تمہارا شکریہ

میں اپنے آفس میں معمول کے کاموں میں مگن تھاکہ اچانک میرافون تھرتھرانے لگا، جگمگاتی سکرین پرنظرپڑی توبے اختیارلبوں پہ تبسم بکھرگیا، کال اٹھائی تودوسری جانب کھنکھناتی ہوئی میرے لنگوٹیایاروقاص کی آوازکانوں سے ٹکرائی، حال احوال کاتبادلہ ہوا، پھروہ یک دم ہی کہنے لگا:میں نے تمہاراشکریہ اداکرنے کے لیے فون کیاہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ کس بات کاشکریہ؟ پھرمیں یادماضی میں جھانک کرکچھ یادوں کوٹٹولنے لگاکہ وقاص کس وجہ سے میراشکریہ اداکررہاہے لیکن لاکھ تلاش بسیارکے بعدبھی کوئی سبب ایسانہ ملاکہ جس بناپرمیرا شکریہ اداکیاجارہاہے۔

ہتھیارڈالتے ہوئے خودہی میں نے اس سے پوچھ لیاکہ تم کس چیزکاشکریہ اداکررہے ہو؟اس پروہ کہنے لگاتمہیں یادہوگاجب ہم اکٹھے پڑھاکرتے تھے، میں نے جھٹ کہاکہ وہ لمحات اوروہ یادیں بھلائے نہیں بھولتیں کہ جب ہم ساتھ پڑھاکرتے تھے، کتنے سہانے دن تھے نہ کسی چیزکی فکرنہ مستقبل کاڈر۔اس پروہ مسکراتے ہوئے کہنے لگاہاں ،یہ انہی دنوں کی بات ہے ، میں اورفلاں دوست اکثرساتھ ساتھ رہاکرتے تھے ، کوئی بھی کام کرناہوتاتوہم اکٹھے نظرآتے ، ہم اکثرالٹے کام اورشرارتیں کیاکرتے تھے، جب بھی کہیں کوئی خرابی ہوتی تومیں اوروہ دوست اس کام میں ملوث پائے جاتے ۔ایک دفعہ ایساہواکہ ہم نے کہیں سے پیسے چُرائے اوریہ زندگی میں کی جانے والی ہم دونوں کی مشترکہ پہلی چوری تھی،گرمیوں کے دن تھے ، سورج کی تپش عروج پرتھی ، پلان یہ بناکہ اب ہم ان پیسوں کی چینی خریدیں گے اوردوسرے دوستوں کوساتھ ملاکرشربت صندل تیارکریں گے ، ہم نے ایساہی کیا، جب شربت تیارہوگیاتوہم نے تمہیں بھی وہ شربت پیش کیا، تم نے خوشی خوشی گرمی کے ستائے ہوئے نے وہ گلاس تھاما، گلاس ہونٹوں سے ٹکرایا، شربت حلق میں الٹنے کے لیے تیارتھاکہ چھناکے سے تمہارے ذہن میں یہ سوال بلبلانے لگاکہ پہلے توہم مل کرپیسے جمع کرتے تھے ، پھرکوئی چیزخریدتے تھے ، آج یہ شربت بغیرکسی مطالبے کے کس طرح ہاتھوں میں تھمادیاگیاہے ؟فوراًگلاس منہ سے ہٹااورہم پر سوالات کی پوچھاڑ کردی گئی، پہلے توہم نے پس وپیش سے کام لیامگرتمہارے بارباراصرارکرنے کی وجہ سے ہمیں ساری بات بتانی پڑی۔

میں بڑے غورسے تمہارے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہاتھاکہ کس طرح تم ہماری بات سنتے ہی بگڑگئے تھے۔تم نے فوراًوہ شربت گرادیااورہم سے ناراض ہوگئے، ہم نے بڑی تمہاری منتیں کیں مگرتم تھے کہ اپنی بات پرہی اڑے ہوئے تھے ۔تم نے ہمیں بہت لعنت ملامت کی ، ہمیں چوری جیسے جرم سے ڈرایا، اس کاانجام بتایا، ہمیں اورتوکچھ سمجھ نہ آئی بس یہی سمجھے کہ تمہیں ناراض نہیں کرناچاہیے ، تمہاری ناراضی دورکرنے کے لیے ہم نے تمہارے سامنے ہی وہ ساراشربت بہادیا۔تم نے ہم سے دوبارہ صلح کی اورکہاکہ آئندہ اگرتم لوگوں نے چوری کی تومیں پھرکبھی بھی تم سے بات نہیں کروں گا۔

اس واقعے کوکئی سال بیت گئے ، آج جب میں اپنااحتساب کرنے بیٹھاتواپنے اندرپائی جانے والی خامیاں اورخوبیاں تلاش کیں، جب میں نے اپنے گریبان میں جھانکاتومجھ پرانکشاف ہواکہ میں نے زندگی میں وہی پہلی اورآخری چوری کی، اس کے بعدآج تک میں نے کوئی چوری نہیں کی۔جانتے ہوکیوں اس کے بعدچوری نہیں کی؟اس سوال نے میراماضی سے رشتہ توڑدیااورمیں حال میں واپس لوٹ آیا، جب اس کے سوال کی سمجھ آئی تومیں نے کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ تم اس کے بعدکیوں چوری سے بازآگئے۔ اس پروہ گلوگیرآوازمیں کہنے لگااگراس دن تم ہم سے ناراض نہ ہوتے اورہم تمہاری ناراضگی کی وجہ سے وہ شربت نہ گراتے توآج ہمارے اندرچوری جیسی بری خصلت پائی جاتی ۔تمہارایہ احسان یادآیاتوتمہیں جھٹ فون کیاتاکہ تمہاراشکریہ اداکروں ۔اس نے توبات ختم کرکے فون بندکردیامگرمیں سوچوں میں غرق یہی سوچنے لگاکہ مجھے نہیں معلوم تھاکہ میرے اس چھوٹے سے عمل سے کسی کی زندگی بھی یوں سنورسکتی ہے ۔یہ بات سناتے ہوئے میراسب سے بہترین دوست عابدچپ ہوااورفوراًگردن جھکادی ، اس کے گردن جھکاتے جھکاتے میں اس کی آنکھوں میں اترتی نمی واضح دیکھ چکاتھا۔میں نے اسے کہااہل فکرودانش نے سچ کہاہے کہ اچھی صحبت کے اچھے اثرات ہوتے ہیں اوربری صحبت کے برے ۔آپ ﷺ کابھی توفرمان ہے کہ: دوست بناتے ہوئے پرکھ لوکہ تم کسے دوست بنارہے ہوکیونکہ دوست اپنے دوست کے دین پرہوتاہے۔ایسے ہی آپﷺ نے اچھے اوربرے دوست کے متعلق فرمایا:اچھادوست کستوری بیچنے والے کی طرح ہوتاہے ، یاتوتم اس سے کستوری خریدلوگے یاپھروہ تمہیں تحفے میں دے گااگرایسانہیں توپھرخوشبوتوضرورآئے گی، اسی طرح برادوست بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے ، یاتووہ وتمہارے کپڑے جلادے گایاپھرتمہیں گندہ دھواں برداشت کرناپڑے گا۔

 

Ihsan Ul Haq
About the Author: Ihsan Ul Haq Read More Articles by Ihsan Ul Haq: 3 Articles with 1923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.