مولانا سمیع الحق کون تھا

سال 2003 میں جب اس مدرسے کی دستار بندی یا گریجویشن کی تقریب منعقد ہوئی تھی تو اس وقت بھی فارغ ہونے والے طلبہ میں سے تقریباً آدھی تعداد افغانستان سے تھی۔ افغان نوجوان ہی تھے جنہوں نے افغان طالبان تحریک کی نوے کی دہائی کے اوائل میں داغ بیل ڈالی۔ اسی وجہ سے انہیں بابائے طالبان کا خطاب بھی ملا۔

مولانا سمیع الحق کون تھا

81 سالہ ’بابائے طالبان` اور ’یونیورسٹی آف جہاد کے چانسلر‘ کہلوانے والے مولانا سمیع الحق نہ صرف سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام (س) کے سربراہ بلکہ دفاعِ پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔ عمر کے اس حصے میں بھی سیاسی اور نظریاتی طور پر کافی متحرک اور فعال شخصیت تھے۔ لیکن ان کی قدامت پسند اسلامی سیاست اور نظریات کا اہم ترین پہلو ان کی اکوڑہ خٹک میں قائم درس گاہ دارالعلوم حقانیہ تھی۔ وہ اور ان کے طالب علم اس مذہبی درس گاہ کو بڑے فخر سے ’یونیورسٹی آف جہاد‘ قرار دیتے تھے۔

ان کے والد مولانا عبدالحق کے قائم کردہ اس مدرسے سے ہی انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف جدوجہد میں اس مدرسے نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

سال 2003 میں جب اس مدرسے کی دستار بندی یا گریجویشن کی تقریب منعقد ہوئی تھی تو اس وقت بھی فارغ ہونے والے طلبہ میں سے تقریباً آدھی تعداد افغانستان سے تھی۔ افغان نوجوان ہی تھے جنہوں نے افغان طالبان تحریک کی نوے کی دہائی کے اوائل میں داغ بیل ڈالی۔ اسی وجہ سے انہیں بابائے طالبان کا خطاب بھی ملا۔

کسی بھی اہم افغان طالبان کا نام لیں تو اس کا اس درس گاہ سے تعلق رہا۔ بلکہ حقانیہ کا لاحقہ یہاں کے طلبہ کے ناموں سے ہمیشہ کے لیے جڑ جاتا تھا۔ پاکستانی طالبان کے بعض اہم رہنما بھی یہیں سے پڑھنے کے بعد متحرک ہوئے تھے۔

افغان طالبان کے امیر خان متقی، مولوی احمد جان اور ملا خیر اللہ خیرخواہ جیسے لوگ یہاں سے نکلے تھے۔ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوا، وہ یہیں سے متاثر ہو کر نکلے تھے۔

سال 2003 کے اپنے خطبے میں مولانا سمیع الحق نے طلبہ سے اسلام کو افغانستان میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کو ترجیح دینے کی بات کی تھی۔ پشتو میں اپنی تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں محض اسلام کے خاتمے کی سازشیں بنائی جاتی تھیں لیکن اب دشمن میدان جنگ میں ہمیں چیلنج کر رہا ہے۔‘ ایسی ہدایات کے ساتھ وہاں سے فارع التحصیل ہونے والوں نے واپس افغانستان جا کر کیا کرنا تھا سب نے دیکھ لیا۔

افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مدد چاہیے تھی تو اس وقت مولانا سمیع الحق کا مدرسہ کافی کام آیا تھا۔ اس کی وجہ ان کی اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ قربت بھی تھی۔

مولانا سمیع الحق اسی کی دھائی میں پہلی مرتبہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ گفتار میں انتہائی نرم اور خوش اخلاق لیکن جب ممبر یا سٹیج پر تقریر کے لیے آتے تو یکسر ایک مختلف شخصیت محسوس ہوتے تھے۔

مولانا سمیع الحق کی جانب سے 2013 میں پولیو کے حفاظتی قطروں کی حمایت میں ایک فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا۔

انہوں نے پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی ایک کوشش میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ مفتی نعیم انہیں حکومت اور طالبان کے درمیان ایک پل بھی قرار دیتے رہے ہیں۔

لیکن تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں ان کی مدد کی پیشکش کوئی زیادہ سود مند ثابت نہ ہو سکی اور مولانا سمیع الحق اس مذاکراتی عمل سے دور ہو گئے۔ مولانا سمیع الحق نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مثبت ردعمل نہ ملنے کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکراتی مشن سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ مسلسل رابطے کی کوشش کے باوجود نواز شریف کی طرف سے کوئی جوابی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس بارے میں وزیراعظم کو بھیجے گئے خط کا جواب دیا گیا۔ تاہم وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مختصر تحریری بیان میں کہا گیا کہ 'مولانا سمیع الحق سے دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے عمومی بات ہوئی تھی۔ انھیں کوئی متعین مشن نہیں سونپا گیا تھا۔‘

ان کی افغانستان کی صورتحال میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے پاکستان میں تعینات سفیر ان سے باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے۔ افغان علماء کا ایک وفد بھی گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کے لیے کابل سے اکوڑہ خٹک آیا اور ان کی وہاں جاری لڑائی کو غیر اسلامی قرار دلوانے کے لیے فتویٰ کی صورت میں مدد طلب کی تھی۔

مولانا سمیع الحق نے اپنی موت سے ایک روز قبل ہی خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے تنگی کے علاقے میں ایک کانفرنس سے غالباً اپنا آخری خطاب کیا اور وہاں موجود حاضرین نے اس اجتماع میں ان سے سیاسی اور جہادی بیعت کا اعلان بھی کیا تھا ۔ یعنی وہ جس سوچ اور نظریات کے داعی تھے آخری وقت تک اس پر عمل پیرا بھی رہے۔

اسی لئے جب مولانا سمیع الحق کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ سعودی عرب آہستہ آہستہ اسرائیل کے قریب ہوتا جا رہا ہے اور موجودہ حکومت بھی اس کام میں سعودی عرب کا ساتھ دینے میں شانہ بشانہ چلنے کو تیار ہے تو انہوں نے اپنی تقریروں اور نجی محفلوں میں سعودی عرب کی مخالفت شروع کر دی تھی اور اپنا دو ٹوک موقف دیا تھا کہ اسرائیل ایک غاصب حکومت ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے یہی بات باعث بنی کہ مولانا کو ان الفاظ کی قیمت اپنی جان سے ادا کرنا پڑی ۔

محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 68524 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.