آسیہ بی بی کا مقدمہ - عدلیہ اور حکومتی مجبوریاں

9سال سے زیرِسماعت آسیہ بی بی کے مقدمے کوسیاسی اور حکومتی مجبوریوں کی بنا پر زیرالتوا رکھنے کے بعد عدلیہ نے ڈرتے ڈرتے اپنا فیصلہ لکھ کر بھی ایک مدت تک اعلان نہ کیا۔ شاید کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے اور آخر جب ہر طرف سے اطمینان ہو گیا ہوگا اور پنڈتوں نے شبھ گھڑی کی نوید سنائی ہوگی تو دل کڑا کر کے عدلیہ نے آخر آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ سنا دیا۔ لیکن یہ کیا ہوا یہاں تو جیسے لاوا پھٹنے کو تیار تھا ۔آن کی آن میں پورا پاکستان زیروزبر ہو گیا۔ کپتان کی ٹیم حزبِ اقتدار والی گھسی پٹی زبان بولنے پر مجبور ہو گیا۔ وہی زبان جو اس سے پہلے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے خادم اعلیٰ اور مشرفی ٹولہ ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کو اپنے آقا کے حوالے کرنے کے لئے منمناتے تھیؤ۔

ایسے بڑے بڑے زعما ء اور حکومتی مشینری کے پلک جھپکنے میں ڈھیر ہونے سے سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ آخر ایسی کون سی مجبوریاں ہیں جو حکومت کو ہر دفعہ ذلّت سہنے پراور عوام کی نظروں میں مجرم کا ساتھی محسوس ہونے کی تہمت اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔
عوام کے متشدد رویے کے بارے میں چند باتیں جو ذہن میں آتی ہیں وہ یوں ہیں:
-1 عدلیہ اپنے اینگلو سیکسن قانونِ عدل کی اطاعت کی وجہ سے چند ایسے تکنیکی مسائل میں الجھ جاتی ہے جو اسے مسلمان معاشرے کے احساسات اور ضروریاتِ عدل سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیتے۔
-2 رسولِ اکرمﷺ کی محبت جو ہر مسلمان کا جزوِایمان ہے وہ اس اینگلو سیکسن قانونِ عدل کے مزاج سے ماوراء ہے۔ چنانچہ ہمارے منصف اس انتہائی حسّاس پہلو کو ایک ذیلی سی اہمیت دیتے ہو ئے اس مسئلے کی حساسیتسمجھے بغیر ایسے اہم مقدمات کے فیصلے کو مروجہ قانون کے مطابق ایک معمولی دعوائے ہتک ِ عزت کے فیصلے کی طرح لاگو کر دیتے ہیں ۔جو کہ گو قانونی لحاظ سے بالکل درست ہو پھر بھی عوام کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کئے بغیر نہیں رہتا۔
-3 غیر ملکی این جی اوز(NGOs) ایک عرصہ سے پاکستان میں خصوصاً اور اسلامی ممالک میں بالعموم اس قسم کے مسائل کو مغربی میڈیا کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے ہوا دے کراسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرنے کے درپے رہتی ہیں۔
حکومتوں میں ان کے واضح اثرونفوذ سے نالاں عوام اس قسم کے ہر حساس معاملے میں این جی اوز کے دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے(چاہے وہ دباؤ حقیقت میں موجود نہ بھی ہو) اور علاوہ ازیں عوامی جذبات کے خلاف مغربی ممالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے حکومتی رویے (جو کہ اکثر اوقات امر واقعی ہوتا ہے) سے متنفر ہونے کی بنا پر متشدد رویہّ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
-4 طالع آزما سیاسی اور مذہبی قیادت عوام کے بے پایاں جوش کو کیش کرانے کے لئے مزید آگ بھڑکانے کے ساتھ اپنے مقاصد پورے کرنے کو میدان میں اتر آتی ہے۔
-5 حالیہ موقع پر جیسے آگ اگلنے والے مولوی اور عمومی طور پر صلح جو دینی علماء دونوں کے موقف میں ایک سختی پائی گئی وہ معاملے کی سنگینی کے علاوہ بھی حکومتی رویہّ میں کچھ ایسے عوامل کی طرف نشان دہی کرتی ہے جس کی درستگی کی طرف حکومت اور علماء کے مابین مثبت گفت و شنید کی یقینی ضرورت ہے۔

مستقبل میں ایسے مسائل کے حل کے لئے چند موثر تجاویز پیش کی جاتی ہیں
گر قبول افتد ذہے عزوشرف
-1 اگر ان حساس معاملات میں عدلیہ دینی و قومی مفاد کی خاطر اپنی اعلیٰ حیثیت اوربرتری کے ذعم کو نظر انداز کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور جےّد علمائے کرام کے تعاون سے معاملے کی پوری تحقیق کرے اور صرف سرکاری وکلائے استغاثہ پر انحصار نہ کرتے ہوئے مقدمے کے ہر پہلو کو مروّجہ قانون سے بالا تر ہو کر دینی اور قومی مصالحہ کے پس منظر میں حل کرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر فریق مطمئن نہ ہو سکے۔ اس طرح طالع آزماو ؤں کو بھی موقع کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے باز رکھا جا سکتا ہے اور ملک کا امن و امان خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مندرجہ بالا مجوزہ تمام تدابیر اختیار کر کے معاملے کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں حل کرنے کے مجاز ہونگے۔
-2 اس نوعیت کے حساس مقدمات میں عوام الناس کے جائز اطمینان کی خاطر اگر کسی نوعیت کی شفافیت لائی جا سکے تو یہ انتہائی مناسب اقدام ہوگا۔
-3 یہ کام ہائی کورٹ اور زیریں عدالتوں کے بس سے باہرہے چنانچہ ان عدالتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی تحقیق و تفتیش کے بعد مقدمہ کو لازمی طور پر سپریم کورٹ کے حوالے کریں۔ سپریم کورٹ چونکہ مروّجہ تعزیری قوانین سے بالاتر ایک وسیع تر قانون یعنی آئینِ پاکستان کا شارح ہے اس لئے
عوام ایسے تمام اقدامات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے طالع آزماؤوں کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بنیں گے۔
-4 غیر ملکی این جی اوز(NGOs) کو اپنی حدود میں رہنے کا پابند کیا جائے تو بہت سے مسائل میں اُن کی ناجائزدخل اندازی کی وجہ سے عام مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا سلسلہ روک کر مسائل کا بہتر اور برموقع حل ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ گستاخی ٔ رسول ﷺکے معاملے میں مسلمانوں کی حساسیت کو جب تک انتہائی اہمیت نہیں دی جائے گی تب تک عدلیہ ، حکومت ،میڈیا اور دیگر متعلقہ اداروں کی بہترین مساعی بھی عوام الناس کے جذبات کے سامنے یونہی بے معنی ثابت ہوتی رہے گی قانون یونہی بے وقعت رہے گا، حکومت یونہی بے بس رہے گی،ریاستی رٹ یونہی پامال ہوتی رہے گی، سرکاری اور نجی املاک بے دریغ برباد کی جاتی رہیں گی ،فریقین کی قیمتی جانیں یا تو کج کلاہوں کے تکبر(Ruler's arrogance) یا ہجومی نفسیات (Mob mentality)کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حرمتِ رسولﷺ پر کوئی نہ کوئی شاتم حملہ آور ہوتا رہے گااور بد باطن کفریہ طاقتیں اور مغربی طاقتیں مسلمانوں کو یونہی ذلیل کرنے کے لئے اپنے خبث باطن کا مِظاہرہ کرتی رہیں گی۔

موجودہ حکومت نے ہالینڈ میں مجوزہ خاکوں کے معاملے کو درست انداز سے اٹھایا جس کے نتیجے میں ملعون گیرٹ ویلڈر(Geert Wilder) کو اپنی کمینگی دکھانے سے رکنا پڑا۔اس معاملے میں یقینا عمران خان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور امید رکھنی چاہئے کہ حکومت اپنی دینی ذمہ داریاں آئندہ بھی حسن و خوبی سے ادا کرتی رہے گی۔

اگر پاکستان کے حکمران دیگر مسلمان حکومتوں کے تعاون سے ایسے معاملات میں ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے میں کامیاب ہوسکیں تو ایسے بہت سے مسائل کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام بظاہر تو کچھ ایسا مشکل نہیں دکھائی دیتا کہ حرمتِ رسولﷺ پر حکمران ایک مشترکہ موقف بھی نہ اپناسکیں پھر بھی چند ممالک جیسے ترکی اور ایران وغیرہ تو ایک موقف پر متحد کئے جا سکتے ہیں۔ اگر تین ممالک بھی اکٹھے ہو جائیں تو کسی بھی ملک اور اقوامِ متحدہ پر نتیجہ خیز دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

دکھی دل کے ساتھ یہ چند گذارشات ہیں جو انتہائی اخلاص سے پیش کی گئی ہیں، اگر نادانستہ کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو راقم کھلے دل سے معافی کا خواستگار ہے۔
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ ٔ زوال نہ ہو
 

Abdul Hameed
About the Author: Abdul Hameed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.