بری ہونے کی وجوہات کیا ہیں ؟

اللہ پاک اپنی رحمت خاص فرماۓ میرے پیارے وطن پاکستان پر اور ہمیں درست انداز میں تعلیمات اسلام کو سمجھنے والا اور عمل کرنے والا بناۓ. آمین

جان لو جو کوئی بھی کسی غیر مسلم یا اقلیت پر ظلم کرے گا، سختی سے پیش آئے گا، انکے حقوق سلب کرے گا اور انکو انکی برداشت سے زیادہ ایذا دےگا اور انکی مرضی کے برخلاف ان سے کچھ چھینے گا،
‏میں حضرت محمدﷺ اسکے بارے میں روز قیامت شکایت کرونگا۔
‏چیف جسٹس نے فیصلے کا اختتام اس حدیث پر کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب نے آسیہ بی بی کو بری کرنے کی جو وجوہات تحریر کی ہیں وہ یہ ہیں۔
1- وقوعہ 14 جون 2009 کو پیش آیا لیکن اس کی ایف آئی آر پانچ دن بعد 19 جون کو درج کی گئی جس کی وجہ سے مقدمہ کمزور ہو گیا۔
2- اس مقدمے میں عینی شاہد معافیہ بی بی اور اسما بی بی ہیں جنہوں نے گواہی دی کہ آسیہ بی بی نے ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ ادا کیے۔ اس موقع پر 25 سے 35 کے درمیان خواتین موجود تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی گواہی دینے نہیں آیا۔
3- دونوں خواتین گواہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے ساتھ ان کا پانی پلانے پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا جبکہ دیگر گواہوں نے تسلیم کیا کہ یہ جھگڑا ہوا تھا۔
4- سب سے اہم بات یہ تھی مختلف گواہوں کے بیانات میں فرق تھا۔ جب آسیہ بی بی کا معاملہ پھیلا تو ایک عوامی اجتماع بلایا گیا جہاں آسیہ بی بی سے اقرار جرم کرایا گیا۔ یاد رہے کہ اسی اقرار جرم پر ہی ابتدائی عدالت نے ملزمہ کو موت کی سزا سنائی تھی۔ اس لیے یہ اجتماع بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک گواہ نے کہا کہ اس اجتماع میں 100 افراد شریک تھے، دوسرے نے کہا کہ اس میں 1000 افراد شریک تھے، تیسرے گواہ نے یہ تعداد 2000 بتائی جبکہ چوتھے نے 200 سے 250 کے اعدادوشمار دیے۔ ان بیانات کے فرق کی وجہ سے شکوک پیدا ہوئے اور دنیا کے ہر قانون کے مطابق شک کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔
5- اس عوامی اجتماع کے بارے میں ایک گواہ نے کہا کہ یہ اجتماع مختاراحمد کے گھر منعقد ہوا تھا۔ دوسرے نے کہا کہ یہ عبدالستار کے گھر ہوا تھا، تیسرے نے کہا کہ اجتماع رانا رزاق کے گھر ہوا تھا جبکہ چوتھے گواہ کا بیان ہے کہ اجتماع حاجی علی احمد کے ڈیرے پر منعقد ہوا تھا۔
6- اجتماع میں آسیہ بی بی کو لانے کے حوالے سے بھی گواہوں کے بیانات میں تضاد تھا۔ ایک نے کہا کہ اسے یاد نہیں کہ ملزمہ کو کون لایا تھا، دوسرے نے کہا کہ وہ پیدل چل کر آئی تھی، تیسرے نے کہا کہ اسے موٹر سائیکل پر لایا گیا تھا۔
7- اس اجتماع کے وقت اور دورانیے کے بارے میں بھی گواہوں کے بیانات میں اختلاف تھا۔
8- ملزمہ کی گرفتاری کے وقت کے متعلق سب انسپکڑ محمد ارشد کے بیانات میں تضاد پایا گیا۔
9- ملزمہ سے اعتراف جرم ایک ایسے مجمع کے سامنے کرایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ شامل تھے اور جو اسے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اسے نہ ہی رضاکارانہ بیان قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قانون کے مطابق سزائے موت جیسی انتہائی سزا کے لیے ایسا بیان قابل قبول ہو سکتا ہے۔
10- آسیہ بی بی نے قانون کے تحت جو بیان دیا اس میں انہوں نے حضور پاک ﷺ اور قرآن پاک کی مکمل تعظیم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ تفتیشی افسر کے سامنے بائبل پر حلف اٹھانے کو تیار ہے تاکہ اپنی معصومیت ثابت کر سکے لیکن تفتیشی افسر نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
فیصلہ ھوچکا ھے اور اس کے باعث تقریباً 20افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیھٹے ہیں,مکمل ہڑتال کا اعلان, اسکول ,کالج ,بازار بند ,سڑکیں بلاک ,جلوس ؤ ریلی کا موسم عروج, ملک دشمن عناصر کا مقصد عروج پر, پاکستان آرمی, عدالت, حکومت کو گالیاں دینا اہل علم بھی اپنا فرض تصور کرتے ہیں.....
اہل علم ؤ فکر کو سوچنا ھوگا کہ یہ اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں .میرا اللہ اپنی رحمت خاص فرماۓ میرے پیارے وطن پاکستان پر. آمین

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455457 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More