مولوی صاحب کی بسم اللہ کو کیا ہوگیا ہے؟

علاقے میں قحط سالی تھی اور جانور سب کچھ کھا کر فارغ ہو گئے تھے مزید کچھ کھانے کو رہا نہیں تھا اور مویشی مالکان نہایت پریشان تھے، اس دوران مولوی اللہ وسایا نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اگر اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا، شاید یہ اس کا مولوی صاحب کے پیچھے زندگی کا پہلا جمعہ تھا کہ بات اس کے دل میں اتر کر یقین کا درجہ پا گئی، اس نے واپس آ کر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پہ چلا گیا،اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا کہ وہ ذرا اپنی بکریاں چرانے جا رہا ہے اس لیے وہ اسے اپنے اوپر سے گزرنے دے، یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو ہانکا اور دریا کے اوپر سے چلتا ہوا دریا پار کر گیا، علاقہ گھاس سے بھرا پڑا تھا، درختوں کے پتے بھی سلامت تھے کیونکہ یہاں تک کسی کو رسائی حاصل نہیں تھی، اب تو یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر خود واپس آ جاتا اور شام کو جا کر واپس لے آتا، اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا تو لوگ چونکے اوراس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے، وہ سیدھا سادہ صاف دل انسان تھا، صاف صاف بات بتا دی کہ جناب ہم تو دریا پار اپنی بکریاں چرانے جاتے ہیں، بات سب نے سنی مگر یقین کسی نے نہ کیا کیونکہ یہ ایک ناقابل یقین بات تھی مگر بات ہوتے ہوتے مولوی اللہ وسایا تک جا پہنچی، مولوی اللہ وسایا نے اس بکروال کو بلوایا اور اصل حقیقت بتانے کو کہا، بکروال نے مولوی اللہ وسایا ہی کو اپنا ریفرنس بنا لیا کہ مولوی جی میں تو خود آپ کے پاس شکریہ ادا کرنے آنے والا تھا کہ آپ نے ایک جمعہ میں یہ نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ مولوی اللہ وسایا صاحب ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے تھے، بھائی ایسی باتیں تو ہم ہر جمعے کو کرتے ہیں مگر ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے،مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ بس میں تو بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوا بکریوں سمیت پار چلا جاتا ہوں، آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی، لوگ بھی صبح دریا کے کنارے جمع ہو گئے اور بکروال بھی آ گیا، مجمع زیادہ تھا، مولوی صاحب نے ایک دو دفعہ اندر ہی اندر ارادہ کیا کہ انکار کر دیں، مگر وہ جو مولوی صاحب کو مسجد سے کندھوں پر اٹھا کر لائے تھے، اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے اور مولانا اللہ وسایا کے حق میں تعریفی موشگافیاں کر رہے تھے۔آخر کار مولوی صاحب نے ایک رسہ منگوایا اور پہلے اسے درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا اور پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا سا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے، مگر پہلا پاؤں ہی شڑاپ سے پانی میں چلا گیا اور مولوی اللہ وسایا صاحب ڈبکیاں کھانے لگے، بدحواسی میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ ابھی کمر کمر پانی میں اٹھ کر کھڑے بھی ہو سکتے ہیں، وہ پانی کے بہاؤ میں بہنا بھی شروع ہو گئے، لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا اور سوکھنے کے لیے سائیڈ لٹا دیا،مولوی صاحب کی درگت نے بکروال کو بھی پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو کیا ہو گیا ہے مگر چونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا لہٰذا اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا، اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا، ان کو پار چھوڑ کر واپس بھی آ گیا، لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے مگر وہ سب سے بے نیاز سیدھا مولوی اللہ وسایا کے پاس پہنچا اور کہا کہ مولوی صاحب میں آپ کی بسم اللہ کی طرف سے کافی پریشان تھا مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا،اس نے درخت سے بندھے رسے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ مولوی صاحب یہ ہے آپ کی بسم اللہ کی بیماری، آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا ہے، آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا لہٰذا اللہ نے بھی آپ کو رسے کے حوالے کر دیا تھا، کمال کرتے ہیں آپ بھی مولوی صاحب، میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی مگر آپ نے اللہ سے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا لہٰذا اللہ نے آپ کو رسوا کر دیا۔ یہی کچھ حال ہماری نمازوں اور دعاؤں کا ہے، ہر ایک عبادت یقین سے خالی ہے، جب دعائیں ہی قبول نہیں ہو رہیں تو نماز کیا قبول ہو چکی ہوگی؟

YOU MAY ALSO LIKE: