سرسبز اور صاف پاکستان!

 سبزہ کس کو نہیں بھاتا، صفائی کس کو اچھی نہیں لگتی؟جہاں اِن دونوں میں سے ایک چیز بھی ہو دل خوش ہو جاتا ہے، اور جہاں یہ دونوں یکجا ہو جائیں تو منظر دل میں گھر کر جاتا ہے۔ مسئلہ مگر اتنا سا ہے کہ ایسا ماحول پیدا کرنے کے لئے منصوبہ بندی، محنت اور ایک سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کسی نے اپنے گھر، دفتر، فیکٹری وغیرہ میں یہ دونوں چیزیں مہیا کردیں، وہاں کا ماحول دوسروں سے زیادہ پر کشش اور دلکش ہو جاتا ہے، راہ چلتے ہوئے بھی انسان ایسے ماحول کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صفائی کے معاملے کا آغاز تو گھر سے ہوتا ہے، مگر اپنے ہاں اپنی چارپائی کے نیچے لاٹھی گھمانے کی بجائے یار لوگ تمام تر ذمہ داری حکومتی اداروں پر ڈال دیتے ہیں۔ واقعی حکومت کا ہی فرض ہے کہ وہ عوام کے جان مال وغیرہ کی طرح ان کے بنیادی حقوق کا بھی خیال رکھے اور صفائی بلاشبہ بنیادی حقوق میں ہی آتی ہے۔ یہ بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لئے آگاہی مہم چلائے رکھے کہ گندگی پھیلانے میں عوام کس طرح کمی کر سکتے ہیں۔ کس طرح وہ کچرے کو گلی میں نصب ڈرموں میں ڈال سکتے ہیں، راہ چلتے پھلوں کے چھلکے ، ریپر اور شاپر وغیرہ کس طرح کچرے کے لئے مخصوص جگہوں پر ڈالنے ہیں۔ راہ چلتے کھانے پینے کا کلچر اپنے ہاں بہت فروغ پذیر ہے، شہر کے اندر ہوں یا باہر، گاڑی میں کیلے کھا کر چھلکے باہر ہوا میں اچھالنے کا کلچر عام ہے، حالانکہ انہیں شاپر میں ڈال کر گاڑی میں رکھا اور کہیں مناسب جگہ پر جا کر پھینکا جا سکتا ہے۔ یہاں تو لوگ جا بجا تھوکنے اور پان کی پیک پھینکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

شہروں میں میونسپل کارپوریشن سے لے کر کمیٹیوں تک موجود ہیں، شہر کی صفائی جن کے ذمے ہوتی ہے، مگر عام شہروں میں ایک دو معروف سڑکوں کے علاوہ پورا شہر کچرے کا ڈھیر ہی دکھائی دیتا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور سیوریج کا پانی گلی محلوں میں جھیل کے منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ عام شہروں میں پارکوں میں پودے خشک ہو چکے ہوتے ہیں، گھاس نام کی چیز اسی وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب ٹھیکیدار کو کام ملاتھا، بِل منظور ہوگیا تو گھاس اور پودے بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ شہروں میں اگر خوش قسمتی سے کسی نہر کا گزر ہو جائے تو قریب کی تمام آبادیاں اس سے سیوریج کے لئے گندے نالے کاکام لیتی ہیں۔ گند نہر کے اندر، کچرا نہر کے کناروں پر ۔ خود رو گھاس پھوس سے جنگل کا منظر بن جاتا ہے۔ اگر بھولے سے کسی نے بھل صفائی کردی تو کنارے پر ڈالی جانے والی بھل مہینوں تک ٹریفک سے اڑتی لوگوں کے لئے عذاب ناک آلودگی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ شہروں سے گزرنے والی ان چھوٹی بڑی نہروں کو شہر کے خوبصورت پارک کی صورت خوبصورت بنایا جاسکتا ہے، مگر بدقسمتی سے نہ حکومتوں کے پاس وسائل ہیں (اگر ہیں تو یہ اُن کی ترجیح نہیں) اور نہ عوام کے پاس ان کے تحفظ کے لئے احتیاط۔
 
دیہات کے کچرے کی تو بات ہی کیا، کہ وہاں کچی سڑکیں، کچی گلیاں، درمیان میں کالے گارے سے اٹی ہوئی نالیاں، بدبو اور مچھر کی آماجگاہ، جہاں سے اکثر گزرنا بھی محال ہو تا ہے۔ کسی بھی گاؤں میں داخل ہوتے ہوئے پہلے کچرے کے ڈھیروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہاں کونسی کمیٹی صفائی والا کارِ خیر سرانجام دے گی؟ یہ کونسلر قسم کی مخلوق صرف سیاست دانوں کے مقامی نمائندوں کاکردار نبھاتی ہے۔ سبزے کی بہتات البتہ دیہات میں ہو سکتی تھی۔ دیہات کی نہروں کو دیکھ لیں، کبھی وقت تھا نہروں کے دونوں کناروں پر سڑک اور ان کے دونوں اطراف میں شیشم کے گھنے درختوں کی قطاریں۔ اب نہروں کے کناروں پر دھول اڑتی ہے، درخت خشک ہو چکے ہیں، جو زیادہ تر محکمہ والوں کی ملی بھگت سے چرائے جا چکے ہیں، یا بڑے چھوٹے افسران کے گھروں میں فرنیچر کے کام لگائے جاچکے ہیں۔ چھوٹی نہروں کے کنارے خوبصورت منظر پیش کرنے کی بجائے ویرانے دکھائی دیتے ہیں۔ چھوٹی نہروں کے کناروں پر پختہ سڑکیں بنائی جاسکتی ہیں، وہاں لاکھوں کی تعداد میں درخت لگائے جاسکتے ہیں، جن کی نسبتاً حفاظت (خاص طور پر پانی دینے کا مسئلہ) مشکل نہ ہوگا۔دیہات کے باہمی سفر میں کمی ہوگی اور سفر خوبصورت ہو جائے گا۔

حکومتوں کی سالہا سال سے شجر کاری مہمات کے نتیجے میں لگائے گئے درختوں کا اگر شمار کیا جائے تو اربوں میں ہی ہوگا، مگر شاید ان میں سے بہت ہی کم پودے ہوں گے جنہیں درخت بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ کارروائیاں اور آنیاں جانیاں زیادہ ہوتی ہیں، ذمہ داریاں کم، نتیجہ یہ کہ سرکاری وسائل کو دکھاوے میں جھونک کر معاملہ فارغ ہو جاتا ہے۔ اب اگر عمران خان نے ’’گرین اینڈ کلین پاکستان‘‘ مہم کا آغاز کیا ہے، تو اس میں کسی مخالفت، حسد یا تنقید کی بجائے اپنے ملک کے لئے اس مہم کو کامیاب کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ مہم ہے جس کے لئے اربوں کھربوں کی ضرورت نہیں، بہت سے کام اپنی مدد آپ کے تحت ہی ہو سکتا ہے۔ اس میں عوام کا ایک بہت بڑا حصہ تو یہ ہوگا کہ وہ کچرا پھیلانے سے کچھ گریز کریں، دوسروں کو اس ضمن میں آگاہ کریں۔ اگر لوگوں میں یہ شعور پیدا ہوگیا کہ کسی قسم کا کچر ا نہیں پھیلانا اور سبزے کی حفاظت کرنی ہے، تو معاملہ خود ہی درست ہو تا چلاجائے گا۔ سبزے اور صفائی سے انسان کی روحانی صحت بھی درست رہتی ہے اور جسمانی صحت بھی ۔ موسم بھی بہتر ، سکون بھی میسر اور ’’صفائی نصف ایمان ہے ‘‘ کا اجر بھی دستیاب اور آمدنی میں بالآخر اضافے کا ذریعہ۔آیئے ملک کی خاطر اور اپنی خاطر ملک کو صاف رکھیں اور سر سبز بنائیں۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427780 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.