اقربا نوازی کی سیاست

ضمنی انتخابات کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج آ چکے ہیں۔ مسندِ اقتدار پر براجمان پاکستان تحریک انصاف گزشتہ عام انتخابات میں جن نشستوں پربڑے مارجن کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی، اُن میں سے بیشتر پراُسے ناکامی کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ پاکستان کے گزشتہ تمام تر ضمنی انتخابات میں 70 فیصد سے زائد کامیابی ہمیشہ برسراقتدار جماعت سمیٹتی رہی، مگر اس بار نتائج ماضی کی تاریخ سے خاصی حد تک متصادم ہیں۔ ان غیر متوقع نتائج کے حوالے سے بھانت بھانت کے تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ نتائج مستقبل میں عوام کے اُس بدلے اور بپھرے ہوئے تیور کا پیش خیمہ دکھائی دیتے ہیں جن کا سبب ہوش رُبا مہنگائی، بڑے بڑے یُو ٹرنز، معاشی عدم استحکام اور دیگر عوامل ہوں گے ۔ ماضی میں وزیر اعظم عمران خان کے حمایتی یہی دلیل دیتے رہے کہ اُنہیں اپنے انقلابی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اقتدار میں آنا ناگزیر تھا، اسی باعث وہ مجبوراً الیکٹیبلز، مشرفی آمریت کی باقیات اور دیگر ناپسندیدہ سیاسی شخصیات کی جانب دستِ تعاون دراز کرنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن یہ دلیل اب خاصی بودی اور بے وزن معلوم ہوتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اس وقت وفاق اور تین صوبوں میں اتحادیوں کی مدد سے اقتدار پر براجمان ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی حکومت کے تعلقات خوشگوار نہج پر اُستوار ہیں۔ بلکہ اُن کی مخالف جماعتوں کے بیانیے کے مطابق وہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر ہی سوار ہو کر اقتدار پر قابض ہوئے۔ سرِ دست اُن کی کوئی ایسی سیاسی مجبوری نہیں تھی کہ وہ موروثی سیاست جیسی لعنت پر سمجھوتہ کرتے۔ مگر بدقسمتی سے اُنہوں نے مڈل کلاس قیادت اور نئے چہروں کو سامنے لانے کی بجائے اپنی جماعت کے منتخب ارکان کے بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں وغیرہ کو ٹکٹ سے نواز دیا۔سابقہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے بیٹے اور بھائی ، اور علی امین گنڈا پور کے بھائی کو ٹکٹ سے نوازنا تحریک انصاف کی اصلاحی و انقلابی سیاست کے عین منافی اقدامات ہیں۔اس وقت وزیر اعظم عمران خان اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں۔ اُن پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ اگر وہ ان حلقوں سے پارٹی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے والے کارکنوں کو سامنے لاتے، اس سے عوام بھی خوش ہو جاتے کہ تحریک انصاف جس موروثی سیاست کی شدید مخالف ہے، اُس کے قلع قمع کرنے کے لیے پُوری سنجیدگی سے سرگرم ہے۔ مگر دکھائی یہی دیتا ہے کہ عمران خان آہستہ آہستہ روایتی سیاست کی عشروں پُرانی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں جو بالآخر ماضی کے تمام قد آور قائدین کی عدم مقبولیت پر منتج ہوئی۔

لاہور کا حلقہ این اے 131اس بار پاکستانی عوام کی نظروں کا خصوصی مرکز بنا ہو ا تھا۔ امکان یہی تھا کہ علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کو پارٹی ٹکٹ سے سرفراز کیا جائے گا۔ مگر ہمایوں اختر جیسے آمریت پرست سرمایہ دار کی نامزدگی نے تحریک انصاف کے سپورٹرز کی اُمیدوں پر جیسے منوں کے حساب سے اوس ڈال دی۔اس وقت سوشل میڈیا پر یوتھیوں کو بہت سے تنقیدی محاذوں پر چومُکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے۔ہمایوں اختر کی وجہ شہرت اسٹیبلشمنٹ کے خاص الخاص کارندے کی ہے، دُوسرا ایک ایسا شخص جو مخالف جماعت میں ہو، اور محض ٹکٹ نہ مِلنے کی وجہ سے اچانک پیراشوٹُر بن کر انصافی کیمپ میں اُتر جائے، اُس کی انتخابی مہم مؤثر انداز سے کیسے چلائی جا سکتی ہے۔ حکومت کے کے اس غلط فیصلے نے اُن کا مورال ڈاؤن کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ حلقہ جہاں سے عمران خان 83 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے، وہاں پر تحریک انصاف کے حق میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ سمٹ آیا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ضمنی الیکشن میں عوام کی بڑی تعداد ووٹ کے لیے باہر نہیں آتی، مگر جس نشست پر کسی جماعت کوکامیابی مِلی ہو، محض تین ماہ کے اندر اُسی نشست پر دس ہزار ووٹوں سے ناکامی لمحۂ فکریہ ہے۔

ایک ایسے عوام پسند رہنما کی جانب سے جو مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی، اے این پی اور دیگر جماعتوں کی موروثی سیاست کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہو، اسی شرمناک ڈگر پر پیر دھرنا ناقابلِ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ نظریاتی خود کُشی کے مترادف ہے۔ اس اقدام سے تحریک انصاف کے تبدیلی کے بیانیے کو ضعف پہنچا ہے۔ محض کراچی میں’فِکس اِٹ‘ تحریک کے ذریعے عوامی حقوق کی خاطر آواز بُلند کرنے والے عالمگیر خان کو ٹکٹ سے نوازنا اِکلوتا مثبت اور قابلِ ستائش فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بات صرف عمران خان کی جماعت تک محدود نہیں رہی، بلکہ اُن کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے اور بھتیجے کے علاوہ شیخ رشید کے بھتیجے کو بھی ٹکٹ سے نوازنے کے فیصلوں پر عوام کا ماتھا ٹھنکا کہ موروثی سیاست کا قلعہ زمین بوس ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہو گیا ہے۔ اس وقت تک شاید وزیر اعظم پاکستان کو یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ اقربا نوازی کی سیاست نے اُن کے نظریاتی بیانیے کو تو شدید نقصان پہنچا دیا ہے مگر شیخ رشید اور پرویز الٰہی جیسے موقع پرست اور غیر نظریاتی اتحادی، موروثی سیاست کی اس ٹھاٹھیں مارتی گنگا میں نہا دھو کر سارا فائدہ خود سمیٹنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
 

Muhammad Irfan
About the Author: Muhammad Irfan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.