آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے

مجھے وقت کو غلام بنانے والوں کا وقت ختم ہوا دکھائی دے رہاہے کیونکہ حالات اور واقعات بتارہے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو سیاسی منظر نامے سے صاف کرنے کی مکمل طورپر تیاریاں ہوچکی ہیں اس سلسلے میں حالیہ دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں اس میں میاں نوازشریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے حق میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نیب کی اپیل پرمعزز جج صاحبان کی جو ریزرویشن آرہی ہے اور پھر حکومتی وزرااور ارکان پارلیمنٹ کے بیانات اس بات کی گواہی ہیں کہ اب مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سیاست اس ملک کے سیاسی منظر پر ناقابل برداشت ہوچکی ہیں ،بلکل اسی طرح سندھ میں حالیہ دنوں فالودے والے ،نائی اور فوت ہوجانے والے لوگوں کے اکاؤنٹس میں ملنے والی اربوں روپے کی رقم کو پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری کے ساتھ جوڑا جارہاہے اور میڈیا پر بھی آئے روز اس طرح کی خبریں گردش کررہی ہیں کہ انہیں گرفتار کرنے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں ، یہ بات درست ہے کہ آصف زرداری اور میاں نوازشریف نے ماضی میں بھی جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں اور اور انہوں نے اپنی سزاؤں کو جھوٹ ثابت کرکے جیلوں سے رہائیاں بھی حاصل کی ہیں اس میں میاں نوازشریف کی طیارہ سازش کیس میں ایک طویل سزاکا حوالہ دیا جاسکتاہے اسی طرح آصف زرداری بھی ایک طویل جیل کاٹ کر اس ملک کے صدر بن چکے ہیں مگر فی الحال اب ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ قسمت میاں نوازشریف اور آصف زرداری پر جیل جانے کے بعد پھر سے مہربان ہوجائے گی حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ یہ دونوں رہنما جیل جانے کو بھی ایک کامیاب سیاست اور حکمت عملی سمجھتے ہیں اور خود شوق رکھتے ہیں کہ انہیں گرفتار کرلیاجائے مگر شاید اب یہ شوق ان دونوں رہنماؤں کو بہت مہنگا پڑسکتاہے اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے اور بڑے بڑے رہنما بھی مسلم لیگ ن کی حکومت میں مختلف منصوبوں میں کرپشن کرتے ہوئے پائے گئے ہیں جن کے خلاف گھیرا ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ تنگ ہورہاہے اور یہ ہی پوزیشن پیپلزپارٹی کی سندھ میں دکھائی دیتی ہے سننے میں یہ آیاہے کہ پیپلزپارٹی کے پہلے سے گرفتار رہنما وعدہ گواہ معاف بننے کے لیے خود کو تیار کرچکے ہیں جس کے نتیجے میں سندھ میں نامعلوم اکاؤنٹس سے ملنے والی اربوں کی رقم اور دیگر منی لانڈرنگ کے کیسوں میں آصف زرداری اور ان کی بہن محترمہ فریال تالپور کی گرفتاری کی تیاریاں کی جارہی ہیں ،آصف زرداری کو ماضی میں کئی کیسوں میں ریلیف مل چکاہے جبکہ سوئس کیسوں میں وہ خود کو مکمل طورپر صاف کرچکے ہیں کیونکہ زائد المیادہونے کی وجہ سے خود سوئس حکام نے ان کیسوں کو کھولنے سے معذرت کرلی تھی جس میں کسی حد تک مطمین دکھائی دیتے ہیں اور سولہ سال تک چلنے والے ایک کیس میں وہ خود کو غیر قانونی اثاثہ جات سے بھی بری کرواچکے ہیں جو مشرف دور حکومت میں احتساب عدالت میں دائر کیا گیا تھا،ایک اور بڑا کیس 1998میں ایس جی ایس کوٹیکنا ریفرنس کا بھی ایک کیس تھا جسے احتساب عدالت میں یہ کہہ کر ختم کیا گیا کہ نیب ان دونوں کیسوں میں ٹھوس شواہد فراہم کرنے میں ناکا م رہاہے،ان دونوں کیسو ں میں آصف زرداری پر غیر ملکی کمپنیوں پر شپنگ کے ٹھیکے دینے میں کمیشن لینے کا الزام تھااس کے علاوہ ارسس ٹریکٹر اور اے آر وائی گولڈ ریفرنس میں بھی وہ دودھ میں بال کی طرح نکل آئے تھے علاوہ ازیں اس قسم کے بے شمار کیسوں میں ان کے چہروں پر ایک عجیب سے مسکراہٹ دیکھی گئی مگرموجودہ ماحول میں خود آصف زرداری بھی تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں اور اس سوچ میں ہیں کہ آخر پردے کے پیچھے کیا ہورہاہے انہیں کچھ نہیں پتہ چل رہا ہے ،ماضی میں نوازشریف بھی اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے باعزت بری ہوتے رہے ہیں اس سے پہلے بھی میاں نوازشریف اپنے خاندان کے ہمراہ مختلف نوعیت کی عدالتی کارروائیوں کو بھگتے رہے ہیں،1994میں ان کے خلاف پہلی کارروائی محترمہ بے نظیر کے دور حکومت میں عمل میں آئی ان کے خلاف رمضان شوگر ملز کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست لگی جس کی دھوم موجودہ وقتوں میں بھی پھر پڑی ہوئی ہے اسی دور میں ان کے خلاف حدیبہ پیپرملزاور حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی کے خلاف خصوصی عدالت میں چالان جمع ہوا تھا جس میں نوازشریف پر ایک بھاری رقم کو خورد برد کرنے کے الزامات لگے بے نظیر کی حکومت کے بعد جب دوبارہ نوازشریف کی حکومت آئی تو انہوں نے ایف آئی اے کے دونوں چالانوں کو خارج کروادیا تھامگرآج یہ کیسز موجودہ عدالتوں میں پھر سے زیر سماعت ہیں ،مشرف دور میں بھی ان کے خلاف بے پناہ کیسوں کا جمعہ بازار لگا رہاجن میں سے بہت سے کیسز ختم ہوگئے مگر ان میں سے ابھی کچھ کیسوں کا معاملہ ایسا ہے جو آج تک عدالتوں میں چل رہے ہیں انہیں 1993 میں چھ لاکھ پاؤنڈ کے ہیلی کاپٹر پر ٹیکس نہ دینے اور اور اثاثے ظاہر نہ کرنے کی بنا پر 14سال کی سزا اور دو کروڑ جرمانہ بھی ہوا،اس کے علاہ رائیونڈ اسٹیٹ کیس ،اتفاق فاؤنڈری اور طیارہ سازش کیسوں کے باوجود وہ اس ملک کے مزید دو بار وزیراعظم بنے مگر جو سلسلہ ان کے خلاف پانامہ کیسوں کے بعد سے لیکر اب تک چلتا چلا آرہاہے ،وہ کچھ زیادہ ہی گھمبیر نوعیت اختیار کرتا جارہاہے گزشتہ عرصے میں نوازشریف کی گرفتاری کے کیس میں بھی ایک زبردست ریلیف ان کو مل چکاہے مگر اب اسی کیس میں ملنے والے ریلیف کے خلاف ایک بار پھر ان کے سرپر خطرہ منڈلارہاہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاتاہے کہ اس بار شاید اب کسی کو ڈھیل نہیں ملنے والی،کیونکہ وقت کا مزاج اب بدل چکاہے ۔ اسی طرح مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لوگوں کے ساتھ دیگر جماعتوں کے لوگوں پر بھی الزامات میڈیا پر زیر گردش دکھائی دیتے ہیں ایسا لگتاہے کہ شاید اب قانون نافذ کرنے والے اس ملک کو کرپشن سے پاک ملک بنانے کی مکمل طورپر ٹھان چکے ہیں اور روز روز کی گرفتاریاں اور ضمانتوں سے بھی نجات کا حل نکالنا چاہتے ہیں ،دیگر جماعتوں میں اس کے علاوہ ایف آئی کی رپورٹ میں تقریبا ً تیس سے زائد افراد کے نام آئے ہیں جو اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل ہیں جو ماضی کی حکومتوں میں کرپشن میں ملوث نظرآئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کسی اور جماعت میں رہتے ہوئے ان کیسوں میں ملوث تھے یا یوں سمجھ لیں کہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے تحریک انصاف کے جھنڈے کے نیچے پناہ لی ہے جبکہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا خود اپنا ایک ایجنڈاہے جو کرپشن سے پاک پاکستان کے نام سے جانا جاتاہے خود عمران خان ایک طویل عرصے سے کرپشن کے خلاف متحرک نظر آتے ہیں یقینا اگر وہ دن آیا کہ احتساب کرنے والے اداروں کے ہاتھ پی ٹی آئی میں شامل عہدیداران کے گریبانوں پر پہنچے تو عمران خان خود اپنے ہاتھوں سے انہیں احتسا بی اداروں کے حوالے کردینگے ،دوسری ابزرویشن یہ ہے کہ اگر کچھ لوگوں نے پی ٹی آئی میں اپنی کرپشن چھپانے کے لیے پناہ لی بھی ہے تو حکومت کو فوری طورپر خود ہی ان سے نجات حاصل کرکے ایک مثال قائم کردینی چاہیے کیوں کہ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کا سب سے زیادہ چلنے والا بیانیہ بھی یہ ہے کہ احتساب یکطرفہ ہورہاہے اور یہ کہ حکومت کو اپنے ارد گرد کے لوگوں میں کوئی خامیاں نظر نہیں آتی ہیں ، جس کا حل یقینی طورپر یہ ہی ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے ۔ آپ کی فیڈ بیک کاانتظار رہے گا۔ختم شد

Rao Imran Salman
About the Author: Rao Imran Salman Read More Articles by Rao Imran Salman: 75 Articles with 60642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.