میڈیا کی گہار : پھر ایک بار ، مودی سرکار

مودی حکومت عوامی فلاح وبہبود کے سارے ہی محاذ پر ناکام ہوچکی ہے اس کے باوجود ذرائع ابلاغ اس کی لیپا پوتی کرنے میں کیوں مصروف رہتا ہے ؟ اس کی وجہ مودی سرکار کا یہ اعلان ہے کہ جو کچھ کانگریس والے ۷۰ سالوں میں نہیں کرسکے وہ ہم نے ۴ سالوں میں کر دکھایا۔یہ دعویٰ ہر معاملے میں تو درست نہیں ہے مگر تشہیر کی بابت صد فیصد درست ہے۔ حکومت کے پاس عام لوگوں کے تعلیم و صحت پر خرچ کرنے کے لیے سرمایہ نہیں ہے۔ ان دیش بھکتوں نے فوج کے بجٹ میں بھی کٹوتی کردی ہے لیکن ذرائع ابلاغ کے معاملے میں یہ سرکار بڑی فراخ دل واقع ہوئی ہے۔ اس نے ۲۰۱۴؁ سے اب تک تقریباً ۵۰۰۰ ہزار کروڈ (سفید دھن) ذرائع ابلاغ کی نذر کردیئے۔ اس کے علاوہ کالے لفافوں میں جو لین دین ہواہے وہ ابھی صیغۂ راز میں ہے۔ اس میں سوشیل میڈیا کے اندر کام کرنے والے لاکھوں نام نہاد رضاکاروں پر خرچ ہونے والے کالے دھن کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بھکتوں کو ٹوئیٹر اور واٹس ایپ پر گالیاں اور دھمکی دینے کے لیے دی جانے والی رقم کا حساب رکھنے میں بی جے پی کو ابھی تک شرم محسوس ہوتی ہے۔ ویسے شاہ جی کو ان بھکتوں کی بدکاریوں کا فخر سےاعتراف کرنے میں عار نہیں محسوس ہوتی۔

د ی وائر نامی پورٹل نے حق معلومات ( RTI )کے تحت عوامی اطلاعات و مواصلاتی بیورو (BOC)سے استفسار کیا تو پتہ چلا مرکزی حکومت نے تشہیر کی مد میں ۲۰۱۴؁ سے لیکر اب تک تقریباً ۵ ہزار کروڈ پھونک دیئے۔ان میں سے ۲۱ ہزار کروڈ روپئے اخبارات و رسائل میں اشتہارات پر خرچ ہوئے ہیں۲۲ ہزار کروڈ سمع و بصر(برقی ذرائع ابلاغ ) میں جھونکے گئے ۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر بڑے اشتہارات میں مودی جی کی بتیسی دکھانے پر ۶۵۰ کروڈ روپئےخرچ کیے گئے ۔ ان اخراجات میں پہلے تین سال کے اندر بتدریج اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن چوتھے سال میں قدرے کمی واقع ہوئی اور آخری سال میں مزید کمی کا امکان نظر آرہا ہے۔

اس تبدیلی کی دو میں سے ایک یا دونوں وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ اول تو یہ کہ حکومت اب ڈر گئی ہے اور دوسرے اس نے سفید کے بجائے کالے دھن پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ فی زمانہ اگر کوئی اخبار کے بجائے صحافیوں کو دکشنا دینے پر خرچ کرے تب بھی اس کا کام بن جاتا ہے۔ اس خرچ کا اگر منموہن سنگھ کے دس سالہ اقتدار سے موازنہ کیا جائے تو ظاہر ہے کہ مودی جی نے اپنے ساڑھے چار سال میں منموہن سنگھ کے دس سالوں پر سبقت حاصل کرلی ۔ منموہن نے تو دس سالوں میں صرف ۵۴۴۰ کروڈ خرچ کیے تھے۔ اس بلاواسطہ رشوت کا نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا کو مہنگا ایندھن نہیں بلکہ سستا انٹر نیٹ نظر آتا ہے۔ اسی دکشنا کی گل افشانی ہے کہ میڈیا کے اندر بین السطور یہ نعرہ گونجتا رہتا’’پھر ایک بار مودی سرکار‘‘۔ اے بی پی کے سروے میں مودی جی کی مقبولیت کی کمی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ بی جے پی کے ووٹ کا تناسب بھی کم بتایا جاتا ہےلیکن اس کی سیٹیں کم نہیں ہوتی۔ ایسا چمتکار تو ٹھن ٹھن گوپال سے ہی سمبھو(ممکن) ہے۔

میدانِ سیاست میں دو طرح کے رہنما پائے جاتے ہیں ایک تو من لگا کر عوام کے مسائل حل کرنے والے اور دوسرےمن کی بات سے لوگوں کا دل بہلانے والے ۔ ان میں سے مودی جی کس قماش کے ہیں اور منموہن کس قبیل کے اس کا علم ہر کس و ناکس کو ہے۔ مودی سرکار ویسے تو ذرائع ابلاغ پر بہت مہربان ہے لیکن یہ جودو کرم سب کے لیے عام نہیں ہے ۔ یہی سرکار این ڈی ٹی وی پر چھاپہ بھی مارتی ہے۔ اسی کے ذریعہ اے بی پی کے پرسون واجپائی اور ملندکھنڈیکر جیسے لوگوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ رویش کمار جیسے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کیونکہ وہ مودی سرکار کے ٹکڑوں پر پلنے والے زرخرید صحافیوں کی طرح سچائی سے توجہ ہٹا نے کا کام نہیں کرتے۔ وہ مودی سرکار کے آگے دم نہیں ہلاتے۔ جو باضمیر لوگ کوئنٹ کے راگھو بہل کی طرح نقاب کشائی کرتے ہیں ان کے ساتھ مختلف قسم کا سلوک کیا جاتا ہے۔

دی کوئنٹ نامی ویب سائٹ کا شمار ملک کے چند گنے چنے معتبر ذرائع ابلاغ میں ہوتا ہے۔ اس کو بے لاگ و بیباک تبصروں اور معروضی پیشکش کے سبب اپنے ہمعصروں پر سبقت حاصل ہے ۔ وہ دنیا کے بہت بڑے چینل بلوم برگ کے ساتھ شراکت داری میں اپنا چینل شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کے اندر اسے ہری جھنڈی دکھانے کی ہمت نہیں ہے؟گزشتہ دنوں دی کوئنٹ کے مالک راگھو بہل کے گھر اور دفتر پرانکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ مبینہ ٹیکس چوری کا بہانہ بناکر چھاپہ ماراگیا ۔ راگھو بہل ’ نیٹ ورک ۱۸ ‘ گروپ کے بانی اور جانے مانے میڈیا کاروباری ہیں۔ دی کوئنٹ کے ساتھ یہ سلوک سیاسی محاذ پر ناکام ہونے والی مودی سرکار کی جھنجھلاہٹ کا اظہار ہے؟بی جے پی کے سابق رہنما یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ ، ’’موجودہ حالات ایسے ہیں کہ کوئی بھی شہری حکومت کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے غدار ملک قرار دے دیا جائے گا، یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے‘‘۔فی زمانہ بجا طور پر ساری دنیا میں سعودی عرب کے صحافی جمال خشوگی کے قتل پر ہنگامہ برپا ہے لیکن افسوس کہ ہندوستان کے اندر صحافت کی رگوں میں سرائیت کرنے والے میٹھے زہر کی بات کوئی نہیں کرتا ۔ موت تو موت ہے چاہے اس کے لیے گولی کا استعمال کیا جائے یا زہر دے دیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221191 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.