فوج کے عظیم سپوت میجر محمد اکرم شہید نشانِ حیدر

سرزمین مشرقی پاکستان پر نشان حیدر حاصل کرنے والے پاکستانی فوج کے عظیم سپوت میجر محمد اکرم شہید نشانِ حیدر
پاک بھارت جنت میں 13 دسمبر 1971ء کا دن اس لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس روز پاکستانی قوم کے ایک اور عظیم سپوت میجر محمد اکرم نے مشرقی پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑتے ہوئے بے مثال جرأت‘ شجاعت‘ فرض شناسی اور بے مثل قیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

میجر محمد اکرم کا تعلق فرنٹیئر فورس سے تھا جو سو سال سے زیادہ طویل روایات کی امین ہے۔

میجر محمد اکرم کو مشرقی پاکستان کے دیناج پور سیکٹر کے ’’ھلی‘‘ محاذ کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ محاذ اس لیے اہمیت کا حامل تھا کہ خدانخواستہ دشمن اگر اس مقام سے ریل کا رابطہ توڑ کر مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کرتا تو مشرقی پاکستان کے پورے شمالی علاقے میں پاکستانی فوج کی کمک اور سپلائی معطل ہو سکتی تھی اس لیے بھارت کی یہ انتہائی کوشش تھی کہ وہ اہم ترین ریلوے رابطے پر قبضہ کر لے۔ ھلی محاذ کی صورتِ حال بہت عجیب و غریب تھی۔ ھلی ریلوے سٹیشن کے سامنے والے علاقے کے دفاع کا انتظام فرنٹیئر فورس کے ہاتھ میں تھا جب کہ ھلی محاذ کے شمال میں فرنٹیئر فورس کی جانباز پلٹن جو 26 ایف ایف کے نام سے مشہور تھی‘ دنیاج پور اور پاربتی پور کے علاقے میں وطن کا دفاع کر رہی تھی اس طرح ھلی کے جنوب میں ایف ایف کی ایک مشہور پلٹن جو 13 ایف ایف سے موسوم تھی‘ جمال گنج‘ نتھار‘ پتنی ٹولہ اور نو گاؤں کے علاقوں میں دفاعِ وطن کے تقاضے پورے کر رہی تھی۔ چنانچہ راج شاہی ڈویژن کے اس طویل و عریض علاقے میں یہ تینوں پلٹنیں مشرقی پاکستان کی مغربی سرحدوں کا دفاع سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کر رہی تھیں۔ ھلی کے جس محاذ پر میجر محمد اکرم اپنی کمپنی سمیت تعینات تھے‘ یہ ایک سرحدی چوکی تھی اور دشمن وہاں سے صرف پچیس تیس گز کے فاصلے پر تھا۔ یہاں قبضے کی خاطر دشمن بار بار حملہ آور ہوتا اور پاک کے فولادی عزم سے ٹکرا کر واپس لوٹ جاتا۔ ہمارے جانباز اور بہادر فوجی دشمن کو زبردست نقصان پہنچا رہے تھے۔ دشمن ہر بار تازہ دَم فورس کے ساتھ حملے کرتا لیکن ہر بار اسے منہ کی کھانی پڑتی کیونکہ بالخصوص میجر محمد اکرم کی کمپنی کی دفاعی پوزیشن ایک ناقابلِ تسخیر قلعے کی حیثیت اختیار کر گئی تھی‘ دشمن نے ھلی کی پوزیشن پر بھرپور اور لگاتار حملے کیے۔ یہ حملے بکتر بند گاڑیوں اور انفنٹری کی مدد سے کیے گئے لیکن ہر مرتبہ 4ایف ایف کے جاں نثاروں اور جانبازوں نے میجر محمد اکرم کی دانش مندانہ قیادت میں اہم پوزیشنوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور دشمن کے حملوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔ آخرکار ایک ایسا وقت بھی آیا کہ پورے علاقے میں بکتر بند رجمنٹیں پوری طرح چھا گئیں اس کے برعکس ہماری چند بکتر گاڑیاں اس قابل نہ تھیں کہ وہ اپنی پیدل فوج کا بھرپور اور مؤثر ہاتھ بٹاتیں۔

13 دسمبر کے روز میجر محمد اکرم کو اپنی بکتر بند گاڑیوں کی مدد بھی نہ پہنچ سکی۔ دشمن ایک پوری پلٹن اور سکوارڈرن ٹینکوں کی مدد سے میجر محمد اکرم کی کمپنی پر حملہ آور ہوا۔ یہ کمپنی پچھلے چھ ماہ سے محاذِ جنگ پر دشمن کے خلاف سینہ سپر تھی اور گزشتہ پندرہ روز سے دشمن کے مسلسل تابڑ توڑ حملے برداشت کر رہی تھی بلکہ بہت سے جوان ٹڈی دل دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر چکے تھے۔ لمحہ بہ لمحہ صورتِ حال ہاتھ سے نکلتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں کمپنی کمانڈر میجر محمد اکرم نے بے پناہ جنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ دشمن کو قریب آنے دیا جائے۔ چند ٹینک شکن ہتھیاروں کے ساتھ دشمن کے جمِ غفیر کو دُور سے روکنے کی کوشش کی گئی تو دشمن کی بکتر بند گاڑیاں میجر محمد اکرم کی کمپنی پوزیشنوں کو فائر کر کے تہس نہس کر دیں گی۔ چنانچہ حکمتِ عملی کے تحت دشمن کو قریب آنے دیا گیا۔ دشمن طاقت کے نشے سے سرشار مست ہاتھی کی طرح آگ برساتا ہوا آگے بڑھتا آ رہا تھا۔ ہمارے جانباز سپاہی دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے چپ چاپ مورچوں میں بیٹھے ہوئے تھے‘ مخالف سمت سے جوابی فائر نہ پا کر بھارتی سمجھے کہ پاکستانی مجاہد یا تو دفاعی حکمتِ عملی کے تحت پیچھے ہٹ گئے ہیں یا وہ سب شہید ہو گئے ہیں۔ کامیابی اور کامرانی کے ملے جلے جذبات سے جیسے ہی دشمن اپنی فاتحانہ شان سے میجر محمد اکرم کی کمپنی کے نزدیک آیا تو پاک فوج کے جوان اپنے مورچوں سے باہر نکل آئے۔ انہوں نے چھوٹے اور معمولی ہتھیاروں کی مدد سے دشمن پر زبردست حملہ کر دیا۔ دستی بموں‘ سنیگنوں اور رائفلوں سے پاک فوج کے مٹھی بھر جوانوں نے دشمن کی انفنٹری کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ بھاری تعداد اور جدید ترین اسلحے کے باوجود بھارتی فوج سنبھل نہ سکی اور دست بدست لڑائی میں ہمارے جوانوں نے پوری بٹالین کو جہنم واصل کر دیا جب کہ ٹینکوں کے پورے سکوارڈن کو راکٹ لانچروں سے راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا اس وحشت اور شرمناک شکست کے بعد دشمن بے شمار لاشیں اور تباہ حال بکتر بند گاڑیاں چھوڑ کر واپس بھاگ گیا۔ اس تاریخی لڑائی میں کمپنی کمانڈر میجر محمد اکرم سمیت چند اور جوان شہید ہو گئے۔ اس طرح میجر محمد اکرم کی قیادت میں ہمارے نڈر دلیر اور بہادر جوانوں نے دفاعِ پاکستان کی جنگ لڑی جب کہ ان کے مدمقابل بھارتی فوج کو ایک بریگیڈ فوج‘ ٹینکوں کے ایک سکوارڈن اور فضائیہ کی بھرپور مدد بھی حاصل تھی اس کے باوجود ہمارے مٹھی بھر جوانوں نے جرأت بہادری کی اَن منٹ اور قابلِ تقلید مثال قائم کی۔

میجر محمد اکرم نے نہ صرف اپنی کمپنی کی کمان کر کے شان دار اور بے مثال صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا بلکہ دشمن کی زبردست مزاحمت اور شدید مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود انہوں نے بہتر حکمتِ عملی اختیار کی۔ وہ جب تک زندہ رہے دشمن پاک سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ میجر محمد اکرم نے پاکستان کے دفاع اور علاقائی سا لمیت کے لیے عظیم قربانی دے کر شجاعت بہادری اور فرض شناسی‘ بہترین منصوبہ بندی اور بے مثال قیادت کا مظاہرہ کیا جس کے صلے میں انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے فوج کا سب سے بڑا اعزاز ’’نشانِ حیدر‘‘ دیا گیا۔

میجر محمد اکرم کی شہادت کی خبر سُن کر آپ کی والدہ محترمہ عائشہ بی بی نے کہا کہ:
’’محمد اکرم نے مشرقی پاکستان میں ’’ھلی‘‘ سے اپنی تصاویر بھیجی تھیں جب جنگ تیز ہوئی تو ریڈیو نے یہ خبر سنائی کہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے ھلی میں پاکستانی فوج کا ایک کمپنی کمانڈر شہید ہو گیا تو اس وقت میرے دل نے کہا کہ وطن کی راہ یہ میں شہید ہونے والا کمپنی کمانڈر میرا بیٹا محمد اکرم ہی ہوگا کیونکہ محمد اکرم کا یہ عزم تھا کہ وہ اپنے ہوتے ہوئے کافروں کو پاک سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ:
’’مجھے فخر ہے کہ میرے چار بیٹے وطن کی حفاظت کے لیے پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بے شک میرا ایک بیٹا وطن پر قربان ہو چکا ہے‘ میں اپنے ایک اور بیٹے کو تعلیم مکمل کرنے پر فوج میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔‘‘

24 دسمبر 1971ء کو جب ریڈیو پر میجر محمد اکرم شہید کو نشانِ حیدر کا اعزاز دینے کا اعلان ہوا تو شہید کی والدہ اپنے بیٹے کانام سُن کر سکتے کی حالت میں آ گئیں اب انہیں مکمل یقین ہو گیا تھا کہ ان کا جگر گوشہ شہادت کا بلند مرتبہ پا کر زندہ و جاوید ہو گیا ہے لیکن میجر محمد اکرم کے والد کو اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ یہی قیاس کرتے رہے کہ شاید ڈنگہ سے تعلق رکھنے والا کوئی اور فوجی افسر شہید ہوا ہے لیکن جب میجر محمد اکرم کے بھائی نے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں میجر محمد اکرم کی تصویر دیکھی تو وہ اخبار لے کر گھر پہنچے تب محمد اکرم کے والد اور دیگر عزیزوں کو شہادت کی خبر پر یقین آیا۔
اس پر میجر محمد اکرم کی والدہ نے فخریہ انداز میں کہا کہ:
’’مجھے ایسے بیٹے پر فخر ہے‘ یہ میرا بیٹا نہیں قوم کا بیٹا تھا جس پر پوری قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔‘‘
شہادت کی تصدیق ہونے اور نشانِ حیدر ملنے کی خبر کے بعدوالد ماجد ملک سخی محمد کے تاثرات کچھ یوں تھے:
’’میرے باقی بچے بھی اسلام پر قربان ہو جائیں تو مجھے خوشی ہوگی۔ میجر محمد اکرم ہمیشہ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔ پروردگار نے اس کی یہ آرزو پوری کر دی۔‘‘
بڑی بہن نے اس موقع پر کہا کہ:
’’میرا بھائی بڑا بہادر اور نڈر تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں وہ چونڈہ کے محاذ پر تھا لیکن غازی بن کے لوٹا۔ جنگ کے اختتام پر جب دوسرے فوجی افسروں کو اعزازات ملے تو میں نے اپنے بھائی میجر محمد اکرم سے کہا کہ آپ بھی محاذِ جنگ پر تھے آپ کو کوئی تمغہ کیوں نہیں ملا؟ اس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے ’’جب میں کوئی کارنامہ انجام دوں گا تو مجھے بھی ایسا تمغہ ملے گا کہ دنیا دیکھے گی۔‘‘
بڑی بہن نے کہا کہ:
’’اکرم بہت ہی تحمل مزاج‘ ملنسار‘ سمجھدار اور صابر انسان تھے‘ وہ بہت سادگی پسند تھے اور بے جا ضدی نہیں تھے اور نہ ہی میرے کہے کو انہوں نے کبھی ٹالا تھا‘ ان کی زیادہ تر پرورش میں نے ہی کی تھی اور تعلیم و تربیت کی زیادہ تر ذمہ داری بھی مجھ پرتھی۔‘‘
میجر محمد اکرم کے چھوٹے بھائی عبدالرزاق نے بڑے بھائی کی شہادت پر کہا کہ:
’’جب میں نے بھائی کی شہادت کی خبر سُنی تو مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے گھر کے سب لوگوں کے احسان پورے کر دیئے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں جامِ شہادت نوش کر کے وہ اس سرزمین کے احسانات سے بھی سبکدوش ہو گئے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی سرزمین سے انہیں بے حد محبت تھی اس سرزمین نے انہیں ایک بہت بڑا اعزاز دے کر تاقیامت ان کا نام روشن کر دیا ہے لیکن شاید ان کی روح اس وقت تک بے چین رہے گی جب تک مشرقی پاکستان دوبارہ پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا۔‘‘
میجر محمد اکرم 4 اپریل 1938ء کو گجرات کے مشہور قصبے ’’ڈنگہ‘‘ میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے‘ ان دنوں آپ کی والدہ ماجدہ محترمہ عائشہ بی بی اپنے میکے آئی ہوئی تھیں جب کہ آپ کے والد ملک سخی محمد کا تعلق ضلع جہلم کے گاؤں ’’نکاکلاں‘‘ سے تھا۔ ڈنگہ گجرات شہر سے 37 میل دُور کھاریاں رسول روڈ پر ضلع گجرات کا مشہور قصبہ ہے۔ شہداء کی بدولت ’’ڈنگہ‘‘ کو بہت شہرت ملی اس سے پہلے ہلالِ جرأت حاصل کرنے والے میجر جنرل افتخار جنجوعہ ڈنگہ کی شہرت کا باعث بنے تھے۔ ریلوے سٹیشن ڈنگہ کے قریبی سٹیشن محلہ کے ایک پرانے سے مکان میں میجر محمد اکرم نے جنم لیا۔ محمد اکرم نے چار جماعت تک پرائمری تعلیم سکول ’’نکاکلاں‘‘ سے حاصل کی۔ جب کہ پانچویں اور چھٹی جماعت ڈی اے وی مڈل سکول چکری سے حاصل کی۔ ساتویں کے لیے آپ سرائے عالمگیر کے فوجی سکول میں داخل ہو گئے۔ چند سال یہاں گزارنے کے بعد آپ ملٹری کالج میں چلے گئے۔ دورانِ تعلیم میجر محمد اکرم کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ جنگی اور فوجی معاملات پر ان کی نظر اتنی گہری تھی کہ انہیں اپنی یونٹ میں ’’اتھارٹی سر‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ اگرچہ وہ کم گو اور سنجیدہ انسان تھے لیکن بے تکلف دوستوں کی محفل میں بے تکلف بھی ہو جاتے تھے۔ آپ کو سیروسیاحت کا بہت شوق تھا۔
آپ نے صرف نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور تعلیم کے باقی مراحل فوج میں ہی طے کیے جب آپ ملٹری کالج میں زیرتعلیم تھے تو آپ نے فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ چنانچہ 1951ء میں آپ بوائے رنگروٹ کی حیثیت سے 14 پنجاب رجمنٹل سنٹر جہلم میں بھرتی ہو گئے۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے آپ کو بوائے رنگروٹ کہا جاتا تھا۔ دو سال بوائے کی حیثیت سے اور نو ماہ رنگروٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد آپ کی تبدیلی پرانی 4/14 پنجاب رجمنٹ میں ہو گئی جہاں اَن تھک کوششوں کی وجہ سے آپ نے پاکستان آرمی سپیشل کا امتحان پاس کیا۔ آپ نے کئی فوجی کیڈر پاس کیے۔ چنانچہ آپ کو باری سے پہلے ہی لانس نائیک بنا دیا گیا۔ آپ نے اپنی کوشش جاری رکھیں اور سخت محنت کرتے رہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں کیڈٹ کی حیثیت سے آپ نے تعلیم کی کمی کے باوجود فوجی کاموں میں بہت بڑا نام پیدا کیا۔ چنانچہ آپ کو کیڈٹ سارجنٹ کا عہدہ دے دیا گیا۔ ایک پلاٹون کمانڈر نے آپ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر یہ بھی لکھا کہ:
’’یہ نوجوان کیڈٹ لڑائی میں ایک دن بڑا نام پیدا کرے گا۔‘‘
پی ایم اے کاکول میں آپ کو کانگو کے وزیراعظم کی مناسبت سے ’’لومحباسارجنٹ‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ آپ کو 13 اکتوبر 1963ء کو کمیشن ملا اس کے بعد آپ کو 4 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات کر دیا گیا۔ 1965ء میں آپ کو کیپٹن کے عہدے پر ترقی ملی اور 1970ء میں میجر بنا دیئے گئے۔
حسنِ اتفاق تو دیکھیے کہ محمد اکرم پہلی بار مشرقی پاکستان ایک سپاہی کی حیثیت سے گئے۔ تین ماہ بعد واپس لوٹے تو لیفٹیننٹ بن چکے تھے پھر 1968ء میں کیپٹن کی حیثیت سے مشرقی پاکستان گئے۔ 1970ء میں میجر بن کر مشرقی پاکستان تعینات ہوئے۔
میجر محمد اکرم نے ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں شرکت کی اور شان دار خدمات انجام دیں۔ میجر محمد اکرم ایک متوسط کاشت کار خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا بچپن اپنے آبائی قصبے نکاکلاں میں ہی گزرا۔ جہاں آپ کے خاندان کے لوگ ڈیڑھ سو سال پہلے سے آباد تھے۔ ’’نکاکلاں‘‘ ایک تاریخی قصبہ ہے۔ ’’نکاکلاں‘‘ جہلم سے 26 میل کے فاصلے پر مشہور پہاڑ ‘‘ٹلہ جوگیاں‘‘ کے دامن میں واقع ہے۔ جہلم سے منڈی بہاء الدین کو جاتے ہوئے 20 میل پر مشہور قصبہ ’’درار پور‘‘ آباد ہے اس گاؤں سے ایک کچی سڑک ٹلہ جاگیاں کی جانب مڑتی ہے‘ ٹلہ جاگیاں کے چھ میل پہلے ’’نکاکلاں‘‘ واقع ہے اس گاؤں کی آبادی چار ہزار نفوس پر مشتمل تھی اس کے قریب ہی ایک بڑا گاؤں اخلاص پور آباد ہے۔ نکا کلاں کے پاس ایک گاؤں نکا خورد بھی موجود ہے جو آبادی کے لحاظ سے نکاکلاں سے چھوٹا ہے اسی لیے اسے نکا خورد کہا جاتا ہے۔ نکاکلاں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے تیس سے زیادہ سپوت وطنِ عزیز کے دفاع میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
میجر محمد اکرم کا گھرانا خالصتاً فوجی ہے۔ میجر محمد اکرم کے دادا صوبے دار راجا خان نے بھی فوج میں خدمات انجام دیں جس کے صلے میں انہیں تمغوں کے علاوہ دو مربع زمین بھی عطا کی گئی۔ آپ کے دادا نے بیس سال تک فوج کی ملازمت کی اس دوران پہلی جنگِ عظیم میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ انہوں نے 1900ء میں انگلستان میں رسم تاج پوشی میں بھی شرکت کی۔ آپ کے دادا راجا خان نے 1917ء میں وفات پائی۔
میجر محمد اکرم کے والد ماجد ملک سخی محمد بھی حوالدار کی حیثیت سے فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ 1918ء کو بحیثیت سپاہی بھرتی ہوئے۔ اٹھارہ سال ملازمت کے بعد ریٹائر ہوگئے۔ میجر محمد اکرم کے تایا صوبے دار میجر ملک گوڈر خان کا تعلق بھی فوج سے تھا۔ انہوں نے بھی پہلی جنگِ عظیم میں شرکت کی اور 1937ء میں ریٹائر ہو گئے۔ میجر محمد اکرم کے چچا ملک جیون خان نے بھی حوالدار کی حیثیت سے ہانگ کانگ میں فوجی خدمات انجام دیں اسی طرح آپ کے خاندان کے ایک اور فرزند ملک وزیر خان 1/14 پنجاب رجمنٹ میں اٹھارہ سال خدمات انجام دیتے رہے جنہیں اعلیٰ خدمات کے صلے میں کئی تمغے بھی ملے۔ میجر محمد اکرم کے مزید تین بھائیوں ملک حفیظ اﷲ‘ ملک محمد افضل اور عبدالرشید کا تعلق بھی فوج سے رہا۔ سب سے چھوٹے بھائی عبدالقیوم بھی فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
میجر محمد اکرم کے مزید پانچ بھائی تھے جن میں سے صرف ایک سول سروس میں ملازمت کر رہے ہیں جب کہ باقی ماندہ تمام بھائی وطنِ عزیز کے دفاع کے پاک فریضہ سے وابستہ ہیں۔ دراز قامت میجر محمد اکرم سڈول اور پھرتیلے جسم کے مالک تھے۔ گندمی رنگ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ پھیلی رہتی‘ آپ کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی۔ جوہر شخص کو متاثر کرتی۔ دیکھنے والا یہی محسوس کرتا کہ آپ کی آنکھیں کسی کی متلاشی ہیں۔ آپ کی آواز بہت سُریلی تھی۔ سننے والوں پر جادو کا اثر رکھتی تھی۔ سننے والوں پر یہی گمان گزرتا تھا کہ یہ آواز کسی گلوکار کی ہے جس نے کائیگی کی باقاعدہ تربیت لے رکھی ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں تربیت کے دوران آپ کی یہ صلاحیتیں زیادہ اُجاگر ہوئیں۔ آپ کا گھرانہ سادگی کے لحاظ سے مثالی گھرانہ تھا۔ سادگی آپ کو ورثے میں ملی‘ آپ ہمیشہ سادہ لباس زیب تن کرتے‘ گھر میں ہوتے تو سفید پاجامہ یا تہبند اور قمیض پہنتے۔ گرمیوں میں قمیض اور پتلون‘ سردیوں میں کبھی کبھی کوٹ پتلون بھی پہن لیا کرتے۔ آپ جب تک ملازمت میں رہے کبھی وردی پہن کر گھر نہیں آئے۔ ایک مرتبہ جب آپ کی یونٹ ٹلہ جوگیاں آئی ہوئی تھی آپ وردی میں ملبوس کبھی گھر نہ آئے۔
سادگی عجزوانکسار کے حوالے سے آپ کے ایک استاد نے واقعہ سنایا کہ:
’’ایک مرتبہ جب وہ مجھے ملنے میرے گھر آئے تو میں نے انہیں میجر کہہ کر مخاطب کیا جس پر میجر اکرم نے کہا کہ آپ میرے قابلِ احترام استاد ہیں‘ آپ مجھے صرف اکرم کہیے۔ میں آپ کے لیے بچپن والا اکرم ہی ہوں۔ میجر اکرم کی یہ باتیں سُن کر میں بہت خوش ہوا اور میں نے انہیں گلے لگا لیا۔ میں نے جب میجر اکرم کی شہادت کی خبر سنی تو جذباتی وابستگی نے میرے دل پر گہرا اثر کیا لیکن مجھے فخر ہے کہ میرے شاگرد نے ملک کے دفاع میں عظیم کارنامہ انجام دیا ہے اور ملک کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کیا ہے۔‘‘
ایک اور استاد نے کہا کہ:
’’پرائمری سکول سے فراغت کے بعد جب بھی محمد اکرم سے ملاقات ہوئی اس نے مجھے یقین دِلانے کے انداز میں کہا کہ ان شاء اﷲ میں اپنی زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے کر آپ کا سر فخر سے بلند کروں گا۔ آپ میری کامیابی کے لیے دعا کیجیے۔ میجر محمد اکرم کی شہادت پر جہاں مجھے صدمہ ہے وہاں اس بات پر خوشی اور فخر ہے کہ اس کی شہادت نے ملک و قوم کا نام روشن کر دیا۔‘‘
مڈل سکول چکری کے ہیڈماسٹر نے کہا:
’’پرائمری کے بعد 1946ء میں محمد اکرم پانچویں جماعت میں میرے سکول میں داخل ہوئے‘ وہ اپنی جماعت میں مانیٹر تھے چونکہ ایمان دار تھے اس لیے فیسیں جمع کرنے کا کام انہی کے سپرد کر رکھا تھا۔ میجر اکرم کی جس لمحے شہادت کی خبر سُنی تو آنکھوں میں اکرم کی بچپن والی تصویر گھومنے لگی۔ شدتِ جذبات سے آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔‘‘
ماسٹر صاحب نے ایک اور واقعہ یہ بیان کیا:
’’ایک دن میں نے فیس جمع کی اور رومال میں باندھ کر میز پر بُھول گیا جب نماز سے فارغ ہوا تو خیال آیا‘ رخصت ہو چکی تھی۔ تمام طالبِ علم اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے جب میں واپس سکول پہنچا تو کلاس روم میں محمد اکرم پیسوں والا رومال پکڑے میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں اس کے کردار سے بہت متاثر ہوا اور میرے دل نے کہا کہ یقیناً یہ بچہ ایک دن عظیم انسان بنے گا۔‘‘
میجر محمد اکرم مہمان نوازی کے جملہ اصولوں سے پوری طرح واقف تھے۔ آپ لباس میں سادگی کی طرف سادہ خوراک کے بھی قائل تھے۔ مرغن اور لذیز کھانوں سے احتراز کرتے۔ آپ کہا کرتے کہ ایسی غذائیں فضول خرچی کی علامت ہیں۔ آپ دودھ دہی کے بہت شوقین تھے‘ چائے پر لسی کو ترجیح دیتے‘ تمام موسمی پھل آپ کی کمزوری تھے۔
جب آپ گھر پر ہوتے تو صبح سویرے نیند سے بے دار ہوتے‘ غسل کر کے نمازِ فجر کی ادائیگی کرتے‘ تلاوتِ قرآن پاک فرماتے بعدازاں سیر اور ورزش کے لیے باہر تشریف لے جاتے۔ ناشتہ کر کے مطالعے میں مشغول ہو جاتے۔ آپ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ آپ زیادہ تر فوجی تاریخ‘ جرنیلوں کے حالات و واقعات‘ لڑائیوں کی داستانیں بہت شوق سے پڑھا کرتے۔ تاریخ مذاہب بالخصوص تاریخ اسلام سے آپ کو خاص لگاؤ تھا۔ آپ راسخ العقیدہ مسلمان تھے‘ پانچ وقت باجماعت نماز کے قائل تھے‘ گھر کا جو فرد نماز نہ پڑھتا اسے کھانے میں اپنے ساتھ شریک نہ کرتے‘ شام کو بھی نماز اور کھانے کے بعد کچھ دیر مطالعہ کرتے اور سو جاتے۔
آپ کو بچپن سے ہی مطالعے اور ہاکی کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی طرف سے آپ ہاکی کھیلتے رہے‘ اپنے یونٹ کی ٹیم میں کھیلنے کے علاوہ 1964ء میں آپ نے آرمی انٹر زونل کی چیمپئن شپ میں پشاور زون کی نمائندگی کی اس ضمن میں آپ نے بیس سے زیادہ اعزازی کپ حاصل کیے۔ میجر محمد اکرم کو شکار کا بھی شوق تھا جب رخصت پر گھر تشریف لاتے تو فارغ اوقات میں شکار کو نکل جاتے اور ڈھیر سارا شکار لاتے۔ آپ کا نشانہ بہت اچھا تھا‘ چاند ماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔
پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے جریدے ’’دی رائزنگ کریسنٹ 1963ء‘‘ میں آپ کے بارے میں یہ تحریر درج تھی:
He was very good in hockey and boxing. Interviewing Juniors was his hobby. He got a colour in hockey and was winner of Shooting troply.
میجر محمد اکرم نے 1966ء میں جنرل اے اے کے نیازی سے ہاکی چیمپئن شپ کی ٹرافی بھی حاصل کی۔
شہادت کے وقت آپ کی عمر 33 سال 8 ماہ اور 9 دن تھی۔ آپ ابھی تک کنوارے تھے چونکہ آپ گزشتہ تین سال سے مشرقی پاکستان میں تعینات تھے اسی بناء پر آپ شادی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔
آپ کی خواہش تھی کہ جب چھوٹے بھائی تعلیم کی دولت سے مکمل آراستہ ہو کر اپنی ذمہ داری نبھانے کے قابل ہو جائیں گے پھر آپ شادی کریں گے۔ آپ کے والد ملک سخی محمد بہت صوفی منش اور پابند صوم و صلوٰہ انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میجر اکرم سمیت آپ کے تمام بیٹے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ اسلام اور وطن سے محبت آپ کو ورثے میں ملی۔ اسلام سے شیفتگی اور حب الوطنی کا جیتا جاگتا ثبوت آپ کے وہ تمام خطوط ہیں جو اس دوران آپ نے اپنے والد‘ بہنوئی اور دیگر اہلِ خانہ کو لکھے۔ 15 جولائی 1971ء کو آپ نے والد بزرگوار ملک سخی محمد کے نام خط میں لکھا:
’’اسلام قوم اور ملک کی حفاظت کے سلسلے میں کوئی جان قیمتی نہیں ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ مذہب اور ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جان‘ قربانی کے لیے پیش کریں جو کہ اس سلسلے میں پاک فوج کر رہی ہے اس کس کی قربانی اﷲ تعالیٰ کے حضور قبول ہوتی ہے‘ وہ ہم میں سے کسی کو علم نہیں البتہ ہم میں سے جو جوان یا افسر ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرتا ہے باقی اس پر فخر محسوس کرتے ہیں اور نئے جذبہ سے اپنی جان اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کا عزم کرتے ہیں لیکن جیسا کہ ہمارا ایمان ہے کہ موت کا وقت جگہ اور واقعات سب پہلے سے مقرر ہیں‘ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ان میں تبدیلی نہیں کر سکتا تو پھر فکر کس بات کی ہے ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم اپنے ملک‘ مذہب کی حفاظت اور اپنی فوج کی فتح و کامرانی کے لیے دعا کرتے رہیں۔ انسان گھر بیٹھے بٹھائے یا معمولی حادثے میں بھی مر جاتا ہے جس کا وقت جہاں پورا ہوتا ہے‘ اسے ہر حال میں وہاں ہی مرنا ہے۔‘‘
میجر محمد اکرم ایک ایسے کاشت کار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے فرزند کھیتوں میں ہوں یا ملک کی سرحدوں پر‘ ہر جگہ وطنِ عزیز کی خاطر اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ یقینا ایسے لوگ وطن کی عزت اور ملک کی آبرو ہوتے ہیں۔ میجر محمد اکرم شہید نے ملک کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر کے ملک کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کر کے نہ صرف غریب کاشت کار گھرانے کی شان دوبالا کی ہے بلکہ اسلام اور ملک و ملت کے ساتھ ساتھ افواجِ پاکستان کا نام بھی روشن کیا ہے۔
ایسے عظیم فرزند ساری قوم کے لیے باعثِ عزت و افتخار ہوا کرتے ہیں۔ خدا ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ بے شک شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.