بوڑھا ریڑھی بان اور میں

تحریر: امداداﷲ خان نعمانی
چند روز قبل شب جمعہ کی بات ہے کہ حسب روایت اپنے تین دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگاتے اپنی جامعہ سے جامع کلاتھ کے بس اسٹاپ تک رواں دواں تھا کہ سول ہسپتال کی مین گلی سے ایک بوڑھے ریڑھی بان کو نکلتے ہوئے دیکھا۔جس کے پاس ریڑھی میں چند کتابیں ہی کتابیں تھی۔مجھے ایسے لگا کہ جیسے وہ صرف کتابیں بیچ کراپنی زندگی کے آخری ایام کو گن گن کے کاٹ رہاہے۔ ویسے میری فطرت میں ہے کہ جب کسی ضعیف العمر شخص کو مزدوری کرتے ہوئے یا سڑکوں اور شاہراہوں پر کچھ بیچتے ہوئے دیکھ لوں تو وہ اشیاء بھی خرید لیتا ہوں جس کی مجھے ضرورت تک نہیں ہوتی البتہ میں مزدور اور پروفیشنل بھکاریوں کے مابین فرق کو بھی بخوبی سمجھتا ہوں۔

اس بوڑھے ریڑھی بان کے چہرے پر غم اور تھکاوٹ کے اثرات دیکھ کر بلاضرورت کتابیں چھاننی شروع کردی۔چالیس پچاس کتابوں کے ڈھیر میں فقط تین کتابیں منتخب کی۔جن کی اگر کل قیمت ملائی جائے تو تیرہ سو روپے ہیں لیکن ریڑھی بان نے ہر کتاب کی قیمت دو سو لگادی لیکن پھر بھی میں اپنی شرارت سے باز نہ آیااور بار بار قیمت کم کرنے کا اصرار کرتا رہا اور بوڑھے باباجی کے چہرے پہ ایک مصنوعی سی مسکراہٹ چھاجاتی مگر وہ مسلسل اسے چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔عجیب المیہ تھا اس شخص کا بھی اور میرا بھی وہ اس جنس کا کاروبار کر رہا تھا جس کا کوئی خریدار نہیں تھا اور میں اس مہنگی شے کو سستے داموں خریدنے پر مصر تھا۔ بالآخر ان کتابوں کی جو قیمت بنتی تھی اس کے عوض میں نے وہ کتابیں خرید لیں۔

وہ جو تین کتابیں خریدی اس میں ایک ایک سفر نامہ جو کہ اسلم کمال اوسلو میں کے نام سے ہے اسلم کمال صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اسلم کمال پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور، خطاط اور ڈیزائنر ہیں 1986 میں ان کو مصوری اور خطاطی کی متعدد نمائشوں کی بدولت انھیں اوسلو (ناروے) بلایا گیا اوراس کے بعد ہی انھوں نے اپنے سفر نامے کو قلمبند کیا۔دوسری کتاب گل دستے اور گل دائرے جو کہ شخصی خاکوں پر مشتمل ہے۔تیسری کتاب علی حیدر ملک کے افسانوں کی ہے۔اس کتاب پر پہلی نظر جب لگی تو دل میں یہ بات طے کرلی کہ کوئی کتاب پسند آئے یا نہ آئے مگر یہ کتاب ریڑھی بان سے ضرور خریدنی ہے اور لفظ بہ لفظ مطالعہ کرکے مستفید ہونا ہے۔دو دن طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے اتوار تک مطالعہ نہ کرسکا اور پیر کو جب جامعہ سے واپسی ہوئی تو سوا دو گھنٹوں یعنی کہ 135 منٹوں کے مختصر ترین وقت میں 208 صفحات پر مشتمل کتاب کو فی صفحہ 64 سیکنڈ کی رفتا رسے پڑھااور اول تا آخر پوری کتاب کھنگال ڈالی۔ علی حیدر ملک نے مظہر العلیم کے ہاں قیام پاکستان سے تین برس قبل ۷ اگست ۴۴۹۱ کو اس دار فانی میں آنکھ کھولی۔

سن ساٹھ کی دہائی میں سامنے آنے والے جدید افسانہ نگاروں میں علی حیدر ملک ایک نمایاں نام ہے۔ان کے افسانوں میں جو پیرایہ اظہار سامنے آیا ہے وہ زبان کے اپنے آہنگ اور اسکی شیرینی کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کے حقائق اور اس کے احاطوں کو انکی تمام تر تلخیوں کے ساتھ علامتوں کے توسط سے پیش کرتا ہے، جس کے کارن ہر افسانہ ابلاغ کے اعتبار سے بیک وقت ایک سے زیادہ زاویہ نگاہ کا متقاضی ہے اور ہر زاویہ معنٰی کا نیا در کھولتا ہے۔ علی حیدر ملک کے بعض افسانوں میں میں اگر ابہام کے پردے کچھ زیادہ نظر آتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ افسانہ نگار کی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ ایسا ان کے تخلیقات اور موضوعات کے تحت ہوا ہے۔علی حیدر ملک باطل قوتوں نعرہ حق بلند کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوری قدروں کی پامالی پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے روح عصر کو پیش کرنے کی بھی سعی کرتے ہیں۔ہر افسانے میں اسن کے ہاں جدید عہد کی چھائیاں جھلملاتی نظر آتی ہیں جس میں دہشت گرد چھٹی پر ہیں، پانی پانی، اعتماد کا بھرم، عمر قید ،پرایا مرد خصوصاََ شامل ہیں۔

حیدر علی ملک کے افسانوں کا مطالعہ کیا تو تحقیق کرنے کو جی چاہا تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی دوسری کہانیوں اور افسانوں میں سماج کے انتشار، رشتوں کے بکھراؤ اور بیزمینی کرب صاف جھلکتا ہے۔علی حیدر ملک ایک اداس انسان تھے اور اداسی کے رنگ میں قلم ڈبو کر انہوں نے اپنی کہانیاں اور افسانے لکھے۔تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھایا تو تعجب میں پڑ گیا کہ وہ ہیرا جس کے افسانوی مجموعے کو میں نے پڑھا وہ اسی جامعہ کے استاد رہے ہیں جس کا میں متعلم ہوں اور پھر دل ہی دل میں جستجو یہ رہی کہ کاش آپ زندہ ہوتے میرے استاد ہوتے اور مجھے آپ کی شا گردی کا شرف حاصل ہوتا۔

لیکن یاد رہے مطالعہ کے اس مختصر ترین وقت میں چھوٹی بہن کے ہاتھوں بنائے گئے فروٹ چاٹ کے دو پلیٹیں اور لاہور کی رہائش رکھنے والی چچی جان کی طرف سے بھیجی گئی پہلوان ریوڑیاں اور ایک عدد پانچ سو ملی لیٹر کے اسٹنگ انرجی ڈرنک کو بھی قربان ہونا پڑا۔ہمارے معاشرے کا ایک مشترکہ رویہ بن چکا ہے کہ ہم کتاب بینی سے دور بھاگنے لگے ہیں ہمارا زیادہ تروقت موبائل فون اور سوشل میڈیا پر صرف ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کے ذہن پراگندہ اور وہ بے عمل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب لکھاریوں میں بھی پڑھنے کا شوق ختم ہو چکا ہے۔

واضع رہے کہ اگر ہمیں اپنی نسلوں کو بے عملی سے نکالنا ہے تو انہیں معیاری کتاب بینی کی طرف لانا ہوگا اورکتاب کو دم توڑنے سے بچانا ہوگا۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1019867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.