جس قوم کے بچے نہ ہوں خود دار و ہنر مند

*عبد الاحد سالار*
مجھے کل نہم جماعت کی ایک طالبہ نے ایک شعر پہ تقریر لکھنے کا کہا۔ کہ صبح فجر کے ٹائم مجھے یہ تقریر لازمی درکار ہے۔ تاکہ کل اسکول میں جا کے فنِ خطابت کا مظاہرہ کر سکوں۔

پھر اس کی شرائط میں زیادہ سے زیادہ تین پیرے مطلب دو سے تین سو الفاظ کی حد بھی لاگو کر رکھی تھی۔ میں بہت ہی پریشان ہوا کہ کیسے کم گفتگو میں پورا موضوع سمیٹوں گا؟

پھر اسی سوچ میں رات کے ڈیڑھ بجے کا وقت ہو گیا۔ کہ جب نیند کے دباؤ میں ہاتھ سے موبائل بار بار گرنے لگا۔ تب اسی کیفیت میں اللہ کو یاد کر کے حسبِ ذیل مضمون لکھ ڈالا۔

اور خاکسار کے قلم سے لکھے گئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نے طالبہ کو سیکنڈ پوزیشن کا حقدار ٹھرا دیا۔ علاوہ ازیں (بقول طالبہ) معزز جج صاحبان اور اساتذہ کرام نے "منفرد ورڈنگ" کی سپیچ کرنے پر کافی ایپری شی ایٹ بھی کیا۔
آپ بھی اس موضوع پر میری گفتگو دیکھیئے: -
جس قوم کے بچے نہ ہوں خوددار و ہنرمند
اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو

جنابِ صدر!
دیا گیا موضوع اگرچہ بے حد ضخیم ہے لیکن اس پر گفتگو کا وقت بھی قلیل ہے۔ چند ایک گزارشات و سفارشات میں موضوع سمیٹنے کی کوشش کروں گی۔ بات یہ ہے کہ اس شعر کا مقام و حرمت نہ تو ہمارے محکمہ تعلیم کو ہی معلوم ہے اور نہ ہی ہمارے سرکاری اسکِلز ڈیویلپمنٹ سیکٹر کو ہی اس کا کچھ ادراک ہے۔
ہمارے نظام تعلیم میں بنیاد سے ہی اسکِلز پر توجہ دینے کی بجائے شعر و نثر اور گرامر اور دو جمع دو پانچ کی سودی گنتی تو سکھا دی گئی۔ لیکن بچے کے کسبِ کمال اور تدریسِ ہنر کا کوئی بھی مضمون شامل نصاب نہ کیا گیا۔ نتیجتاً اوسطاً تیس برس کی عمر میں بچہ ماسٹرز ڈگری حاصل کرتا ہے۔ لیکن ملازمتی روزگار ناپید اور ہنر سیکھنے کی عمر نکل جانے کے باعث اس سے خودداری کا احساس خودبخود معدوم ہونے لگتا ہے۔
اب بات کروں ہمارے سرکاری اسکِلز ڈیویلپمنٹ سیکٹر کی۔ تو یہاں سے عالمی ڈکٹیشنز کے تابع ایک بظاہر خوشنما نعرہ تو دے دیا جاتا ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے قطعی خلاف ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت ان مسائل و حالات کے تدارک پر دھیان نہیں دیتی کہ جن کی وجہ سے مہنگائی کے دور میں والدین اپنے بچوں کو کاغذ قلم تھمانے کی بجائے ہنرمندی کی طرف لا بٹھاتے ہیں۔ اور نتیجتاً بچہ نصابی قاعدے کے حروف ابجد سے تو ناواقف رہ جاتا ہے لیکن ہنر میں اپنے شعبہ کا ماہر استاد بن جاتا ہے۔

تو جناب صدر اور معزز سامعین! اس شعر کی حقیقی عملی تعبیر پانے کے لیئے ضروری ہے کہ حالیہ برسوں میں بنے اسکِلز ڈیویلپمنٹ سیکٹر اور محکمہ تعلیم کے کارپردازان سر جوڑ کے بیٹھیں۔ اور نرسری جماعت سے ہی ہنرمندی کے ٹولز کے نام پر قاعدے تیار کر کے شاملِ نصاب کیئے جائیں۔ اگلی جماعتوں کے لیئے علم و ادب کے ساتھ عملی ہنرمندی کا نصاب بھی شامل کیا جائے۔ اور کم از کم ایک ایک ٹیچر ہر اک جماعت میں عملی و نصابی ہنرمندی سکھانے کے لیئے بھی تعینات کیا جائے۔ کہ جو بچہ بھی دسویں کی سند حاصل کر لے ساتھ میں اس کے ہاتھ میں پروفیشنل اسکلز بھی ہوں۔ کہ اسی سے قوم میں خودداری اور ہنر کا شعور راسخ ہوگا ۔

آخر میں ،میں اپنی تقریر اس بات پر ختم کرتی ہوں کہ وہ تعلیم کیسی جس میں خودداری و سربلندی کی طرف مائل کرتا ہنر نہ سکھایا جاتا ہو اور وہ ہنر ہی کیا جس میں علم و آگاہی اور دنیا سے مقابلے کی مسابقت نہ ہو۔

 

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 106795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.