سٹیوڈنٹ لبریشن فرنٹ کا ماضی حال و مستقبل

جولائی سن 1983 کی بات ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے اس وقت کے چئیرمین اما ن اﷲ خان اور راقم لوٹن برطانیہ میں قائم کشمیر ہاؤس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں پیرس سے انگلیند گیا ہوا تھا ۔ اکثر صبح کے وقت کشمیر ہاؤس جاتا تو امان اﷲ خان جاگ کر دروازہ کھولتے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ وہ رات کو بہت دیر سے سوتے ہیں جسکی وجہ سے وہ دن کو تھکے تھکے نظر آتے تھے جسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ زیادہ تر دفتری کام خود کیا کرتے تھے ۔ مقامی کارکنوں کا اکثر دفتر میں آنا جانا رہتا تھا مگر کسی کو میں نے دفتری کام کرتے نہ دیکھا۔ میں نے اسکی وجہ ]پوچھی تو امان اﷲ خان نے سوال ٹال دیا۔ ان کے پاس ان دنوں ایک چھوٹا سا ٹائپ رائٹر تھا ۔ وہ شہادت کے انگلیوں سے آہستہ آہستہ ٹائپ کر رہے تھے تو میں نے کہا آپ بولتے جائیں میں ٹائپ کرتا ہوں ۔ میں نے ہالینڈ میں بلائنڈ مشین پر ایک سکول میں باقاعدہ کورس کر کے ٹائپنگ سیکھی تھی بلائنڈ مشین پر سکھانے کا مقصد یہ تھا کہ کی بورڈ کے تمام فنکشن اور لیٹرز زہن نشین ہو جائیں جسکی وجہ سے میں دونوں ہاتھوں کی ساری انگلیاں کی بورڈ پر رکھ کر بغیر دیکھے کم از کم ایک منٹ میں دس الفاظ ٹائپ کر سکتا تھا امان اﷲ خان یہ دیکھ کر بڑے محضوظ ہوئے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں پیرس سے لوٹن نقل مکانی کر سکتا ہوں۔ میں نے کہا یہ فیصلہ کافی مشکل ہے اور انہیں مشورہ دیا کہ اگر کوئی کارکن دفتری کام میں ہاتھ نہیں بٹا سکتا کیونکہ زیادہ تر کارکنان مزدور اور کاروباری لوگ تھے تو کسی طالب علم کو ساتھ رکھیں جو دستا ویزات کی تیاری میں انکی مدد کر سکے اور دوسرے ساتھیوں سے بھی کام کروایا کریں تاکہ انہیں تجربہ حاصل ہو۔ امان اﷲ خان نے سگرٹ کا کش لگاتے ہوئے لمبی سانس لی اور کہا کہ یار بڑے مسائل ہیں۔ میں کافی عرصہ سے زیادہ تر کام اکیلا ہی کرتا آ رہا ہوں۔ شاید کئیں بیس سال بعد جا کر کوئی سیاسی بیداری پیدا ہو لیکن فی الحال تو صورت حال بڑی مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نوجوان یورپ کے مختلف ممالک میں مقیم طالب علموں کو متحد کر کے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا طلباء ونگ قائم کریں۔ مجھے اس وقت لبریشن فرنٹ میں شامل ہوئے ابھی دو سال نہیں ہوئے تھے میں نے انہیں کہا کہ میرے اس مختصر تجربہ نے بتایا ہے کہ یورپ میں ہمیں غیر جماعتی سطع پر کشمیری کمیونٹی کو مسلہ کشمیر پر متحد کرنا چائیے کیونکہ پاکستانی اور کشمیری جماعتوں کی جو شاخیں قائم ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوا کہ بیرون ملک یہ جماعتیں کشمیری کمیونٹی کی تقسیم کا باعث بن رہی ہیں جبکہ برطانیہ میں آنے والے دوسرے مہاجرین برطانوی سیاست میں سرگرم کردا ر ادا کرنے اور اپنے اپنے ملکوں سے سیاست امپورٹ نہ کرنے کی وجہ سے تعداد میں کم ہونے کے باوجود برطانیہ کے پارلیمانی نظام میں زیادہ موثر ہیں لبریشن فرنٹ دوسری کشمیری جماعتوں سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ یہ برطانیہ میں صرف تحریک آزادی کے لیے قائم کی گئی تھی اس کے باوجود میرا خیال تھا کہ یورپ میں لبریشن فرنٹ کا طلباء وبگ قائم کرنے کے بجائے کشمیری طلباء کو یورپ میں غیر جماعتی سطع پر تحریک آزادی کے لیے متحد کیا جائے ۔ امان صاحب نے وقتی طور پر اتفاق کر لیا۔ چند ماہ بعد بھارتی سفارتکار مہاترے کو مقبول بٹ کی جان بخشی کے لیے اغواء کیا گیا جس میں مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ مہاترے کیس نے لبریشن فرنٹ کو عالمی پہچان دی اور پہلی بار امان اﷲ خان کو غیر ملکی زرائع ابلاغ سے مخاطب ہونے کا موقع ملا ۔ بعد میں امان اﷲ خان کو ایک اور الزام میں گرفتار کر کے برطانیہ بدر کر دیا گیا۔ مجھے اور ریاض ملک کو خفیہ سزا ہو گئی ۔ ہمارے رابطے کٹ گے جسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ریاض ملک اور میں چاہتے تھے کہ لبریشن فرنٹ کی سینٹرل کمیٹی تحقیقات کرے کہ مہاترے کو پلان کے بر عکس کیوں قتل کیا گیا۔ ہماری اس تجویز کی مخالفت کی گئی جسکا ہمیں بڑا دکھ تھا خاصکر اس وجہ سے بھی کہ ہم نے اس سازش کو ناکام بنا دیا تھا جس کے تحت سب سے زیادہ مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ ہم عدالت میں مہاترے کے اغواء اور قتل کا الزام لبریشن فرنٹ کی قیادت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جائیں۔ میرا اور ریاض کا فیصلہ یہ تھا کہ قیادت کے ساتھ مہاترے قتل کی انکوائری نہ کروانے کا شکوہ اپنی جگہ لیکن ہم ہر صورت میں جماعت اور اسکی قیادت کا عدالت میں دفاع کریں گے جو ہم نے آخر دم تک کیا امان اﷲ خان نے ۱۹۸۳ ء میں ایس ایل ایف کا جو خواب لوٹن میں دیکھا وہ انہوں نے ۹۸۷ ۱ میں آزاد کشمیر میں طلباء ونگ قائم کرکے پورا کیا۔ اب ایس ایل ایف لبریشن فرنٹ کی ایک نظریاتی تربیت گا ہ ہے جہاں سے مستقبل کی لیڈر شپ جنم لیتی ہے۔ اس تربیت گا سے تحریک و تنظیم کے ہر شعبہ جات کے لیے نوجوان تیار کیے جانے چائیں۔ اگر ایس ایل ایف کو صرف لبریشن فرنٹ کی افرادی قوت کے طور پر رکھا گیا تو پھر ہم اپنے مقصد میں ناکام ہیں۔ بری ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ ایس ایل ایف کو ہر وقت سیاسی جلسے جلوسوں میں مصروف رکھا جاتا ہے جسکی وجہ سے بہت سارے طلباء کا تعلیمی کیرئیر متاثر ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ طلباء اپنے پیرامیٹر کا تعین کریں اور لبریشن فرنٹ طلباء کو مالی وسائل مہیا کرے تاکہ وہ طلباء کو متحرک و منظم کرنے کا کام اچھے طریقے سے کر سکیں۔ کوٹلی میں منعقد کیا جانے والا کنو ینشن ۲۰۱۸ ہر لحاظ سے مثالی تھا جس میں بلا شبہ لبریشن فرنٹ کی مرکزی قیادت کا بھی اہم رول تھا اور جلیل فرید کی قیادت میں قائم ایس ایل ایف کی سابق باڈی اور حالیہ کنوینشن کی تیاری کے لیے بابر شکور کی قیادت میں قائم کنوینگ باڈی کا سب سے بڑا رول ہے لیکن جلیل فرید کی ٹیم مالی بحران کا شکار رہی جسکی وجہ سے وہ کام نہ ہو سکے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ اب تتہ پانی سے تعلق رکھنے والے ایک نفیس اور باصلاحیت نوجوان نلک عبدالرحیم کی قیادت میں زبردست ٹیم کا انتخاب کیا گیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے اس ٹیم کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا تاکہ نوجوانوں کا تعلیمی کیرئیر بھی محفوظ رہے اور لبریشن فرنٹ کے مستقبل کی قیادت بھی تیار ہوتی رہے۔

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 40990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.