساتھیوں کی باتیں لڑکیوں کے طنزیہ مکالمے ابا جی کا اندازِ بیاں محلے کے مسجد وہ نمازی جو تنہائی میں ملنا چاہتے نئے, سرکاری محکمے کی نوکری نوکری کو یاد کر کے چہرے پر کچھ طمانیت سی محسوس ہوئی کہ ابا جی کا دیا ہوا درس خوب کام دے رہا ہے تالاب میں رہ کر ہی تالاب کے مگرمچھوں سے بیر رکها اپنے دو تین سالہ کیریئر پر سوچتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کوئی رشوت دینے لینے یا کسی ناجائز طریقے سے کمائے ہوئے پائی تیلے کا شک و شبہ تک نہ پا کر خیالوں ہی خیالوں میں خوش ہوا اور سوچنے لگا اگلے ہفتے گهر جو جاوں گا تو ابا جی سے مل کر اس بات کی خوشی مناوں گا کہ واقعی آج میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہوں اب مبارک دی جائے اور خوشی منائی جائے. پھولوں کی کیاری ، کیاری کے یاد آتے ہی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی شرماتے ہوئے کروٹ لی اور پهر اپنے آنے والی کلی کی سوچیں آنا شروع ہو گئی خیالوں ہی خیالوں میں اس کے نین نقش کبهی خود سے کبهی اس کی ماں سے ملانے لگا اس کے لیے کهلونے کپڑے پمپرز ترتیب دینے لگا پهر آنکھیں بند کیے ہی اس کے نیک صالحہ ہونے اور اچھی تقدیر کے لیے دعا کی، نہ جانے کون سے الفاظ تهے جن کی ادائیگی کے ساتھ ہی آنکھوں کے گوشے بهیگ گئے انگوٹھوں کی پشت سے آنکھیں ملتا ہوا اچانک یوں اٹھ بیٹھا جیسے اپنے خیالوں سے خود ہی ڈر گیا ہو. ایک نگاہ اپنے آگے پیچھے کمرے میں ڈالی پهر واش روم چلا گیا ٹروزر اور ٹی شرٹ پہن کر اس طرف چلا گیا جہاں نرسری لینڈ بنائی تھی . اب اس کی سوچیں آنے والے کل کے نرسری پلانٹس کے لیے فکر مند تهی اور ہاتھ میں گهومتی بال پن کے ساتھ چہل قدمی جاری تهی نرسری کے ایک کونے پر بنے حوض کے کنارے پہنچ کر ایک پتهر پر بیٹھ کر پانی کے اندر نظریں گاڑهنی شروع کر دی پهر اسی بےخیالی میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں پانی میں پھینکنی شروع کر دی کنکریاں پھینکنے سے جو بهنور بنتا اسے غور سے دیکھ رہا تها کہ اتنے میں پاس سے گزرنے والے نے پوچھا آج کیا سرچ ہو رہی ہے کہنے لگا یار بس سوچ رہا ہوں زندگانی بهی بهنور میں گهومنے والا بلبلہ ہے جو ایک ہی چکر میں ختم ہو جاتا ہے . پتہ نہیں ہم جو بلبلے ہیں کس بهنور میں آ کر ختم ہو جائیں گے. پوچهنے والا دهیرے سے ہنسا اور یہ کہتے ہوئے گذر گیا "سر جی تسی ہر ویلے ڈونگیاں اچ پے رہیندے او".
دوسرے دن اپنے بتائے ہوئے ٹائم سے دس منٹ پہلے گاڑی میں بیٹھ کر باقی کولیکس کا انتظار کیا سب آ گئے تو لاہور کی جانب چلنا شروع کر دیا. لاہور شاہدراہ کے نرسری فارم میں پہنچ کر پہلے ناشتہ پانی کیا بعد میں لسٹ کے مطابق پودے لینے شروع کر دیے کم و پیش دو مزدا ٹرکس کا لوڈ بن گیا پهر اپنی گاڑی سے ہی شاہدراہ منڈی میں جا کر دو ٹرکس پنڈی کے لیے بک کیے کرایہ اوپر نیچے کرنے کی کوشش میں تقریباً آدها گھنٹہ لگ ہی گیا حالانکہ ساتھ آیا ہوا آفیسر کہتا بهی رہا سر محکمے کا مال ہے جانے دیں لیکن وہ محکمہ کے لیے بهی کم رینٹ پر ٹرک بک کرنے کی کوشش میں مصروف رہا. پودے لوڈ کروائے اور ساتھ آئے چار جوئنیرز کو دو دو کر کے دونوں ٹرکوں کی نگرانی پر مامور کیا اور خود دوسرے ساتهی کے ساتھ پنڈی کے لیے روانہ ہو گئے. رستے میں دونوں دوست یہ سوچنے پر مجبور رہے کہ سابقہ بلز کی مدد سے بنائی جانے والی لسٹ کہ باوجود یہ سامان بہت سستا ملا تها. رستے میں نماز کے لیے رکے تو بعد نماز والد صاحب سے رابط کیا گهر کے تمام حالات جاننے کے بعد کہنے لگا میں لاہور سے آ رہا ہوں کوشش کروں گا کہ آپ سے مل کر جاؤں. والدہ اور گهر والی کا پوچهنے پر بس بند ہونٹوں سے ہی ہوں ہاں کرتا رہا . بعد میں گهر والی سے بات کرتے ہوئے کہنے لگا آپ کهانا تیار کریں انشاء اللہ آپ سے مل کر ہی کہیں جائیں گے.
ساتهی آفسیر سے سلسلہ کلام جاری تها کچھ محکمانہ باتیں کچھ بس وقت پاس کے لیے تهیں ساتھ بیٹا آفسیر بهی ہم عمر تها اس لیے کوئی خاص تکلف نہیں برتا جا رہا تھا. وہ چونکہ کنوارا تها اس لیے اس کی سوئی گهوم پهر کر میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کا محاصرہ ضرور کرتی تھی آخر نہ رہنے ہوا تو پوچهنے لگا سر جب آپ کی شادی ہوئی تو کیا آپ ایک دوسرے سے شرمائے تهے مراتب کن آنکهوں سے تکتے ہوئے مسکرا کر بولا یار ہر وقت شرمایا بهی نہیں جاتا بس کوئی کوئی بات ہوتی ہے جس پر شرم آ ہی جاتی ہے پهر نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی شرمانے والی بات بتائی جس کے آخر پر دونوں کا ایک قہقہہ نکل گیا. قہقے کے بعد فوراً ہی سنجیدہ ہو گیا اور کہنے لگا یار ہم شاہدراہ سے ہی لوٹ آئے جب کے آتے ہوئے میرے ذہن میں تھا کہ آنے والی بچی کے لیے اور اس کی ماں کے لیے کچھ شاپنگ ہی کر لوں گا لیکن مصرو ف ایسے ہوئے کہ کچھ یاد ہی نہ رہا .
موٹر وے پر گاڑی کی سپیڈ ایک سو ستر اسی کے درمیاں تهی کالی ڈبل ڈور ہواؤں کو کاٹتی درختوں مکانوں کو پیچھے چهوڑتی جا رہی تھی کہ ایک جنکشن پر مسجد دکهائی دی کلین شیو مولوی کے دل نے کروٹ لی تو گاڑی ایک سائیڈ پر کهڑی کرتے ہوئے دوست سے کہا آو اک سجدہ ہی کر لیں عالم مدہوشی میں کہ................ ! دوست نے مسکراتے ہوا کہا او کہڑے ویلے دا ؟ جواب دیا جدوں وی یاد آ جائے اس وچ ویلے دا کی ویکهنا. دوست گاڑی میں ہی رہا مراتب جو پہلے سے وضو میں تها چپل اتاری اور مسجد کے برآمدے میں ہی نفل پڑهنے لگا نیت تو دو رکعت ہی کے تهی لیکن کم و بیش دس منٹ دو رکعت میں لگ گئے الحتیات پڑهتے پڑهتے آنسوؤں کی کچھ روانی سی آنکهوں میں آگئی تو گردن تهوڑی اور جهکا لی وہ آنسوؤں جو رخساروں سے ہو کر دامن میں گر رہے تھے اب وہ بنا کسی روک تهام کے تسلسل سے دامن میں گرنے لگے نہ جانے کتنی دیر اور یہ سلسلہ جاری رہتا کہ سلام پهیرنے کا الفاظ زبان سے ادا ہوئے اور ساتھ ہی گردن دائیں بائیں گما لی. چٹے کڑتے کے دامن سے وہ آنسوؤں بهی صاف کیے جو پلکوں پہ اٹکے ہوئے تھے گاڑی کی طرف چلا تو جسم میں وہ پہلے سی چستی نہ تهی اب بجائے وہ ڈرائیونگ سائیڈ کے جانے کے دوسری طرف آیا اور دوست سے کہا تم گاڑی چلاو میں ادهر بیٹهوں گا دوست نے فوراً ہی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی موٹر وے پر فراٹے بهرنے لگی. مراتب کے ہاتھ میں اب پن آ جکا تها جو کچھ دیر پہلے کڑتے کی سامنے والی جیب کے ساتھ لگا تها مراتب آنکھیں بند کیے کبهی تو پن کو ہاتھوں میں آور کبھی لبوں پر پهیرنے لگ جاتا آنکھیں نیم وا کرتے ہوئے سپیڈو میٹر پر نگاہ ڈالی تو دوست سے سپیڈ کم کرنے کا اشارہ کیا جسے اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا اگر موٹر وے پر بهی اتنی سپیڈ نہیں تو پھر کہاں. سالم انٹر چینج کراس کیا ہی تها کہ پٹاخ سے ٹائر پهٹا اور گاڑی بے قابو ہو گئی پن اب بھی لبوں پر تها لیکن ساکت تها مراتب نے دوست کو گاڑی کے روکنے کی کشمکش میں دیکھ کر کچھ نہیں کہا لیکن اس اثنا میں گاڑی ایک بڑے ٹریلے کے ساتھ لگ چکی تھی مراتب چونکہ اسی طرف تها اس لیے پہلے وہی زد میں آیا نہ جانے کیا چیز تهی جو سیدھی سینے میں لگی اور مراتب پن وہی رکهے آنکھیں موند چکا تها. گاڑی الٹ چکی تھی ساتهی آفیسر جو گاڑی چلا رہا تھا اس کو بہت زیادہ چوٹیں آئی ایک بازو اور ٹانگ بهی ٹوٹ چکی تھی جیسے موٹر وے پولیس نے فوراً سی ایم ایچ پہنچا دیا لیکن مراتب کو ظاہری ایک ہی چوٹ لگی تهی جس کی وجہ سے خون منہ سے نکل رہا تها اور روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تهی. تسلی کے لیے پهر بهی ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے بس موت کی تصدیق ہو گئی .
جیب میں پڑا فون بج رہا تها ابو کی کال مسلسل آ رہی تھی لیکن مراتب اٹها نہیں رہا تھا . آخر ایمبو لینس سروس کے سٹاف نے ہی کال پک کی سوال ہوا بیٹا کہاں ہو، کالر کے جواب میں بتایا گیا جی ہم لا رہے ہیں. لا رہے ہیں کا جواب پا کر شش و پنج میں پڑ گے یا اللہ خیر منہ سے نکلا اور کوئی بات دهرائے بغیر ہی فون بند کر دیا. کہنیاں گھٹنوں پر اور پیشانی ہاتهوں پر رکهے کچھ سوچ ہی رہے تهے کہ بہو نے آ کر پوچها ابو کس کی کال تهی اور وہ کیوں نہیں ابهی پہنچے .....پہنچنے ہی والا ہے بیٹا! بیٹا کہتے ہی ضبط کا بندهن ٹوٹ گیا اور آنسو رواں ہو گے لیکن بہو ساس کے پاس جاتے ہوئے یہ منظر نہ دیکھ پائی.
وہالی گاؤں کی گلیاں ایمبولینس کے سائرن سے گونج اٹھی تھی گلی والی مسجد سے نکلتے نمازیوں سے ایمبولینس والے نے گهر کا پتہ پوچها پهر کیا تها گاوں کے لوگ جو ایمبولینس کی نیلی نیلی بتویوں کو دیکھ رہے تھے بهاگ کر مراتب کے گهر کے پاس پہنچے مراتب کے ابا جو پہلے سے ہی ہر آہٹ پر چوکنے ہو رہے تھے بهاگ کر باہر نکلے ان کے سامنے ایمبولینس کهڑی ہو چکی تهی شٹاف میت کا منہ دکها کر باڈی ریسویڈ بائی کے سائن لینا چاہتا تھا لیکن وہ والد جو ساری زندگی صبر شکر کا درس دیتے رہے اب ان کا اپنا صبر سے یارا نہ رہا تها محلے کے بزرگ خود روتے ہوئے انہیں صبر صبر کی تلقین کر رہے تھے ایمبولینس کا سٹاف ایک ہاتھ میں ایشو ریسو کی بک پکڑے دو سرے ہاتھ سے پن ہونٹوں کے درمیان رکهے سوچ رہا تها سائن کس سے لوں اتنی دیر میں ایک بزرگ آگے بڑهے میں مراتب کا سسر ہوں کہتے ہوئے اسے ریسویڈ باے کے سائن کر دیے جنهیں دیکھ کر سٹاف نے شکریہ کہا اور چل دیا.
تکفین و تجیز کے بعد تعزیت کے لئے آنے والے لوگوں کا تانتا بندھ گیا تھا ہر کوئی ایک خوبی بیان کرنے کے بعد تعزیت کرتا. کتنے لوگ تهے لیکن ہر کوئی اپنے الفاظ سے تعریف کرتا اور اس کے والد سے کہتا تسی خوش قسمت او حاجی صاب تہاڈا پتر تے بہشتی اے شہید اے آخر کرسی پر ایک بوڑهے سے ماسٹر جی بیٹهے ہوئے تھے کہنے لگے دراصل او تے شروع توں بہشت دیاں راہواں دا مسافر سی آخر اللہ اونوں اوتهے ای کہل دتا. یہ وہی ماسٹر جی تهے جو کہا کرتے تھے مراتب جیسے لوگ ہی کسی مرتبے پر مرتب ہوتے ہیں.
★آج دو ماہ بعد ایک ننهی سی کونپل کو نہلا دہلا کر ماں کے پاس رکهتے ہوئے نرس خوشی سے پوچھ رہی تھی کہ اس کے ابو کہاں ہیں جس کا جواب دینے کے لیے سبهی ہونٹ کپکپا رہے تھے لیکن آواز کسی بھی لب سے نہیں آ رہی تھی آخر پهر سسر جی ہی ہمت کر کے جواب دینے میں کامیاب ہو گئے پتر او جنتاں نوں ٹر گیا...
★ اس دنیا میں کتنے لوگ آئے اور آ کر چلے گئے لیکن بہت کم ایسے ہیں جنهوں نے یہ سوچا ہو کہ ہم نے کل کسی کے سامنے جوابدہ ہونا ہے . اگر کس کے دل میں یہ بات آ جائے تو اسے اللہ کا ولی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ اللہ والے ہی اتنی سوچیں رکهتے ہیں پهر بهرپور شباب ہو اور زبان پر کلمہ استغفار ہو ........ شاید ایسے ہی لوگو کے لیے کسی شاعر نے لکها تها " در جوانی توبہ کردن شیوہ ہے پیغمبری" مراتب واقع کسی مرتبے پر مرتب ہو گیا اور اس کی یادیں نہ صرف ڈیپارٹمنٹ تک محدود رہی بلکہ مسجد میں پڑے شیلفوں سے بهی وابستہ ہیں جو کہ قیامت تک کا اعزاز ہیں.

Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 55962 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.