بیساکھیاں توڑ ڈالنے کا وقت آگیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشہ چند ہفتوں میں دوسری مرتبہ سعودی عرب کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیاہے ۔پہلے انہوں نے سعودی حکمران شاہ سلمان کو تنبیہ کی کہ وہ امریکی فوج کی حمایت کے بغیر دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے ۔جس کے جواب میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ جب امریکہ نہیں تھا تو ہمارا ملک اس وقت بھی قائم تھا ۔ خاص طور پر انہوں نے کہا کہ اوبامہ دور میں جب امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیے رکھا تو اس وقت بھی سعودی عرب نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ سادہ لفظوں میں یہ امریکہ کو پیغام تھا کہ سعودی عرب امریکہ کی دوستی کے بغیر بھی رہ سکتا ہے ۔اس حوالے سے مزید صورتحال نکھر کر اس وقت سامنے آگئی جب سعودی نژاد امریکی شہری جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی سفارتخانہ میں قتل کا معاملہ سامنے آیا ۔جمال خاشقجی کا تعلق سعودی عرب سے تھا لیکن سعودی حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت میں اُسے ملک بدر ہونا پڑا۔ اس نے امریکی شہریت حاصل کی اور ایک امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھنے شروع کیے ۔ وہ اپنے کالموں میں سعودی حکمرانوں پر سخت تنقید کرتا تھا جس کی وجہ سے سعودی حکومت اس سے خائف تھی ۔2اکتوبر کوجب وہ استنبول میں طلاق کے کاغذات حاصل کرنے سعودی سفارتخانے میں گیا تو اس کے بعد اس کا کچھ پتا نہ چلا ۔ سب سے پہلے ترک حکام نے الزام عائد کیا کہ خاشقجی کو سعودی سفارتخانے میں قتل کر دیا گیا ہے ۔اس کے بعد امریکہ اور پورپی ممالک بھی میدان میں آگئے اور اقوام متحدہ نے بھی اس کا سخت نوٹس لیا ۔اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی حکام کو ایک بار پھر دھمکی دی کہ اگر خاشقجی کے قتل میں سعودی حکومت ملوث ہوئی تو اسے سخت سزا دی جائے گی ۔اس کے جواب میں سعودی عرب نے بھی اپنے میڈیا کے ذریعے جوابی کارروائی کی دھمکی دی جس میں کہا گیا کہ سعودی عرب ممکنہ طور پر تیل کی ترسیل روک سکتا ہے جس سے قیمتوں میں دگنا سے بھی زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ سٹریٹیجک اعتبار سے اہم علاقے تبوک میں روس کو اڈہ دینے پر تیار ہو سکتا ہے، ایران سے بات چیت شروع کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر امریکہ سے اسلحے کی خریداری روک سکتا ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری ذرائع کی جانب سے جوابی دھمکیوں کے بعدڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ فون پر بات کی اور اس کے بعد خود یہ موقف اختیار کیا کہ جمال خاشقجی کی گمشدگی کے پیچھے سرکش قاتل ہو سکتے ہیں۔گویا سعودی عرب کی جوابی دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور امریکی صدر نہ صرف اپنے سخت رویے میں نرمی لانے پر مجبور ہوئے بلکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے اپنے وزیر خارجہ کوبھی فوراً سعودی عرب روانہ کرنا پڑا ۔کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ مڈل ایسٹ سے اس کے نکل جانے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے ۔

صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی اور مبینہ قتل کی مذمت اپنی جگہ لیکن اس ساری صورتحال سے سب سے اہم چیز جو واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم حکمران اگر خود عالمی طاقتوں کی ڈکٹیشن قبول نہ کریں تو کوئی بیرونی طاقت انہیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی ۔ دوسرے لفظوں میں اگر مسلم حکمران خود اپنے عالمی آقاؤں کے آگے جھکنا چھوڑ دیں تو عالم اسلام پر عالمی طاقتوں کی اجارہ داری کا طلسم ٹوٹ سکتا ہے ۔اگرچہ بظاہر یہ ناممکن لگتاہے مگر حقیقت میں یہ بہت آسان ہے۔ اس کے لیے صرف ایک چیز اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے خودداری ۔بھارت اور چین بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے مگر وہ آج لیڈنگ پوزیشن میں ہیں جبکہ مسلم ممالک آزاد ہونے کے باوجود ابھی تک عالمی طاقتوں کے چنگل سے نہیں نکل سکے ۔حالانکہ وسائل کے لحاظ سے چین اور بھارت مسلم ممالک کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ مسلم ممالک ان بے پناہ وسائل کو اپنے حق میں استعمال کر سکتے تھے ۔مگر محض اقتدار کی حرص ان کی کمزوری بن گئی اور اس طرح وہ وسائل جو عالم اسلام کی طاقت بن سکتے تھے ان کو عالمی طاقتوں نے اپنے حق میں استعمال کیا ۔مثال کے طور پر یہی امریکہ بہادر جس کامسخرہ صدر آج منہ پھاڑ کر شاہ سلمان کو دھمکیاں دے رہاہے جب اپنی معیشت کے ضعف میں پھنسا تو ٹرمپ اپنی بیوی اور بیٹی کے ہمراہ سب سے پہلے انہی سعودی حکام کے پاس پہنچا اور چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر اُن سے ڈپلومیٹک بھیک مانگی ۔اس وقت اگر سعودی حکام ان کی مصنوعی مسکراہٹوں کے پیچھے چھپی فرعونیت بھانپ لیتے اور ان کے ساتھ 400ارب ڈالر کے معائدے نہ کرتے تو آج امریکہ سعودی عرب کو آنکھیں نہ دکھا رہا ہوتا بلکہ اپنی گرتی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے انہی عرب ممالک کے در پر ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ۔مگر افسوس ! ہمارے حکمرانوں کی باہمی چپقلش ، علاقائی کشمکش اور خاص طور پر حرص اقتدار نے انہیں بے وقوفی کی حد تک اغیار پر اعتماد کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی دشمنوں کی کمزوریوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے جبکہ دشمن ہماری انہی بے وقوفیوں کی وجہ سے ہمارے ہی وسائل استعمال کررہاہے ۔

کوئی ریاست کتنی ہی بڑی عالمی طاقت کیوں نہ ہو اس کی ساری فرعونیت کا انحصار اس کی معیشت پر ہوتاہے ۔امریکی معیشت کا دارومدار اسلحہ کی فروخت پر ہے اور امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب اوراس کے بعد مڈل ایسٹ کے دوسرے عرب ممالک ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ امریکہ کی دال بھی سب سے زیادہ اسی خطے میں گلتی ہے۔ جبکہ دنیا کے باقی کسی خطے کے ممالک امریکہ کو اتنا منہ نہیں لگاتے ۔عرب ممالک اگر امریکی اسلحہ خریدنا بند کردیں تو امریکی معیشت چند عشروں میں نہیں بلکہ چند سالوں میں بیٹھ جائے گی اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کی تمام تر خرمستیاں بھی ختم ہو جائیں گی ۔سعودی حکام نے ٹرمپ کے مکرو فریب میں آکر 400ارب ڈالر کے جو معاہدے امریکہ کے ساتھ کیے وہ مسلم ممالک کے ساتھ بھی ہو سکتے تھے ۔ ضرورت کا اسلحہ پاکستان سے بھی خریدا جا سکتا تھا اور جو پاکستان میں نہیں بنتا وہ چائنا اور روس سے بھی خریدا جا سکتا ہے۔اسی طرح دفاعی معاہدے پاکستان اور ترکی کے ساتھ بھی ہو سکتے تھے ۔ اس طرح آپس کی تجارت اور دفاعی معاہدوں سے ایک طرف مسلم ممالک مضبوط ہوتے اور دوسری طرف امریکہ کی عالمی اجارہ داری خود اس کی معاشی گراوٹ میں اُلجھ کر رہ جاتی اور یوں طاقت کے عالمی توازن کو قائم کرنے میں بھی مدد ملتی ۔

دوسری سب سے اہم بات جو خود سعودی ولی عہد کے منہ سے نکلی وہ تھی کہ ’’ سعودی عرب ایران سے بات چیت بھی شروع کر سکتا ہے ‘‘ ۔اصل میں یہی سب سے بڑی بیماری کا حل ہے ۔طاغوتی طاقتیں عالم اسلام پر قبضہ و اجارہ داری قائم کرنے میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوئی تھیں جب تک کہ انہوں نے مسلمانوں میں ایران و عرب کی تقسیم نہیں ڈالی تھی اور یہی تقسیم آج تک بھی طاغوتی طاقتوں کی عالم اسلام پر اجارہ داری کی اصل وجہ ہے۔امریکہ سعودی عرب کو ایران کا ڈراو ادکھلا کر اس سے دفاعی معاہدے کرتا ہے اور سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک ایران سے مقابلہ کے لیے امریکہ سے اسلحہ خرید کر اس کی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں ۔دوسری طرف ایران پر اقتصادی پابندیوں کا باعث بھی یہی باہمی چپقلش بن رہی ہے ۔ اور اس ساری صورتحال سے فائدہ صرف عالمی طاقتیں اُٹھا رہی ہیں جبکہ مسلم ممالک کا نقصان پر نقصان ہورہاہے ۔یہ عجیب بات ہے کہ سعودی حکام یہ سب سمجھنے کے باوجود کہ اگر وہ ایران سے بات چیت شروع کردیں تو انہیں امریکہ کی ضرورت نہیں رہے گی وہ صرف امریکہ کو منانے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں ۔ گویا مصیبت تو انہیں چھوڑنا چاہتی ہے مگر وہ خود مصیبت کو نہیں چھوڑنا چاہتے ۔شاید مسلم حکمرانوں کی نفسیات میں یہ خوئے غلامی اتنی رچ بس گئی ہے کہ وہ کسی سہارے کے بغیر رہ نہیں سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ کے متبادل کے طور پر روس کو اڈے دینے کی بات بھی کر رہے ہیں ۔ اگر چہ یہ بیان محض سفارتی ہتھکنڈا ہے مگر غلامانہ ذہنیت کی خوب عکاسی بھی کر رہاہے ۔ حالانکہ سب سے بہتر حل یہی ہے کہ بیماری کو اُس کی جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے یعنی ایران و عرب کی جو تقسیم ڈال کر عالمی طاقتیں مسلم ممالک کو بلیک میل کر رہی ہیں اس تقسیم کوسرے سے ختم کرکے ایک بار پھر مسلمان ممالک متحد ہوجائیں یا کم از کم بات چیت شروع کردیں جو کہ بالآخر ہونی ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔آپ صدیوں تک لڑتے رہیں لیکن بالآخر جب آپ کو ہوش آئے گا کہ ہم نے اُمت مسلمہ کو تباہی سے بچانا ہے تو آپ کواس کے لیے متحد ہونا ہوگا ۔ لہٰذا جو کام مسلسل تباہی کے بعد کرنا ہے وہ آج ہی کیوں نہ کر لیا جائے ۔ یورپ نے صدیوں تک خانہ جنگی کے بھیانک نتائج بھگت کر دیکھ لیے اور بالآخر دو عالمی جنگوں میں اپنے وسائل اور انسانی آبادیوں کو جھونک کر عقل ٹھکانے آئی کہ آپس کی جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ۔ آج وہی یورپی ممالک یورپی یونین کی صورت متحد ہو کر دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔اسی طرح مسلم ممالک بھی اگر اس تاریخی حقیقت کو سمجھ لیں تو ایک تو یہ عالمی طاقتوں کی اجارہ داری اور بلیک میلنگ سے نکل آئیں گے اور دوسرا جو تجارتی اور دفاعی معاہدے کرکے وہ عالمی طاقتوں کو مزید سرکش بناتے ہیں وہ تجارتی اور دفاعی معاہدے آپس میں کرکے باہم مضبوط ہوں گے اور عوام بھی خوشحال ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں کسی بیرونی سہارے یا بیساکھی کی ضرورت بھی نہیں رہے گی ۔
 

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 47155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.