جدید ترقی احساس کو کھا گئی

غالبا 1992کی بات ہے ایک دوست نے مجھے بہت ہی عظیم خوشخبری سنائی کے M B 3.5 کی ہارڈ ڈسک مارکیٹ میں آگئی ہے مجھے یاد ہے اچھی طرح ہم سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی ہی رہ گئی تھیں
کیونکہ آج 100 ٹی ۔بی والی ہارڈ ڈسک بھی بہت چھوٹی لگتی ہے وہ پینٹیم فور جو سٹیٹس سیمبل سمجھا جاتاتھا آج کسی کو یا د بھی نہیں حالنکہ صرف کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہم میں اکثر کے پاس ڈیسک ٹاپ
کمپیوٹرہی تھے آئے دن پاور فیل ہو جایا کرتی تھی اسی طرح سی ۔ڈی روم خراب ہو جایا کرتی تھی ان دنوں کمپیوٹر ٹیھک کرنے والے کو انجینئر کہا جاتاتھا لیکن آج کے دور میں اسکو مکینک کہا جاتاہے۔

تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں تو فلاپی ڈسک کے بغیر کا م نہیں چلتاتھا فلاپی اپنی مرضی کی مالک ہوتی تھی چل گئی تو سو بسم اﷲ ورنہ میز پر کھٹکھٹاتے رہیں شائید کا م بن جائے۔ سب کچھ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتے دیکھا۔ موبل آئیل سے موبائیل تک کا سفر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کس طرح ہم قدیم سے جدید ہو گئے۔ لباس سے لیکر کھانے تک ہر چیز ہی جدید سے جدید ہو تی چلی گئی۔ نہیں بدلا تو
آلو والے پراٹھے کا سواد نہیں بدلا۔ شہروں میں زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ نے لے لی یہاں اتنی دوکانیں کھل کے اب مکئی کی روٹی اور ساگ کھانا ہو تو تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ گھروں میں بننے والی لسی اب ریڑھیوں پر آگئی ہے شائید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں سب لوگ ایک ہی وقت میں دسترخوان یا ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں فرج میں پڑی ہرچیز ہے جب جی چاہتا نکالتاہے اور گرم کرکے کھا لیتاہے البتہ اگر باہر جاکر کھاناہو تو یہ روائیت اب بھی برقرار ہے۔

جن گھروں کیٹ دروازے رات آٹھ بجے کے بعد بند ہو جایاکرتے تھے وہ اب رات گیارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اور پوری فیملی رات ایک بجے ڈنر کھاکر واپس آتے ہیں۔ پورے دن کے لیئے واٹر کولر میں دس روپے کی برف ڈالنے کی اب ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب ہر گھر میں فرج ہے فریزر ہے لیکن برف پھر بھی استعمال نہیں ہوتی کیونکہ پانی ٹھنڈا ہوتاہے فرج آیا تو چکھوبھی گیا۔ اب تندور سے روٹیاں لگوانے کے لئیے پیڑے گھر سے بنا کر نہیں بھجیے جاتے۔ اب لنڈے کی پرانی پینٹ سے بچوں کے بستے نہیں سلتے مارکیٹ میں ایک سے بڑھ کر ڈیزائین والا سکول بیگ موجود ہے۔ بچے اب امی ، ابو کو زیادہ یار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، بلب انرجی سیور میں بدل گئے اور انرجی سیور ایل ای ڈی میں۔

چھت پر سونا ایک خواب بن گیا لہذااب گھروں میں چارپائیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ڈبل بیڈ اور ان پر بیچھے موٹے موٹے گدے مسہری اور پلنگ گھر کی سیٹنگ سے میچ نہیں کرتے۔ اب بچے سائیکل سیکھنے کے لئیے قینچی سائیکل نہیں چلاتے کیونکہ ہر عمر کے بچے کاسائیز کا مارکیٹ میں سائیکل مل جاتاہے جن سڑکوں پر تانکے دھول اڑاتے تھے اب وہاں گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں۔

کیا گولڈن زمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا دن کھلے رہتے تھے بس ایک بڑی سی چادر کا پردہ لٹکا ہوا ہو تاتھا۔ اب تو دن کے وقت بھی بیل ہو توپہلے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھنا پڑتاہے۔

شہر سے باہر کال ملاناہوتی تو لینڈ لائین فون پر پہلے کا بک کروانا پڑتی تھی اور پھرمستقل وہیں موجود رہنا پڑتا تھا گھنٹے بعد کال ملتی تھی اور کئی دفعہ درمیان میں آپریٹر بھی مداخلت کر دیتاتھا کے تین منٹ ہونے والے ہیں۔ سعودیہ وغیرہ سے کوئی عزیز پاکستان آتا تھا تو گفٹ کے طور پر گھڑیاں ضرور لے کر آتاتھاواک مین بھی ختم ہوگئے پانی کے ٹب میں موم بتی سے چلنے والی کشتی بھی نہیں رہی پانی کی ٹینکیوں کا رواج چلا تو گھر سے ہینڈ پمپ بوکی سمیت رخصت ہوا۔ واش بیسن آیا تو کھرے بنانے کی بھی ضرورت نہیں رہی چائے پیالے سے نکل کر کب میں قید ہو گئی۔ میں نے ہمیشہ ماں کو پرانے کپڑوں او ر ٹا کیوں کو اکٹھا کرکے تکیے میں بھر تے دیکھا، چھوٹی چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتاتھا۔ زمین پر نمک مرچیں گر جاتی تو ہوش و حواس اڑ جاتے کے قیامت والے دن آنکھوں سے اٹھانی پڑے گی۔
موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھر میں حیقیقی قہقے لگاتے تھے۔ ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والے گھر کو بھیجتا تھا اور ادھر سے بھی پیلٹ خالی نہیں آتی تھی۔امحلے کی بچی سب کی بچی ہو ا کرتی تھی کوئی ڈر فکر نہ تھی سب بہن بھائیوں کی طرح رہتے تھے کوئی مہمان آگیا تو گھر والے بہت خوش ہوتے تھے مہمان کی فیملی میں بھی کم از کم 7یا 8بچے ہوتے تھے-

سب دل سے ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے مولاکریم کا بڑا فغل اور رحمت ہوتی تھی خلوص تھا پیار تھا، بھائی چارہ تھا لوگ اﷲ سے ڈرتے تھے لیکن آج ہر کام الٹا ہو گیا یعنی جتنی ہم ترقی کرتے گئے اخلاقیات احساسات میں اتنے ہی پستی کی طرف جاتے گئے۔
 

Syed Maqsood Ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood Ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood Ali Hashmi: 171 Articles with 151915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.