یار کو ہم نے جا بجا دیکھا - قسط نمبر 17

اچھی بات ہے یقین کامل ہی ہونا چاہیے۔ وہی ٹھہراٶ وہی متانت۔ وہ سامنے کھڑی تھی۔
تمہارے خیال میں یقین کامل کیا ہوتا ہے ضوفی؟؟ وہ بہت سنجیدگی سے سوال کر رہا تھا
ایسا یقین جس کے بعد شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے.اس نے بیحد سکون سے جواب دیا
ہاں ضوفی.تمہیں پتا ہے کامل یقین کیا ہوتا ہے؟ اتنا کہہ کر وہ تھوڑا خاموش ہوا اور پھر سے گویا ہوا
دادا جی کہتے ہیں یقین کامل ایک دیو قامت پہاڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے. کوئی جس کا صرف کچھ حصہ تو توڑ سکتا ہے مگر پورا سلسلہ نہیں مٹا سکتا. جیسا کہ شیطان وقتی طور پہ انسان کا یقین تو ڈگمگا سکتا ہے لیکن اس کا یقین ختم نہیں کر سکتا. وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پھر گویا ہوا
لیکن پتا ہے ضوفی. میں کیا سوچتا ہوں؟ میں سوچتا ہوں کہ یقین کامل. مطلب مکمل یقین. ایک چیز جب مکمل ہی ہو گئی تو کوئی اسے توڑنے کا کیوں سوچے بھلا؟ ایک چیز جب بن رہی ہوتی ہے تو اس کے بننے میں روڑے بھی صرف تب تک ہی اٹکاۓ جاتے ہیں جب تک وہ مکمل نہ ہو جاۓ. پھر جب وہ مکمل ہو جاتی ہے سب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ جاتے ہیں. پھر کوئی روڑے نہیں اٹکاتا. یقین بھی جب مکمل ہی ہو گیا تو پھر کوئی اسے کیسے توڑ سکتا ہے بھلا؟ ہے نا ضوفی؟ اس نے بات مکمل کرکے جیسے ہی سر اٹھایا وہاں کوئی نہیں تھا.
ضوفی؟؟ ضوفی؟؟ ضوووفی ی ی. کہاں ہو تم؟ واپس آؤ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں. واپس آآآآآآؤ. وہ چلاتا ہوا سلاخوں کے پاس آگیا
لو پڑ گیا دورہ. ایک کانسٹیبل نے دوسرے سے انتہائی ناگواری سے کہا
کیا تکلیف پڑ گئی اب تجھے؟ انسپیکٹر صاحب علیزے سہگل کو سی آف کر کے واپس آۓ تو اسے یوں چلاتا دیکھ کر اس کے پاس آ گئے
جب وہ مسلسل آدھے گھنٹے سے تجھے مخاطب کرنے کی کوشش کر رہی تھی تب تو تو ایک لفظ نہ پھوٹا منہ سے اور اب جب وہ چلی گئی تو تب تو بھونکنے لگ گیا؟ انسپیکٹر صاحب شدید غصے میں تھے
یار بند کرواؤ اس کی بکواس میرا پہلے ہی سر بہت دکھ رہا ہے صبح سے. انہوں نے کیپ اتار کر زور سے میز پر پٹخی اور دھڑام سے کرسی پر بیٹھ گئے
دونوں کانسٹیبل جو پہلے سے اس پر تپے بیٹھے تھے سلاخوں کے اندر جا کر اس کی خاص سیوا کرنے لگ گئے
علیزے پچھلے دو گھنٹے سے مسلسل بیڈ کے ساتھ نیچے گھٹنوں میں منہ دیے بیٹھی تھی. اس کے پاپا جو تین مرتبہ اس کے کمرے کا چکر لگا چکے تھے اسے مسلسل یوں بیٹھا دیکھ کر اندر آ گئے
آر یو اوکے بےبی؟ اس کے پاپا نے پاس بیٹھتے ہوۓ پوچھا. اس نے مسکراتے ہوۓ مثبت میں سر ہلا دیا
تو پھر دو گھنٹے سے میرا بےبی یہاں کیوں بیٹھا ہے؟ انہوں نے اس کو قریب کرتے ہوۓپوچھا
ایسے ہی پاپا. اس نے زبردستی مسکرا کر ان کو ٹالنا چاہا
آر یو شیور؟؟ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ سوال کر رہے تھے اس نے مسکرا کر سر ہلاتے ہوۓ ان کے کندھے پہ سر رکھ دیا
میں آپ کو کیا بتاؤں پاپا کہ میں تو خود نہیں جانتی مجھے کیا ہوا ہے. میں غورکروں بھی تو کچھ نہیں سمجھ آتا کہ یہ سب کیا ہے.جب سے میں وہاں سے واپس آئی ہوں مجھے کیا ہو گیا ہے. میں ایک عام سے قیدی کے بارے میں یوں کیوں سوچے جا رہی ہوں؟؟ وہ باپ کے کندھے سے لگی دل ہی دل میں خود سے ہمکلام تھی
عام سا قیدی؟؟؟ نہیں نہیں. وہ کوئی عام قیدی نہیں تھا. وہ خود ہی ایسا سوچ کر خود ہی اس کی تردید کر رہی تھی
وہ تو بہت ہی خاص تھا شاید. ہاں وہ خاص ہی تھا. عام تو شاید میں ہوں. جب ہی اس نے میرے وہاں ہونے نا ہونے کو نوٹس ہی نہیں کیا. ہاں میں ہی عام ہوں جب ہی اس نے مجھے جواب تک دینا پسند نہیں کیا. وہ سوچ سوچ ہلکان ہو رہی تھی کہ آخر اس نے اس کی کسی بات کا بھی جواب کیوں نہیں دیا؟
کوئی مجھے کیسے اگنور کر سکتا ہے بھلا؟ اگنور؟؟؟ نہیں اس نے اگنور نہیں کیا. اگنور تو تب کرتا نا جب وہ مجھے نوٹس کرتا. اس نے تو مجھے نوٹس ہی نہیں کیا. لیکن کیوں؟؟؟ مجھے اس کا جواب چاہیے. ہاں میں اس سے ضرور پوچھوں گی کہ میں اس کی نظر میں اتنی فضول چیز ہوں کیا؟ اسے بلا وجہ رونا آ رہا تھا
لیکن میں اسے بادر ہی کیوں کر رہی ہوں؟؟؟ مجھے نہیں سوچنا اس کے بارے میں کچھ بھی. فار گاڈ سیک نکل جاؤ میرے دماغ سے. آنسو تھے کہ تمام حدیں عبور کر کے باہر آ چکے تھے
آر یو کرائینگ بےبی؟؟؟ انہیں اپنے کندھے پہ کچھ نمی سی محسوس ہوئی لیکن وہ اسی انداز میں بیٹھے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ آیا وہ رو رہی ہے یا نہیں.
نہیں تو. اتنا کہہ کر اس نے اپنی آواز کو روکنے کے لیے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا مگر ایک ہلکی سی سسکی انہیں سنائی دے گئی انہوں نے ایک جھٹکے سے اس کو خود سے الگ کیا
بٹ واۓ؟؟؟ وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے سوال کر رہے تھے کیونکہ وہ اپنی بیٹی کے لیے پریشان ہو رہے تھے
مجھے سونا ہے پاپا پر مجھے نیند نہیں آ رہی. اس نے روتے روتے بہانہ کیا
اوہ تو یہ بات تھی؟ چلو اٹھو اور بیڈ پر لیٹو میں تمہاری سکون کی دوا تمہیں دیتا ہوں. انہوں نے اس کو سہارا دیتے ہوۓ اٹھایا اور بیڈ پہ بٹھا کر سائیڈ ٹیبل سے اس کی نیند کی دوا ڈھونڈنے لگ گئے
اف ف ف.. ایک تو یہ سومی بھی نا جانے کہاں میڈیسنز رکھ دیتی ہے. وہ باری باری ہر دراز چیک کر رہے تھے
رہنے دیں پاپا آپ کو میڈیسن نہیں ملے گی. اس نے ایک طنزیہ نگاہ اپنے باپ پر ڈالتے ہوۓ کہا
کیوں نہیں ملے گی بھلا؟ وہ دوائیوں کی تلاش چھوڑ کر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئے
کیونکہ آپ کو مجھ سے کوئی کنسرن نہیں. اس نے شکوہ بھرے انداز میں کہا
اگر میرا کنسرن تم سے نہیں تو پھر کس سے ہوگا بھلا؟ آفٹر آل تم میری اکلوتی اولاد ہو. انہوں نے ایک پیار بھری تھپکی اس کے کندھے پہ دی اور اٹھنے ہی والے تھے کی وہ ہچکیوں سے رونے لگی
نو باڈی لوز می. ایوری ون ہیٹس می. وہ بسترپہ اوندھی گر کر رونے لگی
نو نو اٹس ناٹ لائیک دیٹ ڈارلنگ. پاپا لوز یو. وہ اس کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ تھی کہ زور زور سے چیخنے لگی
آپ کسی سے پیار نہیں کرتے. آپ صرف خود سے پیار کرتے ہیں. آپ ممی سے بھی پیار نہیں کرتے تھے اسی لیے آپ نے ان کو چھوڑ دیا. وہ رورو ہلکان ہو رہی تھی
آئی سوئیر ڈارلنگ میں نے اسے نہیں چھوڑا وہ خود گئی تھی چھوڑ کے. وہ اسے ہمیشہ کی طرح سنبھال نہیں پا رہے تھے
کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا. سب مجھے اگنور کرتے ہیں. سب مجھ سے دور بھاگتے ہیں. میں کسی کے لیے اہم نہیں. کوئی میری بات کا جواب تک دینا پسند نہیں کرتا. وہ بھی نہیں.. وہ بے قابو ہو رہی تھی
سومی؟؟؟ سووومی ی ی. کہاں مر گئی ہو جلدی آؤ کتنی بار کہا ہے اسے یوں اکیلا مت چھوڑا کرو جبکہ تم جانتی ہو کہ وہ ڈپریشن کی پیشینٹ ہے. وہ علیزے کی فل ٹائم سیکرٹری کو آوازیں دے رہے تھے
یس سر؟؟ وہ بھاگتی ہوئی اندر آئی اور اس کی حالت دیکھ کر بھاگ کر الماری سے دوائیاں نکال لائی اور اسے زبردستی دوا کھلائی. دوا کھانے کے کچھ ہی دیر بعد وہ سکون کی حالت میں سو رہی تھی لیکن ان کو بے سکون کر گئی تھی. ان کی سوئی اگر اٹکی تھی تو صرف " وہ بھی نہیں " پر.
وہ کون؟؟؟ تو کیا میں سچ میں اپنی بیٹی سے اتنا بےخبر ہوں؟؟؟ نہیں میں اب بے خبر نہیں رہوں گا اس سے. وہ خود کلامی کر رہے تھے
متھن؟؟؟ انہوں نے اپنے انتہائی خاص ملازم کو آواز دی اور علیزے کے پل پل کی خبر سے انہیں آگاہ کرنے کی ہدایت کی.
 

Adeela Chaudry
About the Author: Adeela Chaudry Read More Articles by Adeela Chaudry: 24 Articles with 47500 views I am sincere to all...!.. View More