ہوش آگیا

چھاپوں کیلئے ماضی میں فوڈ انسپکٹر ہوا کر تے تھے ۔اب ان کا یہ نام بھی ماضی کی رسم کی طرح متروک ہوتا جا رہاہے ۔یہ محکمہ خوراک کے ماتحت ہوتے تھے ۔ان کا کام چھاپے مارکر اشیا خورنوش کے معیا رکو چیک کرنا ہوتا تھا ،اب کہاں ہیں علم نہیں ہے ،نہ ہی کسی اخبار میں ان کی کارکردگی سے متعلق خبر چھپتی ہے۔شاید انہیں نذرانہ مل جاتا ہے اسی لیے یہ خبرمیںچھپنے کے بجائے چھپ جاتے ہیں اورعوام کا اللہ حافظ ہوتا ہے، اس میں کو ئی مبالغہ نہیں کہ فوڈاتھارٹی کو قائم ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے ہم اس کیلئے دعاگو ہیں کہ اللہ اسے عوام کی خدمت کر نے والاادارہ بنا ئے تاکہ عوام کی زندگیا ں داو پر لگنے سے بچ جائیں

 
کلفٹن کے ریسٹورنٹ میں بچوں کی اموات کے بعد سندھ فوڈ اتھارٹی کو بلآخر ہوش آگیا اور اس نے ناقص و زہرآلود خوراک اوربچوں کی اموات سے متعلق تفتیش شرع کردی ہیں ،اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اس نے واقعہ کے بعد خفیہ کیمروں کے ذریعے اس ہوٹل کی نگر انی کی اوروہاں سے زائد المیعاد گوشت اور دیگر اشیا کی منتقلی کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔وہاں سے 3سال پرانا 2من گوشت اورشربت کی 200 بوتلیں اور دیگر اشیا بھی برآمد کی ہیں ،واقعہ کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔اس کیلئے دو ریسٹورینٹ ،گھر ،گاڑی اور اسپتال سمیت 36نمونے حاصل کر کے پنجاب کی لیبارٹری کوکیمیائی تجریے کیلئے بھیجے گئے ہیں جبکہ ،بچوں کے والدین ،ملازمین اورریسٹورنٹ مالکان سمیت 25افراد کے بیانات بھی قلمبند کیے ہیں ۔

معصوم بچوں ڈیڑھ سالہ احمد اور 5سالہ محمدکی موت کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔اموات کا مقدمہ ایری زونا ریسٹورنٹ اورچنکی منکی فوڈ اسٹال مالکان کیخلاف درج کرلیا گیا ہے ۔تحقیقاتی کمیٹی تحقیقات میں مصرف ہے ۔امیدہے کہ معمہ جلدحل ہو جائے گا ۔12نومبرکی شب دنوں معصوم بچوں نے ریسٹورنٹ میں کھانا اور پلے لینڈ سے ٹافیاں کھا ئی تھیں ،بچوں کی ماں اسپتال میں داخل ہے، اموات کی اصل وجوہات کیمیائی اجزاکے نمو نوں کی رپورٹس آنے کے بعد سامنے آئیں گی ۔کلفٹن زمزمہ میں ہونے والی اموات کے بعد اتھارٹی کو فعال بنانے کیلئے اسپیکر سندھ اسمبلی کی منظوری سے دوحکومتی ارکان ڈاکٹرسہراب خان سرکی ،گھنورخان اسران اور ایم کیوایم کے رکن سنجے پاروانی کو اتھارٹی میں بطور ممبر شامل کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا ہے۔

ساری صورتحال سامنے آنے کے بعد سندھ فوڈ اتھارٹی کا اچانک میدان میںآنا حیرت انگیز بات ہے ،یہ اتھارٹی سندھ حکومت کے زیر کنٹرول ہے ۔یہ ادارہ ہرصوبے میںموجود ہوتاہے اوراپنے اپنے دائرہ اختیارکے مطابق کام کرتا ہے،یہ خوراک اورصحت سے جڑے معاملات میں عوام کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اوراس بات کویقینی بناتا ہے کہ کہیںبھی حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف کام ہورہا ہو تو اسے روکا جائے اور اس کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے عوام کو تمام اشیا حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق میسر آئیں ۔فوڈ اتھارٹی ان تما م اشیائے خورونوش کی جانچ پڑتال کیلئے چھاپے مارسکتی ہے ،جہاں انہیں انسانی جانوں سے کھیلے جانے کی اطلاعات ہوں ،یہ عام طور پر بھی چھا پے مار کراشیا خورونوش کے معیارکی چھان بین کر سکتی ہے۔نہ صرف چھاپے مارسکتی ہے بلکہ جرمانے عائد کرنے کے ساتھ سزابھی دلوا سکتی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطا بق اتھارٹی کا قیام مئی 2018میں عمل میں لایا گیا ۔اپنے قیام سے اب تک اتھارٹی 39ہوٹل اوربیکریاں سیل کی ہیں ،5افراد گرفتار ہوئے ،14مقدمات قائم کیے گئے اور 16لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ۔سندھ فوڈ اتھارٹی میں 12رکنی عملہ بتایا جاتا ہے ،جو اتنے بڑے سندھ کیلئے ناکافی ہے ،جبکہ اشیا کے کیمیائی تجزیے کی کوئی لیبارٹری نہیں ۔

سندھ فو ڈ اتھارٹی کا کام اور اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہو نا چاہیے ۔سندھ بھر میں بڑے سیکڑوں ریسٹورنٹ ہیں اور چھوٹی بڑی ہوٹلیں ، بسکٹ فیکٹریاں اورچھوٹے بڑے کارخانے ،ڈبل روٹی ، مشروبات ،مسالہ جات بنانے والی کمپنیاں اوربیکریا ں بھی موجود ہیں ،دودھ کی دکانیں ہیں، خشک دودھ ،تیل بنانے والی فیکٹریاں بھی ہیں اور گھی بنانے والی کمپنیاں بھی ۔اگر علم نہیں ہے تو عوام کو نہیں ہے کہ گھی اور تیل جوہم کھا رہے ہیں وہ کس چیز سے بن رہا ہے ،بسکٹ میں استعمال ہونے والے انڈوں کا معیارکیاہے،خراب انڈے تواستعمال نہیںکیے جارہے،ڈبل روٹی کی تیاری کا معیارکیسا ہے۔ہوٹلوں اورریستورانوں اور مٹھائیوں کی دکانوں میں اشیا کی تیاری کس معیار کے مطابق ہو رہی ہے۔ان میں استعمال ہونے ولا گھی یا تیل حفظان صحت کے عین مطابق ہے یا نہیں ۔سموسے اورحلوہ پوری اور مٹھائیاں بنانے والے اپنی کڑاہی میں مہینوں ایک ہی گھی کو استعمال کرتے رہتے ہیں ،یہ صحت افزا ہے یا نہیں ،ہوٹلوں اور ڈھابوں پر فروخت ہونے والی چائے میں ایک ہی پتی کو پورا دن بار بار استعمال میں لایا جا رہا ہو تا ہے ،کیا وہاں بیچا جانے والا کھانا اورچائے کبھی کسی نے لیبارٹری ٹیسٹ کیلئے بھیجا ہے اوریہ کھانا کتنا غیر معیاری اور صحت کیلئے نقصان کا باعث ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی جانچ پڑتال کرنے کیلئے نہ تو عام آدمی کسی فیکٹری میں جا سکتا ہے ،نہ ہی کسی ادارے کی جانب سے اسے اس کی اجازت ہے کہ وہ اس کی فیکٹری یا ادارے میں داخل ہو اور یہ کسی فرد کا استحقاق بھی نہیں ہے ۔اس کیلئے تو حکومتوں کی جانب سے ادارے ہوتے ہیں ،ان کے ملازم ہوتے ہیں جن کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے ۔مگر یہاں تو سسٹم ہی الٹا ہے ادارہ موجود ہے مگر وہ بھی متحرک نظر نہیں آتے۔صوبے بھر میں ہمیں کوئی مردہ مرغی کی بریانی کھلا دے یا گدھے کے گوشت کی نہاری ،ہمیں کہاں پتا لگنے والا ہے۔یہ کام تو اس ادارے کا ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ پتاچلائے کہ عوام کو کیا کھلایا جا رہا ہے ،فیکٹریوں ،ہوٹلوں اورمٹھائیوں کی دکانوں میں استعمال ہونے والی اشیا معیاری ہیں یا نہیں اگر انہیں ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کرے ،یہاں جو بھی چیز فروخت ہو رہی ہے ،وہ کھلے عام فروخت ہو رہی ہے ،اس میں صحت وصفائی یا لوگوں کی جانوں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کا کو ئی ادراک نہیں ہے ۔

چھاپوں کیلئے ماضی میں فوڈ انسپکٹر ہوا کر تے تھے ۔اب ان کا یہ نام بھی ماضی کی رسم کی طرح متروک ہوتا جا رہاہے ۔یہ محکمہ خوراک کے ماتحت ہوتے تھے ۔ان کا کام چھاپے مارکر اشیا خورنوش کے معیا رکو چیک کرنا ہوتا تھا ،اب کہاں ہیں علم نہیں ہے ،نہ ہی کسی اخبار میں ان کی کارکردگی سے متعلق خبر چھپتی ہے۔شاید انہیں نذرانہ مل جاتا ہے اسی لیے یہ خبرمیںچھپنے کے بجائے چھپ جاتے ہیں اورعوام کا اللہ حافظ ہوتا ہے، اس میں کو ئی مبالغہ نہیں کہ فوڈاتھارٹی کو قائم ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے ہم اس کیلئے دعاگو ہیں کہ اللہ اسے عوام کی خدمت کر نے والاادارہ بنا ئے تاکہ عوام کی زندگیا ں داو پر لگنے سے بچ جائیں ،حکومت سندھ کو بھی چاہیے کہ فوڈ اتھارٹی جسے بہترین ادارے کو مکمل فعال بنائے ،اس میں لوگوں کو بھرتی کرے اوراس ادارے کو اسکی روح کے مطابق عوام کی خدمت کا پابند بنائے ،تب ہی عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Zain Siddiqui
About the Author: Zain Siddiqui Read More Articles by Zain Siddiqui: 29 Articles with 20311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.