مقامی زبان میں تعلیم کی اہمیت

کہتے ہیں کسی ملک کو اگر آگے بڑھنے، ترقی کرنے کی جستجو ہو تو وہ تعلیم کو مقامی زبان میں حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں اُردو زبان میں تعلیم، اب یہ ایک خیال سا لگتا ہے کہ تعلیم اب مقامی زبان یعنی اُردو میں پڑھائی جائے ، ایک طرح سے ہم انگریزی نظام تعلیم کے جھال میں پھنس چکے ہیں ہم یا تو خود اس نظام سے نکلنا نہیں چاہتے یا اب اس نظام سے نجات پانا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ انگریزی نطام تعلیم ہم پر کیوں مسلط کیا گیا اورکس نے کیا؟ یہ جاننے کے لئے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا۔ یاد رہے کہ ایک ہزار سال مسلمانوں نے دنیا پر حکمرانی کی، اس عرصے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ سو فیصد مسلمان پڑھے لکھے ہوا کرتے تھے، مسلمانوں کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابوں کی بنیاد قرآن پاک ہوا کرتا تھا۔بوعلی سینہ کی کتاب چھ سو سال تک یورپ میں میڈیکل کے طالب علموں کو پڑھائی جاتی تھی، مسلمان اپنے علوم فارسی اور عربی میں پڑھا کرتے تھے اس کے علاوہ ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی عربی اور فارسی میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے اُردو زبان پر بہت کام کیا او ر اُردو میں بھی مختلف علوم کو متعارف کرایا۔ مغلیہ دور کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کا زوال شروع ہوتا ہے ۔ جب 1857ء میں انگریزوں کی حکومت آتی ہے۔ا نگریزوں کا یہ مقصد تھا کہ مسلمانوں کو ایک ہزار سال کی تاریخ سے الگ کیا جائے تاکہ آنے والی مسلم نسلوں کویہ معلوم نہ ہو کہ ماضی میں ہوا کیا تھا اور آگے کرنا کیا ہے، جس کے لئے انگریزوں نے انگریزی تعلیم لازمی قراردی اور اس صورت میں مسلمان جو اس دور میں پڑھے لکھے تھے وہ انگریزی تعلیم نہ ہونے کی صورت میں ان پڑھ اور جاہل تصور کرنے لگے یعنی مسلمان صفر پر آگئے۔ مسلمانوں پر انگریزی تعلیم مسلط کی گئی اور انگریزی علوم میں سائنس کے لئے مسلمانوں کی خدمات کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد انسا ن کو اخلاقیات سکھانا ہے ۔ انگریزی نظامِ تعلیم نے اچھے سائنسدان، اچھے ڈاکڑزتو پیدا کئے لیکن اچھے انسان پیدا نہیں کئے۔ اسی وجہ سے انگریزوں کے دور میں اتنے انسان مارے گئے جو ہزار سالوں میں نہیں مرے۔ اب اگر ہم قیام پاکستان کے فوراً بعد کی صورتحال پر بات کریں تو قیامِ پاکستان کے بعد تعلیمی نظام کے مسئلہ پر جب بات ہوئی تو اس وقت کے وزیر تعلیم محمد علی اسد تھے جو کہ پاکستان کے پہلے وزیرِتعلیم تھے انہوں نے اس وقت کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو ایک مشورہ دیا جو کہ عجیب سی بات بھی لگتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال تک پاکستان کے تمام اسکولوں میں چھٹی دی جائے تاکہ اساتزہ کو اسلامک ویلفئیر سسٹم کے تحت تربیت دی جائے اور آنے والی نسلوں کو انگریزی تعلیمی نظام سے بچایا جائے اور ان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کیا جائے لیکن بد قسمتی سے اس وقت کے لوگ اس بات سے حیران ہوئے اور کسی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو سکااورا ب ہم پاکستانی اس وقت سے اس تعلیمی نظام کے غلام ہیں۔ آج کا ہمارا نوجوان تعلیم محٗض اس لئے حاصل کرتا ہے کہ نوکری کر سکے۔ آج اگر کسی انجینئر نگ یا ایم بی اے کے طالب علم سے پوچھا جائے کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد کیا کروگے؟ تو عموماً یہ جواب سننے کو ملتاہے ــ" کسی اچھی کمپنی یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کروں گا" ۔ اب تعلیم صرف نوکری کا ذریعہ بن چکا ہے ۔ نئی ایجادات ، نئے کاروبار اور نئے طریقے کار دریافت کرنایا حکمرانی کرنا، دلیر اور سپہ سالار بننا ۔ اب یہ سوچ رکھنے والے نوجوان نظر نہیں آتے۔ ہماری قدیم تعلیم نوجوانوں کو بہادری، دلیری اور حکمرانی سکھایا کرتی تھی اب یہ نظریہ ختم ہو چکاہے ہر طالب علم نوکری کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے اورملکِ پاکستان کو ہم نے سیاست دانوں کو سونپ دیا ہے۔کیا نئی نسل میں سر سید احمد خان، علامہ اقبال اور قائداعظم جیسی شخصیت پیدا نہیں ہوسکتی؟ انہوں نے بھی انگریزی تعلیم کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے انگریزی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی قدیم علوم کا مطالعہ کر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ملک بنا کر آنے والی نسلوں کے لئے ایک مثال قائم کی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری نئی نسل میں ایسا سپہ سالار نمودار ہوگا ؟

Muhammad Zishan
About the Author: Muhammad Zishan Read More Articles by Muhammad Zishan: 5 Articles with 4634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.