خدارا پانی کو آلودہ مت کریں

اگرفرصت ملے توپانی کی تحریروں کوپڑھ لینا
ہرایک دریاہزاروں سال کاافسانہ لکھتا ہے
دنیا پانی کی شدیدقلت کا شکار ہے ماضی سے لیکرمستقبل تک کچھ بھی اس حوالے سے حل ہوتا نظرنہیں آرہااوراس اہم اشوپرکوئی توجہ نہیں دی جارہی اورترقی پذیرممالک اس کا حل تلاش کرنے کے بجائے اس کوڈھونگ قراردے رہے ہیں جس طرح پانی کو ضائع کیا جارہا ہے اوراس کے ناجائزاستعمال کے ساتھ تیزی سے پانی کو زمین سے نکالا جارہا ہے جس کا ازالہ آنیوالی نسلوں کوبھگتنا پڑے گاوقت آئے گا جب پانی کا قحط شروع ہوگااسطرح مشرقی ایران اور مشہد کے قریب دیہات پانی نہ ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پرمجبورہوئے ہیں مصراورسوڈان پانی کی قلت کی وجہ سے غلے کی کمی کا شکار ہیں میکسیکو بھی اسی خطرے سے دوچارہے بہت سے ممالک کا خیال ہے غلے کے بجائے پانی درآمدکرنا مہنگاسودا ہے کیونکہ ایک ٹن غلہ درآمدکرنا 1000ٹن پانی درآمدکرنے کے برابرہے چین نے غلے کی درآمدشروع کی تو سالانہ 5/6کروڑ ٹن سالانہ کمی کو اپنے وسیلے ذخائرسے پوراکررہا ہے ۔پاکستان کوآبی ضروریات پر حقیقت پسندانہ جائزہ لینا چاہیے اورپیدوارکو ممکنہ اضافے قطع نظردستیاب وسائل کو سامنے رکھنا چاہیے تاکہ آئندہ پاکستان کا شمار غذائی قلت کے شکار ممالک کی صف میں نہ ہویہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی کہ وسیع قابل کاشت رقبے کی دستیابی اورہنرمندکاشتکاروں کو جوکئی سالوں سے کاشتکاری سے وابسطہ ہیں اس کے باوجودپاکستان کی حکومت دوراندیشی کا مظاہرہ نہ کرنے کی وجہ سے ہمیشہ غذائی قلت کا شکاررہتا ہے عالمی ماہرین کی مطابق متعددممالک میں غربت کی بڑی وجہ دستیاب ملکی وسائل کاموزوں استعمال نہ ہونا ہے پاکستان میں پیدوارمعاشی ترقی کیلئے پانی ایک اہم وسیلہ روزگار ہے پاکستان کا نظام آب پاشی دنیا کے سب سے اچھے آبی ڈھانچوں میں شمارہوتا ہے ۔نہریں پاکستان کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے معاون ہوتی ہیں جبکہ بالائی رقبہ کا حصہ 10فیصد ہے 1947میں نہری پانی سے سیراب ہونے والاکل رقبہ 8400000(چوراسی لاکھ( ایکڑتھاجو2000میں 18090000 (ایک کروڑ اسی لاکھ نوے ہزار) ایکڑہوچکا ہے اس اضافے کی وجہ آبی ذخیروں کی تعمیراور ٹیوب ویلوں کی بڑی تعداد میں تنصیب ہے پاکستان ایساملک بن چکا ہے جوآب پاشی کاحامل رقبہ دنیا بھرسے زیادہ ہے سندھ طاس نظام 3بڑے ڈیموں ،19دریائی بیراجوں ،دریاؤں کوملانے والی 12نہروں،45بڑی نہروں ،سالانہ600000سے زائد ٹیوب ویلوں کی تنصیب18000کلومیٹرلمبائی کا حامل ڈرینج کانظام اس کے علاوہ پاکستان میں استعمال ہونے والے پانی دیہی وشہری آبادی اورصنعتون کو فراہم کیا جاتا ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی میں 2025سے2030تک 50فیصداضافہ ہوجائے گااس سے دستیاب آبی وسائل جوپہلے ہی ضروریات پوری نہیں کرتے پرمزیدبوجھ بڑھ جائے گااس کے علاوہ پانی کی طلب میں ان تحفظات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے جوکہ پانی کے گرتے معیاراورماحول ہیں۔استعمال شدہ پانی کو حیات کرنے سہولیات کی کمی ہے مگرکھارے پانی کی نکاسی کا نظام نہ صرفد دریائی نظام کو آلودہ کررہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ زرعی رقبہ کو بھی نقصان پہنچارہا ہے پانی کے مقدراور معیارکی کمی اورگراوٹ آہستہ آہستہ دریائی دلدل اورسیلابی علاقوں کی کمی اورعلاقائی ماحول کے بارے میں سنجیدہ تحفظات کوجنم دے رہی ہے پاکستان کی پانی کی پالیسی پرنیلے انقلاب کی ضرورت پرزوردیتی ہے جوکہ 21صدی کی پہلی چوتھائی میں پانی کی کمی دستیابی میں ضروری اضافے اس کی فراہمی استعمال اورمساوات کو ممکن بنائیں تاکہ ماحولیاتی صحت عامہ اورپیدواری ضروریات کو پورا کیا جائے اس سے خواراک میں پیداوار،خودکفالت ،غربت میں کمی اورماحولیاتی بگاڑپرقابوپانے کیلئے دستیاب پانی کے ہرقطرے کومحفوظ کرنا اورپانی سے زیادہ زیادہ پیداورحاصل کرنا ضروری ہے زمینی آبی ذرائع اورفروغ کے استعمال کے بارے میں ماضی میں اختیار کی گئی حکمت عملیوں نے اس قسم کے سوالوں کوجنم دیا ہے کہ وسائل کے استعما ل کا دانشمندانہ اورمتوازن طریقہ کیا ہے -

پاکستان کے نظام آب پاشی میں دریائے سندھ کا بہت بڑاکردارہے دریائے سندھ کے آبی میدان اور اس سے جڑی آبی بندرگاہیں جن کے حجم میں 1947سے اب تک دوتہائی اضافہ ہوچکا ہے ملک کی تمام زرعی پیداورتمام فصلوں کا 90%حاصل ہوتاہے سندھ طاس کا علاقہ 10,00000(دس لاکھ)میل ہے طویل آبی گزرگاہوں ،نہروں اورکھالوں کے ساتھ جو16000000(ایک کروڑ ساٹھ لاکھ( ایکڑزمین کوسیراب کرتی ہیں نہری پانی سے سیراب ہونے والا پاکستان ایشیاء کا سب سے بڑا علاقہ۔پاکستان گزشتہ 50سالوں سے زرعی پیدواربڑھانے میں کافی حدتک کامیاب ہوا ہے لیکن یہ اضافہ زیرکاشت رقبہ بڑھانے کی وجہ سے ممکن ہواہے فی ایکڑپیدواربڑھانے میں کم پیش رفت ہوئی ہے زمین کے مسلسل استعمال اورمعیاری گراوٹ کے باعث فی ایکڑپیداورامسلسل گررہی ہے شہری علاقوں میں سیم تھورکے بڑے مسائل ہیں ایک اندازے کے مطابق 70%پانی نمکین ہوگیا ہے اس وجہ سے تازہ پانی ضرورت سے زیادہ نکالنا ہے جوتھورکی وجہ بنتا ہے ۔شدیدتھورکی وجہ سے 10%رقبہ بنجرجبکہ 10%بہت کم پیداورادے رہا ہے اورخدشہ یہ بھی ہے کہ کھاداورزرعی ادویات کے غیردانشمندانہ استعمال کی وجہ سے زمینی پانی میں مزیدخرابی پیداہورہی ہے جبکہ 20%کاشت شدہ رقبہ جزوی طورپرکافی سیم زدہ ہے جس کی وجہ سے 1960اور1970کی دہائیوں میں دوبڑے ڈیموں کی تعمیرکے باوجودجن کو بنانے کا مقصدپانی کا ذخیرہ کرنااورفصلوں کوموسم کے مطابق پانی مہیاکرنا تھا85%پانی موسم گرما کی فصلوں کیلئے اور15%پانی موسم سرما کی فصلوں کیلئے ۔پانی کے انتظام کاری کا انحصارمعروضی اورعملی طریقوں پر ہے جو کئی دہائیوں سے چلے آرہے ہیں یہ طریقے اکثراوقات غیرلچکدارہوتے ہیں جوپانی کے بہتراستعمال اورفی ایکڑکے پیداوارمیں اضافے اورمسائل پربھی توجہ نہیں دیتے ۔پانی کی آلودگی کی وجہ سے صحت پرپڑنے والے اثرات کیلئے ایک سروے کے ابتدائی نتائج کے مطابق فیصل آباداورہارون آبادمیں ایک ہی قسم کا رجحان پایا گیا ہے آب پاشی کیلئے استعمال شدہ پانی استعمال کرنے والے کسان دیگرکسانوں کی نسبت بڑی آنت میں زخم کے مرض میں 5سے 6گناشکارتھے۔

پانی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسان جس طرح آگ،ہوامٹی اورپانی کا مجموعہ ہے تواس طرح پانی کے بغیرانسان کی زندگی ہی نہیں ہے اورجب ہم زندگی کے ایک عنصرکوآلودہ کریں گے تویقیناًجسم متاثرتوہوگااورویسے بھی پانی کی پاک صاف عنصرہے اورانسان کی زندگی کیلئے نہایت ضروری ہے اس لیے کہتے ہیں انسان اورپانی لازم وملزوم ہیں۔

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 8 Articles with 10697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.