حسبِ حال

سہ پہر 2 بجے، کڑی دھوپ میں، سامان سے لدا بیگ کندھوں پر اٹھائے ایک بے یارو مددگار، تنہا طالبِ علم، سفر میں آسائش کی خاطر کسی گاڑی کی تلاش میں بس اڈے کی طرف رواں تھا کہ اچانک، تبھی۔۔۔

"تبھی کیا؟"

اس نے اڈے پر چند عدد رکشوں کے سوا کچھ نہ پایا، جس سے اس کا دماغ خودکار طریقے سے ماضی کے تجربات سے موجودہ صورتحال سے نپٹنے کی راہ نکالنے لگا:

"اب کیا لاہور جانے کے لیے میں اس بغیر درودیوار والے رکشہ میں بیٹھوں گا؟ بالکل نہیں!"

اس نے دل میں ابھی یہ سوچا ہی تھا کہ دماغ کی بتی جلی اور اس نے 'موڑ کاٹ کر' اپنی عقابی نظریں "TYOTA" کو ڈھونڈنے کے لیے پھیلا دیں۔ لیکن زرا ٹھہریے!

"جی اب کیا ہوا۔"

یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ TYOTA سے میری مراد کمپنی کی وہ "فارغ التحصیل" یعنی استعمال شدہ گاڑیاں ہیں، جنھیں دیکھنے کے لیے چائنیز لوگ اب بھی پاکستان کا سفر کرتے ہیں۔ اس طرح ایک تو ان کی اپنی عظمت رفتہ کی تلاش ممکن ہو پاتی ہے تو دوسری طرف وہ یہاں سے نمونے اکھٹے کر ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ نئے دور کے کسٹمرز کو اپنی گاڑیوں کی Durability پر قائل کیا جا سکے۔ ان گاڑیوں کی خاص بات یہ ہے کہ "استعمال شدہ" ہو جانے کے بعد یہ حیرت انگیز حد تک" اینٹلی جنٹ" بھی ہوجاتی ہیں، جس سے مالکان بھی ان کی Maintenance اور صفائی ستھرائی پر کم ہی دھیان دیتے ہیں اور بس دعا کرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کا موڑ خراب نہ ہو جائے۔ خیر! واپس چلتے ہیں مرکزی کردار کی جانب۔۔۔
تو خوش قسمتی سے اس نے ایسی دو گاڑیاں کوئی چند میٹرز کے فاصلے پر ایک دوسری کے مقابلے پر کھڑی پا لیں۔

"ایک منٹ! گاڑیاں! ایک دوسرے کے مقابلے میں!!! مگر کیسے؟"

جی بالکل! دراصل یہاں گاڑیاں ذہانت اور منافع میں سبقت لے جانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں، جس میں ڈرائیور اور کنڈیکٹر صاحبان کا کردار انتہائی ناقابلِ فراموش ہوتا ہے، جو سواریوں کو دور سے ہی پہچان لیتے ہیں اور ہاتھ پکڑ کر اپنی اس نرم و نازک گاڑی کا تعارف کرواتے ہیں۔ یہ صورتحال دوسری گاڑی کے جیالوں کے لیے قدرے ناگوار ہوتی ہے، جس سے باہمی چپقلشں کے باعث بات اکثر اوقات یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سواری کا سامان کسی گاڑی میں اور وہ خود کسی اور میں جا ملتا ہے۔ کبھی کبھی تو "کم کم" کے میلے والا منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جب ماں ایک گاڑی میں بیٹھی ہوتی ہے اور بیٹے کو زبردستی دوسری گاڑی میں پہنچا دیا جاتا ہے اور نتیجتاً سفر کا یوں آغاز دیر تک ذہن پر نقش رہتا ہے۔ ہے ناں واقعی! "ناقابل فراموش"۔

کچھ ایسی ہی صورتحال سے گزرنے کے بعد اب وہ بھی ایک Tyota میں بیٹھ کر اس کے چلنے کے انتظار میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا کہ باہر کی دنیا میں فساد برپا ہو گیا۔ مگر آپ چھوڑ ئیے اس بات کو۔۔۔

"نہیں! اب بتاؤ تو سہی کہ کیسا فساد؟"

بات ذرا لمبی ہے، لیکن اگر آپ کہتے ہیں تو بتا ہی دیتے ہیں۔
دراصل سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے اور لگتا ہے کہ اس یتیم شعبہ کی باز پرس کے لیے محض سڑکوں کی تعمیر و ترقی پر ہی توجہ مرکوز ہے۔ انگریزوں کے جانے کے بعد جب قدرے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ترقی دینے کا کام شروع ہوا تو نام نہاد پالیسوں، حکومت کی عدم دلچسپی، وسائل کے بے جا اور غیر ضروری استعمال اور نجی شعبے کی حد سے زیادہ مداخلت کے باعث، کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ بڑے شہروں سے لے کر ہر چھوٹے علاقے تک جو بس اڈوں کی صورتحال اور گاڑیوں کا نظم و نسق اور ان میں موجود سہولیات کا معیار ہے، وہ تقریباً انہی نام نہاد پالیسوں کا ہی مرہونِ منت ہے۔ بس اڈوں پر مافیہ گروپ پیسے بٹورتا ہے، طاقت کے زور پر لوگ اپنی گاڑیاں چلواتے ہیں اور پھر دو مختلف گروہ اپنی گاڑی پہلے نکالنے کی دوڑ میں باہم گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ڈرائیو صاحبان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، البتہ مالکان دن دگنی، رات چگنی ترقی ضرور کر جاتے ہیں۔ یہ فساد بھی زرا اسی نوعیت کا تھا۔ تو واقعہ کچھ یوں ہے کہ۔۔۔

"بھائی اب بس بھی کرو، زیادہ سیرئیس ہی لے گئے ہو ۔"

میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔۔۔
خیر! گاڑی کچھ دیر کی اس بیرونی گہما گہمی کے بعد چل پڑی اور مرکزی کردار نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر ابھی بہ مشکل گاڑی اپنے جوبن پہ آئی ہی تھی کہ ڈرائیور صاحب کو دور سے اپنا ہمسایہ اسی طرف آتا نظر آیا۔ عقابی نظرتو پہلے سے ہی تھی، سو گاڑی روکی اور اس کو اندر بٹھا لیا گیا۔ اس اوور لوڈ کی سواریوں کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ ہمسایوں کے بھی کچھ حقوق ہوا کرتے ہیں۔ پس وہ تو مطمئن ہو گئے، لیکن گاڑی کے دروازے نے جگہ کی عدم دستیابی کے باعث تھوڑی مزاحمت دیکھائی۔ البتہ باہم گفت و شنید (زبردستی) سے اسے بھی منا ہی لیا گیا اور یوں اس پرانی گاڑی میں "نئی دنیا" کی طرف سفر کا آغاز ممکن ہو پایا۔

"ہاہاہا۔۔۔!پھر کیا ہوا؟"

گاڑی اپنی بساط سے زیادہ لوڈ اٹھانے کے باعث خوشی سے اچھلتے، کودتے آخر کار شہر کی حدود سے باہر نکلی۔ سب کچھ نارمل جا رہا تھا اور موقع کی مناسبت سے مرکزی کردار ایک دفعہ پھر مائنڈ پیلس (Mind Palace) میں گم ہو گیا۔ لیکن اچانک ایک زور دار جھٹکے( تسلی رکھیں اتنا زوردار بھی نہیں تھا) کے بعد گاڑی رکی اور وہ حقیقی دنیا میں واپس لوٹ آیا۔ پتہ چلا کہ ڈرائیور صاحب کو سڑک پر کوئی پیچ کس پڑا نظر آیا تھا اور وہ گاڑی کی فرمائش پر اسے اٹھانے کے لیے یہ خطرہ مول لے رہے تھے۔ خیر سے" پیچ کس"، جو کسی گاڑی سے گرا تھا، اب ڈرائیور صاحب کی ملکیت تھا۔ جناب خراماں خراماں واپس آئے، گاڑی کی چابی گھمائی، مگر صرف انجن کی آواز آئی، البتہ کسی قسم کی حرکت نہ ہوئی۔ دوسری دفعہ، تیسری دفعہ، نہ جانے پھر کتنی دفعہ گاڑی کو سٹارٹ کرنے کی کوشش کی گئی، پر شاید "زور کا جھٹکا ہائے زوروں سے لگا" کے مصداق گاڑی اس بات پر بضد تھی کہ اب اس سکریو ڈرائیور کو استعمال میں لایا جائے۔ یقیناً اس فرمائش کی تکمیل مشقت طلب اور ٹائم ٹیکنگ تھی۔ مسافروں کی درخواست پر جب افرادی قوت اور بعد ازاں ٹریکٹر کی مشینی قوت سے دھکا لگا نے کے باوجود گاڑی کا موڑ نہ بدلا، تووہ گاڑی سے اتر گیا۔ تاہم ابھی مایوسی کے بادل مکمل طور پر نہیں چھائے تھے کہ دور سے وہی اکلوتی چھت والا رکشہ" ندا "دیتا نظر آیا۔ مانوں کہہ رہا ہو، "غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی! میں ہوں ناں۔"
پس اس نے بادل نا خواستہ اس پکار پر لبیک کہا اور سفر کا نئے موڑ سے آغاز کیا۔
"تو کیا اب کہانی ختم؟"
نہیں! اب وہ ایک بار پھر سے رکشے کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے، ہوا کے تیز جھکڑوں سے ٹکڑاتے ہوئے زمین و آسماں کے قلابے ملانے لگا۔۔۔۔

ZAIN UL HASSAN
About the Author: ZAIN UL HASSAN Read More Articles by ZAIN UL HASSAN: 5 Articles with 3774 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.