رستے زخم

جن رشتوں کو انسان دل و جان سے چاہتا ہے ان کے دکھ کو اپنا دکھ تصور کرتا ہے جن کی معمولی سی تکلیف بھی تڑپا دینے کے لئے کافی ہوتی ہے جب ایسے رشتوں سے انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو نہ صرف دل کرچی کرچی ہوجاتا ہے بلکہ دنیا سے ہی اٹھ جانے کو جی چاہتا ہے ماں اور باپ کا رشتہ تو عظیم ہوتا ہی ہے لیکن ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بھائیوں کی محبت بھی خون میں رچ بس جاتی ہے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے ہم چھ بہن بھائی تھے بہن تو بچپن میں ہی ہم سے جدا ہوگئی جبکہ دو بڑے بھائی یکے بعد دیگر ے 1995اور 2005 کو داعی اجل کہہ گئے- اس وقت یہ تحریر لکھنے کے لئے مجھے جس ٹھیس اور تکلیف نے مجبور کیا ہے وہ مجھے ان چھوٹے بھائیوں کی جانب سے ملی ہے جن کے سکھ اور چین کے لئے میں نے اپنی ساری زندگی وقف کئے رکھی - ان کی معمولی سی تکلیف بھی مجھے پریشان کرنے کے لئے کافی تھی لیکن بڑا بھائی ہونے کے باوجود ان کا توہین آمیز رویہ ماں کے انتقال کے دن سے ہی شروع ہو چکا تھا جب انہوں نے تدفین کے حوالے سے میرے فیصلے کو پہلے رد کیا پھر کسی مصلحت کا شکار ہوکر عمل بھی کیا لیکن مجھے ان کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی اس کے باوجود میں نے ان کی جانب سے ہمیشہ دل صاف ہی رکھا-

چھوٹے بھائیوں کے ہاتھوں اذیت اور تکلیف کا ایک اور موقع اس وقت آیا جب ماں کے چہلم کے انتظامات کے حوالے سے انہوں نے مجھے اعتماد میں لینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی - ایک دن میں نے جب انہیں اس مقصد کے لئے گھر بلاکر چہلم کے انتظامات کے حوالے سے گفتگو شروع کی تو انہوں نے یہ کہہ کر میرے دل کو ٹھیس پہنچائی کہ تمام انتظامات مکمل ہوچکے ہیں آپ اپنے سسرال میں سے دو تین لوگوں کو چہلم میں بلوا لیں میں نے باقی مدعوین کے بارے میں دریافت کیا تو ملتان ‘ ساہیوال اور عارف والا سے بے شمار مہمانوں کے گنوا دیئے گئے گویا انہیں اس بات کااحساس نہیں تھا کہ بڑے بھائی ہونے کے ناطے مجھ سے انتظامات کے ساتھ ساتھ مدعو کئے جانے والے مہمانوں کے حوالے سے مشورہ کرلیا جاتا اور باہمی مشورے کے مطابق ہی تمام انتظامات کئے جاتے - ان کی جانب سے یہ رویہ میرے لئے انتہائی توہین آمیز تھا میں نے جب غصے کے عالم میں انہیں کہا کہ ٹھیک ہے آپ خود ہی چہلم کا ختم دلوا دیں میں اس میں شریک نہیں ہوں گا تو دونوں کے چہروں پر افسردگی چھا گئی بلکہ اشرف کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیگم نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مجھے زیادہ جذبات میں آنے سے روک دیا لیکن بھائیوں کے اس ناروا رویے کی وجہ سے میرا دل پہلے ٹوٹ چکا تھا جس کی کرچیاں اور بکھر گئیں -

سچی بات تو یہ ہے کہ انہیں میں اپنا سگا بھائی تو کہتا ہوں لیکن ان کے دل میں میرے لئے زیادہ محبت نہیں ہے بلکہ ماں کی زندگی میں اور بعد میں بھی میں ہی ان کے گھر بچوں کو ملنے جاتا رہا ہوں انہیں میرے گھر آنے اور بیماری کی حالت میں میرا حوصلہ بڑھانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی -

اس باوجود کہ میری نس نس میں ان کی اور ان کے بچوں کی محبت اس قدر سرایت کرچکی تھی کہ میں ہفتے میں دو تین مرتبہ ان کے ہاں ضرور جاتا رہا اور بچوں سے گھل مل کر اپنی چاہت کی پیاس بجھاتا رہا ۔ حالانکہ بیگم کئی مرتبہ کہہ چکی تھی کہ جب وہ آپ کے گھر نہیں آتے تو آپ بڑے ہوکر کیوں جاتے ہیں اس کے جواب میں ‘ میں صرف یہی کہتا ہوں کہ میرے دل میں ان کی اور ان کے بچوں کی محبت موجزن ہے اس لئے میں مجبور ہوں کہ انہیں ملے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا وہ میرے بغیر زندگی گزار سکتے ہیں اس لئے وہ میرے گھر نہیں آتے -بہرکیف اس بات کو میں نے دل سے نکال دیا تھا اور ہفتے میں دو تین مرتبہ پھر بھی میں ان کے گھر جاتا رہا بچوں سے خوب والہانہ محبت کا سلسلہ جاری رہا -

وقت یونہی گزرتا رہا ایک دن حیرت انگیز طور پر مجھے بیگم کی زبانی یہ خبر سننے کو ملی کہ آپ کے بھائی والدین کا گھر فروخت کررہے ہیں میں نے اس بات کو سنی ان سنی کردیا کیونکہ مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ میری مشاورت کے بغیر اتنا بڑا اقدام اٹھا لیں گے لیکن اس کے چند دن بعد مجھے یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ باقاعدہ ویگن میں گھر کے سارے افراد بیٹھ کر شاد باغ کی جانب نیا مکان دیکھ آئے ہیں ۔یہ سنتے ہی صدمے اور غم کا پہاڑ ایک بار پھر مجھ پر آگرا اور سارا دن دل ہی دل میں روتا رہا کہ جن بھائیوں کو اپنی محبت اور فرماں بردار ی سے میرے دکھوں کا مداوا کرنا چاہیئے کہ بڑا بھائی کانوں کے مرض میں مبتلا ہوکر سخت ذہنی اذیت کا شکار ہے - جن بھائیوں اور ان کے بچوں کی فلاح اور بہتری کے لئے ہر وقت میرا دماغ سوچتا رہتا ہے ۔ انہی بھائیوں نے زندگی میں ہی مجھ سے اس حد تک قطع تعلق کرلیا ہے کہ مجھ سے مکان کی فروخت کے حوالے سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کی - بار بار دل میں ایک ہوک بن کے یہ خیال اٹھتا اور دل و دماغ کو شدید نقصان پہنچا کر کہیں وسعتوں میں کھو جاتا ۔ صدمے غم اور پریشانی اٹھتی ہوئی ان لہروں نے صرف اور صرف ایک دن میں مجھے نہ صرف نڈھال کرکے رکھ دیا بلکہ میں خود کو اس دنیا میں غیر ضروری تصور کرنے لگا مجھے اس بات کا علم نہیں کہ میں نے جن رشتوں کو دل و جان سے محبت کی ہے جن کے بارے میں میرے دل بہت محبت ہے وہ کیوں مجھ سے محبت نہیں کرتے چھوٹے بھائی مجھ سے جو رویہ رکھ رہے ہیں اس کی مجھے توقع نہیں تھی پھر میرا دل اس سوچ میں غرق ہوجاتا ہے کہ شاید میں بھائیوں کی جانب سے اسی سلوک کا حق دار ہوں سچ تو یہ ہے کہ رہ رہ کے مجھے ان چھوٹے بھائیوں کا رویہ پریشان کرتا رہا کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہوتا رہا کہ میں اس دنیا میں مس فٹ ہوں اس دنیا کو میری ضرورت نہیں اس لئے مجھے اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جانا چاہیئے - پھر اپنے بچوں کا خیال آجاتا کہ ان کا قصور کیا ہے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے جی لیتے ہیں اس لئے مجھے ہر حال میں زندہ رہنا چاہیئے -

یہاں عرض کرتا چلوں کہ جس مکان کو میرے چھوٹے بھائی فروخت کرنے کی اس لئے جستجو کررہے ہیں کہ کوئی ان سے حصہ نہ مانگ لے و ہ نہایت غلطی پر ہیں ماں کی زندگی میں ہے میں نے ماں کو بتا دیا تھا کہ والد کے ورثے میں تمام بھائیوں کا حصہ ہمارے مذہب نے مخصوص کررکھا ہے اس لئے مجھ سمیت کوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ہاں اگر کوئی خود اپنا حصہ چھوڑنے پر رضا مند ہو تو وہ الگ بات ہے دونوں بڑے بھائی جو فوت ہوچکے ہیں ان کے بچے تو اپنے والد کے حصے کے حق دار ہیں جبکہ میں خود بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اپنا حصہ معاف کردوں۔ قرض اور مالی پریشانیوں نے مجھے بھی چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جب میں مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو نہیں کوستا -

مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے ان نادان بھائیوں سے کیا بات کروں اور کس طرح انہیں یہ احساس دلاؤں کہ زندگی میں ہی اس بڑے بھائی کو تم فراموش کرتے جارہے ہو اور زندگی کے تمام چھوٹے بڑے فیصلے خود ہی کرنے لگے ہو ‘ مرنے کے بعد میں تم سے کیا توقع رکھ سکتا ہوں دوسری جانب میں انہیں کسی بھی طرح کھونا نہیں چاہتا کیونکہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے یہ دونوں بھائی ہی میری آنکھوں کی ٹھنڈ ک اور دل کا سکون ہیں میں انہیں دیکھتا ہوں تو مجھے نئی زندگی مل جاتی ہے ان کے پیارے پیارے بچوں سے کھیلتا ہوں زندہ رہنے کی نئی امنگ جاگ اٹھتی ہے حقیقت تویہ ہے کہ میں ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن اﷲ تعالی نے ان کو نہایت سخت دل پیدا کیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دل میں نہ تو میری محبت ہے اور نہ ہی عزت - وہ خود پرست لوگ ہیں اور اپنی ہی ذات اور بیوی بچوں سے محبت کو زندگی کا مقصد تصور کرتے ہیں انہوں نے اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں سے مجھے تنکوں سے بھی ہلکا کرکے رکھ دیا ہے -

بڑے بھائیوں کے بیوی بچوں نے مجبور کیا کہ کوئی اقدام اٹھانے سے پہلے تمام باہم مل کر چھوٹے بھائی ارشد اور اشرف سے بالمشافہ بات کرلی جائے ہوسکتا ہے وہ اپنے رویے پر نادام ہوجائیں اور معاملہ بگڑنے سے پہلے ٹھیک ہوجائے میں چونکہ بھائیوں سے ہر حال میں سمجھوتہ کرنا چاہتا تھا اس لئے میں رضامندی کا اظہار کردیا چنانچہ اس مقصد کے لئے ایک اتوار کا تعین کیاگیا جب بڑے بھائی کی بیگم ارشاد بیگم بیٹا اعجاز حیدر ‘ بھائی اکرم کی بیگم بھابی روقیہ ان کے صاحبزادے ندیم ‘ وسیم ‘ نعیم سمیت میں اور میری بیگم عابدہ بھی والدہ کے گھر پہنچے لیکن اس سے چند گھنٹے قبل مجھے بھائی ارشد کا فون موبائل پر موصول ہوا کہ آپ گھر کیوں نہیں آرہے ہیں میں نے موبائل پر کسی قسم کی بات کرنے کی بجائے اسے کہا کہ آج شام کو میں آرہا ہوں غالبا وہ مجھے اکیلا ہی بلانا چاہتے تھے اس امر کا بعد میں مجھے احساس ہوا جب میں والدہ کے گھر پہنچا تو وہاں پہلے سے ارشد کی ساس ( میری چچی ) اور ان کی والدہ بھی ملتان سے گھر میں تشریف لائی ہوئی ہیں میں سمجھ نہیں پایا کہ انہیں یہاں دانستہ کیوں بلایا گیا ہے لیکن جب بات شروع ہوئی تو انہوں نے توقع کے برعکس بحث و تمحیض میں بھر پور حصہ لیا بلکہ مجھے مجبور کیا کہ میں اور باقی بھائیوں کے بچے اپنے اپنے حصے سے دستبردار ہوجائیں اور یہ مکان جو چالیس سے پنتالیس لاکھ روپے کا ہے دونوں بھائیوں کو دے دیا جائے اس تصور کو نہ قرآن پاک مانتا ہے اور نہ ہی ملکی قانون لیکن میرے بھائی پانچ روپے کے اسٹامپ پیپر پر والد صاحب کی جانب سے لکھی ہوئی ایک تحریر کو بنیاد بنا کر اس بات پر بضدہیں کہ یہ مکان ماں باپ نے ان کے نام لکھ دیا ہے اس لئے وہی اس کے حقیقی وارث ہیں جبکہ وہ باقی بھائیوں اور ان کے بچوں کو ایک پیسہ بھی دینے کو تیار نہیں - میں نے ان کو قرآن پاک کی تفسیر بھی پڑھ کر سنائی اور امام حضرت احمد رضا بریلوی ؒ کا فتوی بھی سنایا جس میں یہ بات صاف انداز میں لکھی ہوئی تھی کہ باپ اپنے اولاد کو عاق بھی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ حق اﷲ تعالی نے باپ کے ورثے میں سے اولاد کو سورہ النسا کے ذریعے دے دیا ہے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی بلکہ یہاں تک لکھا کہ اگر باپ کے ورثے سے حصہ نہ لینے والا بھی گنہگار ہوگا اگر وہ نہ لینا چاہے تو حصہ لے کر کسی مستحق یا غریب کو دے دے لیکن حصہ لینے کا حقدار ہر صورت میں ہے میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ یتیم کا مال کھانے والا اپنے پیٹ میں آگ بھرتا ہے اﷲ تعالی کو یہ بات پسند نہیں ہے جب میں یہ تحریر پڑھ کر سنا رہا تھا تو سب چھوٹا بھائی ارشد جس کو میں نے گود بھی کھلایا ہے اس نے نہایت تلخ انداز میں کہا آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہیں حدیثیں اور تفسیر نہ پڑھیں ۔ اس پر میں نے کتابیں بند کرکے دونوں بھائیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میرے فیصلے کے مطابق والد کا مکان پانچوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہونا چاہیئے اور دریافت کیا کہ اب تک اس مکان کی قیمت کہاں تک لگ چکی ہے اس پر ارشد نے کہا کہ ہم مکان بیچنا ہی نہیں چاہتے میں نے کہا کہ جب آپ نے مکان فروخت کرنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو اب اسے فروخت کریں اور سب بھائیوں کو برابر کا حصہ دیں جو ان کا قرآن اور حدیث کی رو سے بنتا ہے اس دوران ارشد کی ساس یعنی میری چچی بھی میدان میں کود پڑی اور کہنے لگی کہ تم سب لوگ اکٹھے ہوکر چھوٹے بھائیوں کو گھر سے نکالنے کے لئے آئے ہو میں نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نکالنے کے لئے نہیں آئے بلکہ مکان فروخت کرنے کا فیصلہ انہوں نے خود کیا ہے اب اگر وہ مکان فروخت کریں گے تو حصے دار تو حصہ مانگیں گے میں نے کہا کیا ہمارے باپ نے اپنے والد کی جائیداد سے حصہ نہیں لیا کیا ہمارے چچا نے اپنا حصہ معاف کردیا تھا لیکن چچی کا اصرار تھا کہ باقی تینوں بھائی اور ان کے بچے اس مکان کی ملکیت سے دستبردار ہوجائیں اور یہ مکان صرف اشرف اور ارشد دونوں کے پاس رہے وہ اسے فروخت کریں یا نہ کریں یہ ان پر منحصر ہے - بہرکیف جب چچی کی جانب سے اپنے داماد کی طرف داری کی گئی تو ہماری بیگمات نے بھی تلخ لہجے میں باتیں کیں جو نہیں کرنی چاہیئے تھیں ۔میں نے معاملے کو احترام کی حد سے نکلنے نہیں دیا لیکن دونوں بھائیوں نے یہ کہتے ہوئے بات کو ختم کردیا کہ ہم مکان کے مالک ہیں آپ نے جو کرنا ہے کرلیں -

اس کے ساتھ ہی سب لوگ اٹھ کر گھر سے نکل آئے اور باہمی مشورے کے لئے قریب ہی بھائی اکرم کے گھر پہنچ گئے تمام اس بات پر زور دے رہے تھے اب معاملہ ہر صورت عدالت میں لیجانا ہی پڑے گا جبکہ میری کوشش تھی کہ معاملہ یہاں ہی ختم ہوجائے لیکن صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس کی امید نہیں کی جاسکتی تھی میری بیگم سمیت تمام نے باہم مل کر مجھے پابند کردیا کہ میں تنہا ان کے گھر نہیں جاؤں گا کیونکہ سب کو خدشہ تھا کہ اگر میں اکیلا بھائیوں کے گھر گیا تو وہ مجھے اپنی اور اپنے بچوں کی محبت کے سہارے وارثتی حصہ سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرلیں گے - بہرکیف ملاقات کے بعد بھی میں نے ڈیڑھ مہینے تک انتظار کیا کہ شاید خون کی گرمی اور محبت ان پر غالب آجائے لیکن وہ دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن رہے -

حسن اتفاق سے اس دوران خواب میں والد اور والدہ دونوں سے باری باری وصیت نامے کے بارے میں گفتگو بھی ہوئی میری گفتگو سن کر دونوں خاموش رہے لیکن اگلے خواب میں ماں نے ایک بڑی سی روٹی لا کر مجھے تھما دی اور حکم دیا کہ میں اسے چھوٹے بھائی ارشد کو نہ دوں میں التجا کررہا تھا کہ اگر میں نے اسے روٹی نہ دی تو وہ بھوکا رہ جائے گا لیکن ماں کا اصرار تھا اسے بھوکا ہی رہنے دیا جائے مجھے نہیں علم کہ اس خواب تعبیر کیا تھی لیکن مجھے یہ محسوس ہوا کہ ماں ان کے رویے سے خفا ہے بلکہ ماں نے خواب کی حالت میں یہ بھی مجھے بتایا کہ اشرف کے توہین آمیز رویے کی وجہ سے میں نے خود اپنی موت کی دعا مانگی تھی ۔

بہرکیف جون2008 کا مہینے شروع ہونے کے ساتھ ہی ماں کی برسی کا اہتمام ہونے لگا اس حوالے سے میں پروگرام بنایا کہ کیونکہ ماں کی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے ایک شایان شان پروگرام ترتیب دیا جائے اس پروگرام کے انعقاد کا فیصلہ میرا ذاتی تھا بلکہ میرے خاندان کے لئے یہ انوکھی بات تھی ۔میرا نقطہ نظر اس سے یکسر مختلف ہے میں سمجھتا جہاں میں مرنے والے کے لئے قرآن پاک اور دیگر ذکر اذکار کو جمع کرکے ان کے ایصال ثواب کے لئے بخشنا چاہیے وہاں مرنے والے کی یادوں کو تازہ کرنا ان کی اچھی باتوں کا ذکر بھی نہایت ضروری ہے - اس بات کا میں اقرار کرتا ہوں کہ میری ماں دنیا کی کوئی عظیم عورت نہیں تھی اور نہ ہی اس نے ملک و قوم کے لئے کوئی کارنامہ انجام دیا تھالیکن چونکہ مجھے اپنی ماں سے والہانہ محبت تھی اور اب بھی ہے اس لئے میری یہ خواہش تھی کہ میں ان سے وابستہ یادوں کو عام کرنے کے لئے ایک ایسے شایان شان پروگرام کا اہتمام کروں جس میں نہ صرف میرے عزیز و اقارب بلکہ وطن عزیز کی قابل فخر اور قابل ذکر شخصیات تشریف لائیں اور میری ماں کے حوالے سے گفتگو بھی کریں چونکہ اس پروگرام کی کوریج اخبارات کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز پر ہونی تھی اس لئے معاشرے میں ماؤں کے حوالے سے محبتوں اور چاہتوں کو عام کرنے کا باعث بھی یہ پروگرام بن سکتا تھا -

بہرحال میں نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنی ماں کے حوالے سے پروگرام کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور جو دعوتی کارڈ پرنٹ کروائے اس میں ماں کی تصویر اور ان کی عظمت کا اظہار بھی موجود تھا میں اس دعوتی کارڈ پر اپنے دونوں بھائیوں کا نام متمنی شرکت کے حوالے سے سب سے پہلے لکھا تاکہ انہیں اس تقریب کی اہمیت کا احساس ہو لیکن حیرت انگیز طورپر جب پروگرام 14 جون 2008 کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج قذافی سٹیڈیم میں منعقد ہوا تو دوسرے لوگ چل کر میری ماں کے پروگرام میں آگئے لیکن اس کے دونوں چھوٹے بیٹے ارشد اور اشرف نہ آئے ۔بہرکیف پروگرام انتہائی کامیاب رہااور ملک کی ممتاز شخصیات (جن میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر رفیق احمد ٗ ممتاز صحافی مجیب الرحمان شامی ٗ آغا امیر حسین ٗ افتخار مجاز ٗ قاضی جاوید ٗ ممتاز افسانہ نگار فرخندہ لودھی ٗ اور ڈاکٹرایم اے صوفی شامل ہیں )پروگرام میں شرکت کے لئے آئیں اور میری ماں کے جذبہ ایثار اور محبت کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔اخبارات اور ٹی و ی چینلز پر اس کی شاندار کوریج بھی ہوئی لیکن یہ سب کچھ صرف مجھ تک محدود تھا میرے ان چھوٹے بھائیوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ ماں اور باپ کے مکان پرقابض ہوچکے تھے لیکن انہیں والدین کی محبت میں چند الفاظ کہنے بھی گوارہ نہ ہوئے ۔

بہرکیف دلوں میں پیدا ہونے والی دوریاں اپنے پر پھیلاتی رہیں ہم لوگ اس انتظار میں تھے کہ شاید وہ سمجھوتے کی جانب اجائیں لیکن جب اس واقعے کو بھی چھ ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا تو مجبور سب کے مشورے سے سول کورٹ میں جائیدار کی وراثت کا مقدمہ دائر کردیاگیا اب مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن ایک دن میرے بنک میں چھوٹے بھائی اشرف سے ملاقات ہوگئی میں نے نہایت محبت کے ساتھ اسے اپنے پاس بٹھایا چائے اور بسکٹ کھلائے پھر اپنی ناسازی طبع کے بارے میں بتایا کہ گھٹنوں کے درد اورکانوں میں قوت سماعت کی کمی نے پریشان کررکھاہے لیکن مجھے اس وقت بھتیجے کلیم کی زبانی یہ سن کر نہایت دکھ ہوا کہ میری تمام باتیں بھائی اشرف نے اپنے گھر جاکر اپنی بیگم نسرین کو بتائیں تود ل میں ہمدرد ی کے جذبات پیدا ہونے کی بجائے اس کی زبان سے یہ الفاظ سننے کو ملے کہ بڑا بھائی موت کے کنارے پر بیٹھاہوالیکن پھر بھی جاائیداد کا حصہ مانگ رہاہے گویا میں نے اپنا اور اپنے مرحوم بھائیوں کے بچوں کا حق مانگ کر غلطی کی ہے ۔

حالانکہ اب مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس مقدمے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے اورکب ہوتاہے لیکن ایک بات ہوک بن کے دل سے نکلتی ہے کہ چھوٹے بھائیوں کے توہین آمیز رویوں نے میرے دل پروہ زخم لگائے ہیں جن کا بھرنا شاید زندگی میں ناممکن ہوجائے حالانکہ میں زندگی کے ہر لمحے انہی کے بارے میں سوچتا رہتا تھالیکن اب میں نے بھی اپنے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ لیاہے کہ جس قسم کا رویہ مستقبل میں وہ میرے ساتھ روا رکھیں گے مجھے بھی ویسا ہی پائیں گے ۔ اگر انہیں میرا احساس نہیں ہے تو میں ان کا احساس کرکے کیا کروں گا ۔ لیکن دکھ اور تکلیف کے ان لمحات میں یہی کہاجاسکتاہے کہ انہوں نے اپنے بے رحمانہ اور ناروا رویے سے میرے دل پر وہ زخم لگائے ہیں جو زندگی کی آخری سانس تک رستے ہی رہیں گے ان زخموں پر مرحم کوئی اورنہیں رکھ سکتا ۔

ویسے تو بے وفائی کے اعتبار سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی مشہور ہیں جنہوں نے والد کی نصیحت کے باوجود حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ ایسا توہین آمیز رویہ اختیار کیا جس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔کچھ ایسا ہی رویہ میرے بڑے اور چھوٹے بھائیوں نے مجھ سے روا ۔ زندگی میں میرے پانچ آپریشن ہوئے میں کئی کئی دن ہسپتال میں تکلیف سے کراہتا رہا لیکن میرے بھائیوں کو ہسپتال کاراستہ ہی دکھائی نہیں دیا وہ مجھے فراموش کرکے اپنی دنیا میں ہی مگن رہے اور میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھاتے ہوئے اپنوں کی راہ دیکھتا رہا ۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر مجھے گھر آئے ہوئے بھی کئی ہفتے گزر چکے تھے تب کوئی کسی بھائی کو میری خیریت دریافت کرنے کی فرصت ملی ۔

اﷲ تعالی نے مجھے عمرے کی سعادت بھی عطا فرمائی ۔روانگی کے وقت میری اہلیہ کے تمام رشتے دار ہمیں الوداع کرنے کے لیے میرے گھرمیں جمع تھے لیکن میرے خاندان میں سے کوئی ایک فرد نے بھی ہمیں الوداع کرنے کی زحمت گوارا نہ کی ۔ میرے برادر نسبتی مشتاق احمد خان نے بلند آواز میں کہا ۔لودھی صاحب ہم تو اپنی بہن کو الوداع کرنے کے لیے آپ کے گھر جمع ہیں آپ کے بھائی اور بھتیجے کہاں ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کے ان کے یہ الفاظ میرے دل میں اتر گئے اور میں پیشمان تھا کہ کیا میرے بھائی اور بھتیجے اس قدر بے رحم اور مصروف ہوگئے ہیں کہ انہیں غمی اور خوشی میں شریک ہونے کی بھی فرصت نہیں ملی ۔ دل ہی دل میں سوچا کہ شاید ان میں سے کوئی ائیرپورٹ پر پہنچ جائے لیکن ہم اڑھائی گھنٹے ائیرپورٹ پر موجود رہے دور دور تک کسی بھائی اور بھتیجے کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہوئی ۔ پندرہ دن ارض مقدس رہنے کے بعد جب ہم واپس آئے تب پھر کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ مبارک باد دینے ہی گھر آجائے ۔ میرے سسرالی رشتوں اور دوستوں نے اپنی محبتیں نچھاور کرنے کا حق اداکردیا ۔ کئی دوست تو ایسے بھی تھے جنہوں نے کرنسی نوٹوں کے ہار میرے گلے میں ڈالے اور مبارک باد دی ۔میرے اپنے یہاں بھی منظر سے غائب تھے ۔

باتیں تو بے شمار ہیں لیکن پیٹ سے پردہ اٹھانے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے ۔ میں ہرگز یہ آرٹیکل نہ لکھتا لیکن جب دل خون کے آنسو ررو رہا ہو تو پھر قلم کہاں رکتا ہے ‘ میں اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہوں ۔ یہ مضمون اس لیے لکھاہے کہ مرنے کے بعد میرے بچوں کو اپنے خاندان کے بارے میں آگاہی حاصل ہو۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.