ایک دن میں قید۔۔۔حضرت اقبالؒ

حضرت اقبالؒ کا 80 واں یوم پیدایش پھر کاغذی کارروائی کے طور پر انتہائی دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے۔اس ایک دن کے لیے حضرت اقبال ؒ آج ہمارے ہوئے۔خبردار! آج اگر کسی اور قوم نے حضرت اقبال سے کسی بھی قسم کی وابستگی کا اظہار کیا۔کل 10 نومبر سے لے کر اگلے 8 نومبر تک تم سب جیسے چاہو،جتنا چاہوحضرت اقبالؒ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر جتنی مرضی ترقی کرو ،ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔مگر آج کے دن وہ صرف اور صرف ہمارے ہیں اور آج ہم نے یہ سارا دن انتہائی اہم معاملے پر ردو قدح کرتے گذارنا ہے کہ یوم اقبال پر چھٹی ہونی چاہیے یا نہیں۔کیونکہ اقبالؒ کی تمام تعلیمات کا نچوڑ اور ہماری ترقی کا اہم ترین راز اسی بحث و تمحیص میں چھپا ہوا ہے۔بھلا اقبالؒ سے اپنی دیرینہ وابستگی کے اظہار کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

اذہان دہر میں یہ تاثر عام ہے کہ حضرت اقبالؒ ایک کامیاب انسان تھے اور انہوں نے زندگی میں جو چاہا وہ حاصل کر لیا۔ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بعد از مطالعہ جو مجھ ناقص کی سمجھ میں آیا ہے وہ اس ملت بیضا کو اس کے کھوئے ہوئے مقام کا ادراک کروا کر اپنے مقام و منصب پر واپس لانا تھا۔وہ اس مقصد میں وقتی و جزوی طور پر تو کامیاب ہوئے مگر کلی طور پر ایسا سمجھنا بعید از حقیقت ہو گا۔وہ ہزار جتن اور اپنی شدید خواہش و دعاؤں کے باوجوداس قوم کو ذہنی غلامی سے نجات نہ دلا سکے۔فلسفہ مرد مومن، فلسفہ جبر و قدر اور فلسفہ خودی کے رموز کھول کھول کر بیان کر کر کے بھی اس بنی آدم کو انسانی صفات سے مزین کر کے خلیفۃاﷲ کے منصب پر فائز نہ کر سکے۔ بقول راقم :
اقبال کو کوشش اصلاح پہ اقبال ملا
ورنہ جاگے تو نہ تھے سن کر اسے اہل غافل

سوچتا ہوں کہ جب اس قوم کو اغیار سے لیے گئے قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر اس کی سیاسی،سماجی، معاشرتی،تہذیبی،ثقافتی،مذہبی اور روحانی حیثیت کو بری طرح مسخ کرنے والے نام نہاد رہنما سامنے موجود بھیڑ پر اپنی قابلیت و لیاقت کی دھاک بٹھانے کے لیے چیخ چیخ کر اپنی سیاسی تقریروں میں جذبات سے لبریز لہجوں میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ پڑھتے ہوں گے کہ" اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی۔۔۔جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" تو اقبالؒ کی روح کتنا تڑپتی ہو گی؟اس کا اندازہ جہان آب و گل کے باسی سے لگانا ناممکن ہے۔راقم نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا تھا اور اب اقبالؒ کی روح سے معذرت کے ساتھ آپ سب کی فہم کے حوالے کرنے کی جسارت کر رہا ہے کہ:
وہ طائر لاہوتی اغیار کے نرغے میں ہے قید
اقبال جسے لقمہ ذلت سے چاہتے تھے بچانا

مغلیہ دور کے زوال سے شروع ہو کر اب تک جاری رہنے والا قومی انحطاط پکار پکار کر ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنے ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھا اور نہ ہی اپنے اسلاف و اکابرین کے تجربوں سے کچھ استفادہ کیا۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے نام نہاد مسیحا حضرت اقبالؒ کے فلسفہ و نظریات سے بالکل نا واقف ہیں اور جو اقبال شناس ہیں انہوں نے اپنے آپ کو صرف علم و ادب تک ہی محدود کر لیا ہے۔وہ اپنی آگہی و ادراک کو عام عوامی سطح تک لانے میں شاید اپنی توہین سمجھتے ہیں۔لہذا وہ سوجھ بوجھ نہ عوامی سطح تک پہنچ رہی ہے اور نہ ہی ان ایوانوں تک ،جہاں ملک و قوم کی سلامتی و وقار اور تعمیر و ترقی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو "اقبالیات" پر دسترس ہو بھی جاتی ہے تو وہ عوام کی دسترس سے ہی دور ہو جاتا ہے۔وہ بزعم خود اتنا بڑا آدمی بن جاتا ہے اورفقط اپنے بلند مرتبے کا حظ اٹھانے پر ہی اکتفا کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ باقی کا طبقہ آج بھی محروم تمنا ہے۔ہم اقبال کو اتنا ہی سمجھے ہیں کہ ان کے کہے گئے اشعار ہماری تقاریر میں جوش و جذبے کے خوب تڑکے لگاتے ہیں اور مقررسامعین سے خوب دادبٹورلیتا ہے۔حضرت اقبالؒ کہ جن کا وجدان انہیں زمانے کی نبض تک لے گیااور انہوں نے چُن چُن کر ایک ایک مرض کی تشخیص کر ڈالی مگر افسوس کہ ہم پھر بھی ان امراض کو رفع نہ کر سکے بلکہ الٹا ہم نے اپنی بد پرہیزی و بد احتیاطی سے ان امراض کو نا سور بنا لیا۔آج ہماری حالت یہ ہے کہ کھوکھلی بیساکھیوں پر ہچکولے کھاتے ہوئے بنا مقصد کے غیر یقینی کیفیت کا شکار ہو کر دن پورے کر رہے ہیں۔ہماری نوجوان نسل تو اقبالؒ کے ارشادات و فرمودات کے تصور کی لذت سے ہی عاری ہے۔تشویش اس بات کی لاحق ہے کہ آئندہ آنے والی نسل نو کے لیے اقبالؒکی حیثیت صرف ایک تصوراتی و ڈرامائی مافوق الفطرت کردار کے سواکچھ نہ ہو گی۔ ایک نسل کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اسلاف و اکابرین کا تعلیم و تربیت کی صورت میں بہترین تعارف آئندہ آنے والی نسل کو وراثت میں دے کر جائے مگر یہاں بھی ہم کوتاہی و غفلت کے مرتکب ہوئے۔ ہمیں چاہیے کہ اقبالؒ کی تعلیمات کو ہر سطح پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ہمیں چاہیے کہ محض یوم اقبال منانے پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ اپنے نوجوانوں میں اقبال کی سیرت و صفات اور مناقبات پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ اقبالؒ کے کلام کو پڑھنے اور سمجھنے کا رواج عام کیا جانا چاہیے۔کچھ بعید نہیں کہ وہ گردوں واپس مل جائے جہاں سے ٹوٹ کر یہ ماہ مبین زمیں بوس ہوا تھا۔

Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 29577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.