عظیم پاکستانی بلے باز ‘ کامیاب کپتان اور بہترین چیف سلیکٹر - انضمام الحق

انضمام الحق پاکستان کا ہی نہیں دنیائے کرکٹ کا عظیم بیٹسمین ہے ۔ کرکٹ کی تاریخ ان کے کارناموں کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے - وہ پا کستان کے مشہور شہر اور اولیا اﷲ کی سرزمین ملتان میں 3 مارچ 1970 میں پیداہوئے پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں ایک مذہبی اور سید گھرانے سے تعلق کی بنا پر مذہب کی جانب رجحان بہت زیادہ ہے آپ کے والد پیر انتظام الحق ایک نیک اورصالح انسان ہیں ۔ آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے شہر ہسار سے ہے جہاں آپ کے خاندان کے بزرگ پیری مریدی کیا کرتے تھے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے اول خلیفہ اور تحصیل ہانس کے مشہور بزرگ پیر جمال الدین ہانسی سے آپ کا خاندانی شجرہ ملتا ہے تقسیم ہند کے بعد آپ کا خاندان ابتدائی طور پر اوکاڑہ میں مقیم ہوا لیکن یہاں کالج نہ ہونے کی بنا پر تعلیمی سہولتوں کا فقدان تھا چنانچہ 1960 میں مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے خاندان کے بڑوں نے ملتان میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ملتان پہنچ کر بھی آپ کے بزرگوں کے رہن سہن میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی۔ پیری مریدی کا سلسلہ یہاں بھی جاری و ساری رہا ۔ بچپن میں انضمام الحق کو پتنگیں اٹھانے اور فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔ دوستوں کی رفاقت میں نہر میں اکٹھے نہانا بھی آپ کے پسندیدہ مشاغل میں شامل رہا ۔ راستے میں آم کے باغات پڑتے تھے مالی کی گرفت سے محفوظ رہ کر وہاں سے آم توڑ نے کا کام بھی معمول بن چکا تھا انضمام الحق بچپن میں دوڑ میں اتنے پھرتیلے تھے کہ کبھی مالی آپ کو پکڑ نہیں سکا لیکن جب سنجیدگی سے کرکٹ کھیلنا شروع کی تو پتنگیں اڑانا اور باقی شرارتیں بھی چھوڑ گئیں آپ پڑھائی میں زیادہ ذہانت کا مظاہرہ نہ کرسکے کیونکہ کھیل کود اور شرارتوں میں ہی زیادہ وقت گزرتا تھا میٹرک تک صرف یہی بات ذہن میں پختہ تھی کہ کھیلنا کودنا ہی زندگی ہے لیکن بعدازاں یہ احسا س پختہ ہواکہ تعلیم کے بغیر کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ کھیل اور کود اضافی باتیں ہیں آپ کے خیال میں بچپن کا کوئی نعم البدل نہیں ہے انسان اپنے بچپن کی یادوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا کیونکہ بچپن میں انسان تمام فکروں سے آزاد ہوتاہے لیکن جونہی سن بلوغت کو انسان پہنچتا ہے تو ذمہ داریوں کا بوجھ انسان کی شرارتیں اور غیر سنجیدہ پن ختم کردیتا ہے۔ زمیندار اور پیروں کے گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے کرکٹ کھیلنے میں والدین کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی لیکن نماز پڑھنے کے لئے والدین کی جانب سے سختی اپنی جگہ موجود رہی ۔

یہ بھی ایک سوال ہے کہ انضمام الحق کو کرکٹ کھیلنے کا شوق کیسے پیدا ہوا اس کے جواب میں انضمام الحق کہتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی انتظار الحق فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل چکے ہیں وہ روزانہ رنگ برنگی ٹی شرٹس اور ٹریک سوٹس پہن کر پریکٹس کرنے جایا کرتے تھے انہیں دیکھ کر انضمام کو کرکٹ کھیلنے کا شوق پیدا ہوا تو انہوں نے کمبائنڈ کرکٹ کلب ملتان کو جوائن کرلیا بعدازاں آپ گورنمنٹ مسلم ہائی سکول کی طرف سے بھی چار سال تک کھیلتے رہے سکول کے سپورٹس انچارج ٹیچر مہر حق کی محنت اور کاوشوں کی بدولت کرکٹ کے شعبے میں آپ کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوا۔ کمبائنڈ کرکٹ کلب نے جب آل ملتان کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تو سلو لیفٹ آرم باؤلر کی حیثیت سے عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کرنے پر آپ کو ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ۔

اس کے بعد آپ کو فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کاموقع میسر آیا تو بطور اسپین باولر فرسٹ کلاس سیزن میں انہوں نے 32 وکٹیں حاصل کیں پھر جب منٹو پارک لاہور میں ٹیسٹ ائمپائر میاں محمداسلم کی کوچنگ میں کرکٹ کیمپ لگایا گیا تو ان کی ہدایت پر انضمام الحق نے صرف بیٹنگ پر ہی اپنی پوری توجہ مرکوز کردی۔ لیکن انضمام الحق کی زندگی کا ٹریننگ پوائنٹ یوتھ سنٹر کراچی کے خلاف پہلا فرسٹ کلاس میچ تھا جس میں نہ انہوں نے سنچری سکور کیا بلکہ مسلسل تین میچوں میں تین سنچریاں بنا ڈالیں اس کے باوجود کہ ابتدائی 87 کھلاڑیوں کی فہرست میں انضمام الحق کا نام شامل نہیں تھا ٗ عمدہ کارکردگی کی وجہ سے انضمام الحق کو آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے یوتھ ورلڈ کپ کے لئے سلیکٹ کرلیا گیا ۔ پاکستان یوتھ ٹیم کے ہمراہ انضمام الحق کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا ۔ مشتاق احمد ٗ باسط علی اور عاقب جاوید بھی اسی ٹیم میں شامل تھے یوتھ ورلڈ کپ میں پاکستان کی طرف سے انضمام الحق نے سب سے زیادہ سکور بنائے جبکہ باؤلنگ میں مشتاق احمد نے ٹاپ کیا ۔

یہ انضمام الحق کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ا انہیں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کرلیا جائے گا لیکن انہوں نے کرکٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اور آل ٹائم گریٹ کرکٹر عمران خان اور ویون رچرڈ کو اپنی نگاہوں میں بسا کر بیٹنگ میں محنت شروع کردی حسن اتفاق سے قومی ٹیم میں انضمام الحق کی آمد کا سبب بھی عمران خان ہی بنے جن کی بہترین کوچنگ نے انضمام الحق کی صلاحیتوں کو عروج پر پہنچا دیا اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ مسلسل دو تین ڈومیسٹک سیزنوں میں انضمام الحق سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے اس کے باوجود سلیکٹرز نے انضمام الحق کو نظر انداز کردیا لیکن وقار یونس اور مشتاق کے کہنے پر انضمام الحق کو عمران خان نے لاہور بلوایا عمران خان سے پہلی ملاقات لاہور میں ان کے گھر
پر ہی ہوئی جب انضمام الحق نے عمران کے سامنے بیٹنگ کا ٹرائل دیا تو نروس ہونے کی وجہ سے اقبال سکندر کی باولنگ پر دومرتبہ کلین بولڈ بھی ہوئے لیکن وقار یونس اور مشتاق احمد کی جانب سے ملنے والی حوصلہ افزائی نے انضمام الحق کی ہمت بندھائی ۔جبکہ عمران خان بھی انضمام الحق کی بیٹنگ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اس ٹرائل کے دو ماہ بعد یعنی 1984-85 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئی تو انضمام الحق کو پاکستانی ٹیم میں شامل کرلیا گیا ۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف انضمام الحق نے اپنے کیریئر کا آغاز بحیثیت اوپنر کیا اور پہلے ہی میچ میں 60 رنز بنائے جبکہ لیفٹ آرم سلو باولر سب سے پہلی وکٹ بھی برائن لارا کی حاصل کی ۔دوسرا میچ جو انضمام الحق کی ہوم گراؤنڈ ملتان سٹیڈیم میں تھا انہوں نے شاندار سنچری بنائی جبکہ راولپنڈی میں کھیلے جانے والے چوتھے ون ڈے میچ میں بھی سنچری سکور کیا ۔ دنیائے کرکٹ میں انضمام الحق کی کامیابیوں کا انحصار ارادے کی پختگی ٗ انتھک محنت ٗ لگن ٗ تحمل اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ پرسکون انداز میں بیٹنگ کرنے پر ہے جو انضمام الحق کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ دنیا کا یہ عظیم بلے باز جب میدان کرکٹ میں بیٹنگ کے جوہر دکھا رہا ہوتاہے تو مخالف باولروں پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے لیکن یہی انضمام الحق جب گراؤنڈ سے باہر ہوتا ہے تو اس کی سحر انگیز گفتگو دوسروں کو اپناگرویدہ بنا لیتی ہے ۔ آپ کے ہم عصر بلے بازوں میں سچن ٹنڈولکر اور برائن لارا شامل ہیں اور کرکٹ کی تاریخ انضمام الحق ٗ سچن ٹنڈولکر اور برائن لارا کو اپنے دور کے عظیم بلے باز تسلیم کرتی ہے لیکن مختلف حالات میں بیٹنگ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو انضمام الحق کو اپنے ہمعصر بلے بازوں پر نمایاں برتری حاصل ہے ۔بے شمار مواقعوں پر جب پاکستانی ٹیم کو شکست کا سامنا تھا تو انضمام الحق مخالف باولروں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑے ہوئے اور شکست کو کامیابی میں تبدیل کردیا آپ کو پاکستانی ٹیم کا مرد بحران بھی قرار دیا جاتا رہا ہے ۔

انضمام الحق جب کرکٹ کے بین الاقوامی افق پر نمودار ہوئے تو ہر جانب ہلچل مچ گئی تھی یہ وہ وقت تھا جب سچن ٹنڈولکر اپنی عمدہ بلے بازی کی بدولت بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکا تھا تاہم انضمام الحق نے اپنی جارحانہ بیٹنگ کے ذریعے بہت جلد دنیائے کرکٹ میں اپنا سکہ جمالیا ۔ 1992کے ورلڈ کپ میں انضمام الحق کی کارکردگی پاکستانی کرکٹ کے سب سے سہانے خواب کی تعبیر بخشنے کا سبب بنی ۔ اس ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل اور فائنل میں انضمام الحق نے ایسی دھواں دھار بیٹنگ کی کہ عمران خان اور ان کی ٹیم میبلورن میں ہونے والے ورلڈ کپ کا فائنل جیتنے میں کامیاب ہوگئی ۔ اس وقت انضمام الحق کی عمرصرف 22 سال تھی ۔ عمران خان اس نو عمر کرکٹر کی تعریف میں کسی بغض سے کام نہیں لیتے تھے انہوں نے برملا اس امر کا اظہار کیا کہ انضمام الحق اس وقت دنیا کا سب سے باصلاحیت کرکٹر ہے ۔ آنے والے برسوں میں انضمام الحق نے عمران خان کی اس پیشن گوئی کو بالکل سچ کردکھایا ۔ حالانکہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وکٹوں کے درمیان دوڑنے کی رفتار زیادہ تیز نہیں رہی اس کے باوجود انہیں ون ڈے کرکٹ کا بہترین کھلاڑی تصور کیا جاتا ہے ۔

پاکستان کے سابق کپتان رمیز راجہ کے بقول ( انضمام الحق پازیٹو کرکٹ کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ اپنے کیریئر کی ابتدا ہی میں جب وہ بیٹنگ کرنے کے لئے میدان میں اترتا تھا تو فیلڈ پر ایک نظر ڈال کر ہی اپنے دماغ میں ایکشن پلان تیار کرلیتا تھا ۔ دنیا کی کوئی بھی فیلڈ سیٹنگ انضمام الحق کی زور دار بیٹنگ کے راستے میں دیوار نہیں بن سکتی تھی ۔

1992 کے ورلڈ کپ سے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے انضمام الحق نے مستقبل میں بھی اپنی شاندار کارکردگی سے کرکٹ کے شائقین اور ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا اور یہ ثابت کردیا کہ ورلڈ کپ کے دوران کھیلی جانے والی اننگز محض اتفاقی نہیں تھی ۔ بلکہ سری لنکا کے خلاف کھیلے جانے والے 40 اوورز کے دو میچوں میں یکے بعد دیگر مسلسل دو سنچریاں بنائیں اور اپنی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔

انضمام الحق زندگی میں کسی بھی مرحلے پر فاسٹ باولروں سے مرعوب دکھائی نہیں دئیے انہوں نے دنیا کے تما م فاسٹ اور سپن بولروں کے خلاف بیشمار جارحانہ اننگز کھیلیں ۔ انہیں کھیلتے ہوئے دیکھ کر شائقین کرکٹ کو ویوین رچرڈ کا گمان ہوتا تھا کیونکہ ان کے بلے سے نکلنے والی ہر شارٹ گولی کی رفتار سے باؤنڈری لائن کراس کرجاتی تھی حالانکہ وہ عملی زندگی میں نہایت نرم مزاج ٗ سادہ طبعیت اور دھیمی شخصیت کے مالک لیکن کرکٹ کے میدان میں ان جیسا جابر اور بہادر بلے باز بہت کم دیکھنے آیا ۔ خود اعتمادی سے لبریز وہ ایک قدرتی سٹروک پلیئر ہیں سادہ سٹروکس کے ساتھ ساتھ وہ پل شاٹ اور ہک شاٹ بھی بے حد آسانی سے کھل لیتے تھے ۔ بین الاقوامی اہمیت کے حامل بلے باز کے ساتھ ساتھ وہ
ایک ذہین اور کامیاب کپتان بھی تھے انہیں" بگ مین " کا خطاب بھی دیا گیا ان کی کپتانی میں کل89 ون ڈے میچز کھیلے گئے جن میں سے 52 میں پاکستان کوکامیابی حاصل ہوئی ۔ ٹیسٹ کرکٹ میں انہوں نے 25 سنچریاں بنائیں ٗ 81 کیچ پکڑے اور 120 میچوں میں 8830 رنز بنائے ۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کا اوسط سکور 49.60 رہا جبکہ ان کا زیادہ سے زیادہ اسکور 329 تھا اسی طرح ون ڈے انٹرنیشنل مقابلوں میں انہوں 378 میچ کھیلے 350 اننگز کے دوران بیٹنگ کی اور 11739 رنز بنائے جن میں 10 سنچریاں اور 83 نصف سنچریاں بھی شامل ہیں انہوں نے 113 کیچ پکڑے اور 53 بار ناٹ آوٹ رہے ۔ یہ اعداد و شمار ایک عظیم کھلاڑی کے درخشاں کیریئر کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ انضمام الحق کی بیٹنگ میں ایک اہم خوبی ان کا توازن تھا اسی توازن کی مدد سے وہ ہر طرح کی بولنگ کا نہایت اعتماد اور دلیری سے مقابلہ کرتے رہے۔ بین الاقوامی کمنیٹیٹرز ان کے بارے میں ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ وہ گیند کو بہت جلد جانچ لیتے ہیں اور اسے بہت دیر سے کھیلتے ہیں یہ وہ تکنیک ہے جو دنیا میں بہت کم بلے بازوں کو نصیب ہوتی ہے ۔

ایک روزہ کرکٹ میں انضمام الحق نے 83 نصف سنچریاں بنائیں جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ایک عالمی ریکارڈ تھا لیکن بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکرنے آسٹریلیا کے خلاف کھیلی جانے والی حالیہ سیریز ( فیوچر کپ سیریز) میں یہ ریکارڈ توڑ دیا ۔ تاہم انضمام الحق کا ریکارڈ اس اعتبار سے زیادہ اہم ہے کہ وہ ٹنڈولکر کے مقابلے میں بہت نچلے نمبر پر بیٹنگ کرتے تھے اور ان کے کیریئر میں ایسے 28 ون ڈے انٹرنیشنل میچ بھی شامل ہیں جن میں انہیں بیٹنگ کا موقع ہی میسر نہیں آیا ۔ انضمام الحق بلاشبہ پاکستان کے بلے بازوں میں سب سے نمایاں اور میچ ونر کھلاڑی قرار دیئے جاسکتے ہیں ۔ بھارت کے مشہورکرکٹر وشواناتھ کے مطابق انضمام الحق نے دو سال قبل بنگلور کے چناسوامی سٹیڈیم میں جو شاندار اننگز کھیلی تھی اسے بھارتی عوام اورکرکٹ ماہرین برسوں فراموش نہیں کرسکتے ۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان سیریز کا پہلا میچ ہار چکا تھا اور دوسرا میچ ہار جانے کی صورت میں پوری سیریز ہار نے کا اندیشہ پیدا ہوچکا تھا انضمام الحق ایک ایسے وقت بیٹنگ کرنے کے لئے گراؤنڈ میں آئے جب پاکستان کی دو قیمتی وکٹیں صرف 7رنز پر گر چکی تھیں ۔ یہ انضمام الحق کی زندگی کا 100واں ٹیسٹ تھا ۔ پاکستانی ٹیم کے لئے حالات بہت ناسازگار دکھائی دے رہے تھے ۔ بھارتی بولر بالخصوص بالا جی نے پہلے اوور کی پہلی ہی گیند پر ایک وکٹ حاصل کرلی تھی جبکہ عرفان پٹھان نے دوسرے اوور میں ایک اور وکٹ حاصل کرکے پاکستان کو سخت ذہنی صدمہ پہنچایا تھا اس لمحے انضمام الحق کچھ اور ہی فیصلہ کرکے میدان میں اترے ۔ انہوں نے اپنے روایتی تحمل کے ساتھ بیٹنگ شروع کی اور ایک ایسی اننگز کا آغاز کیا جسے بلاشبہ چناسوامی سٹیڈیم میں کھیلی جانے والی شاندار اننگز قراردیا جاسکتا ہے وہ حالات کی سنگینی سے بے خبر نہایت تحمل اور برداشت سے بیٹنگ کرتے رہے اور ساتھ ساتھ گراؤنڈ کے چاروں طرف شاندارسٹروکس بھی کھیلتے رہے ۔ بھارتی بولروں کی ساری قوت اور مہارت انضمام الحق کے سامنے ہیچ دکھائی دے رہی تھی ۔ اس بے مثال اننگز میں انضمام الحق نے 184 رنز بنائے اور پاکستان کے لئے فتح کی راہ ہموار کردی ۔

کپتان کی حیثیت سے انضمام الحق کی سب سے بڑی کامیابی 2005 میں انہیں ملی ٗ جب پاکستانی ٹیم ایک نہایت پر اعتماد انگلینڈ کی ٹیم کے مقابل میدان میں اتری ۔ انگلینڈ کی ٹیم اپنی کامیابیوں کے نشے میں سرشار تھی کیونکہ کچھ عرصہ قبل ہی انگلینڈ کی یہ ٹیم آسٹریلیا کی ناقابل شکست ٹیم کو ایشز سیریز میں بری طرح ہرا چکی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اب پاکستان کو بھی ہرا کر انگلینڈ کرکٹ کی دنیا پر حکمرانی کرے گا لیکن انضمام الحق نے اپنی بے مثال کارکردگی اور ذہانت سے لبریز کپتانی کے ذریعے انگلش کرکٹرز کااعتماد خاک میں ملا کے رکھ دیا ۔ یہ وہی سیریز تھی جس میں پاکستان پر بال ٹمپرنگ کاالزام لگایا گیا تھا ۔ اوول میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے دوران ائمپائر ڈیرل ہیئر نے پاکستان پر گیند کو خراب کرنے کا الزام لگایا تو انضمام الحق نے اس غلط الزام کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ کرکٹ کی تاریخ میں اس روز یہ انوکھا واقعہ رونما ہوا کہ انضمام الحق اپنی ٹیم کو لے کر گراؤنڈ سے باہر چلے گئے اور ائمپائر نے اس میچ کو Forfeit قرار دے دیا ۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ تنازعہ چند ہی دنوں میں ایک بین الاقوامی سیکنڈل کی صورت دھار جائے گا جس کے نتیجے میں آئی سی سی کو بالاخر متعصب ائمپائر ڈیرل ہیئر کے خلاف کاروائی کرنی پڑے اس طرح انضمام الحق کا فیصلہ درست ثابت ہوا ۔

1992 کے ورلڈ کپ سے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے انضمام الحق نے مستقبل میں بھی اپنی شاندار کارکردگی سے کرکٹ کے شائقین اور ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا اور یہ ثابت کردیا کہ ورلڈ کپ کے دوران کھیلی جانے والی اننگز محض اتفاقی نہیں تھی ۔ اسی طرح سری لنکا کے خلاف کھیلے جانے والے 40 اوورز کے دو میچوں میں یکے بعد دیگر مسلسل دو سنچریاں بنائیں اور اپنی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ بین الاقوامی اہمیت کے حامل بلے باز کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذہین اور کامیاب کپتان بھی تھے ۔ سلیپ کے سپشلسٹ فیلڈر تسلیم کئے جاتے تھے جہاں گیند کی رفتار پستول سے نکلنے والی گولی کی مانند ہوتی ہے ۔

2007 کے ورلڈ کپ میں آئرلینڈ کے خلاف بدترین شکست کے بعد انضمام الحق پر شدید تنقید کی گئی ۔ کپتان کی حیثیت سے انضمام الحق کو میچ فکسنگ جیسے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس قسم کی باتیں بھی سننے میں آئیں کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی نٹ پریکٹس کی بجائے ورلڈ کپ کے دوران تبلیغ کرتے رہے۔ اس کے جواب میں انضمام الحق کا موقف یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ شعور غلط ہے کہ جس نے نماز پنجگانہ شروع کردی یا مذہب میں سکون ڈھونڈنے کی کوشش کی وہ سب کو چھوڑ کر اب جنگلوں میں نکل جائے ۔ اسلام تو مکمل دین ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری رہنمائی کرتاہے میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اس لئے الحمداﷲ ان کا رحجان بچپن سے ہی مذہب کی جانب ہے جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے کہ بہت عرصہ پہلے سے ان کا دھیان اس جانب مرکوز تھااوربلکہ تبلیغ کے لئے میں مختلف شہروں میں جاچکا ہوں جس سے انہیں روحانی اور ذہنی سکون میسر آیا ۔ نماز روزہ اور دین اپنی جگہ لیکن کرکٹ سے الگ رہنے کا تصور نہیں کرسکتا ان کے مطابق موت برحق ہے جو بھی دنیا میں آیا ہے اس نے ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا بھی ہے اگر موت واقع ہوجاتی ہے تو اگلے جہان میں ان کے دس ہزار رنز دوزخ کی آگ سے نہیں بچا سکتے بلکہ وہاں زندگی میں کئے گئے نیک اعمال ہی کام آئیں گے مذہب نے کبھی کرکٹ یا کسی اور کھیل سے نہیں روکا ۔لیکن انضمام الحق کے جواب سے ان کے ناقدین مطمئن نہ ہوئے کیونکہ ان کے نزدیک کرکٹ کے میدان میں کامیابی ہی تمام وضاحتوں کا جواب تھا ۔

بعدازاں عالمی کپ میں ناقص کارکردگی کی تفتیش کرنے والی کمیٹی نے بھی انضمام الحق کی کپتانی کے انداز پر شدید تنقید کی جس پر انہوں نے ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا لیکن انہوں نے یہ بھی کہاکہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہیں گے ۔ بعدازاں جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں بھی سلیکشن کمیٹی نے انضمام الحق کا نام ٹیسٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں میں شامل نہ کیا جس پر انہوں نے دلبرداشتہ ہوکر کہا کہ وہ دوسرے ٹیسٹ میچ کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے بھی ریٹائر ہو جائیں گے چونکہ اپنے ٹیسٹ کیریئر میں انضمام الحق جاوید میاں داد سے صرف چھ رنز پیچھے تھے اس لئے یہ توقع کی جارہی تھی کہ بیٹنگ کرتے ہوئے جاوید میاں داد کا ریکارڈ یقینا توڑ دیں گے لیکن جب وہ چار رنز کے فاصلے پر تھے ایک شاندار شارٹ لگانے کے لئے وہ آگے بڑھے اور گیند انہیں دھوکہ دے کر وکٹوں میں جا لگی اس طرح دنیائے کرکٹ کا عظیم بیٹسمین انضمام الحق ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہوگیا لیکن انہو ں نے سابق وکٹ کیپر معین خان کے اصر ار پر انڈین کرکٹ لیگ کو جوائن کرلیا اور لاہور بادشاہ کے نام سے بنائی جانے والی ٹیم کی کپتانی سنبھال لی ۔ گزشتہ سال بھی آئی سی ایل ٹورنامنٹ میں انضمام الحق کی کپتانی میں کھیلنے والی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں نے بہت شاندار کھیل پیش کیا اور ابتدائی تمام میچ بغیر کسی شکست کے باآسانی جیت لئے لیکن فائنل میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس مرتبہ بدقسمتی سے ابتدائی تین میچ ہارنے کے بعد لاہور بادشاہ کی ٹیم نے انضمام الحق کی قیادت میں نہ صرف پول میچوں میں نمایاں برتری حاصل کرکے نہ صرف سیمی فائنل جیتا بلکہ شاندار طریقے سے فائنل بھی جیت کرکے خود کو ناقابل تسخیر ثابت کردیا ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ لاہور بادشاہ ٹیم میں پاکستانی کرکٹ بورڈ کے ستائے ہوئے اور ناپسندیدہ پاکستانی کھلاڑی شامل ہیں عمران نذیر ٗ عمران فرحت ٗ رانا نوید ٗ شاہد نذیر ٗ محمداظہر ٗ انضمام الحق اور محمد یوسف ٗ عبدالرزاق ٗ محمد رضا ٗ شبیراحمد سمیت تمام کھلاڑیوں نے اپنے بہترین کھیل اور ٹیم سپرٹ سے مدتوں یاد رہنے والی کرکٹ کھیلی اور کروڑوں انڈین شائقین کرکٹ نے لاہور بادشاہ کی شاندار کارکردگی پر خراج تحسین پیش کیا بلکہ لاہور بادشاہ کی ٹیم نے پاکستان کے 16 کروڑ عوام کے دل بھی جیت لئے سچی بات تو یہ ہے کہ لاہور بادشاہ ٹیم کی آئی سی ایل میں کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہی کہنے کو جی چاہتاہے کہ یہی ہماری قومی ٹیم ہے جس کو ماہرین کرکٹ آئی سی ایل کی آسٹریلیا قرار دیتے ہیں بدقسمتی سے اس ٹیم میں شامل تمام کھلاڑی وہ ہیں جن کو سابق دور میں باغی بننے پر مجبور کیا گیا اور محمد یوسف جیسے عظیم اور تجربہ کار کھلاڑی کی موجود گی میں ایک کم سن اور نا تجربہ کار کھلاڑی شعیب ملک کو کپتان بنا کر نہ صرف شعیب ملک کے ساتھ زیادتی کی گئی بلکہ محمد یوسف جیسے مایہ ناز کرکٹ کی توہین کی گئی یہی وجہ ہے کہ کرکٹ بورڈ کی جانب سے مسلسل توہین آمیز رویے سے تنگ آکر انہوں نے آئی سی ایل کو جائن کرلیا اور اپنے بہترین کھیل سے دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کو محظوظ کیا ۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ عزت اور احترام بلاشبہ انضمام الحق کی شاندار قیادت کی بدولت ہی لاہور بادشاہ کو حاصل ہوا ۔ اس طرح یہ کہاجاسکتا ہے کہ انضمام الحق نے آئی سی ایل کی دونوں سیریز میں شاندار ذاتی کھیل پیش کرکے اور بہترین قیادت کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ انہیں جس توہین آمیز رویے کا مظاہرہ کرکے پاکستانی کرکٹ ٹیم سے جبرا ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا گیا تھا ان کے ساتھ یہ سراسر زیادتی کی گئی تھی اس وقت جبکہ انضمام الحق کے ہم عصر سچن ٹنڈولکر بہت عرصہ آوٹ آف فارم رہنے کے بعد کئی سنچریاں سکور کرچکے ہیں اور بھارتی ٹیم کے آسٹریلیا کے خلاف کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرچکے ہیں ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ انضمام الحق جیسا عظیم کپتان اور جارحانہ بیٹنگ کا بادشاہ کھو چکے ہیں ۔ بے شک پاکستانی کرکٹ بورڈ انضمام الحق کو وہ مقام اور مرتبہ نہیں دے سکا جس کا یہ عظیم کھلاڑی مستحق تھا لیکن دنیائے کرکٹ کی تاریخ ٗ اس عظیم کپتان اور شاندار کھلاڑی کے ذکر کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوگی ۔یہاں یہ ذکر بھی بے جانہ ہوگا کہ انضمام الحق جہاں میدان کرکٹ میں عمران خان سے بے حد متاثر تھے وہاں خدمت انسانی کے اعتبار سے بھی عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے اپنے آبائی شہر ملتان میں بختاور امین میموریل ٹرسٹ ہسپتال کی تعمیرکا آغاز کررکھا ہے جو تیزی سے تکمیلی مراحل طے کررہاہے ۔

اس وقت موصوف پاکستان کرکٹ بورڈ میں چیف سلیکٹر کے عہدے پر فائز ہیں اور کھلاڑیوں کے جسمانی خدو خال ‘ باؤلنگ ‘ بیٹنگ اور فیلڈنگ کے شعبوں میں فٹنس کو مدنظر رکھ کر قومی ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کا اس خوبی سے انتخاب کرتے ہیں کہ قوم ٹیم دنیا کے ہر ملک میں کامیابی کے جھنڈے گارڈتی نظرآتی ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662438 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.