مقصد زندگی

یہ میرا لکھا گیا مضمون ہے جو موجودہ دور اور اپنے اصلی مقصد کی طرف رہنمائی کرتا ہے

مقصد زندگی
خالق کائنات نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اپنا نائب اور فرشتوں پر افضل بنایا اور اس کی وجہ بھی خود ہی ارشاد فرمادیا
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے (سورہ مومنون_١١-)
انسان کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے مگر اشرفالمخلوقات بنانا اور اس منصب پر فائز ہونا دو بالکل الگ چیزیں ہیں انسانوں میں انسان دراصل صرف وہی ہو سکتا ہے جو اپنے اس منصب کو پہچانے اور اس منصب کو حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی راہ میں آنے والی ہر مشکل ہر تکلیف کو ہمّت و حوصلے اور صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرے نہ صرف ان مشکلات کو برداشت کرے بلکہ بنی نو انسان کی بھلائی کے لیے بھی اک نمونے کے طور پر خود کو پیش کرے .
ابتدائے دنیا سے لے کر آج تک انگنت ایسے انسان پیدا ہوتے رہے ہیں جن کی ساری زندگی اپنے اصل مقصد زندگی یعنی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز کرنا رہی ہے ان بندگان خدا کی زندگی قربانیوں تکلیفوں اور مشکلات سے عبادت نظر آتی ہے. انبیائے کرام جن کا سلسلہ رب کائنات نے حضرت آدم علیہ السلام سے شروع فرما کر نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ختم فرمایا ان تمام برگزیدہ ہستیوں کی زندگی صرف اسی مقصد کے حصول کے لیے سرگرداں رہی کہ کس طرح انسان اپنےکھوئےہوئے منصب کو حاصل کرے اور نہ صرف یہ کہ اپنے مقصد زندگی کو پالے بلکہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کو ان کے اصل مقصد زندگی کی رہنمائی بھی فراہم کردے.
اپنے اس مقصد میں انبیاء اکرام نے جس صبر و ہمت اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا وہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے. آدم علیہ السلام اس مقصد کے حصول کے لیے بہشت سے زمین پر اتارے جاتے ہیں اور پھر ہزار سال کی معافی و التجا کے بعد بنی نو انسان پر واضح کر دیا جاتا ہے کہ انسان تیرا مقصد کتنا قیمتی ہے
نوح علیہ السلام 950 سال تک اسی جستجو میں سرگرداں رہتے ہیں کہ کس طرح انسان اشرف المخلوقات کے حاصل لقب کا عملی ثبوت بن جائے یہاں تک کہ پتھروں کی بارش میں یوں ڈوب جاتے ہیں کہ وجود گم اور عرش الہی حرکت میں آجاتا ہے اور جبریل کو حکم ہوتا ہے کہ جا نوح کو پتھروں کے بوجھ سے آزاد کر. ابراہیم علیہ السلام اس مقصد کے حصول اور تعلیم کے لیے اڑتے پرندے کو جلانے والی آگ میں چالیس دن گزارتے ہیں صرف اسی لئے کہ انسان پر واضح ہو جے اور انسان اپنے مقصد کو پہچانے اور اپنے کھوئے ہوئے منصب کو دوبارہ حاصل کرلے.
زکریا علیہ السلام اسی مقصد کی تگ ودو میں دو ٹکڑے کر دئیے جاتے، لوط علیہ السلام انسانیت کو اسی شرف سے فیضیاب کرنے کے لئے مہاجر بنتے ہیں، شعیب علیہ السلام اسی مقصد کی جنگ لڑتے ہوئے طعن و تشنیع سے گزرتے ہیں، یعقوب علیہ السلام اسی مقصد کی ترویج کرتے اپنی بینائی سے ہاتھ دھوتے ہیں، یوسف علیہ السلام اسی گوہر نایاب کے لیے مصر کے بازار میں نیلام ہوتے ہیں، موسی علیہ السلام کو یہی مقصد پانیوں میں بہاتا ہے، فرعون سے ٹکراتا ہے، اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں باہم دست وگریباں کرتا ہے.
اشرف المخلوقات کا یہی وہ عظیم مقصد تھا جس نے وجہہ کائنات وجہہ عرش فرش آقا دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جادوگر شاعر جیسے القابات سے دوچار کیا. یہی وہ معراج انسانیت تھی جس کو بندگان خدا تک پہنچانے کے لیے شعب ابی طالب کے کٹن 3 سال کے اذیت ناک سفر سے گزرنا پڑا. یہی وہ مقصد تھا جس سے بنی آدم کو روشناس کرنے کے لیے طائف کو افضل البشر کا خون اپنے جگر میں سمیٹنا پڑتا ہے. یہی وہ گوہر نایاب تھا جس سے انسانیت کو مالا مال کرنے کے لیے خیر المرسلین کو مکہ چھوڑنا پڑا.
اسی مقصد نے بدر میں گھوڑوں کی ہنکار، احد میں لاشوں کے انبار، خیبر میں جھلستی دھوپ کے انگار برداشت کرنے پر مجبور کیا. اسی محور زندگی کی گردان کرنے کو حمزہ کے جگر کو چدوایا گیا. اسی منطق انسانی کو سمجھانے کے لیے ابوہریرہ کو بھوک سے گزرنا پڑا. اسی فلسفہ زندگی کو ازبر کروانے کے لیے دندان مبارک شہید کرائے گئے. اسی گنجینہ رحمت کو پانے کے لیے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے گئے. اسی سامان زیست کو مخلوق خدا تک پہنچانے کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک دین حق کی آوازیں گونجیں. یہی وہ مقصد تھا جس نے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کو دیارغیر میں دفنایا. یہی وہ افسانہ حق تھا جس کو سناتے سناتے تاریخ اسلام کے اہل خیر مشرق ومغرب کی تہوں میں روپوش ہوگئے. یہی وہ حقیقت تھی جس سے بنی آدم کو روشناس کروانے کے لیے نعمان بن ثابت کا جنازہ جیل سے اٹھا. امام حمبل کو کوڑے کھانے پڑے، حضرت عثمان کو خون قرآن میں محفوظ رکھنے کا شرف ملا، ابوبکر کو سب کچھ لوٹا کر سب کچھ پانے کی فضیلت ملی،
انسانیت کو معراج انسانیت تک پہنچانے کے لیے زمین نے لاتعداد گوہر نایاب اپنے اندر خاموشیوں میں ڈوبتے دیکھے. یہ وہ مقصد ہی تھا جس نے عمر بن عبدالعزیز کو شہزادے سے غلام بنایا. یہی وہ راز زندگی تھا جس کو خفی و جہری رومی، رازی، غزالی، عطار گنگناتے رہے.
جب ان بندگان خدا کا جان مال وقت گھر بار بیوی بچے سب راہ حق میں قربان ہوئے تو یکایک رحمت حق کو جوش آیا اور اشرف المخلوقات انسانوں کا وہ گروہ وجود میں آیا جس نے خود پیٹ پر پتھر باندھے مگر دوسروں کو کھلایا. خود پیاسے مرے مگر دوسروں کو سیراب کیا. جواپنا سب کچھ قربان کر گئے اپنے آنے والوں کے لئے.
جنہوں نے ایسا طرز معیشت دیا کہ انڈونیشیا کے جزیروں کو کلمہ حق کہنا پڑا. جس سے ایسی معاشرت ملی کہ ماں کے روپ میں جنت، بیٹی کے روپ میں رحمت، بھائی کے روپ میں طاقت، باپ کے روپ میں سہارا اور بیوی کے روپ میں آدھے ایمان کی تکمیل ممکن ہوئی.
اسی مقصد زندگی کے پانے کے بعد ایسے حیرت انگیز وجود تاریخ نے دیکھے جنہوں نے مصنوعی چاند بنائے پانیوں میں جراثیم کے نام اور قسمیں بتائیں. آنکھ پر وہ بحث کی کہ زمانہ جدید کے سائنسدان دنگ رہ گے. تین سو کے قریب ایسی چھوٹی بڑی مشینیں بنائی جن کی بدولت جدید سائنس کا وجود ممکن ہوا، نیز جہاز، آلات جراحی، پولیس کا محکمہ، منظم فوج، ڈاک کا نظام، زکوۃ کا نظام، معیشت کا نظام، سکول، کالج ،نیورسٹیوں کا نظام وجود میں آیا. زمین پر بیٹھ کر بغیر جدید آلات آسمان کی بلندیوں میں جھانکنے والے اور پھر ان کو مختلف ناموں اور گروپوں میں تقسیم کرنے والے مقدس وجود دیکھنے کو ملے.
غرض اشرفالمخلوقات یعنی مقصد انسانی کو پانے اور پھر انسانیت کو اس مقصد کے انواروفیوض سے بہرہ مند کرنے کے بعد مالک کائنات نے انسانیت پر یہ واضح کر دیا کہ انسان کا مقصد کیا ہے اور مقصد کا حصول کس قدر اہم ہے، نیز مقصد سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے انسان کو ایک ایسا روشن راستہ بھی مہیا فرما دیا جس پر چلنے والا اس مقصد کے حصول برکات سے بیر مند ہونے کے بعد بصد احترام یہ کہ اٹھتا ہے
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰہ

الله ہم سب کو آسانیاں پیدا کرنے اور آسانیاں بانٹنے کا شرف بخشے

Muhammad Adil Khan Tanoli
About the Author: Muhammad Adil Khan Tanoli Read More Articles by Muhammad Adil Khan Tanoli: 8 Articles with 6650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.