پی ٹی آئی کنٹینر سے نہیں اتری

پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان، وفاقی اور صوبائی وزرا کی جانب سے عوام اور اپوزیشن کو دھمکیا بالخصوص صوبائی وزرا کی جانب سے اسلام آباد ائر پورٹ پرکیے جانے والے پُرتشدد احتجاج سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی چئیر مین اور قیادت ابھی تک کنٹینر پر چڑھے ہوئے ہیں، پلیز کوئی ان کو نیچے اتارے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو قائم ہوئے 90 دن ہوچکے ہیں، واضح رہے کہ ہم نے یہ مدت عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا حلف لینے سے شمار کی ہے۔ہم نے عمران خان کے حلف اور پہلی تقریر کے بعد یہ ارادہ کیا تھا کہ سو دن سے پہلے حکومت پر تنقید کے حوالے سے کوئی کالم نہیں لکھنا، لیکن پے درپے ایسا واقعات ہوئے کہ بالآخر ہمیں دس دن پہلے ہی مضمون لکھنا پڑ گیا۔

باتیں تو بہت سار ی ہیں لیکن حال ہی میں پی ٹی ائی کے وزیر سیاحت فدا خان نے جس طرح اسلام آباد ائر پورٹ پر عملے کے ساتھ بد تمیزی بلکہ میں یہ کہوں گا کہ بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے ائر پورٹ لائونج میں اپنے کوٹ بھی جلائے، کوٹ جلانے کے دوران میں بھی وہ ائر ہورٹ کے عملے کے ساتھ بد تمیزی اور ہاتھا پائی کرتے رہے۔ تفصیل اس وقعے کی یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لیے قومی ائرلائن کی پرواز کی منسوخی تیسری بار منسوخی کے بعد مسافروں نے احتجاج کیا، ان کے احتجاج میں صوبائی وزیر سیاحت فدا خان اور صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ بھی نہ صرف اس احتجاج میں شامل ہوئے بلکہ آپےسے ہی باہر ہوگئے، اس واقعے کی مختلف ویڈیوز بھی اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔

اس واقعے میں کئی باتیں غور طلب ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ایسے وزیر قانون اور وزیر سیاحت کی تعلیم اور قابلیت پر سوال اٹھتا ہے جنہیںیہ بھی نہیں پتا کہ حکومت میں رہتے ہوئے اداروں کی غلطیوں اور لاقانونیت کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہےاور اگر عملے نے پرواز بغیر کسی وجہ کے دانستہ منسوخ کی ہے تو پھر اس کے خلاف کیا قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے؟ ہم مان لیتے ہیںکہ انہیں یہ سارے راستے معلوم ہیں لیکن انہوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ حکومت کہاں ہے؟؟ پی ٹی آئی کے چئیر مین عمران خان یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ٹیم کا کیپٹن ٹھیک ہو تو ساری ٹیم ٹھیک ہوجاتی ہے ، جو ٹیم معمولی سرکاری افسران کو قانون کی گرفت میں نہیں لاسکتی تو پھر اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حکومت کے اندر اداروں کو ٹھیک کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔

اس میں ایک اہم بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ صوبائی وزرا جب خود ہی پر تشدد مظاہرے کریں تو پھر عوام یا اپوزیشن جو کہ حکومت کا حصہ نہیں ہوتے ، ان کو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ پُر امن مظاہرے کریں؟ یادش بخیر آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے بعد احتجاج ہونے پر وزیر اعظم نے اپنے دھمکی آمیز خطاب میں پرتشدد مظاہروں کی سختی سے مذمت کی تھی اور مظاہرین کو متنبہ کیا تھا کہ ریاست اپنا فرض ادا کرے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے منہ زور اور خودسر وزرا کے خلاف ریاست کب اپنا فرض ادا کرتی ہے۔

وزیر اطلاعات صحافیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں، پارلیمنٹ اور سینیٹ میں مخالفین کو گالیاں دے رہے ہیں، ان کے سینیٹ میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تو وزیر اعظم نے ان کی حمایت میں وزیر داخلہ کو بھیجا کہ وہ چئیر مین سینیٹ سے بات کریں، وفاقی وزرا سرکاری زمینوں پر قبضہ اور غریبوں پر تشدد کررہے ہیں، نام نہاد ’’دبنگ‘‘ وزیر مملکت داخلہ جو کہ مظاہرین کو دھمکیاں دے رہے تھے اور قانون کی رٹ کی بات کررہے تھے، ان کی ناک کے نیچے سے وفاقی دارالحکومت سے ایک اڈی یس پی کو اغوا کرکےتیس چیک پوسٹوں سے گزار کر افغانستان پہنچایا گیا اور وہاں ان کو قتل کردیاگیا۔

یہ ساری باتیں ظاہر کررہی ہیں کہ کرکٹ میں کپتانی کرنا ایک الگ بات ہے اور ملک چلانا ایک الگ بات ہے۔ وزیر اعظم عمران خان وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان میں پہلی تقریر میں اپوزیشن کو دھمکیاں دیتے ہیں، حکومت کے خلاف مظاہرہ ہونے پر مظاہرین کو دھمکیاں دیتے ہیں، وفاقی وزرا بھی مظاہرین اور مخالفین کو دھمکیاں دینے اور ڈرانے دھمکانے میں مصروف ہیں، صوبائی وزرا سرکاری افسران پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں اور اپنی ہی حکومت کے خلاف پر تشدد احتجاج کررہے ہیں۔ ان سب باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ پی ٹی آئی ابھی تک ڈی چوک پر کنٹینر پر کھڑے ہیں۔ کوئی جاکر ان کو کنٹینر سے اتارے اور ان کو یقین دلائے کہ اب ان کی اپنی حکومت ہے، احمقانہ حرکتیں چھوڑ کر وہ وعدے پورے کریں جن کی بنیاد پر لوگوں نے ان کو منتخب کیا ہے۔

 

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1450787 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More