کیا پرائیویٹ اسکیم کے حاجی لٹتے رہیں گے کون بچائے گا؟

وزارت مذہبی امور کے چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث رواں سال 2018 کے حج کے دوران مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں پرائیوئٹ پیکیجز کے حاجی انگنت مسائل سے دوچار رہے کیا آئندہ پاکستانی حکام ایسا کوئی انتظام کر سکیں گے حاجی پریشان نہ ہو سکیں اور فریضہ حج احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔
کیا ملک میں ایسا کوئی ادارہ ہے جو پرائیویٹ حج آپریٹرز کی لوٹ مار اور کرپشن کا سدباب کرسکے۔سپریم کورٹ کی مداخلت سے سرکاری حج اسکیم کے کافی معاملات بہتر ہوچکے ہیں اگر سپریم کورٹ یا حکومت پاکستان پرائیویٹ سیکٹر کی درست مانیٹرنگ کرکے معاملات بہتر کرے تو حج کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا سکتا ہے۔ امید ہے وزارت مذہبی امور کے کرتا دھرتا پرائیویٹ حج آپریٹرز کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے عام پاکستانیوں کے مفادمیں فیصلے کرینگے اور ایسے حج آپریٹرز کے لائسنس منسوخ کرکے ان پر بھاری جرمانہ عائد کرینگے اس کے ساتھ ساتھ ان پر تا حیات کاروبار کرنے پرپابندی لگائیں گے اور عازمین حج و لوٹی رقم واپس کرائیں گے۔

ایک پاکستانی کس طرح زندگی میں پیسے جمع کرکے فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ارادہ اور سفرکرتا ہے سرکاری حج اسکیم میں ناکامی کی صورت میں مزید لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی اسے وہ سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں جو سرکاری اسکیم کے تحت حجاج کو اب ملنے لگی ہیں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے یہ وزارت مذہبی امور کے حکام ہی بتا سکیں گے جن کی نااہلیت یا سخت مانیٹرنگ نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ اسکیم کے تحت جانے والے حاجیوں کو مسلسل پریشانیوں اور لوٹ مارکا سامنا کرنا پڑتا ہے، رواں سال میں نے اور میری بہن نے ناظم آباد کے ایک پرائیویٹ حج عمرہ آپریٹر السلام ٹریولر سے حج بکنگ کرائی جس نے اپنا کمیشن کھرا کرنے کے بعد مجھے کوٹا نہ ہونے کی وجہ سے نارتھ ناظم آباد کے دوسرے پرائیویٹ آپریٹر طیران حرمین شرفین کے ساتھ بھجوا دیا دو ماہ پہلے ان آپریٹرز نے 2ساڑھے گیارہ لاکھ روپے بینک میں رکھ کر جو منافع حاصل کیا وہ الگ ہے جبکہ لنک پرواز سے ہمیں پہلے جدہ بھجوایا جا سکتا تھا مگر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر حج آپریٹر نے ہمیں مدینہ منورہ بذریعہ دبئی پہنچایا۔ 8دن قیام کے بجائے 5روز بعد مکہ مکرمہ لے جایا گیا جس پر احتجاج بھی کیا کہ چالیس نمازیں مسجد نبوی میں ادا نہیں ہوسکیں تاہم اس کا جواز پیکیج بتایا گیا جبکہ جو پمفلٹ پی ڈی ایف کی شکل میں پہلے دیا گیا تھا اس میں صرف وائی لنک تحریر تھا۔ اس طرح جدہ نہ لے جانا زیادتی اور ظلم تھا جس کا نوٹس لے کر جرمانہ کیا جانا چاہیے اور ہمیں بھی رقم واپس کی جانا چاہیے کیونکہ لنک پرواز کا حاجی کو نہیں حج آپریٹر کو فائدہ پہنچتا ہے یہ پرواز ڈائریکٹ کے مقابلے میں سستی بھی ہوتی ہے۔ اس طرح حج آپریٹروں کو حاجیوں سے بڑی رقوم ایٹھنے کا موقع ملتا ہے جس کا سدباب انتہائی ضروری ہے۔

مدینہ منورہ میں ہوٹل حیاہ الذہبی ویسٹرن سینٹرل ایریا عقب کنگ عبدالعزیز لائبریری مرکزیہ کے بجائے مسجد نبوی سے اگرچہ دورتھا لیکن پھر بھی مکہ مکرمہ کے مقابلے بہتر تھا، مکہ مکرمہ کا ہوٹل ڈی کلاس اور انتہائی گھٹیا تھا اس کےکمروں اور باتھ رومز سے مسلسل بدبو آتی تھی باتھ روم انتہائی تنگ تھے جبکہ بیڈ بھی چھوٹے دیے گئے ٹانگیں باہر نکلی رہتی تھیں مدینہ اور مکہ کے ہوٹلوں میں کھانا گرم کرنے کے لیے کمرے میں ہیٹر نہیں دیے گئے جبکہ واشنگ مشین کی سہولت بھی فراہم نہیں کی گئی مدینہ اور مکہ میں زیارات بھی کم مقامات تک محددود رہیں۔ دونوں ہوٹلوں میں کھانا دیے گئے وقت سے پہلے ختم ہوجاتا تھا، عشاءکے بعد واپسی اور دوپہر میں کئی مرتبہ کھانا نہ ملا جس کی شکایت بھی کی گئی لیکن متبادل انتظام نہیں کیا گیا۔

مکہ مکرمہ میں ہوٹل مناسک خانہ کعبہ سے 4 کلو میٹر دور تھا جبکہ پیکیج کے اعتبار سے اسے1200میٹر کے اندر ہونا چاہیے تھا وزارت کی ویب سائٹ پر معاہدے میں یہی فاصلہ 1500 میٹر بتایا گیا تھا جسے حج آپریٹرکے کرتا دھرتا نے وزارت کے عملے سے ملی بھگت کرکے 1200میٹر والا لیٹر بنوا لیا تاکہ حاجی ریفنڈ کلیم نہ کر سکیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزارت مذہبی امور کے حکام یا مانیٹرنگ ٹیمیوں نے ہوٹل کی منظوری سے قبل ان تمام امور کو چیک کیا تھا ؟ یا بغیر دیکھے لیٹر جاری کر دیا۔گوگل میپ فاصلہ اور ہوٹل کا وجود سب سچ بتا دیتا ہے اور پرائیویٹ حج آپریٹرز کے دھوکے اور لوٹ مار کو بھی سامنے لے آتا ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔

اسی طرح جہاں مکہ مکرمہ کے علاقے جنت المعلی میں پاکستانی حجاج کا تھرڈ کلاس ہوٹل مناسک تھا وہاں پورے علاقے میں پاکستانی ڈسپنسری نہیں تھی دس ریال کرایے کے بجائے پچاس ریال طلب کیے جا رہے تھے جو حاجیوں پر بوجھ تھا۔ ہنگامی صورت میں ہوٹل اور نہ ہی حج آپریٹر نے کوئی مدد کی نہ ایمبولنس منگوا کر دی دونوں نےیہ نہیں بتایا کہ کال کر کے ایمبولنس بھی منگوائی جا سکتی ہے یہی بات گروپ لیڈر اور آرگنائزرجانتے تھے مگر ہیلپ نہیں کی ساتھی حجاج بھی نہیں جانتے تھے نہ ہی تربیت کے پروگرام میں اس سلسلے میں کوئی آگہی دی گئی مکتب 119 اور مناسک ہوٹل کا ایک حاجی انہی تکالیف اور بیماری کے باعث چل بسا۔جس کے قتل کا مقدمہ طیران حج آپریٹر پر درج کیا جاناچاہیے تھا لاکھوں روپے وصول کرنے کے باوجود ٹرانسپورٹ کی سہولت دی نہ بیماری میں طبی امداد مہیا کی۔

پاکستانی تاجر رمضان میں شہریوں کو لوٹنے میں بدنام ہیں لیکن سعودی عرب کے ٹیکسی ڈرائیورز نے دوران حج حاجیوں کو لوٹنے میں انتہا کر دی 15 ریال کے سفر کے 300 سے500ریال وصولی کے ریکارڈ قائم کردییے؟ پاکستانی اور سعودی حکام اس سلسلے میں کسی قسم کی مدد نہ کر سکے۔

پاکستانی حجاج پرائیویٹ آپریٹرز کے ہاتھوں بار بار ناروا سلوک کا شکار ہوتے رہے، 3 سے7لاکھ روپے پیکیج والے حجاج ڈی لیول ہوٹل میں ایک ساتھ ٹھہرا دیے گئے مسور کی پتلی دال بار بار کھلائی گئی نیو منی میں عمدہ خوراک اور ٹرانسپورٹ نہ ملنے کے باعث حاجی پریشان رہے نیو منی میں مکتب119 کے خیموں میں 3 سے 7لاکھ روپے والے پیکیجز کے حاجیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیا گیا جبکہ ان خیموں میں گنجائش کم تھی اور ہر پیکیج کے حاجیوں کو الگ الگ خیموں میں ٹھہرایا جاناچاہیے تھا۔اس کے علاوہ سیکیورٹی گارڈز کی موجودگی میں عازمین اپنی ویل چیئرز سمیت قیمتی اشیا سے بھی محروم ہوئے جس کی شکایت بھی کی گئی لیکن نوٹس نہیں لیا گیا۔

مزدلفہ میں پرائیویپٹ اسکیم کے تحت جانے والے پاکستانی حجاج ٹرانسپورٹ کی تلاش میں سرگرداں رہے جبکہ ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کی ذے داری حج آپریٹر کی تھی بعد ازاں جمرات سے کئی کلو میٹر دور اتار کر گاڑی رفو چکر ہو گئی حج آپریٹر بھی غائب ہو گیا حاجیوں کو ہوٹل تک واپسی کی بھی کوئی رہنمائی یا ٹرانسپورٹ مہیا نہیں کی گئی 29 حاجی 100 سے 500 ریال خرچ کر کے ہو ٹل تک واپس پہنچے حاجیوں کو کرائے ریفنڈ کرائے جائیں اور اس ناروا سلوک بد انتظامی کا نو ٹس لے کر حج آپریٹر کا لائسنس منسوخ اور جرمانہ کیا جائے۔

کیاسعودی یا پاکستان حکومت عمرہ اور حج ایام کے دوران پرائیویٹ اسکیم کے تحت جانے والے حاجیوں کو طبی سہولت ان کے ہوٹلوں میں فراہم نہیں کر سکتی؟ ؟ ؟ یا صرف ایسے حج آپریٹرز کو کوٹا دیا جائے جو اسپتال یا ڈسپنسریوں کے قریب واقع حکومت پاکستان کے منظور شدہ ہوٹلوں میں پاکستانی حجاج کے قیام کا بندوبست کریں اور اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ یہ ہوٹل حرم سے انتہائی قریب ہوں جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت چوبیس گھنٹے فراہم کی جائے۔

پی ٹی آئی حکومت کے لیے یہ چیلنج سے کم نہیں کہ وہ پاکستانیوں کو عمرہ اور حج کی بہترین سہولتیں مہیا کرے ایسا مانیٹرنگ سسٹم بنائے کہ سرکاری اور پرائیویٹ اسکیم کے تحت جانے والے عازمین حج اور معتمرین کو کوئی لوٹ نہ سکے فضائی کمپنیاں حج سیزن میں کرائے بڑھا دیتی ہیں جس کا توڑ کرکے پہلے ہی دنیا بھر کی دوسری فضائی کمپنیوں کو سستی حج پروازں پر آمادہ کرلیا جائے۔اس کے علاوہ پی ٹی آئی حکومت پرائیویٹ حج آپریٹرز کی لوٹ مار کا بھی نوٹس لے کہ یہ آپریٹرز64ہزار روپے میں عمرہ اور چار سےپونے 6 لاکھ روپے سے زائدمیں حج پیکیجز پیش کرتی ہیں جبکہ ویزا ٹرانسپورٹ رہائش زیارات دیگرسہولت یکساں ہوتی ہیں 64 ہزار میں حج کیوں نہیں ہو سکتا ان آپریٹرز کے پیکیجز کا سالانہ آڈٹ کرایا جائے اور اسے پبلک کیا جائے اس کے ساتھ ان کمپنیوں کے انکم ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات بھی منظر عام پر لائی جائیں۔

Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 5 Articles with 4132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.