فادر آف طالبان اور امن کے سفیر کی شہادت،لمحہ فکریہ

دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین،جمعیت علماء اسلام(س) کے سربراہ81سالہ مولانا سمیع الحق جنہیں راولپنڈی میں گزشتہ شام بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالحق کے صاحبزادے تھے۔ مولانا عبدالحق نے اکوڑہ خٹک میں ممتاز دینی مدرسہ دارلعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی۔ مولانا عبدالحق‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا غلام ہزاروی ‘ مولانا عبداﷲ درخواستی کے ہم عصر تھے۔ دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے بانی مولانا عبدالحق نے 1970 میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا انہوں نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو 1970ء کے الیکشن میں شکست دی تھی۔ مولانا عبدالحق 1970ء سے 1977ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ مولانا عبدالحق جمعیت علمائے اسلام کے اہم رکن رہے۔ مولانا مفتی محمود احمد مولانا عبدالحق اور جمعیت کے دوسرے اکابرین کی رحلت کے بعد جمعیت علمائے اسلام دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک دھڑے کی قیادت مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان کے حصہ میں آئی جب کہ دوسرے دھڑے کی قیادت مولانا سمیع الحق نے شروع کی۔ اس طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) فضل الرحمان گروپ اور جمعیت علمائے اسلام (س) سمیع الحق گروپ میں تقسیم ہوگئی۔ مولانا سمیع الحق جنرل ضیاء لحق کے دور میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن رہے۔ انہوں نے محمد خان جونیجو کی وزارت عظمی کے دوران شریعت کے نام سے ایک تنظیم ملک میں نفاذ اسلام کے مقصد کے تحت تشکیل دی۔ اس دور میں مولانا سمیع الحق جنرل ضیاء الحق کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ 17 اگست 1988ء میں جنرل ضیاء الحق کی حادثے میں موت کے بعد مولانا سمیع الحق سینیٹ کے رکن تھے وہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے قریب ہوگئے۔ 1990ء کی دہائی میں جب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہوئے تو مولانا سمیع الحق نے صدر غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا۔ اس وقت کی سیاسی کشمکش میں مولانا سمیع الحق کو بدنام کرنے کے لیے ایک سیکنڈل بھی اخبارات میں اْچھالا گیا۔ جس سے مولانا سمیع الحق اور نوازشریف کے راستے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ مولانا سمیع الحق ملکی سیاست میں بہت متحرک رہے۔انہوں نے جنرل مشرف کے دورمیں متحدہ مجلس عمل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا سمیع الحق دفاع پاکستان کونسل کے بھی سربراہ تھے۔ ان کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں تحریک طالبان کا صف اول کی قیادت کا تعلق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے رہا۔ مولانا جلال الدین حقانی جنہیں افغانستان میں طالبان گروپ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اکوڑہ خٹک کے مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ اس کے علاوہ تحریک طالبان افغانستان کے ملا عمر، اور ان کے بعد منتخب ہونے والے ملا اختر منصور بھی دارالعلوم اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تھے۔ افغان طالبان پر مولانا سمیع الحق کا اثر رہا ہے۔ پاکستان اور امریکہ نے کئی مرتبہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مصالحت کیلئے مولانا سمیع الحق کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مولانا سمیع الحق 18دسمبر 1937ء کو اکوڑہ خٹک خیبر پی کے میں پیدا ہوئے‘ ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا عبدالحق کے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں حاصل کی۔ سمیع الحق کو فادر آف طالبان بھی کہا جاتا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے 9دسمبر 2013ء کو کالعدم تحریک طالبان کے خلاف پولیو مہم کے حق میں فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ مولانا سمیع الحق نے 2013ء میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا لیکن وہ مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے اور مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کیا۔ مولانا سمیع الحق نے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق (logic)، عربی صرف و نحو (گرائمر)، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا اور 1988ء میں اپنے والداور دارلعلوم حقانیہ کے بانی مولانا عبد الحق کی وفات کے بعد ادارہ کی سربراہی سنبھالی اور اپنی شہادت تک یہ ذمہ داری سنھبالے رکھی۔ مولانا سمیع الحق ضیاء الحق دور میں 1983ء سے 1985تک مجلس شوریٰ کے رکن رہے اور بعد ازاں85ء کے عام انتخابات کے سینٹ کے رکن منتخب ہوئے اور1997ء تک سینٹ کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ بعد ازاں 2003ء سے 2009تک بھی سینٹ کے رکن رہے، مولانا سمیع الحق نے بطور سینٹر ملک میں شرعی نظام کے قیام کے لئے جدوجہد کی اور شریعت بل کے محرک بنے، مولانا سمیع الحق کو قومی ایشوز پر اتحادوں کی تشکیل کا بھی ملکہ حاصل تھا اور متعدد دینی و قومی معاملات پر ان کی کوششوں سے کئی اتحاد بھی قائم ہوئے ، افغانستان میں روسی جارحیت میں مولانا سمیع الحق اور ان کے مدرسہ کا مزاحمیتی تحریک میں نمایاں کردار رہا ، وہ ملک میں خود کش حملوں کے خلاف تھے جبکہ افغانستان میں امریکہ کیخلاف جدوجہد کرنے والے افغان طالبان انہیں اپنا استاد سمجھتے تھے۔دینی اور سیاسی رہنماؤں نے مولانا سمیع الحق کی شہادت پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ کی مذمت کی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ میں مولانا کے خاندان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہوں 8سال دارالعلوم حقانیہ میں پڑھا ہوں اس رشتے کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ اختلاف کے باوجود ان کے ساتھ ایک محبت کا رشتہ قائم تھا اور ان کے خاندان کے ساتھ بھی یہ تعلق قائم رہے گا۔ اس غم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ شہادت بڑا سانحہ ہے اور یہ کھلی دہشتگردی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مولانا سمیع الحق کی شہادت پر اظہار افسوس کیا ہے۔ حملہ آوروں اور ان کے سرپرستوں کو بلاتاخیر گرفتار کیا جائے، ملک نامور عالم دین اور مدبر سیاستدان سے محروم ہو گیا۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے مولانا سمیع الحق اور سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت نے سکیورٹی صورتحال کی قلعی کھول دی ہے۔مولانا سمیع الحق کی دینی و سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کرتے انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔ امیر جماعت الدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمدسعیدنے مولانا سمیع الحق کو قاتلانہ حملہ میں شہید کیے جانے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے وطن عزیز پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی بین الاقوامی سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو نے قتل کی مذمت کی ہے۔ جمعیت علماء اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق کی شہادت سے ملکی سیاست میں ایک شاندار باب بند ہوگیا انہیں پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے بانی کی حیثیت حاصل تھی اور وہ تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ 3 پشتوں سے ان کا خاندان پارلیمنٹ میں نمائندگی کررہا ہے ان کے والد محترم مولانا عبدالحق قومی اسمبلی کے رکن رہے بعدازاں مولانا سمیع الحق 1985ء سے 1991ء اور 1991ء سے 1997ء تک سینیٹ کے رکن رہے ان کے صاحبزادے حامد الحق قومی اسمبلی کے رکن رہے یہ بات قابل ذکر ہے جب اسلامی جمہوری اتحاد قائم ہوا تو قاضی حسین احمد کوسربراہ بنایا گیا میاں نوازشریف کے بعد مولانا سمیع الحق کی باری آئی تو وہ میاں نوازشریف کے حق میں دستبردار ہوگئے متحدہ مجلس عمل کے قیام میں ان کا بڑا عمل دخل تھا۔ مولانا سمیع الحق ہمیشہ افغانستان میں طالبان کی حمایت کی اور افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے نکلنے کا مطالبہ کیا ان کو پاکستان میں امریکہ مخالف تصور کیا جاتا تھا۔ 81 سالہ مولانا سمیع کو بزرگی کی وجہ سے سربراہی دی جاتی رہی ہے فقہ اصول‘ فقہ عربی ادب منطق (عربی) صرف نحو (گرائمر) اور تفسیر اور حدیث کا علم حاصل کیا وہ عمر بھر دینی جماعتوں کے اتحادوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ مولانا سمیع الحق کو طالبان کا ’’باپ‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ آج طالبان کی حمایت میں اٹھنے والی جاندار آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے۔

Mehr Basharat Siddiqui
About the Author: Mehr Basharat Siddiqui Read More Articles by Mehr Basharat Siddiqui: 18 Articles with 9996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.